انھوں نے اپنے خطاب کے ابتدائي حصے میں زراعت، صنعت، ماحولیات، قدرتی ذخائر، حفظان صحت، علاج، غذائی اشیاء اور تعلیم و تحقیق کے شعبوں میں افزودہ یورینیم کے گوناگوں استعمال کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے ملک میں یورینیم کی افزودگي کی صنعت کے بارے میں بتایا کہ ہمارے پاس یہ ٹیکنالوجی نہیں تھی اور دوسرے ممالک بھی ہماری ضرورتیں پوری نہیں کر رہے تھے، اسی لیے کچھ باحوصلہ عہدیداروں اور سائنسدانوں کی کوششوں سے تیس پینتیس سال قبل ہم نے اس راہ پر قدم بڑھائے اور اس وقت ہم اعلی سطح پر یورینیم کی افزودگی کر رہے ہیں۔

آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے بعض ممالک کی جانب سے یورینیم کی 90 فیصد تک افزودگي کا مقصد، ایٹمی ہتھیار بنانا بتایا اور کہا کہ چونکہ ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہے اور ہم نے اس ہتھیار کو نہ بنانے اور نہ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس لیے ہم نے یورینیم کی 60 فیصد تک افزودگي کی جو بہت عمدہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایران، دنیا کے 200 سے زیادہ ملکوں کے درمیان یورینیم کی افزودگي کی صنعت رکھنے والے دس ممالک میں سے ایک ہے اور اس پیشرفتہ ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانے کے علاوہ ہمارے سائنسدانوں کا ایک اہم کام، افراد کی ٹریننگ بھی رہا ہے چنانچہ آج دسیوں ممتاز سائنسداں اور پروفیسر، تحقیق میں مصروف سیکڑوں اسٹوڈنٹس اور ایٹمی موضوع سے جڑے ہوئے سبجیکٹس میں ہزاروں تعلیم یافتہ افراد کام میں مصروف ہیں اور مسلسل کوشش کر رہے ہیں اور دشمن کو لگتا ہے کہ بعض تنصیبات پر بمباری کر نے یا بمباری کی دھمکی دینے سے یہ ٹیکنالوجی ایران سے ختم ہو جائے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے اور یورینیم کی افزودگی ختم کر دینے کے لیے منہ زور طاقتوں کے کئي عشروں کے دباؤ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم یورینیم کی افزودگي کے معاملے میں نہ جھکے تھے اور نہ جھکیں گے اور کسی دوسرے معاملے میں بھی ہم دباؤ کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکیں گے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی پہلے کہتے تھے کہ آپ کو یورینیم کو اونچی سطح پر افزودہ نہیں کرنا چاہیے اور اپنے افزودہ یورینیم کو ایران کے باہر منتقل کر دینا چاہیے تاہم اب وہ اس بات پر بضد ہیں کہ آپ کو یورینیم کی افزودگی کرنی ہی نہیں چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ اس منہ زوری کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس عظیم کارنامے کو جو بہت زیادہ سرمایہ کاری اور مسلسل کوششوں سے حاصل ہوا ہے، نابود کر دیجیے لیکن ایران کی غیور قوم، ہرگز اس بات کو تسلیم نہیں کرے گی اور ایسا کہنے والے کے منہ پر تھپڑ رسید کرے گی۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں امریکا سے مذاکرات کے لاحاصل ہونے کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ امریکی فریق نے اپنی رائے کے مطابق پہلے ہی مذاکرات کے نتائج کو طے کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ایسے مذاکرات چاہتا ہے جن کا نتیجہ ایران کی ایٹمی سرگرمیوں اور ایران کے اندر یورینیم کی افزودگي کے بند ہونے کی صورت میں نکلے۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح کے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا مطلب فریق مقابل کے ڈکٹیشن، مطالبات تھوپنے اور منہ زوری کو تسلیم کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ٹرمپ نے یورینیم کی افزودگي بند کرنے کی بات کہی ہے لیکن ایک امریکی عہدیدار نے کچھ روز قبل کہا ہے کہ ایران کے پاس میڈیم اور شارٹ رینج کے میزائیل بھی نہیں ہونے چاہیے، مطلب یہ کہ ایران کے ہاتھ اس طرح باندھ دیے جائیں کہ اگر اس کے خلاف جارحیت ہو تو وہ امریکیوں کے اڈے پر بھی جوابی حملہ نہ کر سکے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکی عہدیداروں کی اس طرح کی توقع اور بیانات کو، ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ کے بارے میں ان کی عدم شناخت اور ایران اسلامی کے فلسفے، بنیاد اور روش سے ان کی لاعلمی کی نشانی بتایا اور کہا کہ اس طرح کی باتیں، چھوٹا منہ، بڑی بات کا مصداق ہیں اور ان کی کوئي حیثیت نہیں ہے۔

انھوں نے امریکا سے مذاکرات کے لاحاصل ہونے کی تشریح کے بعد اس کے نقصانات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ فریق مقابل نے دھمکی دی کہ اگر آپ نے مذاکرات نہ کیے تو ہم ایسا کر دیں گے، ویسا کر دیں گے، بنابریں اس طرح کے مذاکرات کو ماننے کا مطلب، دھمکی سے مرعوب ہو جانا، خوفزدہ ہو جانا اور دھمکی کے مقابلے میں ایران اور ایرانی قوم کا گھٹنے ٹیک دینا ہے۔ انھوں نے امریکا کی دھمکیوں کے سامنے جھکنے کو، اس کے منہ زوری پر مبنی اور کبھی نہ ختم ہونے والے مطالبات کے جاری رہنے کا سبب بتایا اور کہا کہ آج وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ نے یورینیم کی افزودگی کی تو ہم ایسا اور ویسا کر دیں گے اور کل وہ میزائيل رکھنے یا فلاں ملک سے تعلقات رکھنے یا نہ رکھنے کو دھمکی دینے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کا بہانہ بنائيں گے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے زور دے کر کہا کہ کوئي بھی عزت دار اور غیرت مند قوم، دھمکی کے ساتھ مذاکرات کو تسلیم نہیں کرے گی اور کوئي بھی عقلمند سیاستداں اس کی تصدیق نہیں کرے گا۔ انھوں نے فریق مقابل کی جانب سے اپنے مطالبات تسلیم کیے جانے کی صورت میں پوائنٹس دینے کے وعدے کو جھوٹ بتایا اور ایٹمی معاہدے (JCPOA) کے تجربے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے دس سال پہلے امریکیوں سے ایک معاہدہ کیا جس کی بنیاد پر ایٹمی بجلی پیدا کرنے والا ایک مرکز بند کیا جائے اور افزودہ یورینیم ملک سے باہر بھیجا جائے یا رقیق کر دیا جائے تاکہ اس کے عوض پابندیاں اٹھا لی جائيں اور آئي اے ای اے میں ایران کا مسئلہ معمول کی حالت پر آ جائے تاہم آج دس سال پورے ہونے کے بعد بھی نہ صرف یہ کہ ہمارا ایٹمی مسئلہ معمول پر نہیں آیا ہے بلکہ آئی اے ای اے اور سلامتی کونسل میں اس کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔

انھوں نے تجربات کو فراموش نہ کیے جانے کو ضروری بتایا اور کہا کہ فی الحال میں یورپ کے ساتھ کوئي مسئلہ اٹھانا نہیں چاہتا تاہم فریق مقابل یعنی امریکا نے ہر معاملے میں وعدہ خلافی کی ہے، وہ جھوٹ بولتا ہے اور کبھی کبھی فوجی دھمکی بھی دیتا ہے اور اگر اس کا بس چلتا ہے تو وہ عزیز قاسم سلیمانی جیسی ہماری شخصیات کو قتل کر دیتا ہے یا ہمارے مراکز پر بمباری کرتا ہے۔ کیا ایسے فریق کے ساتھ اعتماد اور بھروسے کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے کیے جا سکتے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ایٹمی مسئلے اور شاید دیگر مسائل کے لیے امریکا سے مذاکرات، اپنے آپ کو پوری طرح سے بند گلی میں پہنچانا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کے ساتھ مذاکرات کو اس کے موجودہ صدر کے لیے مفید اور ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے ان کی دھمکیوں کے کارگر ہونے کی بات کے پرچار کا ذریعہ بتایا۔ انھوں نے ملک کے علاج اور اس کی پیشرفت کی واحد راہ، سبھی عسکری، علمی و سائنسی، سرکاری اور انفراسٹرکچر کے میدانوں میں مضبوطی بتایا اور کہا کہ مضبوط اور طاقتور ہونے کی صورت میں فریق مقابل دھمکی تک نہیں دیتا۔

انھوں نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں قوم کے اتحاد کو بارہ روزہ جنگ میں دشمن کی مایوسی کا اصل سبب بتایا اور کہا کہ کمانڈروں اور بعض دیگر بااثر شخصیات کا قتل، ایک وسیلہ تھا تاکہ دشمن ملک میں اور خاص طور پر تہران میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہنگامے اور آشوب شروع کر دے اور ملک کے امور کو مختل کر کے نظام کو نشانہ بنائے اور اگلی سازشوں کے تحت اس ملک سے اسلام کا ہی خاتمہ کر دے۔

آيت اللہ خامنہ ای نے شہید کمانڈروں کے جانشینوں کو فوری طور پر منصوب کیے جانے، مسلح فورسز کے استحکام اور قوی جذبہ اور نظم و نسق کے ساتھ ملک کا انتظام چلائے جانے کو دشمن کی شکست کے مؤثر عناصر میں شمار کیا تاہم اس بات پر زور دیا کہ قوم کی وحدت و یکجہتی، دشمن کی ناکامی کا سب سے مؤثر عنصر تھی۔ انھوں نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ وہ فیصلہ کن اتحاد، بدستور باقی ہے اور بہت مؤثر ہے۔

انھوں نے اس وقت کے ایران کو، رواں سال کے تیرہ اور چودہ جون کا ایران بتایا اور کہا کہ ان دنوں لوگوں سے بھری سڑکیں اور صیہون ملعون اور مجرم امریکا کے خلاف فلک شگاف نعرے قوم کی وحدت و یکجہتی کے عکاس تھے اور یہ اتحاد بدستور قائم ہے اور قائم رہے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں شہید سید حسن نصر اللہ کی شہادت کی برسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس عظیم مجاہد کو عالم اسلام، تشیع اور لبنان کے لیے ایک بے پایاں ثروت بتایا اور کہا کہ حزب اللہ سمیت جو ثروت سید حسن نصر اللہ نے تیار کی وہ باقی ہے اور اس اہم ثروت کی جانب سے لبنان اور دوسری جگہوں پر غفلت نہیں برتی جانی چاہیے۔