1 مارچ 2000

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 میں سبھی بہنوں اور بھائیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، آپ میں سے ہر ایک کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ بالخصوص ان لوگوں کو جو دور سے تشریف لائے ہیں، خصوصا شہدائے معظم کے خاندان والوں، معذور جانبازوں، جنگی قیدی کی حیثیت سے دشمن کی جیل میں ایک عرضہ گزارنے کے بعد آزاد ہونے والوں اور  (راہ انقلاب میں) فداکاری کرنے والوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ ہماری دعا ہے کہ خدا کا فضل و کرم اور حضرت امام زمانہ (عج اللہ  تعالی فرجہ الشریف) کی خاص عنایات آپ سبھی عزیزوں اور ایرانی عوام کے شامل حال ہوں۔

خداوند عالم نے ایرانی عوام پر فضل و کرم کیا اور ہمارے شجاع عوام نے کامیابی کے ساتھ عظیم اور پرشکوہ انتخابات منعقد کئے۔ اس عظیم اور مبارک واقعے میں بعض نکات ایسے ہیں جن پر توجہ دیتے ہوئے ملک کے حکام اور عوام کو خداوند عالم کا شکریہ ادا کرنا چاہئے اور اس کا شکرگزار ہونا چاہئے، خاص طور پر حکام کو اور اس عظیم، صاحب عزت اور مومن قوم کو بھی عملی طور پر خدا کا شکرگزار ہونا چاہئے۔

 ایک نکتہ یہ ہے کہ اس سال انتیس بہمن مطابق آٹھ فروری کا الیکشن اسلامی جمہوری نظام کے استحکام کے لئے ایک عوامی تحریک تھی۔ جو لوگ سرحدوں کے اس پار سے ہمیشہ ایرانی عوام اور اسلامی جمہوری نظام کو تشہیراتی یلغار کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور اس نظام پر بے بنیاد الزامات لگاتے رہتے ہیں، ان سب کو ہمارے عوام نے الیکشن میں مایوس کرتے ہوئے،  دکھا دیا کہ اسلامی نظام عوامی نظام اور عوام کے عزم و ارادے اور ان کی آراء پر استوار ہے۔ اس نظام کو چلانے والے وہ لوگ ہیں جنہیں عوام قبول کرتے ہیں، ( یعنی جنہیں عوام نے منتخب کیا ہے) یہ الیکشن اسلامی نظام سے عوام کی عظیم بیعت تھی۔ اس الیکشن نے پوری دنیا میں آپ کے دوستوں کو جن کی نگاہیں اس ملک کے واقعات پر رہتی ہیں، خوش کر دیا ہے۔ اسی کے ساتھ عالمی طاقتیں اور سامراجی مراکز اگر چہ زبان پر اس کو نہیں لاتے اور اس کی تصدیق نہیں کرتے، لیکن وہ اس بات سے وحشت زدہ ہو گئے ہیں کہ ملک کے بعض علاقوں میں ووٹنگ کا تناسب نوے فیصد سے بھی زیادہ رہا ہے اور مجموعی طور پر پورے ملک میں پینسٹھ فیصد سے زیادہ لوگوں نے ووٹنگ میں حصہ لیا، یہ اعلی عالمی تناسب ہے جس نے انہیں وحشت زدہ اور پریشان کر دیا ہے۔

ایرانی عوام نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا۔ ایرانی عوام نے اپنے انتخابات میں دکھا دیا کہ وہ اسلامی نظام اور آئين کے، جو اسلامی اقدار کا مظہر ہے، وفادار ہیں۔ ثابت کر دیا کہ اسلام ان کے دل و جان میں بسا ہوا ہے۔ ثابت کر دیا کہ انہیں شہیدوں کے خون کی قدر ہے۔ ملک کے ہر شہر میں چاہے تہران ہو، چاہے دوسرے بڑے شہر ہوں، چاہے چھوٹے شہر ہوں اور چاہے دور دراز کے دیہی علاقے ہوں کتنے جوان اور نوجوان دشمن سے جنگ کے میدانوں میں گئے اور مظلومیت کے عالم میں ان کا خون بہایا گیا۔ ایرانی عوام نے ثابت کر دیا کہ وہ  ان کے خون کو فراموش نہیں کریں گے اور ان کے وفادار رہیں گے۔

پہلی چیز یہ ہے کہ حکام اس کامیابی کو اس نظام کے لئے ایک عظیم ہدیہ سمجھ کے اس کی قدردانی کریں۔ صرف زبانی قدردانی کافی نہیں ہے، بلکہ انہیں عملی طور پر قدردانی کرنی چاہئے۔ خود عوام کو بھی خدا کا شکر ادا کرنا چاہئےکہ ان کا نظام ایک مضبوط اور مستحکم نظام ہے اور ان کا ملک ایسا نہیں ہے کہ دشمن اس میں اختلافات کھڑے کرکے بحران پیدا کر سکیں۔

عوام پوری متانت کے ساتھ پولنگ کے مراکز پر گئے اور پوری تشخیص کے ساتھ عمل کیا۔ میں نے انتخابات سے پہلے سے بھی کہا تھا  اور اب بھی کہتا ہوں کہ جس نے بھی نظام کے استحکام کے لئے، اپنے فریضے کی انجام دہی کے لئے ووٹ دیا ہے، اپنی تشخیص کی بنیاد پر جس کو صحیح سمجھا اس کو ووٹ دیا ہے، اللہ اسے اجر دے گا۔ یہ قوم اور یہ ملک امام زمانہ ارواحنا فداہ کے قبضہ قدرت میں ہے، وہی اس قوم اور اس ملک کے نگراں ہیں۔ جس نے بھی اس عظیم کام میں حصہ لیا، ووٹ دینے گیا، یا ووٹ دینے میں لوگوں کی حوصلہ افزائی کی یا اس امر میں کوئی کام کیا، آپ ان سب کو اجر دیں گے اور خدا سے ان کا شکریہ ادا کریں گے۔ 

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عوام نے پورے سکون اور امن و آشتی کے ساتھ انتخابات منعقد کئے۔ شاید خود ہمیں، جس نے ابتدائے انقلاب سے اب تک اکیس پر امن انتخابات دیکھے ہیں، اس بات کا صحیح ادراک نہ ہو کہ یہ کتنی بڑی نعمت ہے؟!

میرے عزیزو! آپ جان لیجئے کہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں اس طرح کے انتخابات میں پولنگ کے مراکز پر اور تشہیراتی مہم کے دوران لڑائیاں ہوتی ہیں، بحران کھڑا ہو جاتا ہے، نقصان پہنچتا ہے،  قتل ہو جاتے ہیں۔ ہمارے عوام ایسے ہیں کہ جہاں شجاعت دکھانی ہوتی ہے جیسے جنگ کے میدانوں میں، انھوں نے وہاں شجاعت دکھائی ہے اور جہاں قومی مصلحتوں کا تقاضا ہوتا ہے ، اس طرح امن وآشتی اور متانت کے ساتھ عظیم کارنامے انجام دیتے ہیں۔  حکام کو اس پہلو سے بھی عوام کا شکرگزار ہونا چاہئے۔

میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ دشمنوں کو ہمارا یہ امن و سلامتی منظور نہیں ہے۔ سامراجی طاقتوں کی جاسوسی ایجنسیوں کا ایک ہدف ہمارے ملک میں بدامنی پیدا کرنا ہے۔ لیکن وہ اپنے منصوبوں کو برملا نہیں ہونے دیتے، جب وہ اپنے کام میں  کامیاب ہو جاتے ہیں تب پتہ چلتا ہے۔ جیسا کہ اس سال موسم گرما میں (1) دیکھا گیا کہ دشمن کس طرح ہمارے ملک میں آشوب اور بحران کھڑا کرنا چاہتا تھا۔ بعد میں حکام کو معلوم ہوا اور ان کے لئے یہ بات ثابت ہو گئی۔ حالیہ عظیم اور پرشکوہ انتخابات کے بعد بھی امریکا کے ایک سینیئر فوجی افسر نے کہا ہے کہ ایران میں دو تین مہینے میں بدامنی اور بحران وجود میں آئے گا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کوئی سازش اور کوئی منصوبہ تیار کر رہے ہیں۔ ہمارے عوام ہوشیار اور بیدار رہیں۔ البتہ امریکا کے اس فوجی افسر نے شیخی بگھاری ہے اور حماقت کی ہے کہ یہ بیان دے دیا۔ ان کے سیاستداں نہیں بولتے ہیں اور اپنے منصوبوں کو ظاہر نہیں ہونے دیتے؛ لیکن اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا کوئی منصوبہ ہے۔ اس قوم کا امن و استحکام ان کی آنکھوں میں خار کی طرح چبھتا ہے۔ 

ہمارے ملک میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ دنیا میں دوسری جگہوں پر نوجوان کیا کرتے ہیں؟ آپ دیکھیں کہ یورپی ملکوں میں نوجوان کیا کرتے ہیں۔ ہر کچھ عرصے کے بعد لوگوں کو مہذب دنیا میں بدامنی کی خبر ملتی ہے۔ دن کی روشنی میں اسکول اور کالج میں کسی نوجوان کو قتل کر دیا جاتا ہے! ریستوران میں انسان کا قتل ہو جاتا ہے! کسی پارٹی میں کوئی قتل کر دیا جاتا ہے! آپ دیکھیں کہ ہمارے ملک میں یہ سب نہیں ہوتا ہے۔ یہاں امن وسلامتی ہے۔ لیکن وہ اس کو برداشت نہیں کر پا رہے ہیں! جانتے ہیں کہ بدامنی نظام کے ستونوں کو متزلزل کر دیتی ہے۔ انہیں اس کی آرزو ہے۔ یقینا اس کے لئے منصوبہ بندی بھی کرتے ہیں۔ ہمارے عوام ہوشیار رہیں۔ البتہ دشمنوں کو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ملک کے حکام اور ہمارے عوام بحران اور آشوب بپا کرنے کی ان کی کوششوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔ اسلامی نظام اپنے عوام اور نوجوانوں کی سلامتی کی پوری قوت سے  پاسداری کرے گا۔ وہ یہ نہ سمجھیں کہ انہیں اس بات کی اجازت دے دی جائے گی کہ ہمارے عوام کے درمیان دراندازی کریں اور ہمارے نوجوانوں اور اس قوم کے جیالوں کو بدامنی کی تیزوتند آندھیوں کے حوالے کر دیں اور اسلامی نظام خاموش تماشائی بنا رہے۔ کیا یہ ممکن ہے؟ اگر دشمن اس غلط فہمی میں ہیں کہ وہ اس ملک میں کشیدگی اور بدامنی پیدا کرکے نظام کے ستونوں میں رخنہ اندازی کر سکیں گے تو جان لیں کہ ان کی یہ آرزو ان کے ساتھ ہی قبر میں دفن ہو جائے گی۔

تیسرا نکتہ حکام کے فرائض سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلے درجے میں، اس بندہ حقیر کا اور اس کے بعد سرکاری حکام ، اراکین پارلیمنٹ، عدلیہ کے ذمہ دار عہدیداران اور دوسرے ذمہ دار افراد کا فریضہ ہے کہ عوام کے اس کارنامے کا صلہ دیں۔ (یعنی ان کی قدردانی کریں اور ان کے لئے کام کریں)  دو چیزیں عوام کے لئے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں؛ ایک ان کی زندگی کے مسائل ہیں جو ان کے لئے بہت اہم ہیں اور دوسرا مسئلہ دین اور اسلامی اقدار کا ہے جو ان کی نگاہ میں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ عوام کو حق ہے۔ عوام کے کمزور طبقات کی پریشانیاں زیادہ ہیں۔ بعض لوگ جو کشیدگی پیداکرنے والی سیاسی بحثیں کرتے ہیں، وہ اس کو چھوڑیں اور بنیادی اور عملی کام کریں۔ یہی حکام سے عوام کی توقع ہے۔ ہر وقت سیاسی لڑائی۔ انتخابات تھے، ہو گئے۔ یہ اختلافات، یہ دھڑے بندیاں، یہ ایک دوسرے پر (لفظی) حملے، یہ ایک دوسرے کی جھوٹی اور بے بنیاد کمیاں پکڑنا، یہ بہانے تراشیاں، یہ ان کے خلاف وہ ان کے خلاف، چھوڑیں یہ باتیں! بالخصوص ذمہ دار حضرات، اراکین پارلیمنٹ اور اراکین حکومت، ان باتوں کو ترک کریں اور ملک و قوم کے لئے بنیادی کاموں کی انجام دہی میں مصروف ہو جائیں۔

ملک کے اندر ہماری مشکلات کم نہیں ہیں۔ تمام مشکلات و مسائل کی بنیاد دو چیزیں ہیں۔ ایک تو قومی دولت و ثروت کے تعلق سے، فیشن پرستی کے تعلق سے اور عوام کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے تعلق سے مختلف اداروں میں غفلت، کوتاہی، سستی اور شاید ٹھیک طریقے سے کام نہ کرنا ہے۔ دوسری بنیادی مشکل وہ دشمن ہیں جو انہیں باتوں سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں، ہمارے عوام کے لئے سختیاں پیدا کرتے ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں، اختلاف و تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اقتصادی ناکہ بندی کرتے ہیں۔ 

ہمارے عوام مومن اور متحد ہیں۔ ملک کے حکام اور لیڈران بھی متحد رہیں تو دشمن یہ جرائت نہیں کر سکتا۔ اس صورت میں اس ملک اور اس قوم کے خلاف کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ ان اختلافات کو ترک کریں۔ ملک کے بڑے رہنما چھوٹوں کو سیدھے راستے پر لائیں۔ اگر وہ غلطی کر رہے ہیں تو یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ان کی غلطیوں کو جائز ٹھہرائیں اور خود بھی ان کی پیروی کرنے لگیں یا انہیں غلطی کی طرف لے جائيں۔ ان اختلافات کا نتیجہ یہی ہے۔ بعض لوگوں کو ساری فکر اس بات کی ہے کہ بیٹھیں اور اپنا دماغ، آنکھیں، ہاتھ اور قلم و زبان اختلاف کے شعلے بھڑکانے میں استعمال کریں اور پارٹی لائن اور جماعتی و گروہی خطوط کے مسائل کے نام پر دو دھڑوں کو آپس میں لڑائیں۔ بند کریں یہ کام!

حکام سے عوام کی توقع صحیح اور بجا ہے۔ حکام اقتصادی مسائل پر توجہ دیں۔ گرانی اور بے روزگاری کے مسائل کو حل کریں۔ اگر حکام شور و غل اور ہنگاموں سے دور رہتے ہوئے ضروری کوششیں کریں تو اس کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے اور مشکلات دور ہوں گی۔ اگر کوئی مشکل حل نہ ہو باقی رہ جائے تو عوام کے سامنے آئیں صداقت کے ساتھ انہیں بتائیں کہ ہم نے کوشش کی لیکن یہ مسئلہ ابھی حل نہیں ہو سکا ہے۔ آئندہ حل ہوگا۔ لوگ ان کی بات قبول کریں گے۔ اگر وہ عوام کی زندگی کے حقیقی مسائل و مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کے بجائے مختلف ناموں سے مفروضاتی سیاسی مسائل میں الجھیں، تفر‍قے میں پڑ جائيں اور ملک کی سیاسی فضا کو کشیدہ بنائيں تو دشمن کو خوش کریں گے۔ یہ بری بات ہے۔ جو لوگ بھی عوام کی ہدایت اور ان کے سامنے سیدھا اور صحیح راستہ پیش کرنے میں کسی نہ کسی شکل میں کوئی کردار رکھتے ہیں، ان سب کے لئے میری نصیحت ہے کہ اپنے خدائی اور اسلامی فریضے کو سمجھیں اور اس ملک و ملت کے تئيں اپنے فرائض کو جانیں۔ حالیہ انتخابات کا صحیح صلہ اور ردعمل یہی ہو سکتا ہے۔

عوام کے دین کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ عوام دیندار ہیں لیکن کچھ لوگ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ عوام کو دین کی کوئی پروا نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ وہی عوام ہیں کہ پہلوی حکومت نے پچاس سال تک اس ملک میں دین کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔ پچاس سال کے بعد یہی عوام تھے جنہوں نے دین کے لئے اور دین کے نام پر ایک دینی پیشوا اور مرجع کی قیادت میں انقلاب  برپا کیا۔ اسلامی نظام قائم کیا۔ پرچم اسلام سر بلند کیا۔ دنیا کو اسلام کی عظمت وعزت دکھا دی اور خود کو مسلمین عالم بلکہ غیر مسلم اقوام کی نگاہ میں بھی صاحب عزت و وقار بنا لیا۔ کیا یہ قوم دین سے دست بردار ہو جائے گی؟ یہ ان کا خیال خام ہے کہ یہ نوجوان بے دین ہیں۔ بعض امور میں یہ نوجوان اپنے والدین سے بھی زیادہ دیندار ہیں۔ یہ عظیم مظاہرے اور جلوس جو مذہبی مناسبتوں سے برآمد ہوتے ہیں، یہ عظیم مذہبی مجالس ، یہ دعاؤں کے اجتماعات، یہ سب ہمارے نوجوانوں کی دینداری کے ثبوت ہیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران مختلف شہروں میں یوم  عرفہ (نو ذی الحجہ کو) دعائے عرفہ امام حسین پڑھنے کے اجتماعات میں دسیوں ہزار لوگوں کا مجمع دیکھا گیا جن میں اکثریت نوجوانوں کی رہی ہے، جنہوں نے دعائے عرفہ کے دوران زار زار گریہ کیا اورآنسو بہائے۔ ان نوجوانوں، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے دل پاک اور منورہیں۔ یہ خدا سے بہت جلدی اور آسانی سے رابطہ پیدا کر لیتے ہیں۔ کیا یہ بے دین ہیں؟ ہمارے عوام کے درمیان اعتکاف کا رواج عام نہیں تھا۔ لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران اعتکاف کے ایام میں بہت سے شہروں میں اکثر مسجدیں اعتکاف میں بیٹھنے والوں سے مملو نظر آئیں۔ ان میں بھی اکثریت نوجوانوں کی رہی ہے۔ جی نہیں! ہمارے نوجوانوں کی اکثریت متدیّن ہے۔ ہمارے عوام دین اور دینی اقدار کے پابند ہیں۔

 اس کو سبھی جان لیں، حکام جان لیں، اراکین پارلیمنٹ جان لیں، جو لوگ پہلی بار منتخب ہوئے ہیں وہ بھی جان لیں۔ ایسا نہ ہو کہ کوئي بیرونی ریڈیو اسٹیشنوں کے بے بنیاد پروپیگنڈوں کے زیر اثر عوام کے فہم وادراک کو غلط سمجھ بیٹھے اور ان کی دینی امنگوں، خواہشات اور عقائد کے برخلاف بولے۔ اس وقت عوام اس کو مسترد کر دیں گے۔  میں خداوندعالم کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں اور دعاگو ہوں کہ ایران کی عظیم اور صاحب عزت قوم پر اپنے تفضلات، الطاف اور رحمتیں نازل فرمائے۔ میں ایک چھوٹے سپاہی کی حیثیت سے حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ (حضرت امام زمانہ عج اللہ تعالی فرجہ الشریف) کا بھی دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کردتا ہوں کہ  آپ کا دست قدرت اور ارادہ جو  ارادہ الہی کا تابع ہے،  ہمیشہ اس قوم کے سرپر رہا ہے۔ میں عوام اور افراد قوم کا بھی خلوص کے ساتھ شکریہ ادا کرتاہوں کہ آپ میدان عمل میں ڈٹے ہوئے ہیں اور ملک و قوم نیز اسلام و مسلمین کے عزت و وقار کی پاسداری کر رہے ہیں۔ آپ سب کے لئے خداوند عالم سے توفیق کا طالب ہوں ۔

 و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

1- تہران یونیورسٹی کے ہاسٹل کے واقعے کی طرف اشارہ ہے۔