26  ستمبر 2019 کے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی روابط کے سلسلے میں رہنما ہدایات دیں۔

ماہرین اسمبلی سے رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کے کچھ اقتباسات:

٭اگلا نکتہ ہے نوجوانوں پر تکیہ کرنا، یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ نوجوانوں کو میدان میں لانا چاہئے۔ میں نے البتہ بارہا نوجوانوں کے بارے میں گفتگو کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ نوجوانوں کو میدان میں لانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو بھی نوجوان نہیں ہے اسے میدان سے نکال دیا جائے۔ بالکل نہیں۔ ہر کسی کی اپنی ایک جگہ ہے.... نوجوان افرادی قوت کو اس پورے مجموعے کا ہاتھ بٹانے کے لئے آگے آنا چاہئے۔ اس افرادی قوت کو نظر انداز کرنا بڑے نقصان کی بات ہے۔ ہمیں اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ کبھی دیکھنے میں آتا ہے کہ غفلت برتی جا رہی ہے۔ ہم اعلی سطحی اور میانہ درجے کے انتظامی عہدوں پر نوجوانوں سے کافی مدد لے سکتے ہیں، ہمیں ان کے وجود کی برکت سے مستفید ہونا چاہئے۔ بعض اہم کاموں میں انسان جب کسی نوجوان گروہ کو کوئی اشارہ دیتا ہے، کوئی انتباہ دیتا ہے تو تھوڑے ہی دنوں میں اس کا اثر دکھائی دینے لگتا ہے۔ آپ کو نظر آتا ہے کہ سفارشات کو عملی جامہ پہنایا گيا ہے، عمل ہوا ہے، پیشرفت حاصل ہوئی ہے، انھوں نے کام کیا ہے۔۔۔۔۔

داخلی توانائیوں پر توجہ۔ جنگ میں، مقدس دفاع میں جو اہم چیزیں تھیں ان میں ایک خاص بات یہی تھی۔ مقدس دفاع کے دوران نوجوان افرادی قوت پر اعتماد بہت نمایاں خصوصیت تھی۔ سپاہ پاسداران کا کمانڈر تقریبا پچیس چھبیس سال کا نوجوان ہوتا تھا، بریگیڈ کا کمانڈر بیس پچیس سال، تیس سال کا نوجوان ہوتا تھا۔ اس انداز سے کام کیا گیا ہے۔ جنگ کے میدان میں بھی رضاکار فورس، سپاہ پاسداران اور فوج کے نوجوان موجود تھے اور اکثر و بیشتر یہی ہوا کہ ان نوجوانوں نے بڑی مدد کی۔

قومی عزم و ارادہ۔ بغیر قومی عزم و ارادے کے کام انجام نہیں پاتے۔

٭ایک اور اہم نکتہ جس پر ہمیں خود بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور عوام کی توجہ بھی اس جانب مبذول کرانے کی ضرورت ہے، یہ ہے کہ ہماری سوچ اور طرز فکر دشمنوں کے حملوں کی آماجگاہ بنا ہے۔ یعنی دشمن بڑی کوششیں کر رہا ہے کہ حقائق کے سلسلے میں ہمارے تصور و ادراک کو، حقائق کے بارے میں ہماری سوچ کو منحرف کر دے۔ ہمارے ادراک سے مراد کن لوگوں کا ادراک ہے؟ یعنی فیصلوں کے مقدمات تیار کرنے والے اور فیصلے کرنے والے افراد، عوام اور رائے عامہ۔ دشمن کی کوشش یہ ہے کہ ہمارے قومی مفادات کو اپنی مرضی کے مطابق متعارف  کرا دے۔ ابھی دو تین روز قبل کی بات ہے کہ امریکی صدر (1) نے ملت ایران سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ ان کی بات کا مفہوم یہ تھا، البتہ اسے پوری صراحت کے ساتھ بیان نہیں کیا، کہ اگر یہ لوگ آئیں اور ہماری بات مان لیں، یعنی در حقیقت ہمارے دباؤ میں آ جائیں تو ان کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ یہ سر تسلیم خم کر دینے کا مصداق کامل ہے۔ البتہ اس آدمی کو ٹھیک سے بات کرنا نہیں آتا۔ اسی بات کو مختلف شکلوں میں، ان کے مختلف ذرائع ابلاغ اور تشہیراتی امور کے ماہرین دائمی طور پر سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ملت ایران اس طرح عمل کرنا شروع کر دے تو اس کی ساری مشکلات حل ہو جائیں گی۔ عوام کی اکثریت تو اسے در خور اعتناء نہیں سمجھتی لیکن بہرحال یہ کام انجام دیا جا رہا ہے۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ حقائق کے بارے میں اور زمین پر جو چیزیں موجود ہیں ان کے بارے میں ہمارے ادراک کو بدل دیں۔ قومی مصلحتوں کی اس طرح تعریف کریں کہ ان کی مرضی کے مطابق ہو جائیں، قومی مفادات کے سلسلے میں بھی یہی ہے۔

وہ ہمیں باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم کمزور ہیں۔ ان کی یہ خواہش ہے۔ وہ ہمیں باور کرانا چاہتے ہیں کہ گھٹنے ٹیک دینے میں ہماری بھلائی ہے۔ وہ یہ چاہتے ہیں اور اسی پر ان کا بہت اصرار ہے۔ یعنی ملک کے عہدیداران کے افکار اور طرز فکر کو انھوں نے نشانہ بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری بھلائی، ملکی مشکلات سے نجات کا راستہ انقلابی نعروں سے کنارہ کشی میں ہے۔ یہ بات حالیہ دنوں بعض یورپی اور مغربی عہدیداروں وغیرہ نے کئی دفعہ دہرائی کہ ایران کو انقلابی نعروں سے کنارہ کشی کرکے دنیا کے بقیہ لوگوں کی مانند ایک عام مملکت بن جانا چاہئے۔ اس کی وجہ انقلابی نعروں سے ان کا خوف ہے۔ یعنی اس تیسرے راستے سے جو اسلامی جمہوریہ، اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب پیش کر رہا ہے، وہ ہراساں ہیں، یہ شور مچا رہے ہیں کہ انقلابی نعروں کو ترک کر دیجئے۔ حالانکہ ملکی مسائل کا اصلی علاج انھیں انقلابی نعروں، انقلابی امور اور انقلابی راستے پر ثابت قدم رہنا ہے۔

٭البتہ ہم نے تعاون، مذاکرات، لین دین، تبادلہ خیال، نشست و برخاست اور سودے کا راستہ صیہونی حکومت اور امریکہ کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک کے لئے بند نہیں کیا ہے۔ عملی طور پر ہم محنت اور سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ تاہم جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے بیرون ملک کسی بھی طاقت پر ہمیں اعتماد نہیں کرنا چاہئے، ان پر تو بالکل نہیں جنہوں نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف اور اسلامی نظام کے خلاف دشمنی کا پرچم بلند کیا ہے۔ ان میں امریکہ کے بعد یہی چند یورپی ممالک ہیں۔ یہ صریحی طور پر اسلامی جمہوریہ سے دشمنی نکال رہے ہیں۔ اسلامی نظام کے سلسلے میں ان کے دشمنانہ جذبات اور امریکیوں کے معاندانہ جذبات میں ماہیت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ امریکہ کی حالت ایک خاص حالت ہے۔ ان ملکوں کے پاس نہ تو اتنی توانائی ہے، نہ اتنا تسلط ہے اور نہ اتنے وسائل ان کے پاس ہیں۔ تاہم ان یورپی ممالک کی سوچ وہی سوچ ہے۔ ثالثی کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں، مذاکرات کرتے ہیں، رابطہ قائم کرتے ہیں، فون کرتے ہیں، لمبی لمبی باتیں کرتے ہیں، ایسے وعدے کرتے ہیں جو بے بنیاد ہیں۔ اسی ایٹمی معاہدے کے بعد یورپیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا، کئی صدر آئے اور گئے، ہم سے بھی ملاقاتیں کیں۔ میں نے اسی وقت ان کے کئی صدور سے، انھیں سربراہوں سے جنھوں نے ہم سے ملاقاتیں کی تھیں، کہا تھا کہ اس آمد و رفت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر آپ اس بات میں سچے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ سے تعاون کرنا چاہتے ہیں تو عملی اقدام کیجئے! آپ نے دیکھا کہ انھوں نے عمل نہیں کیا۔ یہ سب کے سب ان ثانوی پابندیوں پر عمل کرتے رہے جو امریکہ نے ظالمانہ طور پر عائد کیں، انھوں نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ آئندہ بھی میں نہیں سمجھتا کہ وہ کچھ کریں گے۔ بہت خفیف امکانات تو ہمیشہ رہتے ہیں، ان امکانات کا دروازہ پوری طرح بند نہیں کیا جا سکتا لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ اسلامی جمہوریہ کے لئے کچھ کریں گے۔ ہمیں ان سے پوری طرح امید ختم کر دینی چاہئے۔ رابطہ رکھنے، تعاون کرنے، نشست و برخاست اور آمد و رفت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کوئی تجارتی سودا کرنا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان پر ہرگز اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ انھوں نے اپنے ہر کمٹمنٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔ ملک کے عہدیداران اور متعلقہ وزرا نے بتایا کہ انھوں نے ایٹمی معاہدے میں موجود اپنے کسی بھی عہد پر عمل نہیں کیا۔ یہ بات خود ان لوگوں نے کہی ہے جنہوں نے جاکر مذاکرات کئے اور دستخط کئے تھے۔ یہ اس بات کی ٹھوس دلیل ہے کہ ان پر کسی بھی مسئلے میں ہرگز اعتماد نہیں کرنا چاہئے، ان پر توجہ نہیں دینا چاہئے۔

 کون سی حکومت ہے جو صرف ہمارے ملک میں نہیں بلکہ دنیا کی سطح پر امریکی حکومت جتنی نفرت انگیز ہے؟ مجھے ایسی کوئی حکومت نظر نہیں آتی۔ البتہ شاید صیہونی حکومت بھی ایسی ہی ہو لیکن ہر جگہ سے جو اطلاعات آتی ہیں ان کے مطابق اس وقت دنیا میں جس حکومت سے سب سے زیادہ نفرت کی جاتی ہے وہ امریکی حکومت ہے جو ہماری پہلے نمبر کی دشمن ہے، ہماری اصلی دشمن ہے۔

یورپی خود بھی اعتراف کرتے ہیں۔ ابھی دو دن قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک یورپی صدر (2) نے ایک گھنٹے سے زیادہ کی طولانی تقریر کی۔ ان کے خطاب کا ماحصل یہ تھا کہ مغربی تمدن، مغربی ممالک کا تمدن انحطاط کی طرف جا رہا ہے۔ انھوں نے صحیح کہا۔

بنابریں ہمارے جو دشمن ہیں، ہمارے مد مقابل جو لوگ ہیں وہ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ کمزور ہوتے جا رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود استکباری خو فراموش کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یعنی ماضی کی دو تین صدیوں میں، تین چار صدیوں میں انھوں نے جو استکباری خو اپنائی اور عادت ڈال لی کہ دنیا سے، سارے لوگوں سے تحکمانہ انداز میں بات کریں، آج بھی اتنی رسوائیوں کے باوجود، اتنی پسماندگی کے باوجود استکباری خو انھوں نے ترک نہیں کی ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ کئی پہلوؤں سے تنزلی کا شکار ہیں اور اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔

اقتصادی اعتبار سے بھی یہی صورت حال ہے۔ مجھے کچھ اعداد و شمار ملے ہیں جن کے مطابق یورپ کے ان بعض مشہور ممالک جیسے برطایہ، فرانس، جرمنی، اٹلی وغیرہ کا قرضہ ان کی مجموعی قومی پیداوار کے برابر ہے۔۔۔۔۔۔ان کی سیاسی مشکلات بھی نظروں کے سامنے ہیں۔ یہی برطانیہ ہے، یہی فرانس ہے، یہی بعض دیگر یورپی ممالک ہیں سیاسی پہلو سے جن کی حالت آپ دیکھ رہے ہیں کہ واقعی وہ سنجیدہ مشکلات میں گرفتار ہیں۔

٭کرپشن سے لڑائی میں سب سے پہلا قدم ہے پیشگی احتیاطی اقدامات اور اس کے بعد علاج۔ پہلے بدعنوانی کے امکانات کو ختم کرنا چاہئے اس کے بعد اگر کوئی کرپشن ہوتا ہے تو اس کا علاج کرنا چاہئے۔ بنابریں اس سلسلے میں ملک کے تمام شعبوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ صرف عدلیہ سے مختص نہیں ہے۔ مجریہ، مقننہ، ان تمام اداروں کو چاہئے کہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری محسوس کریں۔ یہی الاٹمنٹ جس کا آج کل بہت ذکر ہو رہا ہے کہ اس سے کتنی بڑی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں، کیسی مصیبتیں سامنے آئی ہیں۔ ایک طرف کچھ نوجوان ہیں، جو لگاؤ رکھتے ہیں، جذبے سے کام کرتے ہیں، پروڈکشن کو فروغ دینے میں مصروف ہیں، یکبارگی انسان دیکھتا ہے کہ دوسری طرف سے تخریبی اقدامات ہو رہے ہیں، پروڈکشن کے کچھ حصوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہی کرپشن ہے۔ یعنی یہی بدعنوانی جو چلی آ رہی تھی۔ کچھ کام بغیر سوچے سمجھے یا کرپشن کے طور پر انجام دئے گئے جن کا نتیجہ آج سامنے ہے۔ ان چیزوں پر توجہ دینا چاہئے کہ یہ صورت حال پیش نہ آئے جو کچھ جگہوں پر، اراک میں، خوزستان اور دوسری جگہوں پر ہوئی ہے۔

٭عوام کا اتحاد بہت اہم ہے۔ عوام کا آپس میں اتحاد، خاص طور پر انقلابی فورسز کا باہمی اتحاد۔ ممکن ہے کہ بعض افراد کے درمیان پسند اور ناپسند کا فرق ہو، لیکن یہ اختلاف مخالفتوں اور تنازعات وغیرہ میں تبدیل نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ہماری بہت اہم ذمہ داریوں میں ہے۔

ہم سب کی ایک اور اہم ذمہ داری ہے عوام کو مایوس کرنے سے اجتناب۔ کبھی کوئی شخص ایسے انداز سے بات کرتا ہے، تقریر میں یا کسی اور گفتگو میں، سوشل میڈیا پر جس کا دائرہ آج حیرت انگیز طور پر بہت وسیع ہو چکا ہے، کہ سننے والوں میں مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ ہمیں یہ موقع نہیں دینا چاہئے کہ مایوسی پھیلے۔ اگر امید نہ ہو تو ان بڑے کارناموں سے میں سے کوئی بھی انجام تک نہیں پہنچے گا۔ عوام میں امید جگانا چاہئے۔ یہ امید بے بنیاد امید بھی نہیں ہے بلکہ امر واقعہ یہی ہے۔ یعنی واقعی پرامید رہنا چاہئے، کیونکہ مستقبل بہت اچھا ہے، بہت روشن اور تابناک ہے۔

۱) ڈونلڈ ٹرمپ

۲) فرانسیسی صدر ایمانوئل میکراں