مشہد مقدس میں مارچ 2019 میں ہونے والی اپنی اس تقریر میں رہبر انقلاب اسلامی نے شادی، خاندان، گھریلو زندگی اور بچوں کی زیادہ تعداد جیسے نکات پر رہنما گفتگو فرمائی۔  

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کے لئے شادی کی نعمت بہت بڑی نعمت ہے جس کی جانب بہت سے افراد متوجہ نہیں ہیں۔ یہ جو اللہ تعالی آپ کو توفیق عطا کرتا ہے اور آپ کی مدد کرتا ہے کہ آپ اپنے لئے اچھا شریک حیات تلاش کر سکیں، یہ اللہ کی بہت بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ اس نعمت پر شکر ادا کرنا چاہئے۔ اس نعمت کا شکر اس طرح ہو سکتا ہے کہ خاندانوں کے لئے، بیوی اور شوہر کے لئے اللہ نے جو اصول معین فرمائے ہیں، اسلام میں خاندانوں کے لئے جن اخلاقیات کا تعین کیا گيا ہے ان کی مکمل پابندی کی جائے۔ اس زندگی کی قدر کیجئے۔ کوشش کیجئے کہ جہاں تک ممکن ہے آپ کی یہ زندگی اسلامی زندگی ہو۔ ایک نکتہ تو یہ ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام سے منقول جو حدیث میں نے پڑھی: «تَناکَحوا تَناسَلوا تَکثُروا»(۱)،  اللہ تعالی نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی تعداد بڑھائیں، اس میں اضافہ کریں۔ واقعی یہ حقیقت ہے کہ اگر مسلمان قوم کی آبادی بڑھے، اسلامی ممالک جیسے ہمارے وطن عزیز میں یا امت اسلامیہ کی سطح پر مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو تو ان کے اندر نمو و ارتقاء کے جدید امکانات و ذرائع پیدا ہوں گے۔ یعنی جب تعداد بڑھے گی تو یقینا ان کے اندر صالح بندوں کی تعداد بھی زیادہ ہوگی، توانائیوں میں بھی لا محالہ اضافہ ہوگا۔ افرادی قوت بھی یقینا زیادہ معیاری ہوگی۔ اگر آبادی بڑھے تو یہ چیزیں فطری طور پر ہوں گی۔ اگر آبادی کم ہے تو وہ حالات کے رحم و کرم پر رہے گی۔ آج دنیا میں جن ملکوں کی آبادی زیادہ ہے وہ اسی آبادی کی برکت سے بہت سی کامیابیاں اور ثمرات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کی ایک مثال چین ہے، دوسری مثال ہندوستان ہے۔ بے شک انھیں مشکلات بھی در پیش ہیں لیکن اس کے باوجود خود یہ آبادی ایک سماجی سرمائے، سیاسی سرمائے اور بین الاقوامی سرمائے کے طور پر انھیں کامیابیاں دلا رہی ہے۔ بنابریں آبادی میں اضافہ ہونا چاہئے۔ میں جو بار بار یہ بات کہتا ہوں، اس پر تاکید کرتا ہوں، اصرار کرتا ہوں تو اس کی یہی وجہ ہے۔

البتہ اس وقت ہمارے ملک میں لوگ مان رہے ہیں، انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جن لوگوں تک یہ بات پہنچتی ہے وہ اس پر معترض نہیں ہیں، اسے تسلیم کرتے ہیں لیکن عہدیداران جن کو عملی طور پر کچھ ضروری اقدامات کرنے ہیں اور حالات کو سازگار بنانا ہے وہ ضروری کاموں کو انجام نہیں دیتے۔ البتہ اعلی رتبہ عہدیداران تو کہتے ہیں کہ ہم اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں لیکن میانہ درجے کے عہدیداران ٹھیک سے کام نہیں کر رہے ہیں۔ بہرحال بچوں کی تعداد میں اضافہ ایک عمومی ثقافت میں تبدیل ہونا چاہئے۔ آپ دیکھئے کہ بعض مغربی ممالک میں، مثال کے طور پر امریکہ میں ایک کنبے میں پندرہ بچے ہیں، بیس بچے ہیں، یہ صورت حال ہے۔ ایسے خاندانوں کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے، کوئی بھی ان کی سرزنش نہیں کرتا۔ لیکن جب ہمارے ملک کی بات آتی ہے تو برعکس صورت حال کی تشہیر کرتے ہیں۔ یعنی کم بچوں کی بات کرتے ہیں۔ تو یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے اس پر توجہ دینا چاہئے۔

آخری نکتہ یہ ہے کہ زوجہ و شوہر جادہ حق میں اور راہ حق میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ عورت اپنے شوہر کی مدد کر سکتی ہے کہ وہ صراط حق پر ثابت قدم رہے اور آگے بڑھے۔ یہی مدد شوہر اپنی بیوی کو فراہم کر سکتا ہے۔  دو شرکاء کی مانند، محاذ کے دو ساتھی سپاہیوں کی مانند زندگی بسر کیجئے۔ عملی طور پر بھی دیکھا جائے تو شریعت میں بھی اور زمینی حقیقت کے اعتبار سے بھی بیوی اور شوہر ایک دوسرے کے نزدیکی ترین فرد ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو اپنے اندر خلوص، پاکیزگی اور محبت کی فضا قائم کیجئے۔ شیریں گھریلو زندگی کا اصلی سرمایہ محبت ہے۔ کوشش کیجئے کہ یہ محبت روز بروز بڑھے۔ یہ چیز انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے اور وہ یہ کام انجام دے سکتا ہے۔

امام رضا علیہ السلام کے روضے کی اس برکت سے اور ان مبارک ایام کی برکت سے اللہ تعالی آپ کے لئے یہ موقع مبارک کرے۔

 

۱) جامع‌ الاخبار، صفحہ ۱۰۱