انابہ، یعنی اللہ کی طرف رجوع، خدا کی جانب برگشت، یہ توبہ و انابہ قدرتی طور پر اپنا ایک خاص مفہوم رکھتا ہے؛ جب ہم کہتے ہیں گناہ کی راہ سے پلٹ آئیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گناہ کے نقطے اور گناہ کی راہ کو پہچانیں اور اُس طرف نہ جائیں، یہ بہت اہم ہے، ہم اسی طرح (سوچے سمجھے بغیر) آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں، زیادہ تر ہم میں ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے کاموں سے اپنی خطاؤں سے، جو خطائیں سرزد ہورہی ہے ان کی طرف سے غافل ہوتے ہیں، جو کچھ خود انسان سے تعلق رکھتا ہے، زیادہ تر ان کے عیوب ہم نظرانداز کردیتے ہیں لہذا دوسرے افراد کا فریضہ ہے کہ وہ ہمارے عیب کو بتائیں، اگر ہم خود سمجھ رہے ہوتے تو اپنی اصلاح کرلیتے، دوسروں تک بات پہنچنے کی نوبت ہی نہ آتی اس کی ضرورت ہی نہ پڑتی کہ دوسرے ہم سے کہیں؛ یہ توبہ ؤ انابہ کہ جس کا ذکر ہوا ہے اس کا پہلا قدم یہ ہے کہ کام کے عیب کو سمجھیں، غور و فکر کریں کہ ہمارے کام میں کہاں مشکل ہے، ہم سے کہاں غلطی ہوئی ہے، ہم کہاں گناہ کر بیٹھے ہیں ، کہاں قصور سرزد ہوا ہے؛ یہ کام خود اپنی ذات سے ہم کو شروع کرنا چاہیے۔
امام خامنہ ای
18/ ستمبر/ 2008