بسم‌ الله‌ الرّحمن‌ الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

برادران عزیز محترم حضرات خوش آمدید! معینہ مواقع پر منعقد ہونے والے انتہائی شیریں و دل نشیں نشستوں میں ایک آپ ماہرین اسمبلی کے ارکان سے ملاقات ہے۔ آپ اپنے سماجی دائرے میں اپنا جو اثر رکھتے ہیں اور آپ کے باوقار و با شرف اجلاس کی جو تاثیر نظام کے تمام شعبوں پر ہوتی ہے، یہ سب بڑی اہم چیزیں ہیں۔ دعا کرتا ہوں کہ آپ نے جو غور و فکر کیا، جو تدبر کیا، جو کہا، جو چاہا اور اس کے لئے جو اقدام کیا ان شاء اللہ وہ لطف و نصرت خداوندی کا مشمول قرار پائے اور نتیجے تک پہنچے۔

جناب جنتی صاحب اور جناب شاہرودی صاحب نے جو اظہار خیال فرمایا اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں، واقعی بڑی مفید گفتگو تھی، اس طرح اجلاس کے حالات سے بھی ہم با خبر ہوئے۔ البتہ اس سے پہلے اس بارے میں ایک رپورٹ میں نے دیکھی تھی۔ حضرات نے بڑے اہم مسائل پر روشنی ڈالی جو بہت قابل توجہ ہے۔ الحاج شیخ علی اصغر معصومی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی یاد کرنا چاہیں گے، آپ ہمارے قدیمی دوستوں میں سے تھے اور کئی دفعہ ماہرین اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ گزشتہ انتخابات میں آپ نے خود ہی حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا، بیمار تھے، کام نہیں کر پا رہے تھے، ابھی چند روز قبل آپ جوار رحمت پروردگار کی جانب کوچ کر گئے (2)۔ دعا ہے کہ اللہ انھیں اپنے لطف و رحمت کے سائے میں رکھے۔

جناب جنتی صاحب اور جناب شاہرودی صاحب نے محرم کی اس مناسبت کا ذکر کیا، یہ بڑی اہم مناسبت ہے۔ محرم امام حسین کا مہینہ ہے، حسینی مہینہ ہے۔ سید الشہدا سلام اللہ علیہ کے وجود میں جلوہ گر و ضوفشاں جملہ اقدار کا مہینہ ہے، شہادت کا مہینہ ہے، جہاد کا مہینہ ہے، اخلاص کا مہینہ ہے، وفا کا مہینہ ہے، درگشت کا مہینہ ہے، دین خدا کی حفاظت پر توجہ دینے کا مہینہ ہے، دین مخالف قوتوں کے مقابل ثابت قدمی سے ڈٹ جانے کا مہینہ ہے۔ سید الشہدا کا مبارک وجود اور عاشورہ و محرم کے امور ان تمام چیزوں کا مظہر ہیں۔ واقعی یہ عقیدہ بالکل درست ہے کہ سید الشہدا کے قیام سے اسلام کی حفاظت ہوئی۔ یہ واقعہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اور گزرتی صدیوں کے دوران زیادہ زندہ و پائندہ ہوتا گیا ہے۔ آج یہ پروگرام سو سال قبل کی نسبت جب بظاہر عوام الناس کی دینداری کے آجکل جیسے مخالفین بھی نہیں تھے، زیادہ پرجوش، زیادہ ہمہ گیر، زیادہ پر رونق اور زیادہ وسیع پیمانے پر انجام پاتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کے کچھ مضمرات ہیں۔ یہ ساری چیزیں کچھ حقائق اور ایک تحریک کی نشانیاں ہیں جو حسین ابن علی سلام اللہ علیہ کی رہبری میں اس دنیا میں مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ ان شاء اللہ یہ تحریک آگے بڑھتی رہے گی اور گرہ کشا قرار پائے گی، قوموں کی گرہیں اور مشکلیں دور کرے گی۔

میں تین باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک بات مجھے اس اسمبلی کے بارے میں، ماہرین اسمبلی کے تعلق سے عرض کرنا ہے، ایک بات ملکی مسائل کے تعلق سے کہنا ہے جو تقریبا کئی دفعہ بیان بھی کی جا چکی ہے، ایک چیز علاقے و دنیا کے حالات اور ہم سے اور اسلامی جمہوریہ سے ان کی نسبت کے تعلق سے عرض کرنا ہے۔

پہلی بات یہ کہ یہ اسمبلی اپنی ساخت، اپنے فرائض اور گزشتہ برسو‎ں سے تاحال اپنی کارکردگی کے اعتبار سے منفرد اور بے مثال اسمبلی ثابت ہوئی ہے۔ اس حقیر کی نظر میں تو اس اسمبلی نے اب تک جو کام انجام دئے ان کے ساتھ ساتھ ایک اور بھی اہم ذمہ داری کی توقع اس سے کی جا سکتی ہے، وہ ہے انقلاب اور راہ انقلاب پر دراز مدتی اور اسٹریٹیجک نظر رکھنا۔ ہمارے اداروں میں یہ چیز اب تک نہیں ہے۔ اس کام کے لئے کوئی الگ ادارہ نہیں ہے۔ البتہ یہ رہبر انقلاب کے فرائض میں شامل ہے اور حتی المقدور، البتہ اس حقیر کے اندر جو نقائص ہیں ان کے ساتھ ساتھ، یہ کوشش کی گئی ہے کہ یہ کام انجام دیا جائے، لیکن اس ہدف کے لئے کوئی الگ ادارہ نہیں ہے۔ تینوں شعبے (عدلیہ، مقننہ، مجریہ) ملک کا نظام چلانے کے لئے ہیں، انھیں ملک چلانا ہے۔ ہر شعبہ کسی ایک حصے کو اپنے مخصوص انداز میں سنبھالتا ہے۔ البتہ انھیں نظم و نسق انقلابی انداز میں چلانا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن ان کی نظر فطری طور پر اسی راستے پر مرکوز ہے جس پر وہ آگے بڑھ رہے ہیں، جس ڈگر پر وہ چل رہے ہیں۔ تو ماضی کے ان 39 برسوں میں اسی طرح آئندہ کی دہائیوں میں انقلاب کے پورے پیکر پر دراز مدتی اور اسٹریٹیجک نظر رکھنے کے لئے کسی مرکز کی ضرورت ہے جو اس نظر سے دیکھے۔ اب اس کا کیا مطلب ہوا؟ میں تھوڑی وضاحت کرتا ہوں۔ یعنی اس ماہرین اسمبلی کے اندر ایک نظریہ پرداز کمیٹی کا تصور کیا جا سکتا ہے، اس لئے کہ اس 70، 80 رکنی اسمبلی میں بحمد اللہ صاحبان فکر و تدبر کی کمی نہیں ہے۔ اس نظریہ پرداز کمیٹی کی ذمہ داری یہ ہو کہ روز اول سے تا حال انقلاب کے اس سفر پر نظر ڈالے۔ ظاہر ہے اس انقلاب کے کچھ اہداف رہے ہیں۔ اہداف کی جانب یہ تحریک گامزن ہے۔ یہ کمیٹی جائزہ لے اور دیکھے کہ ان اہداف سے ہم کس حد تک قریب ہوئے ہیں؟ ہم کون سے اہداف کے قریب پہنچے ہیں اور کون سے اہداف کے سلسلے میں ہمارے یہاں وقفہ پیدا ہوا ہے؟ کس ہدف کے سلسلے میں پسپائی ہوئی ہے؟ اس لئے کہ ایسے بھی بعض امور ہو سکتے ہیں کہ مثلا اوائل انقلاب میں اس ہدف کے تعلق سے سرگرمیاں اور پیشرفت ہوئی ہو لیکن بعد میں صرف ٹھہراؤ پیدا نہیں ہوا بلکہ پسپائی بھی ہوئی ہے۔ اس کی ہمیں شناخت ہونی چاہئے۔ اگر ہم کچھ مسائل کے بارے میں یہ کیفیت دیکھتے ہیں تو اس اسمبلی کو چاہئے کہ اس کی بنیاد پر اپنی سفارشات تیار کرے۔ مطالبات اور سفارشات کی بات ہوئی جو اسمبلی کے اجلاس میں حضرات کی تقاریر میں بھی تھے۔ حضرات نے یہاں بھی اشارہ کیا اور بیان فرمایا۔ میں بھی پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ماہرین اسمبلی کو چاہئے کہ گوناگوں اداروں کے سامنے کچھ مطالبات رکھے۔ یہ مطالبات اس اسٹڈی کی بنیاد پر تیار کئے جا سکتے ہیں۔ آئیے ایسے کچھ امور کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر 'نہ شرقی نہ غربی' (نہ مشرقی بلاک نہ مغربی بلاک) یہ ایک نعرہ تھا۔ آج مشرقی بلاک کا تو وجود نہیں ہے۔ لیکن مغربی بلاک موجود ہے اپنی پوری قوت و توانائی کے ساتھ موجود ہے۔ 'نہ غربی' کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے ہم مغرب کے گرویدہ نہ بن جائیں۔ مغربی کلچر کو اپنا نہ لیں۔ وطن عزیز کو خالص بنائیں، اپنی ثقافت کو مغرب کی پست ثقافت کی آمیزش سے بچائیں۔ سیاسی میدان میں مغرب کے زیر اثر نہ رہیں، مغرب سے ملحق نہ ہو جائیں، مغرب کے مطیع و فرماں بردار نہ بن جائیں۔ 'نہ غربی' کا یہ مطلب ہے۔ البتہ 'نہ شرقی' کا بھی یہی تقاضا ہے لیکن آج مشرقی بلاک کا وجود ہی نہیں ہے۔ مغرب کہاں ہے؟ امریکہ ہے، یورپ ہے۔ یورپی حکومتوں کی ایک ثقافت ہے، ایک سیاست ہے، دراز مدتی منصوبہ اور روڈ میپ ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے عہدیداران کی حیثیت سے ہماری یہ کوشش ہو کہ مغرب کی منشا و چاہت والی روش سے خود کو بچائیں، یہ ایک فریضہ ہے۔ ہم نے اب تک اس فریضے پر عمل کیا ہے یا نہیں؟ کس حد تک عمل کیا ہے؟ کہاں کہاں عمل کیا ہے؟ اگر کچھ جگہوں پر عمل نہیں ہو پایا ہے تو رکاوٹ کیا تھی؟ اس مشکل کی شناخت کی بنیاد پر اسمبلی کو چاہئے کہ اپنا مطالبہ طے کرے۔ ممکن ہے آپ کا یہ مطالبہ اس حقیر سے ہو، ممکن ہے حکومت سے ہو، ممکن ہے عدلیہ سے ہو، ممکن ہے پاسداران انقلاب فورس سے ہو، ممکن ہے پارلیمنٹ سے ہو۔ اس تناظر میں مطالبہ پیدا ہوگا۔ یہ ایک مثال ہے۔

یا مثال کے طور پر اقتصادی شعبے کو لے لیجئے! ملکی اقتدار و توانائی کا ایک ستون اقتصادی قوت اور اقتصادی طاقت ہے۔ قوت و اقتدار کا ایک بنیادی عنصر نیشنل کرنسی کی طاقت ہے۔ یعنی نیشنل کرنسی کے اندر 'طاقت خرید' ہونی چاہئے، یہ کرنسی شہریوں کے لئے اور کرنسی رکھنے والوں کے لئے سرمایہ پیدا کرے۔ اگر غلط اجرائی پالیسیوں کی وجہ سے، غلط فیصلوں کی وجہ سے اور مختلف طرح کی بے توجہی کی وجہ سے ہم ایسی حالت میں پہنچ گئے کہ قومی کرنسی مسلسل تنزل کا شکار رہی تو یہ ایک پسماندگی ہے، تنزل ہے۔ ہمیں اس کی نشاندہی کرنا چاہئے اور اس کی بنیاد پر اپنا مطالبہ پیش کرنا چاہئے، مطالبہ طے کرنا چاہئے۔ یہ مطالبہ حکومت سے بھی ہو سکتا ہے اور پارلیمنٹ سے بھی ہو سکتا ہے، اسی طرح بقیہ  اداروں سے ہو سکتا ہے۔

انقلاب میں جو چیزیں شروع سے موضوع بحث رہیں ان میں ایک انصاف و مساوات ہے۔ انصاف یعنی ملک میں غریب اور امیر کے فاصلے کو کم کرنا، غریبی سے لڑنا اور ملک کی ثروت کو صحیح انداز میں تقسیم کرنا۔ یہ مارکسی نظرئے سے ہٹ کر ایک نظریہ ہے۔ کمیونسٹ جس انصاف و مساوات کی بات کرتے ہیں یہ اس سے الگ ہے۔ یہ اسلام کا نظریہ ہے۔ اس مفہوم پر اسلامی دستاویزات و تعلیمات میں تاکید کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم دولتمندوں کی دولت پر ہاتھ رکھ دیں اور اسے چھین لینے کی کوشش کریں! ایسا نہیں ہے۔ بلکہ ملک کو اس طرح چلایا جائے کہ غریب اور امیر کے بیچ فاصلہ کم ہو۔ یہ بہت اہم موضوع ہے اور آج ساری دنیا میں زیر بحث ہے۔ یہ 'جینی عددی سر' (Gini coefficient) (جسے کبھی کبھار جینی تناسب Gini ratio کہا جاتا ہے) جو آج دنیا میں زیر بحث ہے اور اس وقت اقتصادی معیار اور انڈیکیٹر کے طور پر دیکھا جاتا ہے، وہ بھی یہی چیز ہے۔ در حقیقت یہ ایک طرح سے غریب اور امیر کا فاصلہ ہی ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے اس شعبے میں ہم نے کتنی پیشرفت کی ہے؟

یا مثال کے طور پر انقلابی جذبات و افکار کی حفاظت و پاسبانی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کی حیات کے تسلسل کی شرط ہے انقلابی جذبے اور انقلابی فکر کا باقی رہنا۔ اگر انقلابی جذبہ نہ رہا تو اسلامی جمہوریہ کا وجود بھی نہیں رہے گا۔ ہاں، کوئی نہ کوئی حکومت تو اقتدار میں ہوگی لیکن وہ حکومت اسلامی جمہوریہ نہیں ہوگی۔ عوام نے جو مہم چلائی، جو خون دیا اسلام اور اسلامی شریعت کے احیاء کے لئے جو زحمتیں اور صعوبتیں اٹھائیں وہ سب ضائع ہو جائیں گی، پامال ہو جائیں گی۔ لہذا اسلامی جمہوریہ کی حفاظت کے لئے انقلابی جذبہ ناگزیر ہے۔ یہ جذبہ اس وقت کس حالت میں ہے، کیا ماند پڑ گیا ہے یا اور بڑھا ہے، اپنی جگہ قائم ہے؟ اس جذبے کے خلاف کیا سرگرمیاں اور ریشہ دوانیاں انجام دی جا رہی ہیں؟ ان سرگرمیوں کے سد باب کا کیا طریقہ ہے؟ اس کی بنیاد پر ہم اپنا مطالبہ تیار کریں۔ مثال کے طور پر میں اپنی مختلف تقریروں میں کہتا رہتا ہوں کہ انقلابی نوجوانوں کی مدد کیجئے! اس کا یہی مطلب ہے۔ یہ انقلابی پہلو سے ملک کی پیشرفت کے عمل کے جائزے کی بنیاد پر کیا جانے والا مطالبہ ہے۔ البتہ اس میدان میں وطن عزیز نہ صرف یہ کہ پیچھے نہیں گیا بلکہ کافی آگے گیا ہے۔ یہ چیز مسلمہ ہے اور آسانی سے اسے ثابت بھی کیا جا سکتا ہے۔

یا مثال کے طور پر عوام الناس کی دینداری کا موضوع ہے، ظاہر ہے ہم چاہتے ہیں کہ عوام دیندار ہوں۔ بعض اوقات یہ جملہ دہرایا گیا کہ 'ہم عوام کو جبرا بہشت میں نہیں لے جانا چاہتے۔' ہماری نظر میں یہ جملہ درست نہیں ہے، اس میں ایک مغالطہ ہے۔ کوئی بھی شخص کسی کو جبرا بہشت نہیں لے جا رہا ہے، لیکن ہمارا یہ تو فرض ہے کہ عوام کے سامنے جنت کا راستہ کھولیں، عوام کو ترغیب دلائیں۔ پیغمبروں کو اسی مقصد کے تحت مبعوث کیا گيا۔ وہ لوگوں کو بہشت لے جانے کے لئے آئے تھے، اس لئے آئے کہ عوام کو جہنم میں جانے سے بچائیں۔ انبیاء کا بھیجا جانا، صحیفوں کا نزول اور یہ ساری زحمتیں اور مجاہدت اسی لئے تھی کہ لوگ جہنم میں نہ جانے پائیں۔ یہ ہمارا فریضہ ہے، ہمیں یہ کام انجام دینا چاہئے۔ عوام کو دیندار بنایا جانا چاہئے، اس میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ البتہ اس کی روش اور انداز درست ہونا چاہئے۔ اب اگر کوئی کہتا ہے کہ اسلام میں زور زبردستی نہیں ہے تو یہ جملہ بھی بر محل نہیں ہے۔ کیونکہ ایسا ہے تو پھر شرعی حد جاری کرنے کا کیا فلسفہ ہے؟ یہ جو «فَاجْلِدُوا... مِائَةَ جَلدَة» (3)  یا  «فَاجلِدوهُم ثَمانینَ جَلدَة» (4) یہ کیا ہے؟ یہ طاقت کا استعمال ہی تو ہے۔

یہ سب اسٹریٹیجک اسٹڈی اور مطالعے کے موضوعات ہیں۔ یعنی جب آپ کی نظریہ پرداز کمیٹی بیٹھے گی اور انقلاب کے پورے سفر کا جائزہ لیگی، 39 سال کے عرصے میں اس پورے نظام پر نظر دوڑائے گی تو ان مذکورہ امور اور اسی طرح کے دوسرے دس پندرہ مسائل کو زیر بحث لا سکتی ہے اور دیکھ سکتی ہے کہ کس شعبے میں کتنی پیشرفت ہوئی ہے۔ پیشرفت ہوئی ہے تو ترغیب دلائی جانی چاہئے، ایسے اقدامات کئے جائیں کہ پیشرفت کا یہ عمل جاری رہے، اس کی حفاظت کی جائے، اس لئے کہ اس پیشرفت کے کچھ دشمن اور مخالف یقینا ہیں۔ کچھ شعبوں میں ممکن ہے ہم جمود کا شکار ہو گئے ہوں اور کچھ معاملوں میں ہم تنزلی کا شکار ہوئے ہوں۔ سوچنا پڑے گا کہ ان امور کے بارے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟ یہیں پر مطالبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ مطالبات ان فروع اور اجرائی مطالبات سے کہیں زیادہ اہم ہیں جو کسی صوبے یا شہر کی کسی مشکل سے تعلق رکھتے ہیں۔ بے شک وہ بھی مسائل ہیں، ہم ان کی نفی نہیں کرتے، لیکن ماہرین اسمبلی کے شایان شان اس قسم کے مسائل ہیں۔ میری نظر میں یہ بڑا بنیادی اور اہم کام ہے جو اس اسمبلی کو انجام دینا چاہئے۔

میں نے ملکی مشکلات کے تعلق سے جو نکتہ بیان کرنے کی بات کہی اور جسے بارہا بیان بھی کیا گيا ہے اور ہم بھی اسے ایک بار پھر بیان کرنا چاہتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم حکام کو بھی اور عوام کو بھی یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ملک کی مشکلات کا حل صرف اور صرف اس ملک کے عوام کے ہاتھوں ہی ہو سکتا ہے، خواہ وہ اقتصادی مشکلات ہوں، ثقافتی مشکلات ہوں یا اس ملت کی دیگر مشکلات ہوں، انھیں وہی حل سکتے ہیں۔

میں چند جملے اپنی پچھلی بحث کے تعلق سے عرض کرتا چلو البتہ اس قضیئے میں بھی وہ بات صادق آتی ہے، یہ کہ جب آپ انقلاب کے اہم مسائل میں سے کسی ایک موضوع کے تعلق سے کسی نتیجے پر پہنچ گئے تو اسے عمومی بحث میں تبدیل کیجئے۔ مثال کے طور پر اخبارات و جرائد میں شائع کروائیے۔ آپ کا دائرہ وسیع ہے، آپ میں سے بہت سے حضرات امام جمعہ ہیں یا صوبوں کی نمایاں ہستیاں ہیں، یا دار الحکومت کی اہم ہستیوں میں شمار ہوتے ہیں، آپ کے پاس پلیٹ فارم ہے، عوام سے رو برو ہوتے ہیں، عوام سے خطاب کر سکتے ہیں۔ اس بات کو بار بار دہرائیے، بیان کیجئے تاکہ وہ عمومی بحث میں تبدیل ہو جائے۔ عوام کے اندر رائج سوچ اور عوامی مطالبہ بن جائے۔ جب کوئی چیز رائج سوچ اور عمومی مطالبہ بن جاتی ہے تو فطری طور پر عمل اور نفاذ کے مرحلے سے قریب ہو جاتی ہے۔ یہ قضیہ بھی ایسا ہی ہے، ملکی مشکلات کے حل کے لئے داخلی افراد اور توانائیوں پر تکیہ کرنا بھی ایک عمومی فکر اور عمومی نظریہ بن جانا چاہئے۔ اسے اتنا بیان کیا جائے، اس پر اتنی دلیلیں قائم کی جائیں، اتنی تشریح کی جائے، دہرایا جائے کہ ایک مسلمہ عمومی فکر کی شکل اختیار کر لے۔

ہمارے پاس جوش و جذبے سے بھرے نوجوان ہیں، ماہر افراد ہیں، اچھے صنعت کار ہیں، اچھے سرمایہ کار ہیں، اچھا محنت کش طبقہ ہے، اچھے کاشتکار ہیں، اچھے اساتذہ ہیں، اچھے معلم ہیں۔ اس قسم کے افراد کے ہاتھوں امور کی اصلاح کا عمل انجام پانا چاہئے۔ ملک کی مشکلات و مسائل کا ازالہ انھیں کرنا چاہئے۔ ملک کی اقتصادی مشکلات کو بھی انھیں حل کرنا چاہئے اسی طرح دیگر گوناگوں عملی مشکلات کا بھی تصفیہ کرنا چاہئے۔ اغیار کے بس کا کچھ نہیں ہے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا سے قطع تعلق کر لیجئے، یہ ہرگز میرا موقف نہیں ہے۔ انقلاب کے آغاز سے ہی یہ حقیر ان لوگوں میں تھا جو دنیا سے رابطے پر زور دیتے آئے ہیں، آج بھی میرا وہی موقف ہے، لیکن میری بحث اس نکتے سے ہے کہ ہمیں اپنا مضبوط اور توانا پیر اغیار کی بیساکھی سے تبدیل نہیں کرنا چاہئے۔ اگر ہم خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے اور اپنے پاؤں پر ٹکنے کے بجائے اغیار کی چھڑی کو سہارا بناتے ہیں تو یہ غلط ہے۔ البتہ عالمی روابط میں مذاکرات میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ایٹمی مذاکرات کے سلسلے میں میرا جو اعتراض تھا اور آج بھی ہے اور جسے میں عہدیداران سے بھی نجی اور عمومی ملاقاتوں میں بارہا بیان بھی کرتا رہا ہوں، یہی ہے؛ میں یہ کہتا ہوں کہ مذاکرات کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا، مذاکرات میں کوئی مضائقہ نہیں تھا، لیکن مذاکرات مین ضروری توجہ اور باریک بینی کا خیال رکھا جانا چاہئے تھا، تاکہ یہ نہ ہو کہ فریق مقابل تو کوئی بھی حرکت کر بیٹھے اور اسے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی نہ سمجھا جائے لیکن اگر ہم ذرا سا پہلو بھی بدل لیں تو اسے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی گردانا جائے۔ یہ غلط ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ یہ سب داخلی توانائی پر عدم توجہ اور عدم اعتماد کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ فریق مقابل اور بیرونی افراد پر بھروسہ کر لینے کی وجہ سے یہ حالت پیدا ہوتی ہے۔

یہ بھی عرض کر دوں کہ اغیار سے کبھی آس نہیں لگانا چاہئے۔ دنیا کے ساتھ مل کر ہمیں کام کرنا ہے، اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں، مگر دنیا کے ساتھ کام کرنے کے کچھ التزامات بھی ہوتے ہیں، ہم وہ التزامات بھی قبول کریں گے اور اپنے کندھے پر یہ ذمہ داری اٹھائیں گے، لیکن بیرونی ممالک پر تکیہ ہرگز نہیں کریں گے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے اور ملک کے باہر کی فضا میں ہمارے دشمن بہت ہیں۔ دشمنوں کا ایک محاذ ہمارے مقابل موجود ہے۔ بحمد اللہ اب تک تو ہم اس محاذ پر ضرب لگاتے رہے ہیں، اسے شکست دیتے رہے ہیں، پسپا کرتے رہے ہیں، آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے مقابل کوئی ایک دشمن نہیں بلکہ دشمنی کا وسیع محاذ ہے۔

دنیا اور علاقے کے حالات کے تعلق سے مجھے جو بات عرض کرنا ہے وہ اسی آخر الذکر قضئے کا تسلسل ہے۔ میں اختصار سے عرض کروں کہ بحمد اللہ عالمی امور میں ہماری پیشرفت ہو رہی ہے۔ یعنی پسپا ہونا تو دور کی بات ہے، ہماری پیش قدمی رکی بھی نہیں ہے، ہم آگے بڑھ رہے ہیں، بعض لوگ جو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ 'دنیا میں ہماری عزت چلی گئی، دنیا میں ہمیں خفت اٹھانی پڑی ہے۔' اس کے بالکل برخلاف فضل پروردگار سے، نصرت خداوندی کے طفیل میں اور عزت پروردگار کے سائے میں اسلامی جمہوریہ معزز اور با وقار ہے، اس کا اثر و نفوذ بڑھا ہے۔ دشمن کو یہی بات سخت چراغ پا کئے ہوئے ہے۔

آپ نے اقوام متحدہ میں امریکہ کے اس صدر (5) کی احمقانہ تقریر سنی۔ یہ باتیں آپ نے براہ راست یا کسی کی زبانی سنی ہوں گی۔ انھوں نے بڑے گھٹیا اور نازیبا الفاظ استعمال کئے، گینگسٹروں کی زبان، کاؤبوائے کی زبان استعمال کی، بے بنیاد اور بے معنی دھمکیاں دیں اور سو فیصدی غلط تجزیہ کیا۔ جھوٹ اور خلاف حقیقت باتوں سے بھری ہوئی تقریر! اس تقریر میں شاید بیس جھوٹ تو بالکل سامنے نظر آ جائیں گے۔ آشفتگی سے بھری ایک تقریر جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ جھلاہٹ میں مبتلا ہیں، بے دست و پا ہوکر رہ گئے ہیں، فکری اعتبار سے بھی مشکل اور پسماندگی میں مبتلا ہیں، دماغی ہلکے پن کا شکار ہیں۔ یعنی اس تقریر میں یہ تینوں چیزیں تھیں۔ غصہ بھی ظاہر ہوا، لاچارگی بھی ظاہر ہوئی یعنی سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ زمینی حقائق کے سامنے اب کیا کریں، دماغی ہلکا پن بھی ظاہر ہوا۔ جو باتیں کہی گئيں وہ امریکہ جیسی قوم کے لئے باعث افتخار نہیں ہیں۔ میرے خیال میں تو امریکہ کی اہم شخصیات کو اس پر شرم محسوس ہونی چاہئے، انھیں ایسے صدر پر اور اس کی ان باتوں پر شرم آ بھی رہی ہے۔ مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں کہ انھوں نے کیا کہا اور کس طرح کہا۔ میں بس یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے غصے کی وجہ کیا ہے۔ یہ ہماری پیشرفت کا معاملہ ہے، اس برہمی کا قضیہ بہت اہم ہے۔ اس تقریر میں جو چیز سب سے زیادہ واضح نظر آئی وہ برہمی اور جھلاہٹ تھی۔ انھیں کیوں اتنی ناراضگی ہے؟

غصہ اس بات پر ہے کہ مغربی ایشیا کے اس علاقے کے لئے جسے وہ مشرق وسطی کہتے ہیں ان کے پاس پندرہ سولہ سال سے ایک منصوبہ تھا، اسی کی بنیاد پر انھوں نے ایک زمانے میں 'جدید مشرق وسطی' کی باتیں کی تھیں، کسی زمانے میں 'گریٹر مڈل ایسٹ' کی باتیں کر رہے تھے۔ اس خطے کے لئے ان کا ایک پلان تھا۔ اس منصوبے کے مرکزی محور تھے شام، لبنان، عراق۔ یہ تین ممالک، تین محور اور تین مرکز تھے جہاں اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جانا تھا۔ کس طرح عملی جامہ پہنایا جانا تھا؟ ان تینوں ملکوں میں ایسی حکومتیں اقتدار میں آتیں جو امریکہ کی فرماں بردار ہوں، امریکہ کی جو بھی مرضی ہو اسی کے مطابق عمل کریں، اس کے لئے کام کریں۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ پورا علاقہ صیہونی حکومت کے زیر نگیں ہو جائے گا، اس علاقے میں انھوں نے جو 'نیل سے فرات تک' کا خواب دیکھا تھا وہ ایک طرح سے پورا ہو جائے گا۔ اگر ظاہری سیاسی شکل میں نہ سہی تو حقیقی و نفسیاتی تسلط اور غلبے کے اعتبار سے ہی سہی۔ وہ یہ کرنا چاہ رہے تھے۔ وہ چاہ رہے تھے کہ کچھ ایسا انتظام کریں کہ عراق جیسا عظیم تاریخ اور بے پناہ افتخارات کا مالک ملک صیہونیوں اور امریکیوں کے زیر تسلط چلا جائے۔ شام جو اتنا عظیم مرکز ہے، جو صیہونی حکومت کے مقابلے میں اسلامی مزاحمتی محاذ کا مرکز ہے، حقیقی معنی میں صیہونی حکومت کے کنٹرول میں چلا جائے۔ لبنان کا ماجرا تو بالکل واضح ہے۔ ان کی منشا یہ تھی، وہ یہ کرنا چاہتے تھے۔

اب آپ حقائق پر نظر ڈالئے، دیکھئے کہ زمینی حقائق اس سے کتنے مختلف ہیں جو وہ چاہتے تھے۔ لبنان کو دیکھئے، وہ کچھ نہیں بگاڑ پائے۔ عراق کو دیکھئے، جو کچھ وہ چاہتے تھے اس کے بالکل برعکس ہوا ہے۔ شام کو دیکھئے! البتہ شام میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بے شمار جرائم کئے ہیں، ان کے ہاتھ کہنیوں تک شام کے عوام کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں، اس میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے، انھوں نے داعش کی تشکیل کی، ان تکفیری عناصر، النصرہ فرنٹ وغیرہ کی تشکیل کی اور ایک طرح سے عوام کا قتل عام کیا، یہ سب کچھ انھوں نے کیا، لیکن اپنا مشن پورا نہیں کر پائے۔ آج آپ دیکھئے داعش کے قضیئے کو، داعش کا قضیہ در حقیقت اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے، تکفیری عناصر پوری طرح الگ تھلگ پڑ گئے ہیں، جن حالات کو وہ تبدیل کرکے نئے حالات قائم کرنا چاہتے تھے وہ اور زیادہ محکم صورت اختیار کر چکے ہیں، اس کے بالکل بر عکس ہوا ہے جو امریکہ چاہتا تھا۔ جب امریکی اس پر غور کرتے ہیں تو ایران کو اس معاملے میں اثرانداز اور ذمہ دار پاتے ہیں، لہذا وہ برہم ہیں۔ یہ اچھی بات ہے، جناب بہشتی مرحوم کے بقول؛ «عصبانی باش و از این عصبانیت بمیر» (چراغ پا  رہو اور اسی تلملاہٹ میں مر جاؤ!)، چراغ پا ہیں تو رہیں! حقیقت ماجرا یہ ہے، جھگڑا اسی بات کا ہے۔ کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ کوئی یہ سوچنے لگے کہ صاحب! اتنی بڑی طاقت ایران کے خلاف ہو گئی ہے۔ جی نہیں، جو رد عمل وہ ظاہر کر رہے ہیں وہ ان کی کمزوری  کی علامت ہے، ان کی پسپائی کی نشانی ہے، پیہم ہزیمتوں پر ان کی برہمی کی نشانی ہے۔ ان کی ناک زمین پر رگڑ دی گئی ہے، اس لئے وہ اس قدر ناراض ہیں اور اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں، یہ پست بیان دے رہے ہیں اور اس طرح کی حرکتیں کر رہے ہیں۔

بنابریں میں جوعرض کرنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ جہاں تک آج کی دنیا میں اسلامی جمہوریہ کی شراکت کی بات ہے تو اسلامی جمہوریہ بحمد اللہ کامیاب رہی ہے، «وَلِله العِزَّةُ وَلِرَسولِه وَلِلمُؤمِنین» (6) الحمد للہ صاحب ایمان اسلامی جمہوریہ اس آیہ کریمہ کی مصداق بنی ہے اور اسے یہ عزت ملی ہے، ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اس کی حفاظت کرنا چاہئے۔ عقل سے، تدبیر سے، صائب فکر سے، صحیح منصوبہ بندی سے، تعلقات کی نوعیت، فیصلوں کی نوعیت اور اظہار خیال کی نوعیت میں غلطیوں سے بچتے ہوئے اس عزت کی ہم حفاظت کریں اور اس میں مزید اضافہ کریں۔

یہ وقار جدوجہد سے ملا ہے۔ میں نے جو عرض کیا کہ مجاہدت کا جذبہ آج ماضی سے زیادہ بہتر ہے تو اس کی ایک مثال یہی ہے۔ اب آپ اس عزیز شہید محسن حججی (7) کو دیکھئے، یہ ایک نمونہ ہے۔ محسن حججی جیسے نوجوانوں کی ہمارے یہاں کمی نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے کچھ خاص مصلحتوں سے اس ایک نمونے کو زیادہ نمایاں کر دیا، دکھا دیا، تاکہ سب کی نگاہ کے سامنے آ جائے اور سب دیکھیں اور اس مایہ ناز اور با شرف حقیقت کو مانیں کہ فضل پروردگارسے اور  توفیق خداوندی سے نوجوانوں کے اندر یہ انقلابی جذبہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے لوگ ہیں جو ہمیں خط لکھتے ہیں، التجا کرتے ہیں، واقعی التجا کرتے ہیں کہ ہمیں جانے کی اجازت دے دیجئے۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جنھیں یہ سہولت فراہم ہے کہ یہاں ایک فون کر لیتے ہیں یا خط ارسال کرتے ہیں، اس سے کئی گنا زیادہ وہ افراد ہیں جن کے لئے یہ امکانات فراہم نہیں ہیں۔ التجائیں کرتے ہیں کہ ہمیں وہاں بھیج دیجئے کہ ہم جاکر دشمن سے لڑیں! یہ ہمارے نوجوانوں کا وہی جذبہ ہے۔ اس کے برخلاف کار فرما عوامل کو دیکھتے ہوئے اسے ایک معجزہ کہنا چاہئے۔ ان عوامل میں ایک تو 'ورچوئل اسپیس' ہے جس کا ذکر جناب جنتی صاحب نے کیا۔ آپ کی بات اور آپ کا انتباہ بالکل بجا ہے۔ ہم خود بھی پوری سنجیدگی سے اس پر کام کر رہے ہیں۔ اس 'ورچوئل اسپیس' کے باوجود، ان سازشوں کے باوجود اور ان وسوسوں کے باوجود آپ دیکھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ اس طرح کے نوجوانوں اور اس طرح کے جذبوں کی شاہد ہے۔ تو یہ لطف پروردگار ہی تو ہے۔

دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اس ملک اور اس قوم کے لئے اپنا یہ لطف و کرم اسی طرح قائم رکھے، ان ہستیوں کو جنھوں نے ملک کے لئے یہ حالات فراہم کئے، ہمارے باعظمت امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) عزیز شہدا اور راہ حق کے مجاہدین کو اپنے لطف و رحمت سے نوازے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

 

1)  اس ملاقات کے آغاز میں جو پانچویں ماہرین اسمبلی کے تیسرے اجلاس کے اختتام پر انجام پائی، اسمبلی کے سربراہ آیت اللہ احمد جنتی اور نائب سربراہ آیت اللہ سید محمود ہاشمی شاہرودی نے رپورٹ پیش کی۔

2)  آیت اللہ علی اصغر معصومی 18 ستمبر 2017 کو مشہد مقدس میں انتقال فرما گئے، آپ چار دفعہ ماہرین اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے منتخب ہوئے، آپ آزاد اسلامی یونیورسٹی شعبہ خراسان رضوی میں ولی امر مسلمین کے نمائندہ ادارے کے سربراہ تھے۔

3)  سورہ نور آیت نمبر 2 کا ایک حصہ؛ ۔۔۔۔ سو کوڑے مارو۔۔۔

4)  سورہ نور آیت نمبر 4 کا ایک حصہ؛ ۔۔۔۔ انھیں 80 کوڑے مارے۔۔۔

5)  ڈونالڈ ٹرمپ

6)  سورہ منافقون آیت نمبر 8 کا ایک حصہ؛ ۔۔۔ عزت تو اللہ کے لئے، اس کے پیغمبر کے لئے اور مومنین کے لئے ہے۔۔۔۔

7)  شہید محسن حججی حرم اہل بیت علیہم السلام کی محافظ فورسز کا حصہ تھے جو اگست 2017 میں شام اور عراق کی مشترکہ سرحد  کے علاقے میں داعش کے ہاتھوں قیدی بنا لئے گئے اور دو دن بعد بڑی بے رحمی سے شہید کر دئے گئے۔