قم کا نو جنوری کا واقعہ، اس آيت مبارکہ کا مظہر اور مصداق ہے: فَانتَقَمْنَا مِنَ الَّذِينَ اَجْرَمُوا وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ (سورۂ روم، آيت 47، پھر ہم نے مجرموں سے بدلہ لیا اور ہم پر اہلِ ایمان کی مدد کرنا لازم ہے۔) خداوند متعال کے لفظوں میں، مومنین کی مدد، اللہ کی ذمہ داری ہے۔ قرآن مجید میں کئي جگہوں پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے، جیسے: عَلَيْہِ حَقًّا فِي التَّوْرَاۃِ وَالْاِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ(سورۂ توبہ، آيت 111، یہ وعدہ اس (اللہ) کے ذمے ہے توریت، انجیل اور قرآن (سب) میں۔) اور دوسری کچھ آيتیں۔ کن حالات میں کہا گيا ہے کہ مومنین کی مدد کی جائے گي؟ یہ ان حالات میں ہے کہ جب ظاہری طور پر امید کا کوئي دریچہ موجود نہ ہو۔ ان ہی آيات کو ملاحظہ فرمائيے، یہ وہ وقت ہے جب اہل ایمان کا دشمن، مومنین کے سامنے ظاہری طاقت اور مضبوط پنجوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایسے حالات میں خداوند عالم فرما رہا ہے: وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ۔
امام خامنہ ای
9/5/2013