بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّیّبین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الی یوم الدّین.

اس اجتماع اور اس نشست میں تشریف فرما تمام عزیز مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور اس علمی و سماجی مشن مین آپ کی شرکت کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس مفید اور ان شاء اللہ خوش آئند مشن کے بانیوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، خاص طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں آیت اللہ مکارم کا (2) جنہوں نے واقعی بڑی ہمت سے کام کیا اور بڑا عظیم کام شروع کر دیا۔  ان شاء اللہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے اور اچھے نتائج و ثمرات دے۔

عزیز بھائیو اور بہنو! آج ہر وہ عمل جو مسلم امہ کے اتحاد پر منتج ہو با برکت ہے، ایک نیکی ہے۔ اسلام کے دشمنوں کا ارادہ تفرقہ پیدا کرنے کا ہے تو ہم مومنین کا عزم دنیائے اسلام میں، مسلم امہ کے اندر اتحاد و یکجہتی پیدا کرنے پر مرکوز ہونا چاہئے، جماعتوں کو ایک دوسرے سے متعارف کرانے اور امت مسلمہ کے مختلف مسالک کا ایک دوسرے سے تعارف کرانے پر مرکوز ہونا چاہئے۔ جس عمل کی شروعات آپ نے کی ہے وہ بھی مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوششوں کا ایک مصداق ہے۔ ایک چیز جسے ہم ہمیشہ سے ایک مشکل کے طور پر دیکھتے آئے ہیں، یہ ہے کہ مسلم امہ کے مختلف فرقے ایک دوسرے کی صحیح شناخت نہیں رکھتے، ایک دوسرے کی صحیح اور حقیقت پر مبنی معرفت نہیں رکھتے۔ دشمن، بیرونی قوتوں اور اغیار نے بہت سے مواقع پر یہ کیا کہ آکر ایک فرقے کے بارے میں دوسرے فرقے کو بتایا ہے اور دوسرے فرقے کو پہلے فرقے سے روشناس کروایا ہے۔ یہ کام انھوں نے معاندانہ نگاہ کے ساتھ، پست اہداف کے ساتھ اور دشمنی پیدا کرنے کی نیت کے تحت انجام دیا ہے۔ حالیہ سو ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں ہم اس کے واضح نمونے دیکھتے ہیں۔ حالیہ کچھ برسوں کے واقعات میں ہم آشکارا طور پر دیکھ رہے ہیں کہ ایک فرقے کی نظر میں دوسرے فرقے کے بارے میں کیا سوچ ہے۔ اسی طرح اس دوسرے فرقے کی نظر میں اس پہلے فرقے کے تعلق سے کیا تصور ہے۔ دشمن آکر ہمیں ایک دوسرے کی نظر میں بہت قبیح شکل میں پیش کر دیتا ہے، ہمیں ایک دوسرے کی نگاہ میں بہت برا ظاہر کرتا ہے۔ یہ دشمنوں کا کام ہے۔ جو عمل بھی باعث بنے کہ ہم ایک دوسرے کو بہتر طریقے سے پہچانیں، زیادہ آشنا ہوں، بہتر شناخت حاصل کریں ، ایک دوسرے کے مثبت پہلوؤں سے روشناس ہوں، ان مثبت پہلؤوں کو فروغ دیں، ایک دوسرے کو منتقل کریں وہ عمل امت مسلمہ کے اتحاد، یکجہتی اور سربلندی کا باعث ہوگا۔ یہ سیمینار بھی ایسا ہی ایک عمل ہے۔

شیعہ فرقے نے پوری تاریخ میں علوم اسلامی اور علوم طبیعیات کے ارتقاء کے لئے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اسلامی علوم جیسے فقہ، حدیث، فلسفہ، معقولات اور کلام کے میدان میں شیعہ علما کی تحریروں کا مجموعہ اور اس بارے میں جو کتب لکھی گئی ہیں وہ سب کسی بھی مسلمان کے لئے باعث فخر و مباہات ہیں کہ انھیں دیکھے اور ان سے آشنا ہو۔ ہمیں ان سے روشناس ہونا چاہئے۔ مسلم امہ کو اس کا احساس ہونا چاہئے۔ اس کی شناخت حاصل کرنا چاہئے۔ اس کا علم ہونا چاہئے۔ اس سے ہمیں ایک دوسرے کے قریب آنے میں مدد ملے گی۔ اس سے ہمیں ایک دوسرے کی معرفت حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

شیعہ علما میں جو مختلف علوم جیسے فقہ، فلسفہ، کلام، رجال اور حدیث میں نمایاں مقام رکھتے ہیں، جیسے علامہ حلی، شیخ طوسی وغیرہ ان کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔ ہمارے اس موجودہ دور میں بھی بحمد اللہ اس طرح کے علما موجود ہیں۔ جو کتابیں قرآن کے بارے میں، علوم قرآن کے موضوع پر اور تفسیر قرآن کے بارے میں لکھی گئی ہیں وہ بہت اہم کتابیں ہیں، راہ گشا کتابیں ہیں۔ اگر ان کا تعارف کرایا جائے، اگر انھیں پہچنوایا جائے، ایک دوسرے کی کتب سے آشنائی حاصل ہو اور جو زحمتیں اٹھائی گئی ہیں وہ منظر عام پر آئیں تو مسلم امہ اس پر فخر محسوس کرے گی۔ یہ مسلم امہ کے اتحاد و یکجہتیی کا باعث بنے گا۔

ہمیں تمام اقدامات میں، خود اس علمی مشن میں جس میں آپ مصروف ہیں، بڑی توجہ سے اس بات پر نظر رکھنی ہوگی کہ کوئی ایسا شائبہ پیدا نہ ہو جو اختلاف کا باعث بنے، افتراق کا باعث بنے، جدائی کا سبب بنے، مسلم فرقوں کے ایک دوسرے سے گلے شکوے کی وجہ بنے، کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو دشمن چاہتے ہیں۔ تو ایک اہم مسئلہ ہے مسلم امہ کا اتحاد۔ ان شاء اللہ ہماری نظر میں یہ جو مشن شروع ہوا ہے اس سے یہ ہدف کافی حد تک پورا ہوگا۔

ایک اور مسئلہ علمی پیشرفت کا ہے۔ اسلامی دنیا پسماندہ رہ گئی اور اسی پسماندگی کی وجہ سے دوسروں کے زیر تسلط چلی گئی۔ مغرب صدیوں تک پسماندہ رہنے کے بعد مسلمانوں سے علوم حاصل کرنے میں کامیاب ہوا، اسلامی کتب اہل مغرب کے لئے ماخذ، مقدمہ اور علمی ارتقا کا زینہ ثابت ہوئیں۔ ان کی مدد سے مغرب دنیائے اسلام اور اسلامی ممالک سے علمی اعتبار سے آگے نکل گیا۔ اس کے نتیجے میں اس کی ثروت میں بھی اضافہ ہوا، عسکری قوت میں بھی اضافہ ہوا، سیاسی طاقت میں بھی اضافہ ہوا، تشہیراتی قوت میں بھی وسعت پیدا ہوئی۔ اس طرح ان کے استعمار کا راستہ بھی کھل گیا۔ سامراج وجود میں آیا اور اسلامی ممالک استعماری قوتوں کے خون آلود پنجے میں جکڑ اٹھے اور ان کے بوٹوں تلے روندے گئے، انھوں نے اپنے پورے وجود سے تمام میدانوں میں اس پسماندگی کو اور پیشرفت سے اپنی محرومی کو محسوس کیا۔ یہ حالت ہو گئی جس کا آج آپ مشاہدہ کر رہے ہیں۔ عالمی قوتیں، مغربی طاقتیں اور دنیا کے شیاطین اسلامی ممالک پر مسلم اقوام پر حکمرانی کرنے لگیں، اپنے مطالبات مسلط کرنے لگیں، ان سے تحکمانہ انداز میں بات کرنے لگیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے ک بعض مسلم حکام بھی ان کے حلقہ بگوش ہو گئے۔ یہ علمی پسماندگی کا نتیجہ ہے۔

ہمیں اس حالت کو بدلنا ہے۔ ہمیں دنیائے اسلام کے اندر تمام علوم میں، تمام تمدن ساز علوم میں، علوم عقلیہ سے لیکر انسانیات اور سماجی علوم و طبیعات تک ہر میدان میں پیشرفت کے لئے سنجیدہ مہم کا آغاز کرنا ہوگا اور ہم ایسا کر سکتے ہیں۔ ایک زمانہ تھاکہ دنیائے اسلام انسانی تمدن کے اوج پر تھی۔ اس پوزیشن کی بازیابی کیوں نہیں ہو سکتی؟ ہم آج ایسے اقدامات کیوں نہیں کرتے جن کے نتیجے میں ایک مناسب مدت میں، چالیس سال بعد یا پچاس سال بعد امت اسلامی، انسانی تمدن کے اوج پر پہنچ قدم رکھے؟ اس میں کیا مشکل ہے؟ ہمیں حرکت میں آنا چاہئے۔ یہ حکومتوں اور اہم شخصیات کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی حکومتوں کا بھی فریضہ ہے اور دنیائے اسلام کی اہم شخصیات کی بھی ذمہ داری ہے۔ علما، دانشور، مصنفین، شعرا، فنکار سب مل کر ایک ہمہ گیر فکری تحریک اور عمومی رجحان تیار کریں علمی پیشرفت اور علم و دانش کے بام ثریا پر پہنچنے کے لئے۔ آج یہ کام انجام دینا ممکن ہے۔

اسلامی جمہوریہ کے اندر ہم نے کوشش کی اور یہ کوشش کامیاب بھی رہی۔ انقلاب کی کامیابی سے پہلے کے دور، طاغوتی شاہی حکومت کے دور کی نسبت آج ہم کافی آگے پہنچ چکے ہیں۔ اس میدان میں ہماری رفتار اچھی تھی۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران دنیا کے معتبر علمی مراکز کی رپورٹوں کے مطابق اسلامی جمہوریہ کی پیشرفت کی رفتار دنیا کی اوسط رفتار سے تیرہ گنا زیادہ تھی۔ یہ بات ہم نے نہیں کہی ہے۔ یہ بات دنیا کے متعلقہ علمی اداروں نے اپنے دستاویزات میں کہی ہے۔ البتہ چونکہ ہم بہت زیادہ پیچھے تھے اس لئے دنیا کی اوسط رفتار سے تیرہ گنا زیادہ سرعت کے بعد بھی ہم ہنوز مطلوبہ مقام پر نہیں پہنچ سکے ہیں، تاہم قابل لحاظ پیشرفت ہمیں حاصل ہوئی ہے اور ہم آئندہ بھی آگے بڑھتے رہیں گے۔

ہم نے کہا کہ ہمیں علم و دانش کی حدود سے گزر جانا ہے۔ علم و سائنس کی موجودہ عالمی حدود سے آگے جانا ہے۔ ہمیں آگے بڑھنا ہے اور ہم یہ کام ضرور کریں گے۔ اسلامی جمہوریہ یہ کام ضرور کرے گی۔ البتہ مغرب کے برخلاف۔ اہل مغرب کی عادت اجارہ داری کی ہے۔ یعنی ان کے پاس جو ہے، ان کے پاس جو بہترین علمی تحقیقات ہیں انھیں وہ کسی کو نہیں دیتے۔ ہاں جو چیز طویل مدت تک وہ استعمال کر چکے ہیں، اسے وہ منتقل کرتے ہیں۔ اپنی جدید علمی تحقیقات اور حصولیابیوں کو وہ منتقل نہیں کرتے۔ ان کی اس روش کے برخلاف ہم نے اعلان کیا ہے کہ ہم نے جو کچھ حاصل کیا ہے اسے اسلامی ممالک میں اپنے مسلمان بھائیوں کو دینے کے لئے تیار ہیں۔ تمام میدانوں میں۔

یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ ہمیں اسلامی علوم کے میدان میں بھی پیشرفت حاصل کرنا چاہئے۔ فقہ کے میدان میں ضرورت اس بات کی ہے کہ فقہی مسائل کو ہم جدید طرز فکر کے ساتھ پیش کریں۔ دوستوں نے فقہ کے سلسلے میں جس بات کی طرف اشارہ کیا وہ بھی اس کے مطابق ہے۔ ملک اور انسانی سماج کے نظم و نسق کے تمام پہلوؤں میں نیا فقہی نظریہ ہو سکتا ہے۔ اسلامی فقہ اپنی بات پیش کر سکتی ہے۔ ان میدانوں میں کام ہونا چاہئے۔ یہ فقہ کا کام ہے۔

فلسفہ اور معقولات میں ہمیں اپنی رفتار بڑھانی ہوگی۔ خوش قسمتی سے شیعہ معاشروں میں خاص طور پر ایران میں معقولات کے میدان میں اچھا نمو ہوا ہے۔ یہ سلسلہ ماضی سے چلا آ رہا ہے۔ ہمارے ملک میں اور اسلامی علوم کے مجموعے میں علوم عقلیہ کے ماہرین اور مفکرین موجود رہے ہیں، کام کرتے رہے ہیں اور ان کی تخلیقات موجود ہیں۔ اس پہلو سے ہمیں علوم عقلیہ کے میدان میں کام کرنا ہوگا۔ اہل مغرب نے اپنے فلسفے کو وسعت دیکر سیاسی مسائل، حکومتی مسائل اور سماجی مسائل کو حل کر لیا ہے۔ میں نے کل کتب میلے میں ایسی کتابیں دیکھیں جو مغربی مفکرین نے لکھی ہیں۔ موضوع تھا فٹبال پر فلسفے کے اثرات۔ یعنی فلسفے کا دائرہ وسیع ہوکر فٹبال تک پہنچ گیا ہے! یہ فکری مسائل کو زندگی کے تمام شعبوں اور تمام میدانوں میں پھیلانا ہے۔ یہ کام ہمیں بھی کرنا  ہوگا۔ فلسفے کے اعتبار سے ہم مضبوط ہیں۔ اسلامی فلسفہ مغربی فلسفے سے زیادہ محکم، زیادہ گہرا اور زیادہ مضبوط ہے۔ لیکن زندگی میں اس کی وسعت نظر آنی چاہئے۔ حکومت کے بارے میں ہمارے فلسفے کا نظریہ، سماجی مسائل کے بارے میں فلسفے کا نظریہ، اقتصادیات کے بارے میں فلسفے کا نظریہ، تمدن ساز مسائل کے بارے میں فلسفے کا نظریہ معلوم ہونا چاہئے، واضح ہونا چاہئے۔ یہ کام انجام  پانا چاہئے۔ یہ تو مخصوص اسلامی علوم کی بات تھی، طبیعیات کے میدان میں بھی یہی ہونا چاہئے۔

خوش قسمتی سے آج دنیائے اسلام میں بیداری آ چکی ہے۔ حالانکہ مغرب نے اس بیداری کا انکار کرنے کی کوشش کی۔ جو چیز رونما ہوئی ہے وہ اسلامی بیداری ہے مغربی ایشیا کے علاقے میں، شمالی افریقا کے علاقے میں، عرب ممالک میں۔ یہ ایک بیداری ہے۔ یہ بیداری پورے عالم اسلام میں موجود ہے۔ نوجوان سوال کر رہے ہیں، چیزوں کو سمجھنا چاہتے ہیں، اسلام کے بارے میں اپنے استفہام کی تشفی چاہتے ہیں۔ اسلام سے انھیں توقعات ہیں، اسلام کی جانب ان کا میلان ہے۔ اہل مغرب نے اسلام کے خلاف، اسلامی زندگی کے خلاف، اسلامی طرز زیست کے خلاف بہت زہریلا پروپیگنڈا کیا لیکن اس کے باوجود اسلام کی جانب رجحان ہے۔ یہ رجحان خوش خبری دیتا ہے کہ ان شاء اللہ دنیائے اسلام کا مستقبل زمانہ حال سے بہت بہتر ہوگا۔ دنیائے اسلام ان شاء اللہ ایسے ایام کا مشاہدہ کرے گی جب امت اسلامیہ اسلامی تمدن اور اسلامی زندگی کے اوج پر پہنچ چکی ہوگی اور امریکہ اور اس کے جیسی دوسری طاقتیں اسلامی ممالک کے سربراہوں کو حکم دینے کی جرئت نہیں کر پائیں گی کہ "یہ کرو اور وہ نہ کرو۔" یہ حالت موجود رہی ہے۔ آج بھی بد قسمتی سے بعض جگہوں پر اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ ان شاء اللہ یہ حالت ختم ہوگی۔ دنیائے اسلام فضل پروردگار سے، اذن خداوندی سے اوج پر پہنچے گی۔

میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ یہ علمی تحریک جاری رہے گی۔ میں اس پروگرام کے لئے زحمتیں برداشت کرنے والے اور اس کا انعقاد کرنے والے افراد خاص طور پر آیت  اللہ مکارم کا ایک بار پھر شکریہ  ادا کرتا ہوں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ان کی حفاظت کرے، آپ کو سلامت رکھے، کامیابیاں عطا فرمائے۔ ان کے جوش و جذبے کو جو بحمد اللہ ہمیشہ ان کے اندر موجود رہا ہے اور آج بھی موجود ہے، روز بروز زیادہ مستحکم کرے اور اسے دوام عطا کرے۔

والسّلا‌م علیکم و ‌رحمة‌ الله و برکاته

 

۱) اس ملاقات کے آغاز میں سیمینار کے کنوینر حجت الاسلام ڈاکٹر محمد علی رضائی اصفہانی نے ایک رپورٹ پیش کی۔ 'اسلامی علوم کی پیدائش اور ترویج میں شیعہ مسلک کا کردار' سیمینار کا انعقاد 10 اور 11 مئی 2018 کو قم میں ہوا۔

۲) آیت‌ الله ناصر مکارم ‌شیرازی