معرض وجود میں آنے کے وقت سے ہی اسلامی نظام کو عالمی چیلنجوں کا سامنا ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دنیا کے اقتدار پرست اور صاحبان مال و دولت جو ہمیشہ اپنے مفادات کی فکر میں لگے رہتے ہیں دنیا میں کسی ایسی نئی طاقت کا وجود برداشت نہیں کر سکتے تھے جو ان کے ناجائز مفادات کے خلاف وجود میں آئے اور پھلے پھولے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح اور اسلامی نظام کی تشکیل کے ساتھ ہی اس طاقت کو وجود مل گیا۔ صرف اس حکومت اور اس نظام کا قیام استکبار کے لئے خطرہ نہیں تھا۔ اس سے زیادہ خطرہ اسے عالم اسلام میں اسلامی بیداری سے تھا۔ یہی خطرہ آج استکبار کے لئے سوہان روح بنا ہوا ہے۔ چنانچہ اس کے معاندانہ اقدامات عالم اسلام اور خاص طور پر دنیائے اسلام کے مرکز یعنی اسلامی نظام پر مرکوز ہیں۔ دوسری اہم چیز خالص اسلامی ثقافت، دینی فکر اور اس نظرئے کی ترویج ہے جو عالم اسلامی میں بیداری پر منتج ہوا۔ پورے عالم اسلام میں دین اسلام کا نام تھا، ہر جگہ یہ حقیقت موجود تھی البتہ اس کی گہرائی کم اور کہیں زیادہ تھی لیکن پوری امت مسلمہ کو عظیم وجود واحد، بے پناہ صلاحیتوں سے مالامال اور بیدار ہونے اور آگے بڑھنے کی توانائی سے آراستہ ایک امت واحدہ کے طور پر دیکھنا۔ یہ ایسا نظریہ ہے جو ایران میں پیدا ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اسلام کو اس زاویہ نگاہ سے دیکھنا، عالم اسلام میں اس طرز فکر کی ترویج کرنا، ایسا طرز فکر جس کی بنیاد پر ایک حکومت قائم ہو چکی ہے، جس نے اسلامی مفاہیم اور تعلیمات کے تناظر میں عوامی رائے پر استوار جمہوری حکومت کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، یہ ایسی چیز ہے جس کی تمام عالم اسلام میں ہمارے زمانے میں اور گزشتہ صدیوں میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔