رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ امت مسلمہ اور بشریت کی بہت سی مشکلات کی وجہ قرآنی تعلیمات پر عمل نہ کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آج لطف خداوندی سے اسلامی جمہوریہ کے اندر قرآنی معارف کی جانب عوام الناس بالخصوص نوجوانوں کی توجہ اور ان تعلیمات پر عمل آوری روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور قرآن سے یہی تمسک اسلامی نظام کی سعادت، طاقت اور عزت کا سرمایہ قرار پائے گا۔ (1)

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله‌ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا ابى ‌القاسم المصطفى محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة‌ الله فی الارضین.

پہلی بات تو یہ کہ مجھے بڑی خوشی ہے کہ ایک بار پھر، اس سال بھی اللہ تعالی نے ہم ایرانیوں کو اس عظیم نعمت سے نوازا کہ دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر قرآن سے انس کی محفل کا حصہ بنیں۔ قرآن کے بین الاقوامی مقابلوں کا مطلب ہے دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھائیوں کی ایک تعداد کا قرآن کے محور و مرکز پر جمع ہونا، اس کی قدر کرنا چاہئے۔ سب سے پہلے تو اس شیریں و دلنشیں پروگرام کے منتظمین کا شکریہ ادا کرتا ہوں، ادارہ اوقاف سے تعلق رکھنے والے اور دیگر کارکنان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ تمام حاضرین محترم، معزز مندوبین، بالخصوص دیگر ملکوں سے تشریف لانے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔

جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہم قرآن کی قدر و منزلت کو سمجھیں۔ قرآن صرف تلاوت کرنے کے لئے نہیں ہے۔ تلاوت قرآن مقدمہ ہے قرآن کو سمجھنے کا اور قرآنی معرفت حاصل کرنے کا۔ ہمیں اپنے لئے اس نتیجے کو یقینی بنانا چاہئے۔ اگر تلاوت صحیح اور درست ہو تو اس سے ہمیں دو اہم فائدے ملنے چاہئے۔ ایک تو یہ کہ ہمارے اندر روحانیت اور معنویت کی گہرائی پیدا ہونا چاہئے، اسے عمیق ہونا چاہئے۔ ہم مادی امور میں غرق ہیں۔ انسانوں کو روحانیت پر اور روحانیت کے مرکزی عنصر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہ چیز ہمیں حاصل ہوتی ہے قرآن کی تلاوت سے، البتہ اگر ہم بہترین انداز میں قرآن کی تلاوت کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم اپنی فکر کو اور اپنی سوچ کو مدد بہم پہنچائیں، اسے قرآنی معرفت کی غذا دیں۔ یعنی قرآن کا اثر ہمارے دل پر بھی ہو اور ہمارے ذہن پر بھی ہو۔ اگر ہم قرآن سے مانوس ہو جاتے ہیں تو حیات و زندگی کے بہت سے مفاہیم ہمارے لئے واضح اور روشن ہو جائیں گے۔ کج روی، کج فہمی، قنوطیت، انسانوں کا ایک دوسرے سے خیانت کرنا، انسانوں کی باہمی خصومت، دنیا کی طاغوتی قوتوں کے سامنے انسانوں کا خود کو ذلیل و رسوا کرنا یہ سب دور ہو جائے گا۔ یہ ساری خرابیاں قرآن سے دوری کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ قرآن ہمیں روحانیت بھی عطا کرتا ہے اور معرفت سے بھی آراستہ کرتا ہے۔

قرآن بشر کی سعادت کی کتاب ہے۔ یہ دنیا و آخرت کی سعادت کا سرچشمہ ہے۔ قرآن صرف اخروی سعادت کے لئے نہیں ہے۔ اس سے دنیوی سعادت بھی حاصل ہوتی ہے۔ دنیوی سعادت کا مطلب ہے اس کائنات میں الوہی نعمتوں سے بہرہ مند ہونا۔ یہ ہدف قرآن کی مدد سے حاصل ہو سکتا ہے۔ قرآن کی مدد سے، قرآن پر عمل کرکے ملتیں عزت حاصل کر سکتی ہیں، آسائش حاصل کر سکتی ہیں، علم و دانش حاصل کر سکتی ہیں، طاقت حاصل کر سکتی ہیں، اتحاد و یکجہتی حاصل کر سکتی ہیں، شیریں طرز زندگی حاصل کر سکتی ہیں۔ یہ سب دنیوی امور ہیں۔ آخرت جو روحانی، حقیقی، مستقل اور دائمی زندگی کا نام ہے وہ بھی قرآن سے حاصل ہوتی ہے۔ لہذا قرآن دنیا و آخرت کی سعادت کی کتاب ہے۔ بشرطیکہ ہم قرآن پر عمل کریں، یہ دیکھیں کہ قرآن کیا کہہ رہا ہے۔

دیکھئے ہم امت مسلمہ کے درمیان قرآن پر عمل نہ کرنے کی مثالیں ایک دو نہیں ہیں جبکہ ہماری مصیبتوں کی وجہ بھی یہی ہے۔ مثال کے طور پر فرض کیجئے کہ قرآن کریم پیغمبر اسلام کا اتباع کرنے والوں کے بارے میں کہتا ہے: اَشِدّاءُ عَلَی الکُفّارِ رُحَماءُ بَینَهُم تَراهُم رُکَّعًا سُجَّدًا یَبتَغونَ فَضلًا مِنَ اللهِ وَ رِضوانًا؛(۲) تو وہ «اَشِدّاءُ عَلَی الکُفّارِ رُحَماءُ بَینَهُم» ہیں۔ ہم میں سے بعض «اَشِدّاءُ عَلَی الکُفّار» کو فراموش کر دیتے ہیں، ہم اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جیسے کون لوگ؟ جیسے یہی لوگ جو اسلامی ملکوں میں امریکہ کے دوست بنے ہوئے ہیں، صیہونیوں کے دوست بنے ہوئے ہیں، جنہوں نے فلسطینیوں کا خون پامال کیا، فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کیا، یہ لوگ «اَشِدّاءُ عَلَی الکُفّار» کو بھول گئے اور کفار کے غلام بن گئے، کفار کے مطیع و فرماں بردار بن گئے، اس وقت بہت سے عرب ممالک کے عمائدین اسی زمرے میں آتے ہیں۔ تو ایک گروہ یہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایک گروہ ہے جو «رُحَماءُ بَینَهُم» کو بھول بیٹھا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ وَ المُؤمِنونَ وَالمُؤمِناتُ بَعضُهُم اَولِیاءُ بَعض (۳) یہ قرآن کہتا ہے۔ جبکہ یہ کیا کرتے ہیں، یہ آکر اللہ پر ایمان رکھنے والے کو، قرآن پر ایمان رکھنے والے کو، کعبہ پر ایمان رکھنے والے کو، قبلہ پر ایمان رکھنے والے کو کافر قرار دے دیتے ہیں! کہتے ہیں کہ یہ تو کافر ہے! یہ لوگ «رُحَماءُ بَینَهُم» کو فراموش کر دیتے ہیں۔ جب «رُحَماءُ بَینَهُم» پر عمل نہ ہو تو اسلامی ملکوں میں خانہ جنگی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ آپ شام کو دیکھئے، یمن کو دیکھئے۔ چار سال سے زیادہ ہو گئے کہ یمن پر بمباری ہو رہی ہے۔ یہ بمباری کرنے والا کون ہے؟ کوئی کافر ہے؟ نہیں، ایک مسلمان ہے۔ بظاہر وہ بھی مسلمان ہی ہے، لیکن مسلمانوں پر رحم نہیں کر رہا ہے۔ یہی ہے «اَلَّذینَ جَعَلُوا القُرءانَ عِضین»(۴) کا مصداق کہ قرآن کے صرف ایک حصے پر عمل کرتے ہیں۔ اَفَتُؤمِنونَ بِبَعضِ الکِتاب وَ تَکفُرونَ بِبَعضٍ؟(۵) البتہ ان میں بعض کا تو قرآن کی کسی بھی چیز پر کوئی عقیدہ نہیں ہے۔

بہرحال قرآن کی تلاوت، عملدرآمد کا مقدمہ ہے، معرفت کا مقدمہ ہے، شناخت کا مقدمہ ہے۔ ہمیں اپنے طور پر دیکھنا چاہئے کہ عمل کے اس مرحلے میں ہم کیا کچھ انجام دے سکتے ہیں۔ سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ ہم اللہ کا ذکر فراموش نہ کریں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ ہم اپنے عمل کا معیار تقوی کو قرار دیں۔ یہ آسان کام ہیں، یہ ممکن کام ہیں۔ یہ ناممکن کام نہیں ہیں کہ ہم کہیں: "آخر کیسے ہوگا؟" اللہ کو یاد کیجئے: یااَیُّهَا الَّذینَ ءامَنُوا اذکُرُوا اللهَ ذِکرًا کَثیرًا * وَ سَبِّحوهُ بُکرَةً وَ اَصیلًا (۶) انسان کوئی بھی کام انجام دینا چاہتا ہے تو پہلے یہ سوچ لے کہ یہ عمل رضائے الہی کے مطابق ہے یا نہیں۔ اگر اسے یہ یقین نہ ہو کہ یہ عمل رضائے الہی کے برخلاف ہے تو اس کی انجام دہی میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس بات کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے کہ وہ عمل رضائے الہی کے خلاف نہ ہو۔ ذکر صرف زبان سے نہیں ہونا چاہئے، اس معنی و مفہوم پر بھرپور توجہ حقیقی ذکر الہی ہے۔

اس کے بعد ہے تقوی۔ قرآن کی ہدایت متقی افراد کو حاصل ہوتی ہے۔ تقوی کے معنی یہ ہیں کہ ہم اپنے اعمال پر نظر رکھیں، اپنی نگرانی کریں! اس شخص کی طرح جو کسی ایسے تنگ راستے سے گزرتا ہے جس کے دونوں سمت میں گہری کھائی ہے۔ دونوں طرف کھائی ہے۔ ایسی صورت میں آپ کوئی بھی قدم بڑھانے سے پہلے بخوبی غور کریں گے۔ روایتوں میں تقوی کی مثال کانٹوں سے بھرے علاقے میں راستہ چلنے کی دی گئی ہے۔ ایسا علاقہ جہاں کانٹے ہی کانٹے بکھرے ہوئے ہیں۔ ایسی جگہ آپ بہت محتاط رہتے ہیں کہ آپ کا لباس یا ہماری جیسی بلند قبا یا بلند عبا یا شلوار ان کانٹوں میں الجھ نہ جائے، یا کہیں پیر میں  کانٹا نہ چبھ جائے، آپ خیال رکھتے ہیں۔ آپ کتنے محتاط رہتے ہیں؟! تقوی کا یہی مطلب ہے۔ یعنی خیال رکھئے کہ عالم وجود، گرد و  پیش کے اس عالم مادہ میں انسان کانٹوں میں گھرا ہوا ہے، یہاں آپ کو خیال رکھنا ہے کہ کہیں الجھ نہ جائیں۔ البتہ تقوی کے بھی مدارج ہیں۔ اس کا بلند مرتبہ ان افراد کے لئے ہے جو اپنی جان کی پروا نہیں کرتے۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ان عزیز شہیدوں (7) پر جنہوں نے ہمیں اس کی تعلیم دی کہ اگر تم نفس کے خاردار تار سے گزرنے میں کامیاب ہو گئے تو دشمن کی طرف سے لگائے گئے خاردار تار کو بھی عبور کرنے میں کامیاب ہو جاؤگے۔ رضائے پروردگار نصیب ہو ان شہیدوں کو! انھوں نے ہمیں بہت کچھ سکھایا۔

اس وقت آپ خوزستان اور دیگر خطوں میں سیلاب زدہ افراد کی امداد کے جو مناظر دیکھتے ہیں یہ درس ہمیں شہیدوں نے دیا ہے۔ آج سیلاب زدہ علاقوں کی امداد کے لئے ملک بھر سے عوام کی کثیر تعداد کا روانہ ہو جانا ایک عجیب چیز ہے۔ اس پر آپ کی  توجہ ہے؟ خوزستان میں بھی، لرستان میں بھی، ایلام میں بھی، مازندران میں بھی، گلستان میں بھی لوگ، نوجوان جا رہے ہیں اور مقامی نوجوانوں کے ساتھ مل کر اپنے ہاتھوں سے، اپنے زور بازو سے، اپنے وسائل سے، اپنے پیسوں سے، اپنے سامان سے، اپنے تحفوں سے مدد کر رہے ہیں۔ ایک عظیم مہم شروع ہو گئی ہے۔ دنیا میں اس کی مثال بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ ہلال احمر جیسے ادارے یا بعض حکومتی ادارے جاتے ہیں اور کچھ امدادی کام انجام دیتے ہیں لیکن عوام الناس اس طرح سیلاب کی مانند روانہ ہو جائیں! یہ  ایک عجیب چیز ہے۔ یہ ہمارے شہیدوں سے ملنے والے سبق ہیں۔

میرے عزیز نوجوانو! آپ میں اکثر نوجوان ہیں۔ آپ نے ان ایام کو نہیں دیکھا ہے۔ 1980 کا عشرہ نہیں دیکھا ہے۔ مقدس دفاع کے دوران بھی نوجوان اسی اشتیاق اور جوش و جذبے سے جاتے تھے، جذبہ قربانی سے سرشار ہوکر جاتے تھے، فَمِنهُم مَن قَضىٰ نَحبَهُ وَ مِنهُم مَن یَنتَظِرُ وَ ما بَدَّلوا تَبدیلًا؛(۸) ان میں کچھ شہید ہو گئے، وہ تو بڑی قسمت والے تھے! کچھ صحیح و سالم واپس آئے۔ جو لوگ صحیح و سالم واپس آئے ہیں وہ خیال رکھیں کہ اپنی سلامتی اور اپنی پاکیزگی کی حفاظت میں کوتاہی نہ کریں۔ یہ قرآن سے ملنے والے سبق ہیں۔ یہ قرآن سے ملنے والا سبق ہے کہ نوجوان کو اس انداز سے میدان میں اترنے پر آمادہ کر دیتا ہے اور مومن انسان پختہ عزم کے ساتھ چل پڑتا ہے۔

میرے عزیزو! قرآن سے خود کو زیادہ سے زیادہ مانوس کیجئے! میری سفارش اور تاکید یہ ہے کہ قرآن سے زیادہ سے زیادہ انسیت پیدا کیجئے۔ یہ ذکر خداوندی اور یہ تقوی جس کا میں نے ذکر کیا، اگر ہمیں حاصل ہو جائے تو قرآنی ہدایت بھی ہمارے لئے آسان ہو جائے گی۔ کیونکہ قرآن تو «هُدًی لِلمُتَّقین» (۹) اگر تقوی ہوگا تو ہدایت ملنا یقینی ہے۔ اس کے لئے کہ قرآن بعض لوگوں کے لئے «هادیِ»  اور بعض دیگر کے لئے «مُضل»(۱۰) ہے۔ یُضِلُّ مَن یَشاءُ وَ یَهدی مَن یَشاء (۱۱) یہ ہے صورت حال۔ کچھ لوگوں کو اس جانب لے جاتا ہے، ہدایت سے آراستہ کرتا ہے۔ ہدایت متقین کا حق ہے۔ تقوی جتنا زیادہ ہوگا ہدایت بھی اتنی ہی واضح اور اعلی درجے کی ہوگی۔ ہمیں اس کے لئے محنت کرنا چاہئے۔

ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ بحمد اللہ ہماری قوم قرآنی ہدایت کی جانب راغب ہے۔ ایک زمانہ ایسا تھا کہ یہ صورت حال نہیں تھی۔ طاغوتی (شاہی) حکومت کے دور میں ہمارے ملک میں یہ صورت حال نہیں تھی۔ قرآن سے یہ انسیت، تلاوت کلام پاک سے لطف اندوز ہونے کا یہ سلسلہ، قرآن حفظ کرنے کی یہ مساعی، قرآنی مفاہیم کے ادراک کی مساعی نہیں تھیں۔ اس زمانے میں اگر کوئی قاری ہوتا بھی تھا تو وہ قرآن نہیں سمجھتا تھا۔ آج الحمد للہ ہمارے نوجوان قرآن فہم و ادراک کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ اس رجحان کو روز بروز تقویت پہنچانا چاہئے۔ اس حالت کو مزید محکم بنانے کی ضرورت ہے۔

یہ یاد رکھئے کہ آج دشمن اسلامی جمہوریہ کے خلاف کسی انداز سے اور امت اسلامیہ کے خلاف کسی اور انداز سے جو سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں، اسلامی جمہوریہ کے خلاف ان کی معاندانہ سرگرمیاں زیادہ شدید ہیں، یہ سب اسلامی جمہوریہ کے خلاف دشمنوں کی دشمنی کی کمزور پڑتی سانسوں کی نشانی ہے۔ ان کی طرف سے دشمنی کی شدت جتنی بڑھے گی ہمارا عزم اتنا زیادہ مستحکم ہوگا، ان کی طرف سے سختیاں جتنی بڑھیں گی ہم اتنے ہی مضبوط ہوں گے۔ قرآنی مفاہیم اور قرآنی تعلیمات کے سلسلے میں ہمارے التزام کے خلاف ان کی ناراضگی جتنی بڑھے گی توفیق خداوندی سے قرآن سے ہمارا  تمسک اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔ قرآن سے تمسک سعادت و کامرانی کا ذریعہ ہے، ہمارے لئے قوت قلب کا ذریعہ ہے، ہمارے لئے باعث افتخار ہے۔ ہم اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ ہمارے اس تمسک کو روز بروز زیادہ کرے اور  ہمیں ان اہداف تک پہنچائے جو قرآن نے ہمارے لئے معین کئے ہیں۔

و ‌السّلام علیکم و‌ رحمة ‌الله و‌ برکاته

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو تہران میں قرآن کریم کے چھتیسویں بین الاقوامی مقابلوں کے بعد انجام  پائی ادارہ اوقاف و فلاحی امور میں ولی امر مسلمین کے نمائندے حجت الاسلام سید مہدی خاموشی نے ایک رپورٹ پیش کی۔

۲) سوره‌ فتح، آیت نمبر ۲۹ کا ایک حصہ؛ «...کفار کے سلسلے میں سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں۔ تم انھیں رکوع اور سجدے کی حالت میں دیکھو گے، وہ فضل و خوشنودی پروردگار کے خواہشمند ہیں۔..»

۳) سوره‌ توبه، آیت نمبر ۷۱ کا ایک حصہ؛ «با ایمان مرد و زن ایک دوسرے کے دوست دار ہیں۔...»

۴) سوره‌ حجر، آیت نمبر ۹۱؛ «وہی جنہوں نے قرآن کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا ہے، (یعنی اس کے بعض حصے پر عمل کرتے ہیں اور بعض کو ترک کر دیتے ہیں۔) »

۵) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۸۵ کا ایک حصہ؛ « کیا تم کتاب (توریت) کے صرف ایک حصے پر ایمان رکھتے ہو اور اس کے دوسرے حصے کے سلسلے میں کفر اختیار کرتے ہو؟»

۶) سوره‌ احزاب، آیات ۴۱ و ۴۲؛ «اے ایمان لانے والو! اللہ کو یاد کرو، بہت زیادہ ذکر کرو، صبح و شام پاکیزگی کے ساتھ اس کی حمد و ثنا کرو۔ »

۷) شہید علی چیت ‌سازیان

۸) سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۲۳ کا ایک حصہ؛ «مومنین میں ایسے مرد ہیں جنہوں نے اس پر صداقت کے ساتھ ثابت قدمی اختیار کی جس کے بارے میں انھوں نے اللہ سے میثاق کیا تھا، ان میں سے بعض نے میثاق کو اس کے انجام تک پہنچایا (اور انھیں شہادت نصیب ہوئی) ان میں سے  بعض ہیں جنہیں جام شہادت کا انتظار ہے، ان کے عہد و پیمان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔»

۹) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۲ کا ایک حصہ

۱۰) دفتر ششم مثنوی کے ایک شعر کی جانب اشارہ ہے: «در نُبی فرمود این قرآن ز دل / هادی بعضی و بعضی را مضل»

۱۱) سوره‌ نحل، آیت نمبر ۹۳ کا ایک حصہ