زیادہ تر گمراہیاں جو پائی جاتی ہیں یا تو اُن گناہوں کے سبب ہوتی ہیں جو ہم سے سرزد ہوتے ہیں یا پھر ان بری عادتوں کے سبب ہوتی ہیں جو ہمارے وجود میں ہیں۔گناہ کا انجام گمراہی ہے مگر یہ کہ توبہ کا نور انسان کے دل میں جلوہ گر ہوجائے۔ بری عادتیں زیادہ تر ان گزشتہ گناہوں کا نتیجہ ہیں جو انسان کو گمراہی میں ڈال دیتی ہیں۔ اگر ہم لوگ ہر کام میں، ہر گفتگو میں، ہر عقیدے میں، خود پرستی و خود ستائی میں مبتلا رہیں اور ایک دوسرے کو ڈراتے رہیں اور کہیں کہ "صرف میں نے صحیح سمجھا ہے اور میں نے صحیح کام انجام دیا ہے" اُس وقت ہم کسی کے بھی مشورے، دلائل اور عقل و منطق کی کوئی پروا نہیں کریں گے اور کسی کی حق بات کو بھی کان دھرنے کے قابل نہیں سمجھیں گے۔ اگر ہمارے وجود میں حسد اتنی گہرائیوں تک اپنی جڑیں پھیلائے ہوئے ہو کہ اس کے سبب ہم اچھائی کو برائی سمجھنے لگیں اور ایک نمایاں حقیقت کو کسی جگہ قبول کرنے پر تیار نہ ہوں، اگر شہرت کی چاہ، مقام و مرتبہ کی خواہش، مال دنیا کی محبت ہم کو کسی حقیقت کو قبول کرنے سے روکے تو یہیں پر انسان کو سمجھ لینا چاہیے کہ "گمراہ کردینے والی خطرناک عادتیں ہمارے اندر گھر کر چکی ہیں۔"

امام خامنہ ای 

3 فروری 1995

 

drs-khlq-1.jpg