سامراج کے تسلط کے لئے راہ ہموار کرنے کی غرض سے لوگوں کو عیسائي بنانے کے لئے پادری روانہ کئے گئے۔ ان پادریوں کو بھی بخوبی علم تھا کہ کس ہدف کے تحت وہ سر گرم عمل ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ان کو ہدف سے آگاہی نہیں تھی لیکن آپ غور کریں کہ انہوں نے اس ہدف کے لئے کتنی مشقتیں اور زحمتیں برداشت کیں۔ ان کڑی زحمتوں کا نعم البدل پیسہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ آپ دیکھئے ایک شخص آدم خوروں کے نزدیک واقع علاقے میں جاکر سات سال کا طویل وقت گزاردیتا ہے۔ یہ چیزیں تو آدمی کتابوں میں پڑھتا ہے، دستاویزی فلموں میں دیکھتا ہے اور ناولوں میں پڑھتا ہے۔ مجھے ان ناولوں اور فلموں کی حقیقت کی بھی اطلاع ہے اور مجھے پتہ ہے کہ سامراجی دور میں کیا کچھ انجام دیا گیا ہے۔ یہیں ہمارے ملک میں ہی ایک یورپی پادری کو تہران، اصفہان اور دیگر علاقوں میں لایا گیا۔ برسوں کا طولانی عرصہ اس پادری نے اپے وطن سے دور سختیاں برادشت کرتے ہوئے ہمارے ملک میں گزارا۔ لوگ اس کی جانب سے بدگمان بھی تھے، کہتے تھے یہ تو کافر ہے، نجس ہے۔ اس دور میں جب عوام میں اس سلسلے میں بڑی حساسیت تھے لوگ دینی عقائد کے پابند تھے، پادری یہاں آتےتھے اور اسی ماحول میں ایک موہوم سی امید پر زندگی بسر کرتے تھے کہ شائد دو چار افراد عیسائیت قبول کر لیں۔ انہوں نے افریقہ کا تجربہ یہاں دہرانے کی کوشش کی۔ وہ اپنےہدف میں کامیاب تو نہیں ہوئے لیکن یہاں انہوں نے کئی برس گزار دئے۔ قاجاریہ دور کی تاریخ کا آپ مطالعہ کیجئے، ایک ماہر مشرقیات نے ایران میں برسوں کا عرصہ گزارا اور تاریخ ایران کے عنوان سے دو جلدوں کی ایک کتاب لکھی۔ یہ ماہر مشرقیات، جنوبی خراسان، بیرجند، زابل اور انہی علاقوں میں رہا اور اس نے اپنی کتاب مکمل کی۔ آپ پڑھئے کہ اس نے اپنے پادریوں کے بارے میں کیا باتیں لکھی ہیں۔
(صوبہ سیستان بلوچستان کے برادران اہل سنت کے امور کے لئے ولی فقیہ کے نمائندہ دفتر کے علما سے ملاقات کے دوران 1992)