بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین.

عَن مُحَمَّدِ بنِ مُسلِمٍ قالَ سَمِعتُ اَبا جَعفَرٍ وَ جَعفَرَ بنَ مُحَمَّدٍ (عَلَیهِمَا السَّلامُ) یَقولانِ اِنَّ‌ اللَّهَ‌ تَعالیٰ‌ عَوَّضَ الحُسَینَ (عَلَیهِ السَّلامُ) مِن قَتلِهِ اَن جَعَلَ الاِمامَةَ فی ذُرّیَّتِهِ وَ الشِّفَاءَ فی تُربَتِهِ وَ اِجابَةَ الدُّعاءِ عِندَ قَبرِهِ وَ لا تُعَدُّ اَیّامُ زائِریهِ جائِیاً وَ راجِعاً مِن عُمُرِه. قالَ مُحَمَّدُ بنُ مُسلِمٍ فَقُلتُ لِاَبی عَبدِ اللَّهِ (عَلَیهِ السَّلامُ) هَذَا الجَلالُ یُنالُ بِالحُسَینِ (عَلَیهِ السَّلامُ) فَما لَهُ فی نَفسِهِ فَقالَ اِنَّ اللَّهَ تَعالیٰ اَلحَقَهُ بِالنَّبِیِّ (صَلَّی اللّهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ) فَکانَ مَعَهُ فی دَرَجَتِهِ وَ مَنزِلَتِهِ ثُمَّ تَلا اَبو عَبدِ اللَّهِ (عَلَیهِ السَّلامُ) وَ الَّذینَ آمَنوا وَ اتَّبَعَتهُم ذُرّیَّتُهُم بِایمانٍ اَلحَقنا بِهِم ذُرّیَّتَهُم.(۱)

عَن مُحَمَّدِ بنِ مُسلِمٍ قالَ سَمِعتُ اَبا جَعفَرٍ وَ جَعفَرَ بنَ مُحَمَّدٍ (عَلَیهِمَا السَّلام)

دونوں اماموں سے یہ روایت سنی۔

یَقولانِ اِنَّ‌ اللَّهَ‌ تَعالیٰ‌ عَوَّضَ الحُسَینَ (عَلَیهِ السَّلامُ) مِن قَتلِهِ اَن جَعَلَ الاِمامَةَ فی ذُرّیَّتِه

امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالی نے امام حسین علیہ السلام کو ان کے قتل ہونے کا صلہ یہ دیا کہ ان کی نسل میں امامت اور ان سے منسوب خاک میں شفا اور ان کی قبر کے جوار میں دعا کی قبولیت قرار دی۔ اسی طرح جب زائر، امام حسین کی زیارت کے لئے آتے اور وہاں سے لوٹتے ہیں تو ان کی عمر کے ان ایام کا حساب نہیں کیا جاتا۔

بے شک یہ جزا اور صلہ کا ایک حصہ ہے۔ اللہ تعالی جو جزا ایک عام شہید کو دیتا ہے، مثال کے طور پر میدان جنگ میں ایک گولی کھاکر یا زمانہ قدیم میں تلوار کھاکر گرتا ہے اور شہید ہو جاتا ہے تو اس کے لئے اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: «اَحیاّْءٌ عِندَ رَبِّهِم یُرزَقونَ * فَرِحینَ بِماِّ ءاتٰهُمُ اللهُ مِن فَضلِه! وَ یَستَبشِرونَ بِالَّذینَ لَم یَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم اَلّا خَوفٌ عَلَیهِم» (۲) جب اللہ تعالی ایک عام شہید کے بارے میں اس طرح کلام کرتا ہے تو امام حسین جیسے شہید اعظم کا اجر کہ جن کی شہادت سے کسی بھی شہادت کا موازنہ ممکن نہیں ہے، یعنی تاریخ میں ہمیں کوئی اور مثال نظر نہیں آتی، مجھے نہیں نظر آتا کہ کسی نے اس طرح کے مصائب اور ایسی سختیاں برداشت کی ہوں اعلی ہدف کے لئے، بلند مقصد کے لئے۔ اس شہادت سے کسی بھی عام شہید کا موازنہ ممکن نہیں ہے۔ اس روایت میں جس اجر و ثواب اور صلہ و جزا کا ذکر ہے وہ  اپنی جگہ تاہم ہمیں یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ امام حسین علیہ السلام کا اجر بس یہی ہے۔ ان کو ملنے والے اجر و ثواب کا ایک حصہ یہ ہے جس کا ذکر اس روایت میں ہے اور یہ بہت اہم اجر ہے۔ ایک یہ کہ حضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے «عَوَّضَ الحُسَینَ (عَلَیهِ السَّلامُ) مِن قَتلِهِ اَن جَعَلَ الاِمامَةَ فی ذُرّیَّتِه» امامت کو، اس لہراتے پرچم ہو، پوری تاریخ میں ضوفشانی کرنے والے اس خورشید کو آقا حسین کی نسل میں اور ان کی اولاد میں قرار دیا۔

وَ الشِّفَاءَ فی تُربَتِه

آپ کی قبر کی خاک، خاک شفا ہے، دوا ہے، علاج ہے۔ مٹی تو مٹی ہے لیکن یہ مٹی اس پاکیزہ پیکر کے جوار میں ہونے کے باعث ایسی خاصیت کی حامل ہے کہ اس میں شفا ہے۔

وَ اِجابَةَ الدُّعاءِ عِندَ قَبرِه

ایک اجر یہ دیا ہے کہ آپ آقا حسین علیہ السلام کی قبر کے پاس جاکر دعا کیجئے تو آپ کی دعا مستجاب ہوگی۔ مگر دعا حقیقی ہونا چاہئے صرف زبان سے ادائیگی نہ ہو۔ دعا پڑھئے اور اللہ سے مانگئے، اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ دعا کو مستجاب کرے گا۔ جو لوگ یہ سفر پیدل طے کرتے ہیں، اربعین کے اس پیدل مارچ میں جو ان برسوں میں رونما ہونے والی حیرت انگیز چیز ہے، خود کو پہنچاتے ہیں انھیں واقعی اللہ تعالی نے گویا بہت بڑا عطیہ دیا ہے۔

وَ لا تُعَدُّ اَیّامُ زائِریهِ جائِیاً وَ راجِعاً مِن عُمُرِه

ایک اجر یہ بھی ہے۔ اگر اللہ تعالی نے مثال کے طور پر آپ کی زندگی دس ہزار دن کی قرار دی ہے تو یہ چند روز جو مولا کی قبر کی زیارت کے لئے جانے اور واپس آنے میں صرف ہوں گے وہ ان دس ہزار دنوں میں شمار نہیں کئے جائیں گے۔ یہ اللہ تعالی نے جو عمر آپ کی مقرر فرمائی ہے اس سے الگ ہوں گے۔ ان کا حساب آپ کی عمر کے ان دس ہزار دنوں میں نہیں ہوگا، یہ اضافی عمر ہے، الگ سے ملنے والی عمر ہے۔

قالَ مُحَمَّدُ بنُ مُسلِمٍ فَقُلتُ لِاَبی عَبدِ اللَّهِ (عَلَیهِ السَّلامُ) هَذَا الجَلالُ یُنالُ بِالحُسَینِ (عَلَیهِ السَّلام) فَما لَهُ فی نَفسِه

محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ جب حضرت نے یہ فرمایا تو میں نے کہا کہ یہ عظمت و جلالت، یہ بلند مرتبہ امام حسین کی برکت سے مختلف لوگوں کو ملے گا۔ اگر آپ نے خاک کربلا استعمال کر لی، وہ مٹی کھائی اور آپ کو شفا حاصل ہوئی تو یہ گویا آپ پر ایک بڑا لطف ہوا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی برکت سے یہ عظمت و جلالت یہ بلند مرتبہ انھیں عطا ہوا ہے۔ جب اللہ تعالی امام حسین کی خاطر دوسروں کو یہ عظمت و جلالت عطا کرتا ہے، یہ بلند مرتبہ عنایت فرماتا ہے تو خود انھیں (امام حسین کو) وہ کون سا مرتبہ عطا کرے گا؟

فَقالَ اِنَّ اللَّهَ تَعالیٰ اَلحَقَهُ بِالنَّبِیِّ (صَلَّی اللّهُ عَلَیهِ وَ آلِه)

خود امام حسین کا اجر یہ ہے کہ آپ پیغمبر سے متصل ہیں۔ عالم وجود میں تمام الہی فضیلتوں کا نچوڑ پیغمبر اکرم کی ذات والا صفات ہے۔  اللہ تعالی قیامت میں امام حسین کو پیغمبر سے ملحق کر دے گا۔

فَکانَ مَعَهُ فی دَرَجَتِهِ وَ مَنزِلَتِه

قیامت کے دن امام حسین پیغمبر کے درجے پر اور پیغمبر کی منزلت میں نظر آئیں گے۔

ثُمَّ تَلا اَبو عَبدِ اللَّهِ (عَلَیهِ السَّلامُ) «وَ الَّذینَ آمَنوا وَ اتَّبَعَتهُم ذُرّیَّتُهُم بِایمانٍ اَلحَقنا بِهِم ذُرّیَّتَهُم»

اس آیت کا ایک مصداق یہی ہے۔

۱). امالی طوسی، مجلس نمبر گیارہ، صفحہ ۳۱۷؛ «محمّد بن‌ مسلم کہتے ہیں: میں نے امام باقر اور امام صادق علیہما السلام دونوں کو فرماتے سنا کہ بے شک اللہ تعالی نے امام حسین علیہ السلام کو قتل ہونے کے عوض یہ اجر عطا فرمایا کہ آپ کی نسل میں امامت، آپ کی مٹی میں شفا، آپ کی قبر کے جوار میں قبولیت دعا قرار دی اور یہ اجر دیا کہ زائر جب ان کی زیارت کے لئے جائیں گے تو آنے جانے میں صرف ہونے والے ایام کو ان کی عمر کی معینہ مدت میں حساب نہیں کرے گا۔ محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کی کہ یہ ساری عظمت و جلالت امام حسین علیہ السلام کی برکت سے ملتی ہے تو خود امام حسین کو کیا عطا کیا جائے گا؟ امام نے فرمایا کہ بے شک اللہ انھیں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملحق کر دے گا اور وہ ہمیشہ ان کے ہمراہ، ان کے درجے اور ان کے مقام و منزلت پر نظر آئيں گے۔ اس کے بعد امام صادق علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اولاد کو بھی ان سے ملحق کر دیں گے۔

۲) سورہ آل عمران، آیت نمبر 169 کا ایک حصہ اور آيت نمبر 170 کا ایک حصہ «...وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کی بارگاہ میں رزق حاصل کرتے ہیں، اللہ نے اپنے فضل سے انھیں جو عطا کیا ہے اس پر شادمان ہیں اور جو لوگ انھیں کی راہ پر گامزن ہیں تاہم ہنوز ان سے متصل نہیں ہوئے ہیں ان کو خوش خبری دیتے ہیں کہ ان کے لئے کوئی خوف و ہراس نہیں ہے۔...»