رہبر انقلاب کے تحریری و تقریری آثار کے تحفظ و فروغ کے ادارے کے تعلیمی و تحقیقی شعبے کے سربراہ محمد اسحاقی نے اس موقع پر مغرب کے تمدن اور کلچر کی ماہیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک، سامراجیت کے ذریعے تسلط پسندانہ نظام تک پہنچے ہیں اور اس کے مقابلے میں اسلامی انقلاب اپنی کامیابی کے تیسرے عشرے میں ہی مزاحمت کا ایک وسیع محاذ تشکیل دینے میں کامیاب ہوا ہے جس کی حدود، امریکا، یورپی ملکوں اور ان کی یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکس تک پہنچ چکی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ رہبر انقلاب اسلامی کے نظریے کے مطابق انسانی حقوق، ڈیموکریسی، سیکولرزم اور خواتین کے حقوق جیسے میدانوں میں مغربی تمدن کی نظریاتی بنیادیں اور اسی طرح فوجی، معاشی اور میڈیائی طاقت جیسی اس کی عملی بنیادیں بھی اس وقت جواز کے بحران میں مبتلا ہیں۔ غزہ، لبنان اور دیگر ممالک کے حالیہ واقعات نے یہ بات بخوبی عیاں کر دی ہے کہ مغرب، انسانی حقوق اور اقوام کی آزادی و خودمختاری پر یقین ہی نہیں رکھتا۔
اسحاقی نے کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ان بنیادوں پر پہلے سے زیادہ سوال کھڑے ہو گئے اور آج واضح ہو چکا ہے کہ مغربی تمدن، اقوام کے حقوق، انسانی حقوق اور عورتوں اور بچوں کے حقوق کا نہ تو احترام کرتا ہے اور نہ اس پر یقین رکھتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مغربی تمدن کے زوال اور اس کے منصوبوں کی ناکامی کی نشانیاں دنیا کے مختلف حصوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اب ان کے منصوبے کامیابی سے عملی جامہ نہیں پہن پاتے اور وسطی ایشیا، لاطینی امریکا اور مغربی ایشیا میں ان کے منصوبے لگاتار شکست کھاتے جا رہے ہیں۔ یہ مسلسل شکست، مغربی تمدن کے لیے جو خود کو انسانی کی پیشرفت کا محور سمجھتا تھا، بہت سخت ہے۔
اس موقع پر"ہم اور مغرب" کانفرنس کے سیکریٹری موسی حقانی نے کانفرنس کے انعقاد کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مغربی تمدن اور تسلط پسندانہ نظام کی ماہیت، اسٹریٹیجیز اور سامراجی و تسلط پسندانہ طریقوں کی شناخت، اس کانفرنس کے سب سے اہم اہداف میں ہے۔ اسی طرح اسلامی بیداری، ایرانی و اسلامی تشخص کی صلاحیتوں کی شناخت اور تسلط پسندانہ نظام سے ٹکراؤ میں مزاحمت کا بیانیہ، اس کانفرنس کے دیگر اہم موضوعات ہیں۔
انھوں نے کانفرنس کے کچھ دیگر موضوعات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ مغربی تمدن کی حقیقت اور اس کی شناخت کے لیے ضروری امور، مغرب کی سامراجی ماہیت اور پرانے سامراج سے لے کر جدید سامراجیت تک کے تاریخی سفر کی شناخت، دنیا پر مغرب کے تسلط کے حربے، چالیں، طریقہ ہائے کار اور اسباب، سامراجی ممالک اور ان کا ماضی، دنیا میں سامراج مخالف انقلابات، مغرب کے تسلط پسندانہ نظام اور سامراج سے مقابلے میں ایرانی تمدن کی صلاحیتیں اور گنجائشیں، صیہونی حکومت کی تسلط پسندانہ اور سامراجی ماہیت اور اسی طرح امریکا کی تسلط پسندی اور سامراجی ماہیت، اس کانفرس کے بعض دیگر اہم موضوعات ہیں۔
اس نشست میں کانفرنس کی پالیسیاں طے کرنے والی کونسل کے رکن موسی نجفی نے مغربی تمدن کے مقابلے میں اسلامی انقلاب کی فکری اور نظریاتی تشریح کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ عشروں میں، اسلامی انقلاب میں، عمل، سوچ سے آگے بڑھ گیا ہے اور فکری و نظریاتی باتوں پر کم ہی توجہ دی گئی ہے جبکہ شہید مرتضی مطہری کا کہنا تھا کہ اسلامی تحریکوں کے لیے ایک مشکل، مستقبل کے لیے منصوبوں اور پروگراموں کا فقدان ہے۔ سیاسی افکار و نظریات کے میدان کے اس محقق نے مشرق اور مغرب کی مقابلہ آرائی کی تاریخی جڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اور مغرب کے درمیان اختلاف کا ایک طویل ماضی ہے تاہم نیا ٹکراؤ فرانس کے انقلاب اور مصر میں نیپولین کی موجودگی کے بعد شروع ہوا جب مغرب نے خود کو دنیا کا مرکز اور دوسروں کو مضافات قرار دیا۔
موسی نجفی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ امام خامنہ ای کا سیاسی نظریہ، تمدن اور اصول پر مبنی ہے، کہا کہ ان کا سیاسی نظریہ صرف ردعمل والا نہیں ہے بلکہ وہ واضح اصولوں اور بنیادوں پر مبنی نیز اسلامی انقلاب کے دیگر فکری اجزاء سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ یہ نظریہ عملی میدان میں اور ملک کے انتظامی امور چلانے کی مختلف سطحوں پر عملی جامہ پہن چکا ہے اور ایک طرح کے عملی سیاسی فلسفے کی عکاسی کرتا ہے۔
کانفرنس کی پالیسیاں طے کرنے والی کونسل کے ایک اور رکن محمد جواد لاریجانی نے بھی اس نشست میں کہا کہ مغرب والوں کا خیال ہے کہ لبرل ڈیموکریسی، تاریخ کی سب سے اچھی ڈیموکریسی ہے اور حکومت چلانے میں وہ کافی کامیاب رہے ہیں جبکہ مغرب کے رویے میں ایک اہم چیز پائی جاتی ہے اور جسے اچھی طرح پہچانا جانا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ مغربی معاشرے سیکورٹی بیسڈ ہیں اور سیکورٹی کو ہر چیز پر ترجیح حاصل ہے۔ انھوں نے اس کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ نائن الیون سے پہلے امریکا اور یورپ میں بغیر عدالتی اجازت کے کسی کو بھی چوبیس گھنٹے سے زیادہ حراست میں لینا ممکن نہیں تھا اور ایذا رسانی پر قانونی پابندی تھی، حالانکہ عملی طور پر لوگوں کو ایذائيں دی جاتی تھیں لیکن گيارہ ستمبر کے بعد ایسے قوانین وضع کیے گئے جن سے مشتبہ لوگوں کو نامحدود وقت تک کے لیے جیلوں میں رکھا جا سکتا تھا۔ یہاں تک کہ واٹر بورڈنگ جیسے ایذا رسانی کے بعض طریقوں کو برطانیہ میں قانونی جواز حاصل ہو گیا۔ اس تبدیلی کی وجہ، مغربی افکار میں سیکورٹی کو حاصل ترجیح ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ میں مغرب سے مقابلے کے سلسلے میں دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ پہلا نظریہ یہ ہے کہ ہم مان لیں کہ ہمارے پاس امریکا سے سمجھوتہ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس نظریے کے تحت، ملک کی حفاظت کے لیے اپنے کچھ اصولوں کو نظر انداز بھی کرنا پڑ سکتا ہے اور مغرب کی تمام تر برائیوں کے باوجود اس پر کسی حد تک اعتماد کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسرا نظریہ، مزاحمت کا ہے۔ اس نظریے کے تحت امریکا کے مقابلے میں کسی بھی طرح کی کمزوری دکھانا جائز نہیں ہے، ہم علم و سائنس، ٹیکنالوجی اور قومی صلاحیتوں کے میدانوں میں مفلوج نہیں ہوئے ہیں۔ امام خمینی اور امام خامنہ ای کی تعلیمات کی بنیاد پر مزاحمت کا نظریہ، کمزوری اور جھکنے کو مسترد کرتے ہوئے ملکی صلاحیتوں پر اعتماد اور قومی وقار و خودمختاری کے تحفظ پر زور دیتا ہے۔ یہ نظریہ، مغرب کے ساتھ تعاون کی نفی نہیں کرتا تاہم اسے اپنے اصولوں اور قومی مفادات کے تناظر میں تسلیم کرتا ہے۔
محمد جواد لاریجانی نے کہا کہ ایٹم بم کے سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی کا فتوی یہ بات عیاں کرتا ہے کہ مکتب اہلبیت میں لامحدود تشدد نہیں ہے، یہاں تک کہ جنگ کی صورت میں بھی ہماری جنگ وحشیانہ نہیں ہوگی اور اس کی ٹھوس فقہی حدود اور ضوابط ہیں۔
یاد رہے کہ "ہم اور مغرب" کانفرنس کی اختتامی تقریب، انقلاب اسلامی تحقیقاتی و ثقافتی انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے علمی و تحقیقاتی مراکز کے تعاون سے 10 نومبر 2025 کو منعقد ہوگی۔ یہ کانفرنس گزشتہ سال 4 نومبر کو شروع ہوئی تھی اور ایران کے مختلف شہروں میں اس کی آن لائن اور آف لائن 54 نشستیں منعقد ہو چکی ہیں۔ اسی طرح کئی دیگر مماملک میں بھی اسی کانفرنس کے تحت کئی بین الاقوامی نشستیں منعقد کر کے اسلامی انقلاب سے سامراج کے ٹکراؤ کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جا چکا ہے۔ کانفرنس کے ذیل میں 533 مقالوں کے خلاصوں کا جائزہ لیا گیا اور جن میں سے 385 مقالوں کو منظور کیا گيا۔ اس کانفرنس کے تحت ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور اہم شخصیات سے 46 انٹرویو لیے گئے۔