بسم الله الرّحمن الرّحیم

برادران عزیز، خواہران گرامی، ہمارے عزیز شہیدوں کے معزز اہل خانہ! خوش آمدید! آپ کے ان شہیدوں کا عمل جو اس موقع پر ملک سے باہر جاکر شہید ہوئے، در حقیقت ان افراد کے عمل کی مانند ہے جنہوں نے اپنی جان نثار کرکے سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کی قبر کی حفاظت کی۔ ایک زمانہ تھا کہ بنی عباس کے خلفا نے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر اور دیگر پاکیزہ قبور کو مٹا دیں۔ مگر کچھ لوگوں نے اپنی جان کی قربانی دیکر اس سازش کو کامیاب ہونے سے روکا۔ یعنی ان حکمرانوں نے کہا کہ اگر زیارت کے لئے کوئی آئے گا تو ہم اس کے ہاتھ کاٹ دیں گے، اس کے پاؤں کاٹ دیں گے، قتل کر دیں گے، مگر اس کے باوجود یہ لوگ زیارت کے لئے گئے۔ وہی سلسلہ آج تک چلا آ رہا ہے اور آج اربعین کے موقع پر دو کروڑ زائرین کے کربلا سفر کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اگر اس زمانے میں ان لوگوں نے قربانی نہ دی ہوتی تو آج ابو عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی محبت کی شوکت اس طرح ساری دنیا کا احاطہ نہ کر پاتی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اربعین کے پیدل مارچ میں دنیا کے مختلف ممالک سے، فارس، ترک، اردو زبان، یورپی ممالک یہاں تک کہ امریکہ سے لوگ یہاں آتے ہیں۔ یہ کس کی وجہ سے ہوا ہے؟ اس عمل کا سنگ بنیاد اور پہلی اینٹ انھیں لوگوں نے رکھی جنہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لئے اپنی جانیں قربان کیں۔ آپ کے فرزندوں نے بھی یہی کیا ہے۔ اگر آپ کے یہ عزیز فرزند ، اگر آپ کے یہ عزیز شہدا، یہ افراد جنہوں نے وہاں جاکر جہاد کیا، اگر یہ نہ ہوتے تو دشمن حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کے قریب آ جاتا۔ وہ کربلا سے چند کلومیٹر کے فاصلے تک آ گیا تھا۔ کم رینج کے مارٹر گولوں، ساٹھ کلومیٹر کی رینج والے مارٹر گولوں سے وہ کربلا پر حملہ کر سکتے تھے۔ وہ اس قدر قریب آ گئے تھے! کاظمین کے قریب آ گئے تھے۔ زینبیہ کے علاقے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ اس علاقے کو تو در حقیقت انھوں نے اپنے محاصرے میں کر لیا تھا۔ آپ کے یہ نوجوان دوسرے ہزاروں افراد کے ہمراہ گئے اور اس مصیبت کو اسلام اور مسلمانوں سے دور کیا۔ آپ کے نوجوانوں نے جو عظیم کارنامہ انجام دیا اس کی یہ اہمیت ہے۔ یہ کام اللہ کی خاطر کیا گیا۔ ہم نے تو کسی کو اس کی ترغیب نہیں دلائی کہ وہ جائے۔ آٹھ سالہ جنگ کی طرح نہیں تھا کہ ہم ترغیب دلاتے تھے، امام خمینی فرمان جاری کرتے تھے، پریڈ کی جاتی تھی، یہ سب کچھ بھی نہیں کیا گیا لیکن اس کے باوجود یہ نوجوان قلبی اشتیاق سے، منت و سماجت کرکے، قلبی چاہت کے ساتھ روانہ ہو گئے، یہی تو اخلاص ہے۔ اللہ تعالی اس اخلاص میں برکت عطا کرتا ہے۔ ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں ہے کہ آپ دنیائے اسلام میں ان کی برکتوں کا مشاہدہ کریں گے۔

بے شک آپ کے لئے، والد کے لئے، والدہ کے لئے، زوجہ کے لئے، اولاد کے لئے، بھائی اور بہن کے لئے بہت سخت ہے۔ یہ تو بالکل واضح ہے۔ لیکن یہ ایسی سختی ہے کہ اس کے عوض اللہ تعالی کی نعمت ہے جس نے صابرین سے وعدہ فرمایا ہے کہ «أُولٰئِکَ عَلَیهِم صَلَواتٌ مِن رَبِّهِم وَ رَحمَة» (۱) ان مصیبتوں پر جو لوگ صبر کرتے ہیں اللہ تعالی ان پر درود بھیجتا ہے، رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ یہ وعدہ خداوندی ہے۔ قرآن کی آیت ہے۔ ان شاء اللہ یہ الطاف خداوندی آپ کے شامل حال ہوں گے۔ خداوند عالم ان شاء اللہ ہمیں بھی آپ کے ان نوجوانوں سے ملحق کرے۔ ہم بھی انھیں کے پیچھے پیچھے ان کے راستے پر چلیں اور ہمارا بھی وہی انجام ہو۔ ایک صلوات پڑھئے! 

۱) سوره‌‌ بقره، آیت نمبر ۱۵۷ کا ایک حصہ