بظاہر شرم الشیخ معاہدہ امریکی حکومت اور کچھ عرب ممالک کی ثالثی میں فلسطینی مزاحمت اور صیہونی حکومت کے درمیان جاری ٹکراؤ کو ختم کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا لیکن درحقیقت اسے نیتن یاہو کو اس بندگلی سے نکلنے کا ایک راستہ قرار دیا جا سکتا ہے جس میں دو سالہ بے نتیجہ جنگ نے انھیں دھکیل دیا تھا۔ یہ جنگ نہ تو حماس کا خاتمہ کر سکی، نہ ہی فوجی آپریشنز کے ذریعے اسرائیلی قیدیوں کو رہا کروا سکی اور نہ ہی غزہ پٹی پر تل ابیب کا مکمل کنٹرول ممکن بنا سکی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے "امن" منصوبے کے ذریعے کوشش کی کہ اسرائیل جو چیز جنگ کے میدان میں حاصل نہ کر سکا، وہ سفارت کاری کے ذریعے اسے فراہم کر دیں۔ تاہم اس کا جو حتمی نتیجہ سامنے آيا ہے، وہ کسی بھی چیز سے زیادہ اسرائیل کی عسکریت پسندی کی منطق کی شکست اور فلسطینی مزاحمت کی فتح کی عکاسی کرتا ہے۔

محاصرے اور بمباری کے دو سال کے دوران مزاحمت نے بے مثال استقامت کے ساتھ غاصب حکومت کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کر دیا۔ القسام بریگیڈ نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ دشمن، انٹیلی جینس اور عسکری برتری کے باوجود، طاقت کے بل پر اپنے قیدیوں کو رہا کرانے میں شکست کھا گیا اور جیسا کہ مزاحمت نے وعدہ کیا تھا، قیدی صرف مذاکرات کے ذریعے ہی واپس لوٹیں گے۔ یہ جملہ درحقیقت میدان جنگ کی حقیقت کا نچوڑ تھا: "طاقت کے استعمال" کی حکمت عملی کی مکمل شکست، جو اسرائیلی حکومت کی تشکیل کے آغاز سے ہی اس کی سلامتی کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔

فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ گہرے انسانی اور سماجی پیغام کا حامل تھا۔ غزہ کے لوگوں کی جانب سے اپنے بچوں کے استقبال کے مناظر نے دکھا دیا کہ فلسطینی معاشرہ برسوں کی جنگ، محاصرے اور تباہی کے باوجود، اندر سے اب بھی متحد و مستحکم ہے۔ یہ واپسی نہ صرف افراد کی آزادی تھی بلکہ اجتماعی روح اور مزاحمت کے تاریخی حافظے کا احیاء بھی تھی، دوسرے الفاظ میں ہر آزاد ہونے والا قیدی، فلسطینی قوم کے عزم کے جاری رہنے کا مظہر ہے۔

اسٹریٹیجک سطح پر یہ تبادلہ مزاحمت اور غاصب صیہونی حکومت کے درمیان دفاعی قوت کے استحکام کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسرائیل نے پہلی بار تسلیم کیا کہ مزاحمت کی رضامندی کے بغیر وہ کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کر سکتا۔ اس حقیقت نے داخلی اور عالمی رائے عامہ میں اسرائیلی فوج کی امیج بری طرح بگاڑ دی ہے جبکہ اس کے برخلاف فلسطین کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کن کھلاڑی کے طور پر مزاحمت کی پوزیشن کو مزید مضبوط کیا ہے۔

شرم الشیخ معاہدہ اگرچہ ظاہری طور پر امن اور جنگ بندی کے نام پر درج ہوا لیکن درحقیقت یہ مزاحمت کی فتح کا کھلا اعتراف تھا، ہتھیار پر عزم کی فتح، ٹیکنالوجی پر استقامت کی جیت اور غاصبانہ قبضے پر ایمان کی فتحیابی۔ اب بنیادی سوال یہ نہیں ہے کہ کیا اسرائیل ایک بار پھر جنگ شروع کرے گا؟ بلکہ یہ ہے کہ کیا وہ اس شکست کے بعد اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو بحال کر پائے گا؟ کل ملا کر، قیدیوں کا تبادلہ ایک انسانی سودے سے زیادہ، ایک ایسی فوج کے خلاف مزاحمت کی فتح کے استحکام کا اعلان تھا جو خود کو ناقابل شکست سمجھتی تھی۔ اس تاریخی واقعے نے ظاہر کر دیا کہ ایک ایسی قوم کے عزم کا، جو اپنی آزادی کے لیے ڈٹ کر کھڑی ہو، کوئی بھی فوجی طاقت مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔