بسم اللہ  الرّحمن الرّحیم
الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا و طبیب نفوسنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداة المھدیّین المعصومین المکرّمین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین

 کچھ عرض کرنے سے پہلے، امام رحمت اللہ علیہ کی روح مطہّر پر درود بھیجتا ہوں اور عبادت، آگہی اور ذکر کے ان ایام میں خداوندعالم سے آپ کے لئے علو درجات طلب کرتا ہوں۔

کل یوم عرفہ ہے، یہ بہار دعا کا دن ہے، خضوع وخشوع، توجہ اور توسل کے بہار کا دن ہے۔ اس دن سے ان شاء اللہ ہم سبھی استفادہ کریں۔ میں خاص طور پر نوجوانوں سے عرض کرتا ہوں کہ یوم عرفہ کے موقع سے حد اکثر استفادہ کریں۔ دعا کریں، توسّل کریں، خداوند عالم سے اپنی حاجتیں طلب کریں، اپنی ضرورتیں اور اہداف بیان کریں، اس سے مدد اور ہدایت مانگیں۔

میں نوجوانوں سے سفارش کرتا ہوں کہ اس دن امام حسین علیہ السلام کی دعائے عرفہ کے علاوہ جو بہت اچھی اور عاشقانہ دعا ہے، دعائے امام سجاد (علیہ السلام) بھی پڑھیں جو صحیفہ سجادیہ کی سینتالیسویں دعا ہے۔ یہ بہت مفصل دعا ہے، لیکن آپ پوری دلجمعی سے جتنی پڑھ سکتے ہیں، پڑھیں، اگر دل نہ لگے اور وقت نہ ہو تو ضروری نہیں ہے کہ پوری دعا پڑھیں۔  

 میں نے آج  جو عرض کرنے کے لئے تیار کیا ہے، اس میں پہلے، امام رحمت اللہ علیہ کے بارے میں گفتگو کروں گا اور اس کے بعد ایک  ملی مسئلے سے متعلق اختصار کے ساتھ کچھ باتیں کہوں گا جن کا جاننا، ان شاء اللہ عوام کے لئے مفید ہے۔ 

میں اپنی بات یہاں سے شروع کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک کا سیاسی نظام جو الحمد للہ، ترقی یافتہ، محکم اور توانا نظام ہے، ایک عظیم انقلاب کی دین ہے۔ اس انقلاب کا رہبر، اس کو وجود میں لانے والا اور اس انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والے اسلامی نظام کا معمار وہ عظیم انسان ہے کہ جس کی رحلت کو تیس برس سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی دنیا میں اس کی موجودگی محسوس کی جا رہی ہے اور آج کی دنیا میں اس کی  نیز اس کے انقلاب کی تاثیر کا  واضح طور پر مشاہدہ کیا جا رہا ہے: دنیا کا کثیر قطبی بین الاقوامی سسٹم، اس کے انقلاب کے اثرات کا نتیجہ ہے۔ بڑی طاقتوں کا زوال، اس کے انقلاب کا نتیجہ ہے ، دنیا میں امریکی حیثیت اور رسوخ کا شدید تنزل اس کے انقلاب کے اثرات کی دین ہے۔ صیہونزم سے سے عام نفرت، جو کہ آج دنیا میں واضح  طور پر نظر آ رہی ہے، اس کے انقلاب کا نتیجہ ہے۔ مغربی اقدار کی نفی میں اقوام اور بالخصوص نوجوانوں کا صریحی انداز، جس کا آج مشاہدہ کیا جا رہا ہے، اس کے انقلاب کی دین ہے۔ آج مغربی دنیا میں، یورپ میں، حتی امریکا کے اندر اور ان (امریکا اور یورپ) سے وابستہ ملکوں میں مغربی اقدار سے بیزاری واضح ہے۔ ان تمام چیزوں میں جن کا میں نے ذکر کیا ہے،  ہمارے عظیم امام رحمت اللہ علیہ اور ملت ایران کا انقلاب بہت حد تک موثر رہا ہے۔ امام رحمت اللہ علیہ عوام کی مدد سے ایسا انقلاب لائے۔

 سب مبہوت ہو گئے۔ محسوس نہیں کر رہے تھے، سوچ بھی نہیں رہے تھے کہ ایک عالم دین، ضروری مالی ذخائر اور وسائل کے بغیر  قوم  کو اس طرح میدان میں لا سکتا ہے۔  مغرب میں کسی نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ہو سکتا ہے۔ اسلامی انقلاب نے مغربی دنیا کو مبہوت کر دیا!      

انھوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ قوم ایک عالم دین کی ہدایت اور قیادت میں، خالی ہاتھ ، ایران کی سرتا پا مسلح حکومت پر غلبہ حاصل کر سکتی ہے اور وہ بھی ایسی حکومت پر جس کی دنیا کی مشرقی اور مغربی سبھی طاقتیں حمایت کر رہی تھیں۔ وہ نہیں سمجھ رہے تھے کہ ایسی حکومت کو ایران کےعوام گرا سکتے ہیں۔ انھوں نے یہ نہیں سمجھا تھا کہ یہ انقلاب اور امام (رحمت اللہ علیہ) ان امریکیوں اور صیہونیوں کو جنہوں نے برسوں سے ایران میں اپنی بساط بچھا رکھی تھی اور ہر چیز پر ان کا تسلط تھا، ان کی بساط لپیٹ کر، انہیں اس طرح  اس ملک سے نکال باہر کر سکتے ہیں کہ یہاں ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے۔

اس کے بعد ان کے لئے اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل حیرت انگیز تھی۔ اگر انقلاب کے بعد ان سے ساز باز کرنے والی کوئی حکومت برسر اقتدار آ جاتی، جیسا کہ شروع میں، ایسی کچھ علامتیں نظر آئيں کہ ایک سازباز کرنے والی حکومت اقتدار ميں آ سکتی ہے، اگر یہ ہو گیا ہوتا تو مغرب والوں کی امید بندھ جاتی کہ وہ ایران میں دوبارہ اپنا اثر و رسوخ قائم کرکے، اپنے ناجائز مفادات پورے کر سکتے ہیں، لیکن امام (رحمت اللہ علیہ) نے اسلامی مملکت کی بنیاد رکھنے کے صریحی اور واضح موقف کا اظہارکر دیا، یعنی امام (رحمت اللہ علیہ) نے اپنی زبان اور عمل، دونوں سے اعلان کر دیا کہ اس انقلاب کے نتیجے میں تشکیل پانے والا نظام حکومت، اسلامی اور دینی نظام ہے۔ پھر سازشیں شروع ہو گئيں۔ جب مغرب والوں نے محسوس کر لیا کہ یہ انقلاب کس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، ایرانی عوام کو کدھر لے جا رہے ہیں، وہ کس جہت میں آگے بڑھ رہے ہیں تو ہمارے ملک اور قوم کے خلاف دشمنوں کی سازشیں، تخریبی منصوبے اور تباہ کن پلانںگ شروع ہو گئی۔  

 میری نظر ميں حالیہ دو تین صدیوں کی تاریخ میں ایسا کوئی انقلاب نہیں ہے جس کو اتنی دشمنی، سازشوں اور دشمنوں کے تخریبوں منصوبوں کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ آپ نظر ڈالیں، دیکھیں کہ ابتدائے انقلاب سے ہی قومیتوں کی تحریکیں شروع کر دی گئيں، بائيں بازو کے گروہوں کو مسلح کر دیا گیا، اس وقت ایران میں تھوڑے بہت بائيں بازو کے گروہ موجود تھے، انہيں اسلحے دیے گئے، یونیورسٹیوں اور دوسری جگہوں ميں انہیں گھسایا گيا، نظام کے خلاف ایک بڑی تحریک کے لئے انہیں تیار کیا گیا، اسی کے ساتھ صدام حسین جیسے خونخوار بھیڑیے کو ہماری سرحدوں پر حملے کے لئے، ورغلایا گیا، اس کی پشت پناہی کی گئی، چڑھایا گیا، اکسایا گیا اور مجبور کیا گیا۔ ٹارگٹ کلنگ شروع کی گئی، شہید مطہری کا قتل، شہید بہشتی کا قتل، شہید مفتح کا قتل اور شہدائے محراب کا قتل۔(2)۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا، ہمارے ایٹمی سائنسدانوں کو قتل کیا گیا، فعال انقلابی نوجوانوں کو قتل کیا گیا۔ آپ دیکھیں یہ وہ اقدامات ہیں جن کی منصوبہ بندی ایران میں اسلامی انقلاب کے نتیجے میں بر سر اقتدار آنے والے نظام کے خلاف کی گئی تھی۔    

 اس کے بعد ہمہ گیر پابندیاں، پھر طبس پر امریکیوں کا براہ راست حملہ اور وہ مشہور اور معجزے جیسا واقعہ، (3) مسافر طیارے پر حملہ اور اس کو مار گرانا، (4) اس طرح کے دیگر بہت سے کام، اسلامی انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والے نظام کے خلاف ، ابتدائے انقلاب سے شروع ہوئے اور اب تک جاری ہیں۔ یہ انواع و اقسام کی سازشیں اور تخریبی منصوبے اپنے تنوع، شدت اور خبیثانہ ماہیت کے لحاظ سے دنیا کے کسی بھی معروف انقلاب کے سلسلے میں نظر نہيں آتے۔

کس نے یہ سازشیں کیں؟ بعض اوقات دہشت گرد گروہ یہ کام کرتے ہیں، لیکن ایران میں ایسا نہیں تھا، یہ سازشیں، یہ تخریبی منصوبے، یہ خبیثانہ اقدامات، سامراجی حکومتوں نے، زیادہ تر امریکا اور صیہونزم نے اپنے جاسوسی کے اداروں، جیسے امریکی سی آئی اے، جیسے ایم آئی سکس جو برطانیہ کی ہے، جیسے موساد جو صیہونی حکومت کی ہے، ان کے ذریعے انجام دیے۔

 اسلامی جمہوری نظام ان تمام سازشوں، تخریبی منصوبوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں ڈٹا رہا اور اس نے ان سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ اگر گنا جائے تو شاید اسلامی جمہوریہ ایران نے ایک ہزار سے زیادہ سازشوں کو ناکام بنایا اور بعض کا جواب دیا ہے۔

اہم یہ ہے کہ انھوں نے اسلامی جمہوریہ کو کمزور کرنے کے لئے  یہ سازشیں کیں لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نہ صرف یہ کہ کمزور نہیں ہوا، بلکہ روز بروز اس کی توانائیوں میں اضافہ ہوا۔ صرف اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرونی سطح پر بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی گوناگوں توانائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہیں پر میں ایرانی عوام سے اور ان تمام لوگوں سے جو ایران کے مسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں، کہنا چاہتا ہوں کہ اس کے بعد بھی توفیق الہی سے جہاں تک ممکن ہوگا، ہم اپنی ہمہ گیر ملی طاقت بڑھائيں گے۔  

 یہاں ميں ایک ضروری نکتہ عرض کرنا چاہتا ہوں اور اس نکتے کے بعد، وہ اصلی بات جو میرے پیش نظر ہے، عرض کروں گا۔

  وہ نکتہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں، سماجی انقلابات، عام طور پر جذبات کی مدد سے آتے ہيں۔ جذبات انقلابات کے  شروع  اور کامیابی سے ہمکنار ہونے میں مدد کرتے ہیں۔ اگر ان جذبات کے پیچھے، کوئی فکر اور دانشمندی کار فرما ہو، تب بھی جذبات سے نکلنے والے افکار و نظریات ميں وہ عقلی اور فکری بنیاد گم ہو جاتی ہے اور زیادہ نظر نہيں آتی۔ اکثر اوقات، جذبات انقلابات کے دانشمندانہ اہداف پر غالب آ جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب جذبات ٹھنڈے پڑجاتے ہیں تو انقلاب کا راستہ جس پر وہ آیا ہوتا ہے، بدل جاتا ہے۔ کیونکہ وہ دانشمندی جو اس انقلاب کا محرک تھی، اس کا اثر کم ہو جاتا ہے اور وہ گم ہو جاتی ہے، لہذا انقلاب کا راستہ بدل جاتا ہے۔  

تاریخ میں اس کے متعدد نمونے موجود ہیں۔ جیسے انقلاب فرانس، اٹھارویں صدی میں ایک خاندان، بوربن خاندان کی بادشاہت کے خلاف جدوجہد کے نتیجے میں آیا۔ انقلاب کامیاب ہو گیا اور بادشاہ حتی اس کی ازواج کو قتل کر دیا گیا،عوام  کے گوناگوں جذبات اس طرح فضا پر غالب آ گئے کہ لوگ بھول گئے کہ وہ کس لئے میدان میں آئے تھے اور جدوجہد اور انقلاب کس لئے لائے تھے اور پھر تقریبا پندرہ برس کے بعد فرانس میں نیپولین کی سلطنت قائم ہو گئی۔ اس کے جانے کے بعد وہی خاندان جس کے خلاف انقلاب آیا تھا،اسی کی بادشاہت واپس آ گئی  اور اس خاندان نے ستر یا اسّی سال حکومت کی۔ جس سلطنت کے خلاف فرانس نے جنگ کی تھی، اسی نے اس  پر حکومت کی۔ وہ دانشمندانہ فکر جو اس قیام اور انقلاب کے پیچھے تھی، گم اور پوری طرح ختم ہو گئی ۔ یہ بات ہم دنیا کے سبھی یا اکثر انقلابات میں دیکھتے ہیں۔    

 میں جو بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ امام (رحمت اللہ علیہ) نے اسلامی انقلاب کو ان مہلک آفات سے محفوظ کر دیا۔ امام بزرگوار نے خدا اور غیب پر ایمان سے پیدا ہونے والی دانشمندی اور تدبیر الہی سے وہ کام  کیا کہ یہ آفت اسلامی انقلاب کے دامن گیر نہ ہو۔ ہمارے انقلاب میں بھی جذبات بہت تھے، لیکن آپ نے وہ کام کیا کہ، یہ جذبات، انقلاب اور عوام کی تحریک کو اس کے اصلی اور پہلے راستے سے منحرف اور عوام کو اس راہ سے دور نہ کر سکیں۔  

امام نے کیا کیا؟ امام کی دانشمندی، وہ دانشمندی جس کی بدولت امام (رحمت اللہ علیہ) یہ کام کر سکے، اس کے دو بنیادی پہلو تھے۔ ایک پہلو ولایت فقیہ ہے اور دوسرا ملی خود مختاری ہے۔ میں اس مفہوم کو جو امام کے ذہن مبارک میں تھا اور آپ کے کلمات میں اس کی تکرار ہوتی تھی،"ملی خودمختاری" کی اصطلاح کے ذیل ميں متعارف کراؤں گا۔ میں سوچتا ہوں تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ "ملی خود مختاری" سے بہترکوئی اور عبارت نہیں ہو سکتی۔  
ولایت فقیہ کے بارے میں کافی وضاحتیں کی گئی  ہیں، میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ ولایت فقیہ نے اس انقلاب کے دینی پہلو کی حفاظت کی۔ اگر ولایت فقیہ نہ ہوتی تو یہ انقلاب جو دینی فکر کے ساتھ اور خدا پر ایمان کی بنیاد پر آیا تھا، راہ دین سے ہٹ جاتا۔ بنابریں پہلا پہلو ولایت فقیہ ہے۔ یہ امام بزرگوار کی دانشمندی ہے۔ یہ وہ دانشمندی ہے جوعوام کی اس تحریک کے پیچھے ہے اور اس کو آگے بڑھا رہی ہے اور اس کی ہدایت کر رہی ہے۔ ولایت فقیہ کے بارے میں اس سے زیادہ نہیں بولوں گا۔  
 دوسرا پہلو "ملی خودمختاری" ہے۔  بہت سے عناوین جن کی امام (رحمت اللہ علیہ) کے خطبات میں تکرار ہوئی ہے اور آپ نے بار بار ان پر زور دیا ہے،  اسی "ملی خود مختاری" کے ذیل ميں ہی آتے ہیں۔ البتہ خودمختاری کا مطلب، اپنے اطراف اور دنیا سے قطع رابطہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ یہ مغالطہ نہ کریں اور یہ نہ کہیں کہ ہم نے خود کو الگ تھلگ کر لیا ہے۔ جی نہیں، خود مختاری کا مطلب کسی سے عدم رابطہ نہیں ہے۔ خودمختاری کا مطلب یہ ہے کہ مملکت ایران، ملت ایران، اپنے پیروں پر کھڑی ہو، ان پر یا ان پر انحصار نہ کرے، خود تشخیص دے ، خود فیصلہ کرے اور خود عمل کرے۔ "ملی خودمختاری" کا مطلب یہ ہے۔ خود مختاری کے معنی یہ ہیں کہ امریکا یا امریکا جیسے کسی اور کے گرین سگنل کے منتظر نہ رہیں اور امریکا نیز امریکا جیسوں کے ریڈ سگنل سے پریشان نہ ہوں۔ خود ملت ایران تشخیص دے، خود ہی فیصلہ کرے اور جہاں بھی ضروری ہو، اقدام بھی خود ملت ایران کرے۔ دوسرے، بڑی طاقتیں، امریکا اور دوسرے، موافق ہوں یا مخالف، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ خودمختاری کے معنی ہیں۔

میں نے کہا کہ امام کے خطبات میں موجود بہت سے عناوین اسی " ملی خودمختاری" کے ذیل میں آتے ہیں۔ ان کی چند مثالیں عرض کروں گا۔  
  ایک عنوان "ہم قادر ہیں" ہے۔ امام (رحمت اللہ علیہ ) نے ہمیں سکھایا کہ کہیں اور یقین رکھیں کہ "ہم قادر ہیں"۔ گزشتہ حکومت میں کہا گیا تھا اور یقین دلایا گیا تھا کہ ہم نہیں کرسکتے، ہم سے کچھ نہیں ہو سکتا، دوسرے ہمارے لئے انجام دیں۔ امام (رحمت اللہ علیہ) نے اس کے بالکل برعکس ایرانی قوم کے ملی تشخص میں شامل کیا کہ "ہم قادر ہیں"۔ یعنی امام نے نوجوانوں میں خود اعتمادی زندہ کی۔ میں یہیں پر یہ بھی عرض کر دوں کہ یہ "ہم قادر ہیں" اتنا اہم ہے کہ اس "ہم قادر ہیں" کی نفی کے لئے، دشمن منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ابھی حالیہ ایٹمی معاملے میں، ایٹمی مسئلے میں عمان کی ثالثی میں جو گفتگو ہو رہی ہے، امریکیوں نے جو فارمولا پیش کیا ہے، وہ "ہم قادر ہیں" کے سو فیصد برعکس ہے۔ امام (رحمت اللہ علیہ) نے ہمارے نوجوانوں میں خود اعتمادی زندہ کی، ہمارے سیاستدانوں میں خود اعتمادی  کا احیا کیا، کہا "ہم قادر ہیں" ( ہم نے بھی) تجربہ کیا اور دیکھا کہ ہاں "ہم قادر ہیں"۔ یہ سائنسی پیشرفتیں، یہ ٹیکنالوجی میں ترقیاں، یہ دفاعی توانائیاں، یہ بڑے کام جو حکومتوں نے ملک کی تعمیر اور ترقی کے لئے انجام دیے، ہمیں یقین نہیں تھا کہ یہ کام ہو سکتے ہیں۔ کہتے بھی تھے کہ نہیں ہو سکتا، ہم نے آزمایا تو معلوم ہوا کہ جی نہیں، ایرانی قوم قادر ہے اور ہم قادر ہیں۔ یہ  ملی خود مختاری کے حوالے سے ایک اہم اور بنیادی باب ہے جس کا امام رحمت اللہ علیہ کے خطبات میں بار بار ذکر ہوا ہے۔  

اس  کے بعد  اصول مزاحمت ہے۔ مزاحمت یعنی، انسان بڑی طاقتوں کے سامنے سر خم نہ کرے۔ اگر وہ اعتقاد رکھتا ہے تو کسی بات کو لازمی سمجھتا ہوگا اور کسی کو ممنوع، اپنے عقیدے کے مطابق عمل کرے، دشمن کے ارادے کے سامنے، وہ کوئی چیز مسلط کرنا چاہے تو اس کے مقابلے میں اور اس کی منہ زوری کے مقابلے میں سر خم نہ کرے۔ استقامت کا مطلب یہ ہے۔ ملی خودمختاری کے جملہ عناصر میں سے ایک مزحمت ہے۔  
 ایک اور اصول،  ملک کی دفاعی طاقت بڑھانے کا اصول ہے۔ دفاعی قوت کا ارتقا۔ انقلاب کے ابتدائی دور میں ہمارے پاس دفاعی توانائیاں نہیں تھیں۔ دفاعی پیداوار اتنی کم تھی کہ صفر کے برابر تھی۔ جو پیداوار تھی وہ صفر کے مترادف تھی۔ امام نے ہمیں سکھایا کہ اپنی دفاعی قوت بڑھانی چاہئے۔ میں امام کی خدمت میں گیا اور آپ کو اطلاع دی کہ ہمارے  نوجوان اینٹی ٹینک راکٹ بنا رہے ہیں جنکی طاقت ایسی ہے اور ویسی ہے۔ اور اس کے لئے انھوں نے ایک ٹائم فریم بھی معین کر دیا ہے اور انھوں نے کہا ہے کہ اس مدت کے اندر وہ یہ کام کر لیں گے۔ امام اتنا خوش ہوئے کہ میں  نے آپ کے چہرے پر ایسی خوشی بہت کم دیکھی ہے! آپ دفاعی طاقت بڑھانے کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ نتیجہ یہ ہوا کہ آج بڑی دفاعی طاقتیں کہتی ہیں کہ اس علاقے میں، فلاں معاملے میں ایران کا پہلا نمبر ہے۔ یا اس پر حیرت کرتی ہیں کہ پابندی کے باوجود،  ایران خلا میں سیٹیلائٹ بھیج سکتا ہے اور ایسے کام کر سکتا ہے۔ یہ دفاعی طاقت بڑھانے  کا نتیجہ ہے۔ یہ بھی ان عناوین میں سے ہے جن کا ذکر امام (رحمت اللہ علیہ) کے خطبات میں زیادہ ملتا ہے۔

ایک اور اصول"تبیین" ہے۔ امام تبیین کے قائل تھے۔ تبیین کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو مسائل سے آگاہ کیا جائے۔ مناسب زبان میں انہیں بتایا جائے۔   

خود امام (رحمت اللہ علیہ ) نے 1961 میں تحریک کے آغاز سے، اس کی ابتدا سے ہی، عوام سے گفتگو کی ہے، آپ نے اپنی عمر کے آخری سال تک، عوام کے لئے تبیین کی ہے۔ امام بزرگوار کی تحریروں کا بڑا حصہ، آپ کی  عمر مبارک کے آخری سال سے تعلق رکھتا ہے، جو آپ نے عوام، حوزہ ہائے علمیہ، طلاب اور علمائے کرام، یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والوں اور دیگر لوگوں کے لئے تحریر فرمائی ہیں۔

یہاں بہتر ہے کہ میں یہ نکتہ بھی عرض کر دوں کہ امام (رحمت اللہ علیہ) جب تبیین فرماتے تھے تو آپ کی تبیین صرف جذبات ابھارنے کے لئے نہیں ہوتی تھی، آپ  جذبات کی ہدایت بھی کرتے تھے، استدلال بھی پیش کرتے تھے، عقلوں کو مطمئن کرتے تھے، عقلوں کو بھی مطمئن کرتے تھے اور دلوں سے بھی بات کرتے تھے، دماغوں کو بھی مخاطب کرتے تھے۔ آپ اس طرح تبیین کر سکتے تھے۔

   یہ تبیین بھی ان جملہ چیزوں میں ہے جو "ملی خودمختاری" کے زمرے ميں آتی ہیں جو امام (رحمت اللہ علیہ) کی فعالیت کا ایک رکن ہے۔    

ایک اور اصول استقامت ہے۔ استقامت، اس مزاحمت سے مختلف ہے جس کا ذکر ہم نے اس سے پہلے کیا ہے۔  استقامت یعنی راستے پر چلتے رہنا، صراط مستقیم کو نہ چھوڑنا، پیروی کرنا، دائم رکھنا، یہ استقامت کے معنی ہیں۔    

 "ملی خودمختاری" ان تمام اور بعض دیگر اصولوں کا مجموعہ ہے۔ ان کا ذکر امام (رحمت اللہ علیہ ) نے ملت ایران کے تشخص کے ذیل میں کیا ہے اور عوام کو، دلوں، اذہان کو اور نوجوانوں کو ان سے آگاہ کیا ہے۔ آج ہمارے نوجوان، خود اعتمادی کے مسئلے سے، "ہم قادر ہیں" کے مسئلے سے، مزاحمت کے مسئلے سے،  راستہ جاری رکھنے کے مسئلے سے واقف ہیں۔ اذہان اور دل ان سے واقف ہیں۔ یہ کام امام بزرگوار نے کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں انقلاب کا تشخص محفوظ رہا۔ یہ وہی دانشمندی ہے جس کے ذریعے امام نے اسلامی انقلاب کو اور اس نظام کو جو اسلامی انقلاب سے وجود میں آیا، اسی راستے پر جس پر وہ وجود میں آیا تھا، اور شروع سے ہی معین کیا گیا تھا، باقی رکھا۔

 آج ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ بعض تقاریر ميں کہتے ہیں"دانشمندی"۔ دانشمندی کا نام لیتے ہیں، اس دانشمندی سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ ہم جاکے امریکا کے سامنے سر جھکا دیں۔ کہتے ہیں کہ یہ دانشمندی ہے! ان کا مقصد یہ ہے کہ ہم منھ زور طاقت کے سامنے جھک جائيں۔ اس کو وہ دانشمندی سمجھتے ہیں! یہ دانشمندی نہیں ہے۔ دانشمندی، امام کی دانشمندی ہے۔ وہی دانشمندی جس نے قوم کو آگے بڑھایا، اس قوم کو محکم بنایا، طاقتور بنایا، دنیا میں با عزت بنایا اور اس کا مستقبل روشن کیا۔

 ان شاء اللہ ملک اس دانشمندی سے پیشرفت کر سکتا ہے جس کی بنیاد امام نے رکھی ہے، پائیدار سلامتی تک پہنچ سکتا ہے، عام رفاہ و آسائش تک پہنچ سکتا ہے اور بین الاقوامی میدان میں آج جہاں ہے، اس سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ اس مسئلے کا تعلق امام سے ہے۔  

 اور ایک قومی مسئلے کی تبیین۔  یہ مسئلہ، ایٹمی مسئلہ ہے۔ ایٹمی مسئلے کے تعلق سے مجھے ایرانی عوام کی آگاہی کے لئے چند جملے عرض کرنے ہیں۔ 

میرے عزیزو! ایران، اپنے نوجوانوں کی ذہانت، سائنسدانوں کی ہمت اور بے پناہ محنت کے نتیجے میں فیول سائیکل کا مالک بنا ہے۔ یعنی آج ہم  ایٹمی ایندھن کے،  کان سے نکالنے سے لے کر پاور ہاؤس تک کے سارے مراحل خود انجام دینے پر قادر ہیں۔ یہ کام ہمارے نوجوانوں نے کیا ہے۔ ہمارے سائنسدانوں نے کیا ہے۔ دنیا میں وہ ممالک جو یہ کام کر سکتے ہیں، شاید دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے بھی کم ہیں۔ لیکن ایرانی قوم نے یہ توانائی حاصل کر لی۔   
ایک نکتہ میں یہاں عرض کر دوں ۔ ایٹمی صنعت صرف توانائی کے لئے نہیں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی صنعت، صرف سستی اور صاف ستھری انرجی کے لئے ہے۔  یقینا یہ ہے، اور یہ ایٹمی صنعت کی دین ہے لیکن صرف یہی نہیں ہے۔ یہ ایٹمی صنعت کے فوائد میں سے ایک ہے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی مدر ٹیکنالوجی ہے۔ ایک مدر ٹیکنالوجی ہے۔  ماہرین، سائنسدانوں اور جن کا یہ کام ہے، انھوں نے ہمارے لئے یہ وضاحت کی ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ عوام  کو اس سے زیادہ بتائيں گے۔ بہت سے سائنسی شعبوں میں ایٹمی صنعت کا کام ہے۔ متعدد سائنسی میدانوں میں، منجملہ، بہت ہی دقیق اور حساس ٹیکنالوجی، جیسے طبی آلات کی ٹیکنالوجی، ایرو اسپیس ٹیکنالوجی، دقیق سنسرس اور الیکٹرانک  ٹیکنالوجی، سبھی میں ایٹمی صنعت کا کام ہے، سب میں ایٹمی ٹیکنالوجی کی افادیت ہے۔  فنڈامینٹل سائنس اور انجینیرنگ وغیرہ جیسے نیوکلیئر فزکس، انرجی انیجینیرنگ، میٹیریل انجینیرنگ، میڈیکل سائنس میں ، دوائیں بنانے میں، امراض کی تشخیص میں، علاج میں، ان سبھی شعبوں میں ایٹمی صنعت کا استعمال ہے۔ بعض دشوار امراض کے علاج میں ایٹمی صنعت کا استعمال ہے۔ آج میڈیکل سائںس میں، امراض کی تشخیص میں بھی اور علاج میں بھی، ایٹمی صنعت کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ زراعت میں، ماحولیات سے متعلق صنعت میں اور متعدد دیگر صنعتوں میں ایٹمی صنعت کا عمل دخل ہے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی مدر ٹیکنالوجی ہے۔ بنیادی  صنعت ہے۔      
ایٹمی صنعت میں ایک مرحلہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور وہ افزودگی ہے، یورینیئم کی افزودگی۔ ہمارے دشمنوں نے اسی نقطے پر انگلی رکھی ہے۔ ایٹمی صنعت اپنی تمام تر عظمتوں کے ساتھ، افزودگی کے بغیر، بے فائدہ ہے۔ اس لئے کہ اس صورت میں ہمیں اپنے پاور ہاؤس‎ کے ایندھن کے لئے، دوسروں کے آگے ہاتھ  پھیلانا ہوگا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کے ملک میں تیل ہو لیکن آپ کو ریفائنری کا حق نہ ہو۔ پیٹرول تیار کرنے کا حق نہ ہو۔ آپ کے پاس تیل ہے لیکن پیٹرول آپ دوسروں سے خریدیں۔ وہ ملک چاہے تو آپ کے ہاتھ فروخت کرے، جس قیمت پر چاہے بیچـے اور اگر نہ چاہے تو نہیں بیچے گا۔ کوئی بھی بہانہ بنائے گا اور نہیں بیچے گا۔ وہ کام کرو نہیں تو پیٹرول نہیں دیں گے۔ ان کا مقصد یہ ہے۔ ہمارے پاس سو پاور ہاؤ‎س ہوں لیکن افزودگی نہ ہو تو وہ پاور ہاؤس ہمارے کام نہیں آئيں گے۔ اس لئے کہ ایٹمی پاور ہاؤ‎س کے لئے، ایٹمی ایندھن کی ضرورت ہے۔ اگر یہ ایندھن ہم ملک کے اندر تیار نہ کریں تو امریکا کے آگے ہاتھ پھیلائيں اور وہ ایٹمی ایندھن دینے کے لئے دسیوں شرطیں رکھے۔ ہم یہ آزما چکے ہیں۔(5)  خود ہمارے دوست، دو سربراہان مملکت سے انھوں نے کہا کہ ایران سے کہو کہ ساڑھے تین فیصد افزودہ یورینیئم ہمیں دے، اس کو بیس فیصد افزودہ یورینیئم کی جو ضرورت ہوگی وہ ہم اس کو دیں گے۔ ہمیں بیس فیصد کی ضرورت تھی۔ ہمارے حکام نے قبول کر لیا۔ طے ہوا کا تبادلہ کیا جائے۔ میں نے کہا کہ یہ تبادلہ اس طرح ہونا چاہئے کہ وہ بیس فیصد افزودہ یورینیئم بندرعباس لائيں، ہم اس کو پرکھیں اور دیکھیں کہ صحیح ہے یا نہیں پھر لیں گے اور ساڑھے تین فیصد افزودہ یورینیئم انہیں دیں گے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ بیس فیصد افزودہ یورینیئم تحویل میں لینے کے لئے ہم دقت نظر سے کام لے رہے ہیں اور اس پر ہمارا اصرار ہے تو، اپنے وعدے سے پھر گئے اور نہیں دیا! لیکن اسی دوران جب ہمارے حکام اس معاملے میں سیاسی معاملات طے کرنے میں مصروف تھے، ہمارے سائنسدانوں نے خود بیس فیصد افزودگی انجام دے لی۔  

امریکیوں کی پہلی بات یہ ہے کہ تمھارے پاس ایٹمی صنعت نہیں ہونی چاہئے، ایران کے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی نہیں ہونی چاہئے، تم ریڈیو میڈیسن میں ہمارے محتاج رہو، توانائی میں ہمارے محتاج رہو، پانی میٹھا کرنے کی ٹیکنالوجی اور مشین میں ہمارے محتاج رہو، دیگر دسیوں شعبوں میں ہم سے وابستہ رہو، تمھارے پاس ایٹمی صنعت بالکل نہیں ہونی چاہئے۔

  ہمارے پاس ہزاروں ایٹمی سائنسداں اور محقق ہیں جو ایران میں تیار ہوئے ہیں، ایران میں اس وقت ہزاروں ایٹمی سائنسداں موجود ہیں یہ سب انہیں چند برسوں میں تیار ہوئے ہیں، ہم ان سب کو مایوس کر دیں، بیکار کر دیں، انہيں اپنے ملک کے مستقبل سے مایوس کر دیں۔ امریکی یہ چاہتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں، ہم سے یہ چاہتے ہیں۔ امریکا کے بے ادب اور گستاخ حکام مختلف زبانوں سے اسی مطالبے کی تکرار کرتے ہیں۔ وہ ایران کی پیشرفت کے مخالف ہیں، ایرانی قوم کی بے نیازی کے مخالف ہیں۔    

میں نے یہ باتیں اس لئے کہی ہیں کہ ہمارے عزیز عوام کسی حد تک اس مسئلے کو جان لیں۔ البتہ زیادہ وضاحت کی ضرورت ہے۔ امریکا کی بے تدبیر اور ہلّڑ ہنگامہ کرنے والی حکومت کی ہرزہ سرائیوں کا ہماری طرف سے جواب معلوم ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ہم کیا جواب دیں گے۔ اس سے چند برس قبل، ایک دن، ایک امریکی صدر(6)  نے کہا کہ اگر میرے لئے ممکن ہو تو، ایران کی ایٹمی صنعت کی کیلیں وغیرہ بھی اکھاڑ دوں اور اس کو بالکل ختم کر دوں! انھوں نے اسی کے ساتھ یہ اعتراف بھی کیا کہ یہ ان کے بس میں نہيں ہے۔ آج ہماری ایٹمی صنعت کے کیل کانٹے اس دن سے بہت زیادہ محکم ہو چکے ہیں۔ البتہ انھوں نے اقرار کیا تھا کہ ایران کی ایٹمی صنعت کے کیل کانٹے نہیں کھول سکتے۔ کہا اگر میرے بس میں ہوتا تو یہ کام کرتا لیکن بس میں نہيں ہے۔ یہ جو آج برسر اقتدار ہیں، صیہونی امریکی، یہ بھی جان لیں کہ ان کے بس میں بھی کچھ نہیں ہے۔ وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ 

 البتہ ان باتوں سے پہلے، ان وضاحتوں سے پہلے، پہلی بات جو ہم ایٹمی معاملے میں، امریکیوں اور دوسرے فریقوں سے کہنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ تمھاری حیثیت کیا ہے؟ تم سے کیا مطلب ہے کہ مداخلت کرتے ہو کہ ایران میں یورینیئم کی افزودگی ہو یا نہ ہو؟ تمھارے پاس ایٹمی وسائل ہیں، ایٹم بم ہیں، دنیا کی تباہی کے اسباب تمھارے پاس ہیں، تم سے کیا مطلب کہ ایرانی قوم کے پاس افزودگی کی ٹیکنالوجی رہے یا نہ رہے، اس کے پاس ایٹمی صنعت رہے یا نہ رہے؟ (ملت ایران) ایسی قوم ہے جو اپنے امور کا اختیار خود اپنے پاس رکھتی ہے۔ تم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تم ہو کیا؟ تم کس قانونی حیثیت سے یہ باتیں کرتے ہو؟ یہ ہمارا اپنا مسئلہ ہے۔ یہ چند باتیں ایٹمی مسئلے ميں تھیں۔
میری آخری بات، غزہ میں صیہونی حکومت کے حیرت انگیز جرائم کے بارے میں ہے۔ واقعی حیرت انگیز ہیں!انسان یقین نہیں کر پاتا کہ ان کے اس قسم کے مجرمانہ منصوبے ہیں۔ دیکھئے یہ ایک بم پھینکتے تھے، ایک یا دو گھر منہدم ہو جاتے تھے۔ دس یا پندرہ افراد شہید ہو جاتے تھے۔ سوچا کہ نہیں یہ کم ہے۔ اب کیا کر رہے ہیں؟ اب کھانا تقسیم کرنے کے نام پر ایک مرکز بناتے ہیں۔ چونکہ کھانے کی چیزیں غزہ میں نہیں پہنچ رہی ہیں، اس لئے لوگ وہاں کھانا لینے کے لئے بھیڑ لگا لیتے ہیں۔ یہ جتنے لوگوں کو بم سے مارتے تھے، ایک مشین گن سے، اس سے دس گنا زیادہ لوگوں کو ختم کر دیتے ہیں! لوگوں کو مارنے میں زیادہ خرچ آ رہا تھا تھا، اس کو سستا کر دیا۔ چونکہ کھانے کی چیزیں غزہ میں نہیں پہنچ رہی ہیں، لوگ کھانے کے لئے جمع ہو جاتے ہیں، پہلے بم سے مارتے تھے، اب انہیں گولیوں سے مار دیتے ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز ہے۔ یہ جرم انسان کو متحیر کر دیتا ہے کہ کوئی انسان کتنا پست، خبیث، شقی اور شرپسند ہو سکتا ہے کہ یہ کام کر بیٹھے! البتہ امریکا بھی اس جرم میں شریک ہے۔ امریکا کا ہاتھ بھی اس جرم میں آلودہ ہے۔ اسی بنا پر ہم نے کہا ، تکرار کے ساتھ کہا اور ہمارا اصرار ہے کہ امریکا کو اس علاقے سے نکلنا چاہئے۔
ایک بات اسلامی حکومتوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں۔ اسلامی حکومتوں پر آج بہت سنگین ذمہ داری ہے۔ میں صراحت کے ساتھ حکومتوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اب کسی بھی قسم کی نرمی، رو رعایت اور غیر جانبداری کا وقت نہیں ہے۔ اب خاموشی کا وقت نہیں ہے۔ اسلامی حکومتوں میں کوئی حکومت، کسی بھی شکل میں، کسی بھی بہانے سے، چاہے روابط معمول پر لاکر، چاہے فلسطینیوں کی مدد کا راستہ بند کرکے، چاہے صیہونیوں کے جرائم کی توجیہ کرکے، صیہونی حکومت کی حمایت کرے گی تو اس کی پیشانی پر یہ شرمناک دھبہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ البتہ آخرت کا حساب اپنی جگہ پر ہے، قیامت بھی ہے، عذاب الہی بھی ہے، جو بہت سخت ہے، بہت سنگین ہے، خدا کے سامنے جواب نہیں دے سکتے، لیکن صرف آخرت کا بدلہ ہی نہیں ہے۔ دنیا میں بھی اقوام اس خیانت کو نہیں بھولیں گی۔ اور حکومتیں جان لیں کہ صیہونی حکومت پر بھروسہ، کسی بھی حکومت کو سیکورٹی نہیں دے سکتا۔ اس لئے کہ صیہونی حکومت، خدا کے حتمی حکم سے، بکھر رہی ہے اور ان شاء زیادہ دیر باقی نہیں رہے گی۔   
 پالنے والے! ملت ایران پر اپنے فضل وکرم  میں روز افزوں اضافہ فرما اور ملت ایران کے دشمنوں کو کچل دے اور مغلوب کر دے۔

پالنے والے! ملت ایران کے درمیان،  امام بزرگوار کے اعلی اہداف و مقاصد پورے کر دے! حضرت ولی عصر (اروواحنا فداہ) کے قلب مقدس کو ہم سے، ملت ایران سے اور سبھی خادمین قوم سے راضی اور خوشنود فرما! امام بزرگوار کی روح مطہر کو اعلی مراتب عطا فرما اور اپنی رضوان میں جگہ عنایت فرما!

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

1۔ اس پروگرام کے شروع میں جو حضرت امام خمینی قدس سرہ، کے مزار اقدس پر منعقد ہوا، (روضہ امام خمینی کے متولی) حجت الاسلام والمسلمین سید حسن خمینی نے مختصر خطاب کیا۔

2۔ آیتہ اللہ سید اسد اللہ مدنی، آیت اللہ، سید محمد علی قاضی طباطبائی، آیت اللہ سید عبدالحسین دستغیب، آیت اللہ محمد صدوقی اور آیت اللہ عطاء اللہ اشرفی اصفہانی

3۔ 25 اپریل 1980 کے ابتدائي لمحات میں، امریکی حکومت نے اپنے جاسوسوں کو آزآد کرانے کے لئے،  اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر کی نگرانی میں ایک فوجی آپریشن کے تحت، چھے ہوائی جہاز اور چھے ہیلی کاپٹر رات کی تاریکی میں، ایران کے اندر بھیجے۔ یہ طیارے اور ہیلی کاپٹر فیولنگ کے لئے، صحرائے طبس میں زمین پر اترے، لیکن ان ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے ٹیک آف کے وقت ریت کا طوفان شروع ہو گیا اور ایک ہیلی کاپٹر اور ایک ہوائی جہاز آپس میں ٹکرا گئے، اور دونوں، جن میں کئی امریکی فوجی  تھے، نذر آتش ہو گئے۔ اس موقع پر امریکی فوجی، ہیلی کاپٹروں کو چھوڑ کر، بقیہ ہوائی جہازوں کے ذریعے طبس سے بھاگ لئے اور اس طرح امریکا کا یہ فوجی آپریشن شکست سے دوچار ہو گیا۔   

4۔ تین جون 1988 کو اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک مسافر طیارہ بندر عباس سے دبئی جا رہا تھا کہ خلیج فارس میں  امریکا کے ونسنس جنگی بحری بیڑے کے ایک میزائل کا نشانہ بنا اور 290 مسافر جن میں 66 بچے اور 53 خواتین تھیں، شہید ہو گئے۔ اس واقعے کے کچھ عرصے کے بعد امریکی حکومت نے ونسنس جنگی بیڑے کے کمانڈر ولیم راجرز کو نشان شجاعت دیا!

5۔ جارج بش کے زمانے میں

6۔ باراک اوباما