رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے پیر 30 اپریل 2018 کو ہزاروں کی تعداد میں محنت کش طبقے کے افراد اور سرمایہ کاروں سے ملاقات میں فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ کا مقابلہ کرنے کے لئے دشمن کی سب سے بڑی سازش اقتصادی جنگ ہے اور اس جنگ کا سامنا کرنے کا واحد راستہ ایرانی مصنوعات کی حمایت، داخلی توانائیوں اور صلاحیتوں پر بھرپور توجہ، اغیار سے آس لگانے سے گریز ہے۔ آپ نے فرمایا کہ حکومت اور عہدیداران کی ذمہ داری ہے کہ سرمایہ کاروں اور محنت کش طبقے کے سامنے موجود رکاوٹوں کو دور کرنا اور پیداواری یونٹوں کی گنجائش میں اضافہ کرنا جبکہ عوام کی ذمہ داری ہے ایرانی سامان خریدنے کا سنجیدہ عزم ہے۔

خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛ (1)

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

میرے عزیزو! خوش آمدید! آپ نے اپنی صادقانہ، مومنانہ اور انقلابی تشریف آوری سے، اپنے بیانوں اور اظہار خیال سے ہمارے حسینیہ کی فضا کو منور کر دیا اور مومن و فداکار محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقات کی حلاوت کا ہمارے لئے انتظام کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارا محنت کش طبقہ جیسا کہ آپ نے اشارہ کیا اور خود حقیر بھی کئی بار کہہ چکا ہے، بڑا مخلص، مومن، صادق، جفاکش طبقہ ہے صرف کارخانوں کے اندر نہیں بلکہ خود انقلاب کے ماحول میں اور انقلاب کے لئے، انقلاب کے دفاع کے لئے اور مسلط کردہ جنگ کا سامنا کرنے کے لئے بھی۔

آج کا یہ دن نیمہ شعبان سے قریب ہے۔ کچھ باتیں عید نیمہ شعبان کے تعلق سے بھی عرض کرنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ نیمہ شعبان مستقبل کے تعلق سے امید کا سرچشمہ ہے۔ یعنی ہم مختلف چیزوں کے بارے میں اگر پرامید ہوتے ہیں تو ممکن ہے کہ وہ چیز انجام پائے اور یہ بھی امکان ہوتا ہے کہ انجام نہ پائے۔ لیکن حق تعالی کے ولی مطلق حضرت صاحب الزمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف و ارواحنا فداہ کے ہاتھوں حتمی اصلاح کی امید ایسی ہے جسے ہر حال میں پورا ہونا ہے۔ السَّلامُ عَلَیکَ یا وَعدَ اللهِ الَّذی ضَمِنَه؛(۲) اللہ کا ضمانت شدہ وعدہ ہے۔ السَّلامُ‌ عَلَیکَ‌ اَیُّهَا العَلَمُ‌ المَنصُوبُ‌ وَ العِلمُ المَصبُوبُ وَ الغَوثُ وَ الرَّحمَةُ الوَاسِعَةُ وَعداً غَیرَ مَکذُوب‌؛(۳) یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ وعدہ وفا نہ کیا جائے۔ یہ بات صرف ہم شیعہ نہیں کہتے، یہ بات صرف ہم مسلمان نہیں کہتے بلکہ دنیا کے سارے ادیان کو ایسے ہی ایک دن کا انتظار ہے۔ ہماری منفرد خصوصیت یہ ہے کہ ہم اس ہستی کو پہچانتے ہیں، اس کے وجود کو محسوس کرتے ہیں، اس کے وجود کو مانتے ہیں، اس سے ہمکلام ہوتے ہیں، اس سے مخاطب ہوتے ہیں، اس سے حاجتیں مانگتے ہیں اور وہ حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔ یہی فرق ہے۔ دوسرے افراد، غیر شیعہ مسلمان اور اسلام کے علاوہ دیگر ادیان کو ماننے والے افراد ایک موہوم سی شئے پر عقیدہ رکھتے ہیں۔ مگر ہم شیعوں کے یہاں ایسا نہیں ہے۔ ہمارے یہاں بالکل واضح ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں، کس شخص سے بات کر رہے ہیں۔ نیمہ شعبان یوم امید ہے۔ میرے عزیزو، عزیز نوجوانو، عزیز محنت کشو! جذبہ امید کی قدر کیجئے۔ دلوں میں امید کا جذبہ قائم رکھئے، آج سپر طاقتوں کے چنگل میں مقید دنیا کے مخدوش، تاریک اور ظلمانی چہرے کے تبدیل ہونے کی امید رکھئے۔ جان لیجئے اور یقین رکھئے کہ یہ حالت ضرور بدلے گی۔ یقین رکھئے کہ آج دنیا میں ہم جو ظلم و جور کا ماحول دیکھ رہے ہیں، زور زبردستی، بدکلامی، خباثت، رذالت، جس کا مظہر امریکہ کے عمائدین اور صیہونی عمائدین ہیں، اسی طرح کم و بیش دوسرے عمائدین بھی ہیں، ان کا بدلنا طے ہے۔ یہ وہ جذبہ امید ہے جو ہمارے اندر ہے۔ ہمیں مدد کرنا چاہئے، اللہ تعالی سے دعا کرنا چاہئے اور ہمیں خود بھی کوشش کرنا چاہئے کہ وہ دن قریب آئے ان شاء اللہ۔

ایک نکتہ ماہ شعبان کے بارے میں ہے۔ ماہ شعبان سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔ ماہ شعبان شروع سے آخر تک عید ہے بالکل ماہ رمضان کی طرح۔ ماہ رمضان بھی شروع سے آخر تک عید ہے۔ اولیائے خدا کی عید ہے۔ ہر وہ دن جب انسان کو ایسا موقع حاصل ہو کہ نفس کی طہارت اور دل کی نورانیت پر توجہ دے سکے تو وہ دن بڑا غنیمت اور عید کا دن ہے۔ ماہ شعبان ایسے ہی مواقع سے آراستہ ہے پہلے دن سے آخری دن تک۔ اس مہینے میں استغفار، اس مہینے میں دعائیں، اس مہینے میں زیارت، اس مہینے میں خوف خدا سے گریہ، اس مہینے میں قرآن کی تلاوت، اس مہینے میں نماز پڑھنا، یہ سب مواقع ہیں۔ ہمیں اپنی دنیا کو آباد کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے لیکن دل کو آباد کرنے کے لئے بھی محنت کرنا ضروری ہے، اپنے دلوں کو بھی آباد کرنا چاہئے۔ آباد دل کے ساتھ ہی اچھی دنیا کی تعمیر کی جا سکتی ہے۔ اگر دل ہی آباد نہ ہو، اگر دل پر غبار جمع ہو، اگر دل سیاہ اور گناہ سے آلودہ ہو تو اس صورت میں بھی ٹیکنالوجی کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے، ٹیکنالوجی کو اس مقام پر جہاں وہ اس وقت ہے یا اس سے بھی آگے لے جانا ممکن تو ہے لیکن اس طرح جو دنیا تعمیر ہوگی اس میں شیرینی نہیں ہوگی، وہ دنیا تلخیوں سے بھری ہوگی۔ وہ دنیا ناانصافی سے بھری ہوگی۔ شیرینی سے معمور دنیا تب ہوگي جب فیصلہ کرنے والے، عمل کرنے والے، اقدام کرنے والے اور اگر ممکن ہو تو عوام الناس بھی اپنے دلوں کو آباد کر چکے ہیں، دلوں کو روشن کر چکے ہوں۔ ماہ شعبان سے غفلت نہ برتئے۔

کچھ باتیں محنت کش طبقے کے مسائل کے تعلق سے عرض کروں گا اور کچھ باتیں اختصار سے عالمی مسائل کے بارے میں جو ہمیں در پیش ہیں۔ محنت کش طبقے کے مسائل کی جہاں تک بات ہے تو کسی بھی ملک کا سب سے بڑا سرمایہ ہے وہاں کی افرادی قوت۔ یعنی  لیبر، ڈیزائنر، انجینیئر، ملک میں کسی بھی شعبے میں پروڈکشن کے لئے سرگرم عمل افراد کی ملک کے لئے اہمیت اور ضرورت زیر زمین ذخائر، سونے، تیل اور جواہرات وغیرہ سے زیادہ ہے۔ کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی  اسی سے ہوتی ہے۔ آج آپ دیکھئے کہ دنیا میں ایسے ممالک ہیں کہ دنیا کا سارا یا بیشتر ہیرا وہیں ملتا ہے، وہیں پیدا ہوتا ہے لیکن وہ ممالک بدبختی اور غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ضروری مقدار میں افرادی قوت نہیں ہے۔ فعال افرادی قوت نہیں ہے۔ صاحب فکر افرادی قوت نہیں ہے۔ افرادی قوت کسی بھی ملک کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ افرادی قوت آپ لوگ ہیں۔ آپ لیبر، آپ انٹرپرینیور، آپ انجینیئر، آپ ڈیزائنر، مختلف شعبوں میں سرگرم عمل آپ ہی لوگ سے افرادی قوت بنتی ہے۔ یہ افرای قوت کی عظیم منزلت ہے اور مزدور طبقہ اس عظیم سرمائے کا حصہ ہے۔

ہمارے محنت کش طبقے کی سعی و کوشش کی سطح دنیا کی اوسط سطح سے اوپر ہے۔ میں نے یہ بات مختلف شعبوں کے بارے میں، طلبہ کے بارے میں، محققین کے بارے میں ریسرچ کرنے والوں کے بارے میں بارہا عرض کی ہے۔ اس کے علاوہ تحقیقات کی جو رپورٹ ملتی ہے اس سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ لیبر طبقے کے بارے میں حقیر کا نظریہ یہی ہے۔ ایرانی لیبر دنیا کی بہترین لیبر فورس میں ہے۔ یعنی اس کا ہنر، اس کی فکر، اس کا ذہن اور بلند حوصلے عالمی اوسط سطح سے بہتر ہے۔ حالانکہ گھٹن کے زمانے میں، پہلوی ظلم کے دور میں، اس سے قبل قاجاری غفلت اور دائمی نیند کے زمانے میں کام، لیبر اور محنت کش طبقے یا پیداوار اور قومی مسائل پر کوئی توجہ ہی نہیں دی جاتی تھی۔ قاجاریہ دور میں حماقت اور ذہنی پسماندگی کی وجہ سے اور پہلوی دور میں خیانت کی وجہ سے۔ اس کے باوجود جب انقلاب کے زمانے میں افرادی قوت اور لیبر برادری حرکت میں آئی اور نیا جوش و جذبہ متحرک ہوا اور کوالٹی اور مقدار دونوں میں پیشرفت ہوئی تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایرانی لیبر کی اوسط توانائی اور امتیازات دنیا کی اوسط توانائی سے زیادہ ہے۔

کل یہاں ایک چھوٹی سی نمائش لگی تھی داخلی مصنوعات کی تاکہ یہ حقیر اس کا مشاہدہ کر سکے (4)۔ میں گیا اور کئی گھنٹے اس نمائش کو دیکھتا رہا، آپ نے جو مصنوعات تیار کی ہیں ان کا مشاہدہ کرتا رہا۔  واقعی ایرانی ہنرمند مزدور کے ہاتھوں کا بوسہ لینا چاہئے، آپ کے ہاتھوں کو چومنا چاہئے۔ تمام تر مشکلات کے باوجود، خام مال کی درآمدات پر عائد  پابندیوں کے باوجود، پیشرفتہ مشینوں کی درآمدات پر لگی روک کے باوجود، دنیا کی مستکبر قوتوں کی جانب سے ہمارے لئے کھڑی کی جانے والی گوناگوں رکاوٹوں کے باوجود کوالٹی کے اعتبار سے اتنی اعلی مصنوعات انسان جب دیکھتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ واقعی کتنی عجیب صلاحیت ہے۔ سب کچھ تھا۔ کل درجنوں کمپنیاں اپنی مصنوعات لیکر یہاں آئی تھیں جو آپ کے ہاتھوں تیار ہوتی ہیں اور ہم نے انھیں دیکھا۔ کپڑے، جوتے، لباس اور زندگی کے ضروری سامان، چینی مٹی اور شیشے کی چیزوں سے لیکر دواؤں، آرائشی اشیاء، گھریلو سامان، فریج، اسٹیشنری وغیرہ تک سب کچھ یہاں لاکر ہمیں دکھایا۔ اس میں کئی گھنٹے لگے مگر یہ بہت اچھی چیزیں تھیں، سب بہت معیاری چیزیں تھیں۔ انسان واقعی داخلی افرادی قوت کے سامنے سر تعظیم خم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی جب میں ایرانی مصنوعات کی حمایت کی بات کرتا ہوں تو کچھ لوگوں کو یقین ہی نہیں ہوتا، کچھ لوگ تصدیق نہیں کرتے یا عمل نہیں کرنا چاہتے۔ ایرانی مصنوعات کی حمایت کا مطلب ہے ایرانی محنت کش کی حمایت، افرادی قوت کی حمایت، پروڈکشن  کی حمایت۔ یہ حمایت ہمہ جہتی ہوتی ہے۔ عوام الناس کو بھی چاہئے کہ حمایت کریں، حکومت کو بھی چاہئے کہ حمایت کرے۔ سب حمایت کریں۔

کچھ مشکلات کا ذکر ہوا۔ یہ انٹرپرینیور کی مشکلات ہیں، لیبر طبقے کی مشکلات ہیں، بیمے کی مشکلات ہیں، وسائل کی کمی کی مشکلات ہیں، نقدی کی مشکلات ہیں، ٹیکس کی مشکلات ہیں، بینک سے متعلق مشکلات ہیں، وزارت خزانہ سے متعلق مشکلات ہیں، مختلف مشکلات ہیں۔ ان مشکلات کا ازالہ ہونا چاہئے۔ ان مشکلات کو حل کرنے کے لئے بھرپور اور ٹھوس قدم اٹھایا جانا چاہئے۔ جب مشکلات دور ہوں گی، جب ایرانی مصنوعات کی حمایت ہوگی، جب ایرانی لیبر کی قدر کی جائے گی تو پھر ہم یہ صورت حال دیکھنے پر مجبور نہیں ہوں گے کہ کوئی کارخانہ شکایت کر رہا ہے کہ وہ اپنی گنجائش کا صرف ایک تہائی کام کر رہا ہوں۔ کل بعض نے ہم سے یہی کہا کہ ہمارے پاس اتنے وسائل ہیں لیکن ہم اپنی گنجائش اور توانائی کا ایک تہائی یا آدھا کام کر رہے ہیں، کیوں؟ دو تہائی مزدور کہاں ہیں؟ اسی طرح ملک کے اندر بے روزگاری بڑھتی جاتی ہے۔ ہم جو ایرانی مصنوعات کی حمایت کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کام شروع کئے جائیں، روزگار ہو، یعنی مزدور بیکار نہ بیٹھے۔ یعنی ہمارا تعلیم یافتہ نوجوان صرف میز کرسی پر بیٹھ کر کام کرنے کی فکر میں نہ رہے۔ اسے معلوم ہو کہ مختلف شعبوں میں اپنے شایان شان کام تلاش کر سکتا ہے۔ اگر ایرانی مصنوعات کی حمایت کی جائے گی تو ایسا ہی ہوگا۔ کچھ لوگ اس بات پر کیوں مصر ہیں کہ اپنا پیسہ غیر ملکی کمپنی کی جیب میں ڈالیں؟ یہ کون سی بیماری ہے کہ غیر ملکی سامان ہی استعمال کرنے پر اصرار ہے؟ اگر اس سے مشابہ ایرانی مصنوعات نہ ہوں تو کوئی بات نہیں ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ ملک کے اندر جن کی پیداوار کفایتی نہیں ہے، تب تو ٹھیک ہے۔ ملک کے اندر اگر اس جیسی مصنوعات نہیں ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن جب ملک کے اندر ویسی ہی مصنوعات ہیں، ان کی پیداوار ہے۔ کوالٹی کے  اعتبار سے یہ مصنوعات غیر ملکی مصنوعات کے برابر یا ان سے بہتر بھی ہیں تو پھر کچھ لوگوں کے اس اصرار کی کیا وجہ ہے کہ ہر حال میں غیر ملکی سامان، غیر ملکی برانڈ ہی استعمال کریں گے؟ یہ کون سی بیماری ہے؟ بعض لوگوں کی یہ کیسی کج فکری اور کج فہمی ہے؟ ہمیں چاہئے کہ ایرانی مصنوعات استعمال کریں۔ ہم تہیہ کر لیں۔ بڑے ادارے، خود حکومت اسی طرح دوسرے ادارے سب عزم کر لیں کہ ایرانی مصنوعات کی حمایت کرنی ہے۔ ہم دوسروں سے تعصب نہیں کرتے، ہم دشمنی نہیں رکھنا چاہتے۔ ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو، اپنے نوجوانوں کو، اپنے محنت کش طبقے کو کام کی ترغیب دلائیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسے روزگار سے لگا دیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسے بیکار پڑے رہنے کی مشکلات سے نجات دلائیں۔ بیکاری کے بڑے نقصانات ہیں۔ سماجی نقصانات ہیں، سیکورٹی سے متعلق نقصانات ہیں۔  اخلاقیات سے متعلق نقصانات ہیں۔ گوناگوں نقصانات ہیں۔ ہم بس یہ چاہتے ہیں اور اس کا راستہ ہے ایرانی مصنوعات کی حمایت۔ ایرانی سامان کی حمایت، ایرانی پیداوار کی حمایت۔ اس کی طرفداری کی جانی چاہئے حمایت کی جانی چاہئے۔

دشمن سے مقابلے کا بہترین راستہ یہی ہے۔ میرے عزیزو! دیکھئے ہمارا دشمن یہ سمجھ چکا ہے اور بخوبی جانتا ہے کہ فوجی مقابلہ آرائی میں وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ چند سال قبل، امریکہ کے ایک صدر نے، وہ بھی موجودہ صدر کی طرح بداخلاق مہمل گو اور خرافات گو تھے، ہمارے خلاف کچھ باتیں کہی تھیں۔ میں نے چند سال پہلے اپنی اسی وقت کی ایک تقریر میں کہا تھا؛ 'جناب عالی! مارو اور بھاگ لو کا دور گزر چکا ہے، اگر وار کیا تو وار کھانا بھی  پڑے گا۔' (5)۔ یہ بات وہ جانتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ اگر وہ ہمارے خلاف فوجی مقابلہ آرائی کے لئے اترے تو وہ بھی پھنس جائیں گے۔ بے شک وہ ہمیں نقصان پہنچائیں گے لیکن ممکن ہے کہ خود انھیں کئی گنا زیادہ نقصان اٹھانا پڑ جائے۔ یہ  بات وہ جانتے ہیں۔ اب ان کو جو راستہ سجھائی دیا ہے وہ اقتصادی جنگ اور ثقافتی جنگ وغیرہ کا راستہ ہے۔ ثقافتی مسئلے کی بحث الگ ہے۔ آج ہمارے دشمنوں کے سامنے جو چیز قابل توجہ ہے وہ اقتصادی جنگ ہے۔ ہمارے خلاف امریکہ کا وار روم امریکہ کی وزارت خزانہ ہے یعنی اقتصادی امور کی وزارت ہے۔ ان کا وار روم وہاں پر ہے۔ اس اقتصادی جنگ کا سامنا کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ طریقہ یہ ہے کہ ہم ملک کے اندر اپنی معیشت پر توجہ دیں۔ اگر ہماری معیشت دوسروں پر منحصر ہوگی، دوسروں کے سہارے چلے گی تو مشکلات پیدا ہوں گی۔ البتہ میرا یہ نظریہ ہرگز نہیں ہے کہ دنیا سے اقتصادی رابطہ ختم کر لیا جائے یا اسے ختم کرنا ممکن ہے۔ ظاہر ہے یہ ممکن نہیں ہے۔ آج ساری دنیا آپس میں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی اور متصل ہے۔ لیکن دیگر ممالک پر انحصار سراسر غلط ہے۔ انحصار نہیں ہونا چاہئے۔ بے شک جائیں! ہوشیاری کے ساتھ، تدبیر سے، صحیح پالیسی سازی سے، لگن سے کام کرکے، سنجیدہ کوششوں سے دنیا کے ساتھ روابط قائم کریں۔ دنیا بہت بڑی ہے۔ دنیا صرف امریکہ اور چند یورپی ملکوں میں تو سمٹی ہوئی نہیں ہے۔ دنیا بہت وسیع ہے۔ جائیں اور جہان تک ضروری ہے روابط قائم کریں۔ لیکن کسی بھی بیرونی قوت سے آس نہ لگائیں۔ آس لگائیں داخلی عناصر سے۔ آس لگائیں اس اہم سرمائے یعنی ملک کے اندر موجود افرادی قوت سے۔ جب عوام یہ دیکھیں گے کہ ہم عہدیداران اپنی مشکلات ملک کے اندر حل کرنے اور داخلی توانائیوں کو بروئے کار لانے پر مصر ہیں تو عوام پیش آنے والی مشکلات کو برداشت کریں گے اور ہماری مدد کریں گے۔ ملک کے محترم عہدیداران اس بات پر توجہ رکھیں کہ بیرونی ممالک پر انحصار نہیں کیا جانا چاہئے۔

امریکیوں کے پاس حریت پسند اور خود مختار اسلامی جمہوری نظام کا مقابلہ کرنے کا ایک راستہ یہی اقتصادی راستہ ہے، وہ اس نظام کی حریت پسندی کے بڑے مخالف ہیں، اس نظام کے خود مختار ہونے کے بہت خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ ہمارے زیر سایہ رہئے، ہمارے احکامات کی تعمیل کیجئے، ہماری مرضی کے مطابق پالیسی سازی کیجئے، کیونکہ ہمارے پاس اسلحہ زیادہ ہے، کیونکہ ہماری طاقت زیادہ ہے، کیونکہ ہمارے پاس دولت زیادہ ہے، یہ ان کی مرضی ہے۔ آپ کی توجہ کے لئے اور آپ کی اطلاع کے لئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے پاس ایک اور راستہ بعض حکومتوں کو اشتعال دلانا ہے جو 'کم شعور' ہیں۔ اب ان کے لئے کون سا لفظ استعمال کروں! ہمارے علاقے میں جو غافل حکومتیں ہیں انھیں اختلاف، تصادم، تنازعے وغیرہ پر اکسانا ہے۔ امریکی جاتے ہیں ان سعودیوں کے پاس بیٹھتے ہیں اور انھیں اسلامی جمہوریہ کے خلاف اشتعال دلاتے ہیں۔ اگر آپ کو اشتعال ہی دلانا ہے تو صیہونیوں کو اشتعال کیوں نہیں دلاتے جو آپ کے نوکر ہیں، ایک اعتبار سے وہ نوکر ہیں اور ایک اعتبار سے آقا ہیں۔ آپ ان بدبختوں ان سعودیوں کو کیوں اشتعال دلاتے ہیں؟ کہتے ہیں کہ ہماری یہ خواہش ہے کہ مسلمانوں میں جنگ شروع ہو جائے۔ ان کا ایک منصوبہ اس طرح کے ممالک کو ترغیب دلانا، اشتعال دلانا اور متحرک کرنا ہے ایران سے تصادم اور ٹکراؤ کے لئے۔ سعودیوں کا نام میں نے نمونے کے طور ذکر کیا ہے۔ اگر ان حکومتوں کے پاس عقل ہے تو انھیں دشمن کے اس فریب میں نہیں آنا چاہئے۔ کیونکہ اگر وہ اسلامی جمہوریہ کے مقابلے پر آئیں تو یقینا ان پر ضرب پڑے گی اور انھیں ہزیمت کا سامنا ہوگا۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوری نظام اور مقتدر ملت ایران سے مقابلہ آرائی کی قیمت انھیں نہ چکانی پڑے بلکہ یہ قیمت علاقے میں موجود اس طرح کی حکومتیں ادا کریں۔

امریکیوں کا کام ہے بدامنی پیدا کرنا۔ ان برسوں میں امریکیوں کے قدم جہاں بھی پڑے ہیں وہاں بدامنی پیدا ہوئی ہے۔ جس جگہ بھی، خواہ مغربی ایشیا کے علاقے میں جہاں ہم ہیں، یا دنیا کے دیگر خطوں میں، ان کے قدم جہاں بھی پڑے ہیں، وہاں بدامنی پیدا ہوئی ہے، یا خانہ جنگی ہوئی ہے، یا برادر کشی ہوئی ہے۔ وہ جہاں بھی گئے وہاں کے عوام کے لئے بدبختی کا باعث بنے ہیں۔ اسی لئے اب ضروری ہے کہ مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکہ کا ٹھکانہ ختم کر دیا جائے۔ مغربی ایشیا سے امریکہ کو باہر کر دیا جانا چاہئے۔ یہاں سے جسے بے دخل کیا جانا ہے وہ اسلامی جمہوریہ نہیں امریکہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ تو ہمارا نظام ہے اور ہم اس علاقے کے رہنے والے ہیں۔ خلیج فارس ہمارا گھر ہے، مغربی ایشیا ہمارا گھر ہے، یہ ہمارا گھر ہے۔ یہاں بیگانے آپ ہیں۔ آپ دور دراز سے یہاں آئے ہیں، خباثت آلود اہداف لیکر۔ آپ یہاں فتنہ پھیلانا چاہتے ہیں۔ آپ کو جانا ہوگا۔ آپ یقین رکھئے کہ امریکی اور ان کے جیسے جو بھی دوسرے عناصر ہیں اس علاقے سے ان کے پاؤں اکھاڑ دئے جائيں گے۔

ایرانی پروڈکٹ کی حمایت کے سلسلے میں ایک چیز ہے جس پر میں خاص تاکید کرتا ہوں اور بارہا اس کا ذکر کر چکا ہوں، اس وقت یہاں وزیر محترم بھی تشریف فرما ہیں، ان شاء اللہ حکومت کے اندر اور متعلقہ جگہوں پر اس سلسلے میں سنجیدگی سے کام ہونا چاہئے، وہ ہے بے تحاشہ درآمدات کا سد باب، اسمگلنگ کا سختی کے ساتھ سد باب۔ بہت سے عہدیداران اور ایرانی پیداوار کو فروغ دینے میں مصروف افراد جیسے انٹرپرینیور شپ، سرمایہ کار، ماہر افرادی قوت اور دیگر افراد کی بہت زیادہ شکایت اسی بات سے ہے کہ امپورٹڈ سامان آ جاتا ہے جس کی کوالٹی بھی اچھی نہیں ہے، وہ کمپٹیشن میں آ جاتا ہے، یہ غیر مساوی کمپٹیشن ہوتا ہے داخلی مصنوعات سے اور داخلی مصنوعات کی مانگ محدود ہو جاتی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس کا ضرور سد باب کیا جانا چاہئے۔ البتہ جو باتیں وزیر محترم نے یہاں ذکر کیں اور جو کام انجام پائے ہیں یا انجام پا رہے ہیں ان کی بہت اہمیت ہے۔ ان شاء اللہ اسے جاری رکھا جائے، عملی جامہ پہنایا جائے اور نتیجہ نظروں کے سامنے آئے۔ یعنی نتیجہ باقاعدہ محسوس ہو۔ ان شاء اللہ ہمارا محنت کش طبقہ، خاص طور پر ہمارے نوجوان محنت کش مستقبل کے تعلق سے اور زیادہ پر امید ہوں۔

و السّلام علیکم و‌ رحمة الله و‌ برکاته

1۔ اس ملاقات کے آغاز میں کوآپریٹیوز، لیبرر اینڈ سوشل ویلفیئر کے وزیر علی ربیعی نے اپنی رپورٹ پیش کی۔

2۔ زیارت آل یاسین کے فقرے

3۔ احتجاج جلد 2 صفحہ 493 زیارت آل یاسین

4۔ حسینیہ امام خمینی میں مورخہ 29 اپریل 2018 کو ایرانی مصنوعات کی ایک نمایش لگائی گئی جس کا رہبر انقلاب اسلامی نے معائنہ کیا

5۔ منجملہ رہبر انقلاب اسلامی کا مورخہ 22 ستمبر 2007 کا ملک کے اعلی حکام سے خطاب