بسم الله الرّحمن الرّحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.
میں عزیز ملت ایران کو سلام عرض کرتا ہوں۔ میں نے مناسب سمجھا کہ عزیز عوام سے کچھ چیزوں کے بارے میں گفتگو کروں۔ دو تین موضوعات ہیں جن کے بارے میں ابھی وضاحت کروں گا۔
اس گفتگو کا آغاز کرنے سے پہلے، میں لازم سمجھتا ہوں کہ 'مہر' مہینے (ایرانی کیلنڈر کا ساتواں مہینہ، اس مہینے کے آغاز کے ساتھ ایران کا تعلیمی سال بھی شروع ہوتا ہے) کی آمد پر مبارکباد پیش کروں۔ ماہ مہر، درس و مدرسہ، علم و یونیورسٹی کا مہینہ ہے۔ ماہ مہر، کروڑوں نوجوانوں، بچوں اور نوعمروں کے علم و توانائی کی جانب سفر کا آغاز ہے۔ یہی ماہ مہر کی خاصیت ہے۔
میں اپنے عزیز عہدیداران، خصوصاً تعلیم و تربیت کے شعبے اور حفظان صحت اور علاج و درمان کے شعبے کے عہدیداران کو سفارش کرتا ہوں کہ وہ نوجوان ایرانیوں کی صلاحیتوں کی اہمیت و قدر و قیمت کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔ ایرانی نوجوانوں نے علم کے میدان میں اور زندگی کے دیگر کئی معاملات میں اپنی صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے۔
میں یہاں یہ اعداد و شمار پڑھ کر سناتا ہوں: حال ہی میں، دنیا بھر کے مختلف طلبہ مقابلوں میں، بارہ روزہ جنگ اور دیگر چیلنجوں کے باوجود، ہمارے طلبہ نے کل چالیس تمغے حاصل کیے جن میں سے گیارہ گولڈ میڈل تھے۔ یہ بہت اہم اور قابل قدر ہے۔ علم فلکیات (ایسٹرونومی) کے اولمپیاڈ میں، انہوں نے بین الاقوامی سطح پر شریک ممالک میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ دیگر مضامین میں بھی انہوں نے اچھی پوزیشنیں حاصل کیں۔ کھیل کے میدان میں تو آپ ان دنوں خود دیکھ رہے ہیں، پہلے والیبال اور اب کشتی میں۔ ہمارے نوجوان ایسے ہی ہیں، الحمدللہ ان کی صلاحیتیں غیر معمولی ہیں، ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
میں لازم سمجھتا ہوں کہ ان دنوں عظیم مجاہد سید حسن نصر اللہ کی شہادت کی برسی کے موقع پر انہیں یاد کروں۔ سید حسن نصر اللہ عالم اسلام کے لیے ایک عظیم سرمایہ تھے، نہ صرف تشیع کے لیے، نہ صرف لبنان کے لیے، بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے ایک سرمایہ تھے۔ البتہ یہ دولت ضائع نہیں ہوئی، یہ باقی ہے۔ وہ چلے گئے لیکن جو سرمایہ انہوں نے پیدا کیا وہ باقی ہے۔ حزب اللہ لبنان کی داستان ایک زندہ داستان ہے۔ حزب اللہ کو ہرگز کم تر نہیں سمجھنا چاہیے اور اس اہم سرمایے سے غفلت نہیں برتنی چاہیے۔ یہ لبنان اور غیر لبنان سب کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہے۔
میں لازم سمجھتا ہوں کہ حالیہ بارہ روزہ جنگ کے واقعے میں شہید ہونے والوں کی، خواہ فوجی کمانڈر ہوں، سائنسدان ہوں یا دیگر افراد، یاد کو تازہ کروں اور ان کے اعزاء اور گھر والوں کو دلی تعزیت پیش کروں۔
لیکن جن باتوں کو میں بیان کرنا چاہتا ہوں، وہ تین ہیں۔ پہلی بات ایرانی قوم کی یکجہتی کے بارے میں ہے، البتہ اس پر بہت کچھ کہا جا چکا ہے، تاہم میں اس سلسلے میں ایک نکته پیش کرنا چاہتا ہوں۔ دوسری بات یورینیم کی افزودگی کے مسئلے کے بارے میں ہے، جس کا اس قدر ذکر ہوتا ہے، میں اس کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ تیسری بات امریکہ سے مذاکرات کے بارے میں ہے جس کے متعلق اہل قلم و بیان مختلف آراء رکھتے ہیں، بعض موافق ہیں، بعض مخالف، بعض دلیل کے ساتھ، بعض بے دلیل۔ میں اس بارے میں بھی حسب موقع چند جملے کہنا چاہتا ہوں۔
اب پہلے نکتے کی طرف آتے ہیں، یعنی ملت ایران کی یکجہتی کے بارے میں۔ میری سب سے پہلی بات یہ ہے کہ بارہ روزہ جنگ میں ایرانی قوم کی یکجہتی اور اتحاد نے دشمن کو مایوس کر دیا۔ یعنی دشمن جنگ کے شروعاتی اور درمیانی ایام ہی میں سمجھ گیا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ دشمن کا مقصد محض کمانڈروں کو نشانہ بنانا نہیں تھا، وہ تو ایک ذریعہ تھا۔ دشمن نے سوچا تھا کہ فوجی کمانڈروں اور اسلامی نظام کے بعض مؤثر افراد کو قتل کرکے ملک میں، خاص طور پر تہران میں، بدامنی پھیلائی جائے گی۔ ان کے عناصر ہنگامہ آرائی کریں گے اور لوگوں کو، جنہیں وہ اکٹھا کر سکیں، سڑکوں پر لا کھڑا کریں گے اور پھر عوام ہی کے ذریعے اسلامی جمہوریہ کے خلاف کوئی واقعہ کھڑا کر دیں گے۔ یہی اصل ہدف تھا۔ لہٰذا نشانہ اسلامی جمہوریہ تھی، نظام کو مفلوج کرنا تھا۔ جیسا کہ میں نے ایک اور گفتگو میں بھی کہا تھا، انہوں نے تو اسلامی جمہوریہ کے بعد کے دور کے لیے بھی بیٹھ کر منصوبے بنائے ہوئے تھے۔ وہ فتنہ کھڑا کرنا چاہتے تھے، سڑکوں پر فساد برپا کرنا چاہتے تھے، گروہوں کو ابھارنا چاہتے تھے اور ملک میں اسلام کی جڑیں اکھاڑنا چاہتے تھے۔ دشمن کا یہی مقصد تھا۔
خیر، یہ مقصد پہلے ہی قدم پر ناکام ہو گیا۔ کمانڈروں کی جگہ تقریباً فوری طور پر دوسرے کمانڈروں نے لے لی، ان کی جگہ نئے لوگ مقرر ہو گئے اور مسلح افواج کا نظم و ضبط اپنی پختگی اور بلند حوصلے کے ساتھ برقرار رہا۔ لیکن سب سے مؤثر عنصر یعنی عوام، دشمن کی چالوں سے بالکل متاثر نہ ہوئے۔ مظاہرے ہوئے، سڑکیں بھریں لیکن نظام اسلامی کے خلاف نہیں بلکہ دشمن کے خلاف۔ عوام نے معاملہ ایسا کر دکھایا کہ دشمن نے جو سرحدوں کے باہر بیٹھے ہیں، اپنے ایجنٹوں سے کہا: "بے عقلو! وہ کون سا کام ہے جو ہم نے نہیں کیا؟ ہم نے زمین ہموار کی، بمباری کی، کئی لوگوں کو شہید کیا، مارا۔ تم کیوں کچھ نہیں کر پا رہے ہو؟" ان کے ایجنٹوں نے جو یقیناً ایران اور تہران میں موجود ہیں، جواب دیا کہ ہم تو کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن عوام نے ہماری طرف توجہ ہی نہیں دی، ہم سے منہ موڑ لیا۔ اور ملک میں نظم و ضبط کے ذمہ داروں نے ہمیں روک دیا، ہم کچھ کر نہیں سکے۔ اس طرح دشمن کا منصوبہ ناکام ہو گیا۔
خیر، یہ باتیں جو میں نے کہی ہیں، ان میں سے کچھ یا سب پہلے بھی ہم نے یا دوسروں نے کہی ہیں۔ لیکن جس نکتے پر میں زور دینا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ یہ عامل یعنی یکجہتی اب بھی موجود ہے۔ ملت ایران کا اتحاد اب بھی برقرار ہے۔ بعض حلقے، جن کا منبع بھی ملک سے باہر ہے، ہمیں جو اطلاعات ملتی ہیں وہ یہی ظاہر کرتی ہیں کہ وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ جنگ کے آغاز میں جو یکجہتی پیدا ہوئی تھی، وہ صرف انہی چند دنوں کے لیے تھی۔ کچھ دن گزرنے کے بعد یہ کمزور پڑ جائے گی، اختلافات پیدا ہوں گے، اختلافی باتیں غالب آ جائیں گی اور یہ اتحاد ختم ہو جائے گا۔ ایران کے لوگ منتشر ہو جائیں گے اور پھر قومیتی تقسیموں اور سیاسی اختلافات کو استعمال کر کے ایرانی عوام کو آپس میں لڑایا جا سکے گا اور فساد و بغاوت پھیلائی جا سکے گی۔ وہ یہی پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ بات سراسر غلط ہے۔ ہاں، سیاسی معاملات میں اختلافِ رائے موجود ہے؛ ہمارے ملک میں بہت سی قومیں بستی ہیں جو سب کی سب ایرانی ہیں اور اپنے ایرانی ہونے پر فخر محسوس کرتی ہیں؛ یہ سب کچھ موجود ہے، لیکن دشمن کے مقابلے میں یہ سارا مجمع ایک مضبوط فولادی مُکا بن جاتا ہے جو دشمن کے سر پر برستا ہے؛ آج بھی ایسا ہی ہے، ماضی میں بھی ایسا ہی تھا، اور ان شاء اللہ آیندہ بھی ایسا ہی رہے گا۔ آج کا ایران اور ان شاء اللہ کل کا ایران، وہی ایران ہے جو 13 اور 14 جون کو نظر آیا تھا جب عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے اور ملعون صیہونیت اور جرائم پیشہ امریکہ کے خلاف نعرے لگائے تھے۔ یہ پہلی بات تھی جو میں عرض کرنا چاہتا تھا۔ اس کا نکتہ یہ تھا کہ یہ قومی اتحاد، عوام کا یہ اجتماع آج بھی موجود ہے اور آیندہ بھی رہے گا؛ البتہ ہم سب کی اس کے تعلق سے ذمہ داری بھی ہے۔
دوسرا نکتہ، یورینیم افزودگی کا معاملہ ہے۔ وزارت خارجہ کی اپنے مد مقابل فریقوں سے گفتگو میں یورینیم افزودگی کا لفظ بار بار دہرایا جاتا ہے۔ وہ یورینیم افزودگی کے بارے میں کچھ کہتے ہیں، ہم کچھ کہتے ہیں۔ ملک کے اندر بھی مختلف مباحثوں میں یہی حال ہے، یورینیم افزودگی کا لفظ بار بار استعمال ہوتا ہے۔ میں یورینیم افزودگی کے بارے میں ایک مختصر وضاحت پیش کرنا چاہتا ہوں۔ آخر یورینیم افزودگی ہے کیا؟ ایسا کیا ہے جس کی اتنی اہمیت ہے؟ تمام بحثیں یورینیم افزودگی ہی کے گرد گھومتی ہیں؛ یورینیم کی افزودگی ۔
میں کہنا چاہتا ہوں کہ یورینیم افزودگی محض ایک لفظ ہے، لیکن اس کے پیچھے ایک پوری کتاب پوشیدہ ہے جس کی طرف میں اب مختصراً اشارہ کروں گا۔ اگر اس شعبے کے ماہرین عوام الناس سے اس بارے میں بات کریں تو یہ اچھا اور مناسب ہے۔ میں یہاں ایک مختصر سی تشریح کروں گا۔
یورینیم افزودگی کا مطلب یہ ہے کہ یورینیم کے سائنس دان اور ماہرین، خام یورینیم کو، جس کی کانیں ایران میں موجود ہیں، جدید اور پیچیدہ تکنیکی کوششوں کے ذریعے ایک انتہائی قیمتی مادے میں تبدیل کریں جو عوامی زندگی کے مختلف شعبوں پر اثر انداز ہوتا ہے؛ یورینیم افزودگی کی یہی تعریف ہے۔ یعنی زمین کی کان سے حاصل ہونے والی ایک شے کو جدید ٹیکنالوجی، محنت شاقہ، اعلیٰ مہارت اور گہری قابلیت کے ذریعے ایک ایسے مادے میں تبدیل کیا جاتا ہے جو افزودہ یورینیم کہلاتا ہے؛ اسے مختلف درجوں تک انرچ کیا جاتا ہے اور یہ عوام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اثر انداز ہوتا ہے؛ یعنی عوام مختلف حوالوں سے افزودہ یورینیم کے مادے سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ ان کی زندگیوں پر اثر ڈالتا ہے؛ مثلاً زراعت میں، جہاں اس کے دوررس اثرات ہیں؛ مثلاً صنعت و مواد میں؛ خوراک کے معاملے میں جو زراعت ہی سے متعلق ہے؛ ماحولیات اور قدرتی وسائل پر اثر انداز ہوتا ہے؛ تحقیق و تعلیم اور سائنسی ریسرچ کے شعبوں پر اثر ڈالتا ہے؛ بجلی کی پیداوار میں بھی، جہاں اس کا اثر واضح ہے۔ آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بجلی گھر یورینیم سے چلائے جاتے ہیں [جبکہ] ہم اکثر ان بجلی گھروں کو پٹرول اور گیس سے چلا رہے ہیں جس کے نقصانات یہ ہیں کہ اس کی لاگت بہت زیادہ ہے، اور یہ ماحول اور ہوا کو آلودہ کرتا ہے؛ جبکہ یورینیم افزودگی اور جوہری بجلی گھروں سے حاصل ہونے والی بجلی کی آلودگی صفر ہے، اس کی لاگت بہت کم ہے، [بجلی گھروں کی] عمر بہت طویل ہے اور اس کے دیگر بہت سے فوائد ہیں جنہیں ماہرین کو آکر عوام کے سامنے بیان کرنا چاہیے۔ میرے خیال میں اگر ہم افزودہ یورینیم کے مختلف استعمالات کی فہرست بنائیں تو یہ ایک طویل فہرست ہوگی۔
ہمارے پاس یہ انتہائی اہم ٹیکنالوجی نہیں تھی۔ ہم یورینیم افزودگی کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ دشمن بھی ہمیں یہ ٹیکنالوجی دینے پر راضی نہیں تھے، اور نہ ہی کوئی اور ہمیں دے رہا تھا۔ کچھ ہمت والے منتظمین اور کچھ ذمہ دار اور حقیقی معنی میں بلند مرتبت سائنسدانوں نے یورینیم کی افزودگی کا معاملہ پینتیس سال پہلے ملک میں شروع کیا اور اسے اس مقام تک پہنچایا۔ آج ہم یورینیم کی افزودگی کے معاملے میں ایک اعلیٰ سطح پر ہیں۔ البتہ جو ممالک جوہری ہتھیار بنانا چاہتے ہیں وہ اس افزودگی کو نوے فیصد تک لے جاتے ہیں؛ چونکہ ہمیں ہتھیار کی ضرورت نہیں ہے اور ہمارا جوہری ہتھیار نہ بنانے کا فیصلہ ہے، ہم اسے اتنا اوپر نہیں لے گئے، ہم نے اسے ساٹھ فیصد تک پہنچایا ہے جو کہ ایک بہت ہی اعلیٰ اور بہترین شرح ہے اور ملک کے بعض ضروری کاموں کے لیے درکار ہے؛ ہم اسے اس مقام تک لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم دنیا کے ان دس ممالک میں سے ایک ہیں جن کے پاس یہ صلاحیت ہے؛ یعنی میں آپ سے عرض کروں کہ دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں، صرف دس ممالک ہیں جو یورینیم افزودگی کر سکتے ہیں، اور ان دس ممالک میں سے ایک اسلامی مملکت ایران ہے۔
البتہ ان دوسرے نو ممالک کے پاس جوہری بم بھی ہے، جبکہ ہم ہیں جن کے پاس جوہری بم نہیں ہے اور نہ ہی ہوگا اور ہمارا ارادہ جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا نہیں ہے، لیکن یورینیم افزودگی کی صلاحیت ہمارے پاس ہے۔ ہم اس فنی برتری والی صنعت کے حامل دس ممالک میں شمار ہوتے ہیں؛ اور ان سائنسدانوں نے، جن کا میں نے ذکر کیا، اس کام کی بنیاد رکھی، اس میں بہت زیادہ رقم لگائی لیکن ان کا سب سے اہم کام اس شعبے میں بے شمار افراد کی تربیت تھی۔ یہ وہ رپورٹ ہے جو اس شعبے کے ذمہ داروں نے ہمیں دی ہے، یعنی یہ ایک مستند اور معتبر رپورٹ ہے: آج ملک میں درجنوں نامور سائنسدان اور ماہر اساتذہ، سینکڑوں محققین اور ہزاروں کی تعداد میں جوہری گروپوں کے تربیت یافتہ افراد اس موضوع سے متعلق مختلف شعبوں میں فعال ہیں۔ اب انہوں نے (دشمنوں نے) آ کر فلاں فلاں مقام کی تنصیبات پر بمباری کر دی ہے؛ بات یہ ہے کہ یہ علم ہے؛ علم ختم ہونے والی چیز نہیں ہے، علم بم اور دھمکیوں سے ختم نہیں ہوتا؛ یہ موجود ہے۔ میں نے عرض کیا، دہراتا ہوں، درجنوں نامور سائنسدان، ماہر اور اسکلڈ اساتذہ، سینکڑوں محققین اور ہزاروں کی تعداد میں مختلف جوہری کاموں کے لیے تربیت یافتہ افراد جو اب مثال کے طور پر علاج معالجے کے شعبے میں ہیں، میں نے علاج میں جوہری ٹیکنالوجی کے استعمال کا ذکر نہیں کیا تھا؛ علاج افزودہ یورینیم کے اہم استعمالات میں سے ایک ہے۔ علاج کے مختلف شعبوں میں بہت سے لوگ مصروف عمل ہیں؛ اسی طرح زراعت کے شعبے میں، اسی طرح صنعت کے شعبے میں، اسی طرح مختلف متنوع کاموں کے شعبوں میں مصروف کار ہیں اور محنت کر رہے ہیں۔
البتہ ان کئی دہائیوں کے دوران جن میں ہم نے ملک میں یہ کام کیے ہیں، ہم پر، ایران پر، ملک کے ذمہ داران پر، ہماری حکومتوں پر بہت زیادہ دباؤ بھی رہا ہے جن کے ذریعے وہ چاہتے تھے کہ ایران اس کام سے دستبردار ہو جائے، [لیکن] ہم نے ہتھیار نہیں ڈالے اور نہ ہی ڈالیں گے۔ ہم نے اس معاملے میں اور ہر دوسرے معاملے میں دباؤ کے آگے سرنگوں ہونا قبول نہیں کیا اور نہ ہی کریں گے۔ اب اس امریکی حکومت نے ضد کر رکھی ہے کہ ایران کے پاس یورینیم افزودگی کی صلاحیت نہیں ہونی چاہیے؛ پہلے والے کہتے تھے کہ اعلیٰ سطح کی یورینیم افزودگی نہ کریں یا اپنا افزودہ یورینیم ملک میں مت رکھیں؛ یہ باتیں وہ کہتے تھے جنہیں ہم نے قبول نہیں کیا۔ یہ صاحب کہتے ہیں کہ سرے سے مکمل طور پر یورینیم افزودگی ہی نہ ہو۔ [اس کا] کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ اس عظیم کامیابی کے لیے جسے حاصل کرنے میں ہمارے ملک نے اتنی محنت کی، اتنا خرچ کیا، اتنی مشکلات جھیلیں، ان تمام کوششوں کے ثمرات، ان تمام کاموں کی نتائج کو تم خاک میں ملا دو، ضائع کر دو اور برباد کر دو! یورینیم افزودگی نہ ہونے کا یہی مطلب ہے۔ تو ظاہر ہے، ایران جیسی غیرتمند ملت، ایسی بات کہنے والے کے منہ پر طمانچہ مارے گی اور اس بات کو ہرگز قبول نہیں کرے گی۔ یہ یورینیم افزودگی سے متعلق [بات] تھی جو ہم نے عرض کی۔
اور اب اگلا موضوع جو تیسرا موضوع ہے: سیاسی حلقوں کے بیانات میں امریکہ سے مذاکرات کا معاملہ بہت زیادہ اٹھایا جاتا ہے؛ اس پر مختلف آراء ہیں۔ میں نے کہا کہ بعض لوگ اسے مفید سمجھتے ہیں، ضروری سمجھتے ہیں، بعض لوگ اسے نقصان دہ سمجھتے ہیں، بعض لوگ درمیانی رائے رکھتے ہیں؛ باتیں مختلف ہیں۔ میں وہ بات جو اب تک ان کئی برسوں میں میں نے سمجھی ہے، دیکھی ہے، محسوس کی ہے اور جس کا تجربہ کیا ہے، وہ اپنے عزیز عوام کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
براہِ کرم سیاسی ذمہ داران اور سیاسی کارکنان بھی اس پر تھوڑا غور کریں، ان باتوں پر سوچیں، تدبر سے کام لیں اور اپنا فیصلہ علم و آگاہی کی بنیاد پر کریں۔ میری بات یہ ہے کہ موجودہ حالات کے پیشِ نظر ــ ہو سکتا ہے بیس یا تیس سال بعد حالات مختلف ہوں؛ اس سے ہمیں ابھی سروکار نہیں ــ موجودہ صورتِ حال میں، امریکی حکومت سے مذاکرات، اولاً، ہمارے قومی مفادات میں بالکل مددگار نہیں ہوں گے، ہمارے لیے بالکل فائدہ مند نہیں ہوں گے، اور نہ ہی ہم سے کوئی نقصان دور کریں گے؛ یعنی یہ ایک بے سود عمل ہے، جس کا ملک کے لیے کوئی فائدہ نہیں، جو کوئی نقصان دفع نہیں کرے گا۔؛ قطعاً اس کا ایسا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ یہ پہلی بات ہے۔
دوسرے یہ کہ اس کے برعکس، اس کے کئی نقصانات بھی ہیں۔ یعنی فائدہ تو درکنار، دوسری بات یہ ہے کہ موجودہ حالات میں امریکہ سے مذاکرات ملک کے لیے بڑے نقصانات کا باعث ہیں جن میں سے بعض شاید ناقابلِ تلافی ہیں؛ اس کے ایسے نقصانات بھی ہیں۔ اب میں انہیں تفصیل سے بیان کروں گا۔
جب ہم کہتے ہیں کہ یہ ہمارے فائدے میں نہیں ہے، ہمارے لیے کوئی سود مند نہیں ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی فریق پہلے ہی سے مذاکرات کے نتائج طے کر چکا ہے؛ یعنی اس نے واضح کر دیا ہے کہ وہ صرف ان مذاکرات کو قبول کرتا ہے اور وہ ایسے مذاکرات چاہتا ہے جس کا نتیجہ ایران میں جوہری سرگرمیوں اور یورینیم افزودگی کا خاتمہ ہو۔ یعنی ہم امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور ان سے ہونے والی گفتگو کا نتیجہ وہی بات ہو جو اس نے کہی ہے کہ "یہ ہونا چاہیے"! یہ پھر مذاکرات نہیں رہے؛ یہ ڈکٹیشن ہے، یہ زبردستی ہے؛ ایسے فریق کے ساتھ مذاکرات کرنا، بیٹھنا جس کے لیے مذاکرات کا نتیجہ لازمی طور پر وہی ہو جو وہ چاہتا ہے، وہی ہو جو وہ کہتا ہے! کیا یہ مذاکرات ہیں؟ مخالف فریق آج اس طرح بات کر رہا ہے، کہتا ہے کہ ہم مذاکرات کریں اور مذاکرات کا نتیجہ یہ نکلے کہ ایران کے پاس یورینیم افزودگی کی صلاحیت نہ ہو! اب اس (شخص) نے یورینیم افزودگی کا ذکر کیا ہے، اس سے کچھ دن پہلے، اس کے معاون نے اعلان کیا تھا کہ ایران کے پاس میزائل بھی نہیں ہونے چاہئیں! نہ طویل فاصلے کے میزائل؛ نہ درمیانے فاصلے کے میزائل ہوں، نہ ہی کم فاصلے کے میزائل ہوں! یعنی ایران کے ہاتھ اس قدر بندھے اور خالی ہوں کہ اگر اس پر حملہ بھی کیا جائے، تو وہ عراق میں یا فلاں مقام پر موجود امریکی اڈے کا بھی جواب نہ دے سکے؛ اس بات کا یہی مطلب ہے؛ ہم مذاکرات کریں تاکہ یہ نتیجہ برآمد ہو! تو یہ فائدہ نہیں ہے؛ یہ ایسے مذاکرات ہیں جن میں ہمارا کوئی فائدہ نہیں ہے، اور سراسر ہمارے نقصان میں ہے؛ یہی مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ یہ مذاکرات نہیں ہیں؛ یہ زبردستی ہے، امریکہ کی زبردستی اور دباؤ کو برداشت کرنا ہے۔ جب کوئی اسلامی مملکت ایران کے ساتھ معاملہ کر رہا ہو، تو اس قسم کی توقعات، اس قسم کے بیانات، ملت ایران کو نہ پہچاننے کی وجہ سے ہیں، اسلامی جمہوریہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہیں، اس لیے ہیں کہ وہ نہیں جانتا کہ اسلامی مملکت ایران کا فلسفہ، بنیاد اور طریقِ کار کیا ہے؛ یہ باتیں جب وہ نہیں جانتا، تو اس طرح بات کرتا ہے؛ ہم مشہدیوں کے بقول "یہ بات کہنے والے کے منہ سے بڑی ہے" اور اس بات کی کہ ہم ایسی چیز کے لیے مذاکرات کریں، کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لہٰذا یہ ہمارے فائدے میں نہیں ہے۔
اور رہی بات نقصان کی تو میں نے کہا تھا کہ اس کے نقصانات ہیں۔ یہ زیادہ اہم ہے؛ کہ اس کے نقصانات ہیں، یہ زیادہ اہم ہے۔ مخالف فریق نے دھمکی دی ہے کہ اگر تم نے مذاکرات نہیں کیے تو ایسا اور ویسا ہوگا، ہم بمباری کریں گے، ہم یہ کریں گے؛ اس قسم کی باتیں؛ کچھ مبہم، کچھ صریح؛ یعنی دھمکی: یا تو مذاکرات کرو ورنہ اگر مذاکرات نہیں کرو گے تو ایسا ہوگا اور ویسا ہوگا! یہ دھمکی ہے۔ تو ایسے مذاکرات کو قبول کرنا اسلامی جمہوریہ ایران کے دباؤ میں آنے کی علامت ہوگی۔ اگر آپ نے اس دھمکی کے تحت جا کر مذاکرات کیے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر دھمکی کے سامنے فوراً ڈر جاتے ہیں، کانپتے ہیں اور مخالف فریق کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں؛ اس کا یہی مطلب ہے۔ اگر یہ دباؤ قبول کر لیا گیا تو پھر اس کا کوئی اختتام نہیں ہوگا۔ آج وہ کہتے ہیں کہ اگر تمہارے پاس یورینیم افزودگی ہوگی تو ہم ایسا کر دیں گے اور ویسا کر دیں گے؛ کل وہ کہیں گے کہ اگر تمہارے پاس میزائل ہوں گے تو ہم ایسا کر دیں گے اور ویسا کر دیں گے؛ پھر وہ کہیں گے کہ اگر تم نے فلاں ملک سے تعلقات نہ رکھے تو ہم یہ کریں گے اور وہ کریں گے؛ اگر تم نے فلاں ملک سے تعلقات رکھے تو ہم ایسا کریں گے اور ویسا کریں گے! مسلسل دھمکیاں، اور ہم مجبور ہوں گے کہ دشمن کی دھمکیوں کے سامنے پسپائی اختیار کریں۔ یعنی ایسے مذاکرات کو قبول کرنا جو دھمکی کے ساتھ جڑے ہوں، کوئی باعزت قوم برداشت نہیں کرتی، نہ ہی کوئی دانا سیاستدان اس کی تائید کرتا ہے۔ لہٰذا، صورتِ حال یہ ہے۔
البتہ مخالف فریق شاید اب یہ کہے کہ میں اس کے بدلے میں آپ کو فلاں فلاں مراعات دوں گا! وہ جھوٹ بول رہا ہے؛ جو کچھ وہ مراعات دینے کے نام پر کہتا ہے، وہ جھوٹ ہے۔ دس سال پہلے، ہم نے امریکیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کا نام ہمارے ملک میں 'برجام' (جے سی پی او اے) ہے؛ اس معاہدے میں طے پایا تھا کہ ہم جوہری معاملات میں یہ کام کریں گے، وہ پروڈکشن مرکز بند کریں گے؛ وہ ساڑھے تین فیصد افزودہ یورینیم جو ہم اس وقت تیار کر رہے تھے، باہر بھجوا دیں یا انہیں رقیق کر کے ضائع کر دیں گے یعنی ان کی افزودگی ختم کر دیں گے؛ اور دیگر شرائط تھیں۔ بدلے میں وہ پابندیاں اٹھا لیں گے اور دس سال بعد، ایران کا معاملہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی آئی اے ای اے میں معمول کے مطابق ہو جائے گا۔ اس وقت، جب ملک کے ذمہ داران ہمارے پاس آئے اور 'دس سال' کہا، تو میں نے کہا کہ 'دس سال' ایک عمر ہوتی ہے، آپ 'دس سال' کیوں مان رہے ہیں؛ انہوں نے مختلف دلیلیں دیں، آخرکار طے پایا کہ 'دس سال' نہ مانیں، لیکن بہر حال انہوں نے مان لیا۔ وہ 'دس سال' انہی دنوں پورے ہو رہے ہیں؛ وہ دس سال کا دورانیہ جس میں ایران کا معاملہ آئی اے ای اے میں معمول پر آنا تھا، انہی دنوں ختم ہو رہا ہے۔ آج آپ دیکھیں، نہ صرف معاملہ معمول پر نہیں آیا، بلکہ ملک کے جوہری مسائل سلامتی کونسل، اقوام متحدہ اور آئی اے ای اے میں کئی گنا بڑھ گئے ہیں! مخالف فریق کی حالت یہ ہے، اس کا وعدہ یہ ہے! ہم نے وہ سارے کام کیے جو ہمیں کرنے تھے، اس نے پابندیاں نہیں اٹھائیں، اپنے کئے ہوئے وعدوں میں سے کوئی بھی پورا نہیں کیا اور بالآخر خود ہی، عام الفاظ میں، اس معاہدے یا اس معاہدہ نامے کو پھاڑ کر پھینک دیا جو طے پایا تھا، یکسر جے سی پی او اے سے نکل گیا اور اسے مسترد کر دیا۔
اگر آپ مخالف فریق سے مذاکرات کریں اور وہ مان جائیں جو وہ چاہتا ہے، تو یہ ملک کی شکست اور ایک قوم کی غیرت کو پامال کرنا ہے؛ اگر آپ نے اس کی دھمکی کو، جس کے ساتھ وہ آپ سے بات کر رہا ہے، مان لیا، تو صورت حال یہ ہوگی، اور اگر نہیں مانیں گے تو آج کی طرح ہی تنازعہ اور [مسائل] برقرار رہیں گے۔ لہٰذا یہ مذاکرات، صحیح مذاکرات نہیں ہیں۔ ہمیں تجربات نہیں بھولنے چاہئیں، گزشتہ دس سال کے اس تجربے کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ہماری گفتگو امریکہ کے بارے میں ہے؛ البتہ فی الحال میں یورپ کا موضوع نہیں اٹھانا چاہتا۔
ہمارا یہ مخالف ہر چیز میں وعدہ خلافی کرتا ہے، ہر معاملے میں جھوٹ بولتا ہے، فریب کاری کرتا ہے؛ موقع بے موقع فوجی دھمکیاں دیتا ہے؛ اگر اس کا ہاتھ پہنچے تو افراد کا قتل کرتا ہے، جیسا کہ اس نے ہمارے شہید سردار، شہید سلیمانی کو شہید کیا؛ یا جوہری مراکز پر بمباری کرتا ہے؛ اگر اس کے بس میں ہو تو ایسے کام کرتا ہے۔ مخالف فریق کی حالت یہ ہے؛ ایسے فریق سے مذاکرات نہیں کیے جا سکتے، بھروسہ اور اعتماد کے ساتھ بیٹھ کر بات نہیں کی جا سکتی، نہ بات سنی جا سکتی ہے اور نہ ہی کوئی معاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
میرے خیال میں امریکہ سے جوہری معاملے پر اور شاید دیگر معاملات پر مذاکرات سراسر بند گلی میں پہنچ گئے ہیں؛ یعنی ان کے لیے کوئی صحیح راستہ موجود نہیں ہے، یہ محض بند گلی ہے۔ غور کریں، دیکھیں۔ البتہ یہ اس کے فائدے میں ہے؛ یہ مذاکرات امریکہ کے موجودہ صدر کے فائدے میں ہیں؛ وہ اپنا سر اونچا کرے گا، کہے گا کہ میں نے ایران کو دھمکایا اور اسے مذاکرات کی میز پر بٹھا دیا؛ وہ دنیا میں اسے اپنی فتح قرار دے گا۔ لیکن ہمارے لیے یہ سراسر نقصان دہ ہے اور ہمارا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اور آخر میں جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ملک کی ترقی اور مضبوطی ہی راہ حل ہے؛ ہمیں مضبوط ہونا ہوگا۔ فوجی مضبوطی ضروری ہے، سائنسی مضبوطی ضروری ہے، حکومتی، ساختیاتی اور تنظیمی مضبوطی ضروری ہے۔ ہمارے ہوشیار اور درد مند ماہرین کو بیٹھ کر ملک کو تقویت دینے کے راستے ڈھونڈنے چاہئیں؛ اور ان راستوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ اگر یہ ہو گیا، تو پھر مخالف فریق دھمکیاں بھی نہیں دے گا؛ اگر اس نے دیکھا کہ مخالف مضبوط ہے، تو وہ دھمکی تک نہیں دے گا۔ میرے خیال میں اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔
خدائے متعال سے مدد مانگنی چاہیے، اللہ پر توکل کرنا چاہیے، ائمہ اطہار علیہم السلام سے توسل کرنا چاہیے کہ وہ شفاعت فرمائیں اور مدد کریں، اور قومی ہمت و حوصلے کو میدان میں لانا چاہیے اور ان شاء اللہ کاموں کو آگے بڑھانا چاہیے؛ اور یہ کام اللہ کی توفیق سے ہوگا۔
والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاتہ
1) حضرت امام رضا علیہ السلام کے یوم شہادت کی عزاداری کے موقع پر مختلف عوامی طبقات سے خطاب 24 اگست 2025
2) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرامپ