بسم الله الرّحمن الرّحیم‌

تقریبا دو گھنٹے میں ہم نے اس ملاقات میں جو کچھ دیکھا اور سنا وہ بہت دلنشیں اور شیریں تھا۔ سب سے پہلے تو میں ان برادران عزیز سے معذرت کرنا چاہوں گا جو رپورٹیں پیش کرنے والے تھے لیکن وقت نہیں بچا۔ جناب اعرافی صاحب (2) سے، جناب علی عسگری صاحب (3) سے اور دیگر افراد سے معذرت کرتا ہوں جو اظہار خیال کرنے والے تھے مگر نہیں ہو سکا، اذان جلدی دے دی یا کیا ہوا، بہرحال وقت نہیں ملا (4)، مجھے یاد آیا کہ جناب ترکمان صاحب (5) کی بھی تقریر ہونی تھی، لیکن وہ بھی نہیں ہو پائی، میں آپ سے بھی معذرت چاہتا ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس اجتماعی اور مفید کام میں جو لوگ بھی شریک تھے، جنھوں نے کوئی نہ کوئی رول ادا کیا ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اس ادارے کا، اس کے عہدیداران اور ذمہ داران کا، مختلف سطح اور مختلف زاویوں سے کام کرنے والے کارکنان کا۔ سب کا شکر گزار ہوں۔ واقعی محنت کی گئی ہے، کام ہوا ہے، بلند ہمتی اور جدت عملی کے ساتھ، اعلی ذوق، بہترین پسند، گوناگوں فکری و جمالیاتی استعداد اور توانائیوں کے ساتھ یہ کام بہترین انداز میں انجام پایا۔ یہ تو رہی ایک بات۔

دوسری بات یہ ہے کہ میرے خیال میں جو مشن آپ نے شروع کیا وہ ان خطوط سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ خطوط کا جہاں تک سوال ہے تو وہ ایک فکر تھی، ایک کام تھا جو انجام پایا، لیکن اس کے بعد اس پیمانے پر توانائيوں کو متحرک کر دیا جائے، منظم کر دیا جائے اور معین سمت میں اسے مرکوز کر دیا جائے اور اس سے اتنے نتائج حاصل کر لئے جائیں تو یہ اپنے آپ میں بڑی قابل قدر چیز ہے۔ یہ اصلی کام ہے، یہ بہت اہم ہے۔ میں ان اقدامات کو وہ خط لکھنے سے زیادہ اہم سمجھتا ہوں، تو آپ اسے ختم نہ ہونے دیجئے۔ بیٹھئے، غور کیجئے، دوستوں نے ابھی بتایا کہ تھنک ٹینک تشکیل دیا گیا کام انجام دینے کے طریقوں اور اسے آگے بڑھانے کی روشوں پر غور کرنے کے لئے، بہت اچھی بات ہے۔ اب یہی تھنک ٹینک بیٹھ کر یہ جائزہ لے کہ ایک جگہ جمع ہو جانے والی ان توانائیوں اور بعد میں ان سے ملحق ہونے والی چیزوں کو ہمارے ان بے شمار کاموں کے لئے جو ہمیں انجام دینے ہیں اور اپنی باتیں لوگوں کے کانوں تک پہنچانے کا ہم جو ارادہ رکھتے ہیں اس کے لئے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ میرے لئے بڑی خوشی کی بات ہے کہ اتنی توانائیاں، اتنی استعداد، اتنی صلاحیتیں، اتنے جذبات اور پرجوش نوجوان ایک جگہ پر جمع ہو گئے ہیں۔

بہرحال یہ کام تو آپ کا ہے، یہ کام آپ کو آگے بڑھانا ہے۔ یہ انقلاب، یہ پیام نو، یہ انتہائی اہم حقیقت جس کا نام اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام ہے اور اس کا یہ انتہائی عمیق، پرمغز، تعمیری اور واقعی سعادت بخش پیغام بہت سے کاموں اور محنت کا متقاضی ہے، اس کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم نے ابھی بہت سے ایسے کام انجام نہیں دئے ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر یہی سارے کام جو آپ نے کئے، جب تک آپ نے یہ کام انجام نہیں دئے تھے شاید آپ کو بھی تب تک یہ اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ ان کاموں کو انجام دیا جا سکتا ہے، بہرحال آپ میدان میں اترے، آپ نے غور کیا اور اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ کتنے کام کئے جا سکتے ہیں؟! اچھی بات ہے، اب آپ بیٹھ کر آئندہ کے اقدامات کے بارے میں، آئندہ کے کاموں کے بارے میں، فکری و تشریحی محور کے طور پر آپ کو جس چیز کا انتخاب کرنا ہے اس کے بارے میں سوچئے، اس محور کے ارد گرد آپ کو جو چیزیں پیش کرنا ہیں اور دلوں اور ذہنوں تک پہنچانا ہے اس کے بارے میں غور کیجئے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے، یہ کام آپ کو اور آپ کے اس نیٹ ورک کو انجام دینا ہے۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اللہ  تعالی نے اس کام میں برکت عطا فرمائی، ورنہ پہلے تو میں یہ سوچ رہا تھا اور میں نے دو تین لوگوں سے مشورہ بھی کیا کہ ہم نے خط اگر لکھ دیا تو، ہمارے ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ اسے اس پیمانے پر کوریج ملے گی، اس حد تک منعکس کیا جائے گا۔ اللہ تعالی نے اس میں برکت عطا کی۔ ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں اور اس سے طلب نصرت کرتے ہیں اپنے کاموں میں برکت کے لئے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ ایک جملہ کہتے ہیں اور وہ فضا میں گم ہو جاتا ہے۔ لیکن کبھی آپ ایک بات کہتے ہیں اور اللہ  اسے دنیا کے گوشے گوشے میں، سب کے ذہنوں تک پہنچا دیتا ہے، برکت کا یہی مطلب ہے۔

اگلا نکتہ یہ ہے کہ ہم اس کام میں اور دوسرے تمام کاموں میں تجربہ کر چکے ہیں کہ توانائیوں اور صلاحیتوں کا تنوع بہت اہم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ فرض کیجئے کہ نگارش سے لیکر موسیقی اور گرافک سے متعلق کاموں تک ہر چیز کو اجتماعی طور پر انجام دینا چاہتے ہیں تو کسی بھی نکتے کو نظر انداز نہ ہونے دیں، کسی بھی صلاحیت اور استعداد کو نظر انداز نہ کریں، ان تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ کیونکہ بہت ممکن ہے کہ کبھی جو کام ایک ترانہ کر دیتا ہے کتاب نہیں کر پاتی۔ کبھی ایک پوسٹر جو کام کر دیتا ہے شاید وہ کام مقالہ نہ کر پائے۔ لیکن پھر بھی ہمیں اس کتاب کی بھی ضرورت ہے، اس مقالے کی بھی احتیاج ہے۔ یعنی اگر ہم کچھ اہم شخصیات یا عام لوگوں کا دل خوش کرنے، توجہ مبذول کرانے اور داد و تحسین وصول کرنے میں کامیاب ہوئے تو اس سے ہمیں دراز مدتی اور پائیدار کاموں کی قدر و قیمت سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ پوسٹر کوئی پائیدار چیز نہیں ہے۔ بے شک یہ ضروری ہے، اس کی بھی ضرورت ہے، لیکن کتاب ایک پائیدار چیز ہے۔ کتابوں کی نگارش کے بارے میں غور کیجئے۔

البتہ میں نے اس موضوع کے بارے میں غور کیا ہے، مگر اس حقیر کی مصروفیات و مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ دس چیزیں جو ذہن میں آتی ہیں ان میں سے ایک پر بھی عمل نہیں ہو پاتا۔ میرے ذہن میں ایک کتاب لکھنے کا خیال آیا جو اس سوال کا جواب دے کہ؛ 'آپ جو کہتے ہیں کہ ہم اسلام کو پہچانیں، براہ راست اسلام سے رجوع کریں! اچھی بات ہے، آپ کا یہ اسلام کہاں ہے؟ ہمیں اس کا تعارف کروائیے!' تو کیا ہم انھیں صرف قرآن کا متن دے دیں؟! کیا یہ کافی ہے، یا نہیں مزید کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے؟ میرے ذہن میں ایک تجویز ہے، اگر بعد میں موقع ملا تو جو افراد اس میدان کے ہیں ان سے اس کے بارے میں مشورہ کروں گا، کچھ ابواب و عناوین ہیں۔ مثال کے طور پر احباب نے یہاں توحید کے موضوع کا ذکر کیا۔ بہت اچھی بات ہے، توحید ایک باب ہے، مگر یہ پتہ نہیں ہے کہ فرانس یا برطانیہ جیسے کسی ملک کے نوجوان طبقہ کو اگر توحید کے بارے میں آگاہ کیا جائے، اس کی گہرائیوں سے روشناس کرایا جائے تو اس کی تاثیر جانوروں کی حفاظت کے قضیئے پر کیا ہوگی۔ البتہ جانوروں کی حفاظت کی مثال یکبارگی میرے ذہن میں آ گئی، ہماری روایات و احادیث میں یہ بڑا وسیع باب ہے۔ ماحولیات کی بات بہت زیادہ کی جاتی ہے، اسے شد و مد سے دنیا میں بیان کیا جاتا ہے اور بیشتر اوقات سیاسی اہداف کے تحت ایسا کیا جاتا ہے۔ اب اگر آپ جانوروں کے تحفظ کے موضوع پر کوئی کتابچہ، کوئی ویڈیو کلپ، کوئی پوسٹر یا کوئی مقالہ تیار کرتے ہیں تو وہ چیز دلوں کو اسلام کی جانب اور زیادہ مائل کرے گی بنسبت اس ادق کتابچے کے جو مثال کے طور پر آپ توحید کے موضوع پر لکھنا چاہتے ہیں۔ ان باتوں سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ یعنی موضوعات کا تنوع بہت اہم ہے۔

یا اگر سماجی رجحانات و میلانات کی بات کی جائے، ابھی جو فرانسیسی خاتون کا ذکر ہوا کہ انھوں نے لکھا کہ میں فلاں شخص کو بہت متعصب آدمی سمجھتی تھی، لیکن اب میں محسوس کرتی ہیں کہ نہیں، وہ شخص ایسا نہیں ہے۔ تعصب کا جہاں تک سوال ہے تو حضرت امیر المومنین کے بقول؛ شیطان «عَدُوُّ اللهِ اِمامُ المُتَعَصِّبین»؛ (6) عالم وجود کے تمام متعصب افراد کا سرغنہ شیطان ہے۔ وہ سب سے زیادہ متعصب ہے۔ آج کی دنیا میں سب سے بڑا شیطان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے بقول امریکہ ہے۔ یہ متعصبین کا سرغنہ ہے۔ آپ ذرا غور کیجئے یہ لوگ کتنا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں 'امریکی ویلیوز' کا؟ یہ امریکی اقدار آپ یہ نہ سمجھئے کہ کوئی لطیف روحانی چیز ہے۔ نہیں، امریکی اقدار یہی چیزیں ہیں جو بنیادی طور پر دنیا میں امریکہ کی پالیسیوں میں نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی جو امدادی پالیسیاں ہیں، مثال کے طور پر ٹرومین کا پوائنٹ فور پروگرام ہے، پرانے لوگوں کو یاد ہوگا، ہم جیسے افراد کو یاد ہے۔ یہ امداد کے بارے میں تھا۔ لیکن یہ امداد ایک الگ مقصد کے تحت تھی۔ یا آزادی ہے، آزادی سے مراد وہی چیز ہے جو کاؤبوائے فلموں میں، وسٹرن فلموں میں آپ دیکھتے ہیں کہ اگر چار لوگوں نے حملہ کرکے چار پانچ گائیں مار دی ہیں تو وہ جواب میں ان چاروں افراد کا قتل کر دیتے ہیں۔ ان چار لوگوں کی پشت پر اگر دوسرے چالیس افراد کھڑے ہوں تو یہ ان چالیس افراد کا بھی قتل عام کر دیں گے۔ یعنی ان کا یہ نظریہ ہے کہ یہ جگہ ہماری ہے، یہ ہماری زندگی ہے، ہماری ملکیت ہے، ہماری چیز ہے تو ہمیں پورا حق ہے۔ تم نے آکر یہاں حملہ کیا ہے تو تم قتل کر دئے جاؤگے۔ آزادی کا یہ مطلب ہے! واقعی یہ لوگ امام المتعصبین ہیں۔ امریکی ویلیوز جس پر ان کا بڑا زور رہتا ہے، بڑا اصرار رہتا ہے، یہی ہیں۔ امریکی ویلیوز کی تشریح سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ متعصبین کے سرغنہ ہیں۔ اہل مغرب بھی متعصبین کے سرغنہ ہیں۔ ان میں تعصب بہت زیادہ ہے۔ تعصب سے مراد ہے عقل و منطق کو درکنار کرتے ہوئے کسی چیز کی سختی کے ساتھ پابندی کرنا «عُصبه» یا «عَصَبه» کا مطلب ہے اپنوں یا کسی گروہ یا پھر کسی دھڑے کے تعلق سے سخت پابندی۔ یہ ہے تعصب کا مطلب۔ یہ لوگ اپنی چیزوں سے ہمارے مقابلے میں کہیں زیادہ وابستگی رکھتے ہیں اور ان کی پابندی کرتے ہیں۔ ان میدانوں میں ہم حد سے زیادہ تساہلی کرتے ہیں۔ یہ چیزیں بیان کی جانی چاہئیں۔ میں اپنی بات مختصر کر رہا ہوں؛ جن ابواب اور عناوین کے بارے میں انسان اسلام کا موقف صریحی طور پر یا اشارتا بیان کرنا چاہتا ہے ان کا انتخاب کرتے وقت ان نظریات سے ان کا موازنہ کرے جو آج کی متمدن دنیا میں، اس مادی تمدن میں رائج ہیں۔ یہ اسی ضمن میں انجام دئے جانے والے کام ہیں جو آئندہ انجام دینے ہیں۔

بہرحال میں آپ سب کا بہت شکر گزار ہوں اور مجھے بہت خوشی ہے کہ آج آپ حضرات کی زیارت ہو گئی، آپ سے ملاقات ہوئی اور ہم نے استفادہ کیا۔ جو ترانہ آپ پنے پڑھا (7) بہت اچھا تھا۔ تاہم میں نے عرض کیا کہ ترجمے کے وقت بہت خیال رکھئے۔ یہ جو بتایا کہ فلاں شخص اطالوی تھا، اس نے جب خط کا اطالوی ترجمہ دیکھا تو اس میں کچھ خامیاں نظر آئیں، یہ بات بالکل درست ہے۔ ایسے افراد ہیں جو فارسی متن لکھتے ہیں، فارسی جانتے ہیں، لیکن ہماری مادری زبان چونکہ فارسی ہے تو جب ہم اسے دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ یہ تو ہماری زبان میں نہیں ہے، یعنی اس متن میں کچھ ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جو ہماری زبان میں نہیں ہیں۔ یہ چیز بہت اہم ہے۔ یہی کریسنٹ میگزین (8) جو کلیم صدیقی مرحوم (9) نکالتے تھے، انگریزی زبان والے ملکوں میں اس کی بہت زیادہ مقبولیت کی وجہ یہی تھی کہ یہ میگزین انگریزی ثقافت و زبان کو ملحوظ رکھ کر تیار کیا جاتا تھا۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ اسے اہل زبان سمجھ سکتے ہیں، جو اہل زبان نہیں ہے وہ اس کا بخوبی ادراک نہیں کر سکتا۔ ترجموں میں اس چیز کا خیال رکھا جانا چاہئے۔ ترانوں میں بھی اس کا خیال رکھا جانا چاہئے۔ البتہ چونکہ ترانہ پرکشش ہوتا ہے اور اچھی آواز میں پیش کیا جاتا ہے تو اگر کسی اور ترانے کی اس میں آمیزش ہو تو کوئی خاص مشکل نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر کوئی ایرانی گیت گا رہا ہے، اسی بیچ میں ہندی کی کوئی تحریر بھی شامل کر لے تو اس سے گیت کو نقصان نہیں پہنچتا، البتہ اس شرط کے ساتھ کہ اسی حد تک محدود رہے۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ کوئی شخص ایرانی گیت گائے مگر مجموعی طور پر وہ عربی گیت بن جائے تو یہ مناسب نہیں ہے۔ ان چیزوں پر بہت توجہ کیجئے، ان چیزوں کا بہت اثر ہوتا ہے۔ بہت بہت شکریہ۔

والسّلام علیکم و رحمة الله‌

۱) یورپ اور شمالی امریکہ کے نوجوانوں کے نام رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی جانب سے خطوط تحریر کئے جانے کے بعد اسلامی انقلاب تحقیقاتی-ثقافتی ادارے نے پیغام کی اشاعت و تبلیغ کا کمیشن قائم کرکے اور ادارہ جاتی و عوامی توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان خطوط اور ان کے مندرجات کی ترویج و تبلیغ کے لئے سرگرمیاں انجام دیں۔ حسینیہ امام خمینی میں طلوع حقیقت نام کی ایک نمائش میں ان کوششوں کے ایک حصے کی نمائش کی گئی جسے رہبر انقلاب اسلامی نے بھی دیکھا۔

۲) آیت‌الله علی رضا اعرافى (جامعة المصطفى کے سربراہ)

۳) عبد العلى على‌عسگرى (قومی نشریاتی ادارے کے سربراہ)

۴) رہبر انقلاب اور حاضرین ہنس پڑے

۵) ابوذر ابراهیمى ‌ترکمان (ادارہ و ثقافت و اسلامی روابط کے سربراہ)

6) نهج‌ البلاغه، خطبه  ۲۳۴

7) انگریزی زبان کے اس ترانے کی طرف اشارہ جو خطوط کے مضمون سے تعلق رکھتا تھا اور رہبر انقلاب اسلامی کے سامنے جس کی رونمائی کی گئی۔

8) Crescent

9) ڈاکٹر کلیم صدیقی مرحوم ہندوستانی نژاد برطانوی نامہ نگار، لندن اسلامک سینٹر کے بانی، معروف اسلامی مفکر اور قلمکار تھے جو دنیا بھر میں اسلامی افکار و  تعلیمات کی ترویج کے لئے سرگرم عمل رہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے 24 اپریل 1996 کو اس شجاع اور مجاہد مصنف کے انتقال پر تعزیتی پیغام جاری کیا تھا۔