آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اس موقع پر اپنے خطاب میں امداد رسانوں کو انسانی صفات اور انسان دوستی کا مظہر قرار دیا اور ایرانی قوم کے ایثار اور انسان دوستی کے جذبے کے جاری رہنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس جذبے کے مقابلے میں غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم اور وحشیانہ اقدامات اور مغرب کی جانب سے اس کی حمایت ہے اور اس خونخواری اور باطل محاذ کے مقابلے میں استقامت، سبھی کا فرض ہے۔

انھوں نے آٹھ سالہ جنگ کے پس منظر میں کہا کہ امداد رساں، گولیوں کی بارش میں بھی اپنی حفاظت کی نہیں بلکہ صرف دوسروں کی نجات کی فکر میں رہتے تھے اور ان کے اندر ایثار کا حیرت انگیز جذبہ اس حد تک ہوتا تھا کہ کبھی کبھی وہ دشمن کے زخمی قیدیوں کی بھی مدد کرتے تھے اور یہ رویہ، انسانیت سے عاری دنیا کے بالکل برخلاف ہے۔

رہبر انقلاب نے کہا کہ ایثار اور امداد کے جذبے کی ضد مجرم صیہونیوں کی جانب سے ایمبولینسوں پر حملے، اسپتالوں پر بمباری اور نہتے مریضوں اور بچوں کے قتل عام کی وحشیانہ عادت اور رویہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج دنیا کا انتظام ان انسان نما جانوروں کے ہاتھ میں ہے اور اسلامی جمہوریہ ان کی اس سفاکیت اور حیوانیت کے مقابلے میں استقامت کو اپنا فرض سمجھتی ہے۔

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیر فوجیوں کے خلاف جرائم پر اعتراض سبھی کی ذمہ داری ہے، کہا کہ یہ ذمہ داری کا احساس ہے جو دلوں میں امید کا چراغ جلتے رہنے کا سبب بنتا ہے اور یہی چیز اسلامی جمہوریہ کے خلاف مغرب والوں جیسے دشمنوں کی کارروائيوں کا سبب بنتی ہے اور اگر ہم ان کی وحشیانہ کارروائيوں پر اعتراض کرنا چھوڑ دیں تو وہ ہم سے دشمنی نہیں کریں گے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے مغرب کے منہ زوروں کا اصل مسئلہ، اسلامی جمہوریہ کی جانب سے ان کے باطل تمدن کی نفی بتایا اور کہا کہ باطل ختم اور نابود ہونے والا ہے تاہم اس کام کے عملی جامہ پہننے کے لیے سعی و کوشش کرنا، استقامت کرنا اور بے عملی، تساہلی، باطل کے کاموں پر مسکرانے اور اس کی تعریف کرنے سے پرہیز ہونا چاہیے جو اس کی پیشقدمی کا سبب بنتا ہے۔