رہبر انقلاب اسلامی نے 15 نومبر 2019 کے اپنے اس خطاب میں فرمایا کہ اسرائیل کی نابودی سے مراد جعلی صیہونی حکومت کا خاتمہ اور فلسطین کے اصلی مالکین  کے ذریعے بشمول مسلمان، عیسائی اور یہودی، منتخب حکومت کی حکمرانی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ؛

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

 الحمد للہ رب العالمین و الصلواۃ و السلام علی سیّدنا محمد و آلہ الطّاھرین وصحبہ المنتجین ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت امام جعفرصادق (سلام اللہ علیہ)کے یوم ولادت باسعادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس دن کی عظمت اتنی ہی ہے جتنی ولادت پیغمبر اسلام کی عظمت ہے۔ اس دن اور اس طرح کے دنوں کی قدر کرنی چاہئے۔ پیغمبر اسلام، پروردگار کےخلق کردہ برترین انسان اور اولین فرد ہیں۔  پیغمبر اسلام سبھی خلق عالم،  سبھی انبیا اور سبھی اولیا  سے برتر، اعلی تر اور باعظمت تر ہیں۔

فاق النّبیّین فی خلق و فی خلق و لم یدانوہ فی علم و لا کرم و کلّھم من رسول اللہ ملتمس غرفا من البحر او رشفا من الدّم (1)

پیغمبرمقدس اسلام عالم امکان اور عالم وجود کی بلند ترین ہستی ہیں۔ قرآن نے خود کو نور کہا ہے۔ خود قران کریم میں، قران کریم کے لئے کہا گیا ہے کہ یہ نور ہے۔ قد جائکم من اللہ نور و کتاب مّبین (2) قران نور ہے۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی زوجہ مکرمہ سے منقول ہے کہ پیغمبر کے بارے میں سوال کیا گيا تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ "کان خلقہ القران"(3) یعنی قرآن مجسم؛ لہذا پیغمبر بھی نور ہیں ۔ نور، روشنی اور حیات انسانی کا وسیلہ ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جنہیں انسان تدریجی طور پر سمجھے گا۔ حقیقی معنوں میں وجود مقدس پیغمبر نور ہے۔ عرب شاعر بھی کہتا ہے:

" ولد الھدی فالکائنات ضیاء: واقعی ایسا ہی ہے ۔ "و فم الزّمان تبسّم و ثناء"؛(4) خدا کرے کہ اسلامی دنیا ایسی ہو جائے۔ پیغمبر اسلام کے یوم ولادت پر اسلامی دنیا کے لبوں پر تبسم ہو؛ یہ ہماری آرزو ہے۔

میں نے دو تین باتیں نوٹ کی ہیں جنہیں عرض کروں گا۔ ایک ہفتہ وحدت ہے۔ ہم نے اسلامی جمہوریہ ایران میں اس ہفتے کو یعنی بارہ سے سترہ ربیع الاول تک کو ہفتہ وحدت کا نام دیا ہے۔ یہ صرف نام کے لئے نہیں ہے۔ یہ کوئی سیاسی اقدام یا حکمت عملی نہیں ہے بلکہ یہ قلبی ایمان اور اعتقاد ہے۔ اسلامی جہموریہ ایران واقعی اتحاد امت اسلامیہ پر یقین رکھتا ہے۔ اس کا ایک ماضی بھی ہے یعنی اس کا تعلق صرف اسلامی جمہوریہ اور ہمارے زمانے سے ہی نہیں ہے۔ آیت اللہ بروجردی جیسے عظیم مرجع جو ہماری نوجوانی کے زمانے میں پوری  دنیائے تشیع کے مرجع تھے، وحدت اسلامی کے سخت طرفداروں میں تھے۔ اسلامی مسالک کی تقریب (یعنی اسلامی مسلکوں کے ایک دوسرے سے قریب لانے) کے سخت حامیوں میں تھے۔ علمائے دنیائے اسلام، بزرگ اہل سنت علما سے آپ رابطہ رکھتے تھے اور ان سے گفتگو کرتے تھے۔ یہ ایک اعتقاد ہے۔ گہرا  اور قلبی اعتقاد ہے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں یا ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی حربہ ہے۔ نہیں ایسا نہيں ہے۔ یہ قلبی ایمان ہے۔ ہم اس کے معتقد ہیں۔ یقین رکھتے ہیں کہ خداوند عالم نے ہم سے یہ چاہا ہے۔

البتہ وحدت کے درجات ہیں۔ اسلامی دنیا کے اتحاد کے درجے ہیں۔ اس کا کمترین درجہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے، اسلامی ممالک، اسلامی حکومتیں، اسلامی اقوام اور  اسلامی فرقے، ایک دوسرے پر حملہ نہ کریں، باہم لڑائی نہ کریں اور ایک دوسرے پر ضرب نہ لگائيں۔ یہ پہلا قدم ہے۔ اس سے اعلی درجہ یہ ہے کہ اسلامی دنیا، ایک دوسرے پر حملہ نہ کرنے کے ساتھ ہی مشترکہ دشمن کے مقابلے پر متحد ہو۔ اس میں حقیقی معنی میں اتحاد ہو، ایک دوسرے کا دفاع کیا جائے۔ یہ ایک برتر قدم ہے۔  اس سے بھی برتر یہ ہے کہ اسلامی ممالک اور اسلامی اقوام ایک دوسرے کی توانائیاں بڑھائيں۔ اسلامی ممالک علم، دولت، سیکورٹی اور سیاسی طاقت و توانائی کے لحاظ سے ایک سطح کے نہیں ہیں۔ ایک دوسرے کی توانائياں بڑھانے میں مدد کر سکتے ہیں۔ جو ممالک جس میدان میں بھی اوپر ہیں، وہ ان ملکوں کی جو نیچے ہیں ، دستگیری کریں۔ یہ بھی وحدت و اتحاد کا ایک مرحلہ ہے۔  اس سے بھی اعلی مرحلہ یہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا، نئے اسلامی تمدن تک پہنچنے کے لئے متحد ہو جائے۔ یہ وہ چیز ہے جس کو اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنا آخری ہدف قرار دے رکھا ہے۔ اسلامی تمدن تک پہنچنا، البتہ وہ اسلامی تمدن جو اس زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہو، نیا اسلامی تمدن۔ یہ وحدت کے مرتبے اور درجے ہیں۔

اب آپ ملاحظہ فرمائيں کہ اس کا نچلا ترین درجہ کیا تھا ؟ اس کا نچلا ترین درجہ یہ تھا کہ ایک دوسرے سے متصادم نہ ہوں اور مشترکہ دشمن کے مقابلے میں ایک ساتھ رہیں۔ اگر آج ہم نے اسی کی پابندی کی ہوتی تو آج اسلامی دنیا میں اتنی مصیبتیں نہ ہوتیں۔ اگر مسئلہ فلسطین میں جو اسلامی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، فلسطین اسلامی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اس لئے کہ ایک پوری قوم کو اس کے گھر اور وطن سے بے دخل کر دیا گيا ہے اور کچھ لوگوں کو لاکے وہاں بسا دیا گیا اور انہیں وہاں کا حاکم بنا دیا گیا اور جو وہاں کے مالک ہیں، ان پر اتنا زیادہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے! آپ ملاحظہ فرمائيں کہ غزہ کی یہ حالت ہے، یہ صیہونیوں کے جرائم ہیں، یہ اس طرف ملک فلسطین اور غرب اردن کی  صورتحال ہے۔ اگر اسلامی دنیا نے وحدت کے اسی نچلے ترین درجے پر چلنا اپنے لئے لازمی قرار دیا ہوتا، اس کی پابندی کی ہوتی تو یہ نہ ہوتا۔ دشمن اس کی جرائت نہ کرتا۔ آپ ملاحظہ فرمائيں کہ اسلامی دنیا میں کیسے حوادث رونما ہو رہے ہیں، کیسی خونریز جنگیں ہوئی ہیں؟! یمن کے قضیئے کو دیکھیں، مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کے گوناگوں مسائل کو دیکھیں! یہ سب اس بات کا نتیجہ ہے کہ ہم نے وحدت کے اس کمترین درجے پر بھی توجہ نہیں دی جو اسلام نے ہم سے طلب کیا ہے۔ یہ بہت سنگین ذمہ داری ہے۔ یہ ہم روشن فکر اور ممتاز ہستیوں کے لئے بیان کر رہے ہیں۔ الحمد للہ اسلامی دنیا میں ممتاز ہستیاں موجود ہیں۔ مفکر حضرات ہیں۔ سنجیدگی کے ساتھ اس پر توجہ دیں۔ مسلم اقوام اور نوجوان اتحاد چاہتے ہیں لیکن تفرقہ انگیزی کرنے والے بھی موجود ہیں، ان کے مقابلے میں استقامت کی ضرورت ہے ۔ آج  اسلامی دنیا میں، شمالی افریقا سے لیکر مشرقی ایشیا تک کے علاقے میں، میانمار تک مسلمین دباؤ میں ہیں۔ اسلامی دنیا میں مشرق سے لیکر مغرب تک  مسلمین دباؤ میں ہیں۔

فلسطین کے مسئلے میں، میں یہ بات عرض کروں گا کہ مسئلہ فلسطین میں ہمارا موقف اصولی ہے۔ حتمی اور اصولی موقف ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے، تحریک کے اوائل میں، ہمارے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے صیہونیوں کی دراندازی، صیہونیوں کی مداخلت اور صیہونیوں کے مظالم کے خطرات کا ذکر کیا۔ ابتدائے انقلاب سے ہی ہمارا موقف یہی تھا۔ پہلا کام جو اسلامی جمہوریہ ایران نے کیا یہ تھا کہ تہران میں صیہونیوں کے مرکز کو جو گزشتہ حکومت میں تھا، اس کو صیہونیوں سے لیکر، انہیں نکال باہر کیا اور اس مرکز کو فلسطینیوں کے حوالے کر دیا۔ یہ ایک حقیقی کام بھی تھا اور علامتی اقدام بھی تھا اور آج تک ہم اپنے اسی موقف پر باقی ہیں۔ ہم نے فلسطین کی حمایت کی، فلسطینیوں کی مدد کی  اور آئندہ بھی کریں گے۔ اس قضیئے میں ہمیں کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اسلامی دنیا کو فلسطین کی مدد کرنی چاہئے۔

امام خمینی رضوان اللہ علیہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کے بیانات میں بار بار اسرائیلی حکومت کو ختم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ ہمارے دشمنوں نے اس کی غلط تشریح کی۔ اسرائیلی حکومت کو ختم کرنے کا مطلب، یہودی عوام کو ختم کرنا نہیں ہے۔ ہمیں ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ مطلب اس حکومت کو ختم کرنا ہے۔ اس حکومت کا خاتمہ ہے جو مسلط کی گئی ہے۔ اسرائیل کے خاتمے کا مطلب یہ ہےکہ فلسطینی عوام جو اس سرزمین کے اصلی مالک ہیں، چاہے وہ مسلمان ہوں، چاہے عیسائی ہوں اور چاہے یہودی ہوں، اس سرزمین کے اصلی مالکین اپنی حکومت کا انتخاب خود کریں۔ اغیار اور نتین یاہو جیسے غنڈوں اور بدمعاشوں کو جو واقعی غنڈے اور بدمعاش ہیں، انہیں اپنے درمیان سے نکال باہر کریں اور ملک کو خود چلائيں۔ اسرائیل کی نابودی کا مطلب یہ ہے اور یہ ہوکے رہے گا۔ بعض لوگ اس کو بعید سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ستر سال بعد (فلسطین) کیسے خومختار ہوگا۔ بلقان کے ممالک اور بعض دیگر ممالک بھی ساٹھ ستر سال تک دوسروں کے تسلط میں رہنے کے بعد آزاد ہوئے ہیں، اپنی اقوام کو واپس ملے ہیں۔ بالکل بعید نہیں ہے۔ وماذالک علی اللہ بعزیز(5) یہ ہوگا۔ ہم فلسطینی عوام کے طرفدار ہیں۔ ہم فلسطین کی خودمختاری کے طرفدار ہیں۔ ہم فلسطین کی نجات کے طرفدار ہیں۔ ہم یہودی مخالف نہیں ہیں۔ خود ہمارے ملک میں کچھ یہودی ہیں جو پوری سلامتی کے ساتھ یہاں رہ رہے ہیں۔ یہ ایک اہم بات تھی ۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہمیں،  جو وحدت چاہتے ہیں اور اتحاد کے لئے ہم جو اپنے دل جلاتے ہیں، معلوم ہونا چاہئے کہ اس فکر، اس ہدف اور مقصود کے بہت سخت اور خونخوار دشمن بھی موجود ہیں۔ اس دور میں، ان دشمنوں میں سرفہرست امریکی اور صیہونی حکومتیں ہیں۔ یہ  وحدت اسلامی کی دشمن ہیں۔ امریکا صرف اسلامی جہوریہ ایران کا دشمن نہیں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ لڑائی صرف اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکا کے درمیان ہے! ہاں اسلامی جمہوریہ ایران چونکہ فعال ہے، اس لئے اس سے دشمنی زیادہ کی جاتی ہے لیکن وہ اسلامی دنیا اور سبھی اسلامی ملکوں  کےدشمن ہیں ۔ فلسطین کے دشمن ہیں، مغربی ایشیا کی اقوام کے دشمن ہیں، شمالی افریقا کی اقوام کے دشمن ہیں اور سبھی مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ اس دشمنی کی وجہ اسلام کی حقیقت اور ماہیت ہے۔ اس لئے کہ اسلام ظلم کی نفی کرتا ہے، تسلط کی نفی کرتا ہے، سامراج اور استکبار کی نفی کرتا ہے۔ آج تسلط پسند نظام کا سربراہ امریکا ہے۔ کبھی اس کا سربراہ بعض دوسرے ملکوں کے ساتھ، انگلینڈ تھا۔ آج اس کا سربراہ امریکا ہے۔  (یہ نظام تسلط) اسلام کی منطق، اسلام کے تشخص اور اسلام کے معنی و مفہوم کا مخالف ہے۔ البتہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مخالفت زیادہ ہے۔  یہ سعودی عرب کے بھی مخالف ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ امریکی، اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن اور سعودیوں کے دوست ہیں۔ نہیں ان کے بھی دشمن ہیں۔  یہ جو امریکا  صراحت کے ساتھ  کہتا ہے کہ سعودیوں کے پاس پیسے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے! یہ دشمنی نہیں ہے؟ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس پیسے ہیں ہمیں جاکے ان کے پیسے چھین لینا چاہئے! کسی ملک اور کسی قوم کی اس سے بڑھ کے اور کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟ انہیں اچھی طرح سمجھنا چاہئے۔ انہیں اس دشمنی کو سمجھنا چاہئے۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ اس دشمنی کے مقابلے میں ایک باشرف انسان کا  فریضہ کیا ہے؟ اس توہین کے مقابلے میں شرف انسانی، غیرت اسلامی اور غیرت عربی کا تقاضا کیا ہے؟ انہیں اپنے فریضے کو سمجھنا چاہئے۔  نہیں سمجھتے! (یہ) سب کے دشمن ہیں۔

ہمارے علاقے میں امریکا کی موجودگی کا نتیجہ، شر انگیزی اور فساد کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلا۔ انھوں نے اس علاقے میں قدم رکھا تو اپنے ساتھ شر اور فساد لائے۔ ان کے قدم جہاں بھی پڑتے ہیں، وہاں یا بدامنی ہوتی ہے یا خانہ جنگی ہوتی ہے یا داعش جیسے گروہ تشکیل پاتے ہیں۔ ہم چاہتے کہ امریکا کا حقیقی چہرہ دیکھا جائے۔ مسلم اقوام سمجھ لیں کہ امریکا کا حقیقی چہرہ کیا ہے۔ انہیں معلوم ہو جائے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی طرفداری  اور اسی قسم کے دوسرے جھوٹے اور منافقانہ دعووں کے  پیچھے اصل حقیقت کیا ہے؟ لوگ اس بات کو سمجھ لیں۔

  ہمارے خیال میں اس علاقے میں، اسلامی جمہوریہ ایران میں ہم ان باتوں کو سمجھتے ہیں، امریکا کا اصلی حربہ، فیصلہ کرنے کے اہم اور حساس مراکز میں نفوذ اور دراندازی، تفرقہ ڈالنا، اقوام کے ملی عزم و ارادے میں تزلزل پیدا کرنا، اقوام کے اندر نیز اقوام اور حکومتوں کے درمیان بے اعتمادی وجود میں لانا، فیصلہ کرنے والوں کے تخمینوں میں خلل ڈالنا اور یہ ظاہر کرنا ہے کہ مشکلات کا حل یہ ہے کہ  امریکی پرچم کے سائے میں چلے جاؤ، امریکا کے سامنے جھک جاؤ اور امریکا کی بات کو قبول کر لو۔ جو بھی وہ کہے اس کو سنو اور اس پر عمل کرو۔ مشکلات کا حل یہی ہے۔ وہ اسلامی ملکوں اور اقوام کے ذمہ داروں اور فیصلہ کرنے والوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانا چاہتے ہیں۔ ان کا حربہ اوراسلحہ یہ ہے جو ان کے فوجی اسلحے سے زیادہ خطرناک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے کاموں میں وہی منافقت نظر آتی ہے جس کے لئے قرآن نے فرمایا ہے کہ " کَیفَ وَ اِن یَظهَروا عَلَیکُم لا یَرقُبوا فیکُم اِلًّا وَ لاذِمَّةً یُرضونَکُم بِاَفواهِهِم وَتَأبی قُلوبُهُم (6) وہ ایسے ہیں۔ خداوند عالم نے ان کی صفت بیان کی ہے۔

 ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اس دشمنی کا علاج بھی صرف ایک ہے اور وہ 'فَاستَقِم کـَما اُمِرتَ' استقامت ہے۔ خداوند عالم نے اپنے پیغمبر سے ان مشکلات کے مقابلے میں فرمایا: فَاستَقِم کـَما اُمِرتَ وَ مَن تابَ مَعَک (7) استقامت اور ڈٹ جانا۔ البتہ استقامت میں سختیاں بھی ہیں۔ یہ آسان کام نہیں ہے۔ لیکن جھک جانے میں زیادہ سختیاں ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ آپ استقامت اور مزاحمت کی راہ میں جتنی بھی سختیاں برداشت کریں گے خداوند عالم اس کا اجر دے گا: ذلِکَ بِاَنَّهُم لا یُصیبُ‌هُم ظَمَاٌ وَ لا نَصَبٌ وَلا مَخمَصَةٌ فی سَبیلِ ‌اللهِ‌ وَلایَطَئونَ مَوطِئًا یَغیظُ الکُفّارَ وَ لا یَنالونَ مِن عَدُوٍّ نَیلًا اِلّا کُتِبَ لَهُم بِه عَمَلٌ صٰلِح (8) جو سختی بھی آپ برداشت کریں وہ ایک عمل صالح ہے۔ لیکن اگر دشمن کے سامنے جھک گئے تو نہ صرف یہ کہ کسی بھی سختی کا خدا کے نزدیک کوئی اجر نہیں ہے بلکہ ظلم تسلیم کر لینے کی سزا بھی ہے۔ قرآن اس طرح حکم دیتا ہے: نہ ظلم کرو اور نہ ظلم برداشت کرو۔

 اور آخری بات عمل صالح کے بارے میں ہے۔ کُتِبَ لَهُم بِه عَمَلٌ صٰلِح (9) میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج کی دنیا میں ہر کام، ہر اقدام اور ہر بات جو ملکوں اور اقوام کی سیاسی خود مختاری، ملکوں اور اقوام کی ثقافتی خود مختاری، ملکوں اور اقوام کی اقتصادی خود مختاری، اتحاد، امت اسلامیہ کو مقتدر بنانے، اسلامی دنیا میں علم و دانش کی ترویج اور اسلامی دنیا کے نوجوانوں کی ترقی کے لئے ہو، اس راہ میں جو کام بھی ہو، وہ عمل صالح  اور نیکی ہے۔ اگر آپ علمی میدان میں کام کرتے ہیں، تحقیقات کے میدان میں کام کرتے ہیں اور ایٹمی توانائي کے میدان میں کام کرتے ہیں، (تو یہ عمل صالح ہے) ایٹمی توانائی اقوام کی ضرورت ہے۔ اس دنیا اور تمام اقوام کے مستقبل کے لئے پر امن ایٹمی توانائي کی ضرورت ہے۔ مغرب والے چاہتے ہیں کہ یہ توانائي ان کی اجارہ داری میں رہے اور اقوام کے شرف اور خودمختاری کی قیمت پر قطرہ قطرہ انہیں دیں۔ وہ جو اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے ورنہ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ ہم اپنے دینی اور اعتقادی اصولوں کی بنیاد پر ایٹمی اسلحے کے مخالف ہیں، ایٹمی اسلحہ حاصل کرنا نہیں چاہتے۔  وہ چاہتے ہیں کہ (دنیا کی اقوام کے پاس) یہ صنعت، یہ ٹیکنالوجی اور یہ توانائی نہ ہو۔ ہمارے تعلق سے بھی وہ یہی چاہتے ہیں اور دوسروں کے سلسلے میں بھی یہی چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں ہم سے خریدو، تم خود افزودگی نہ کرو! اس توانائي کے حصول کی راہ میں کیا جانے والا ہر کام عمل صالح ہے۔ عوام کی مدد ، مستضعفین (یعنی جنہیں کمزور رکھا گیا ہے ان)  کی مدد اور غریبوں کی مدد کے لئے انجام دیا جانے والا ہر کام عمل صالح ہے اور حقائق کی تبلیغ نیز توہم پرستی کی مخالفت میں کیا جانے والا ہر کام عمل صالح ہے۔

اسلامی دنیا کے علمائے کرام اور روشن فکر حضرات، الحمد اللہ ان میں سے کچھ حضرات یہاں موجود ہیں، ہفتہ وحدت کے مہمان، اسلامی دنیا سے آنے والے حضرات یہاں موجود ہیں، آپ کے درمیان علمائے دین اور روشنفکر ہستیاں بھی موجود ہیں، آپ دیکھیں کہ عمل صالح کے لئے آج آپ کے سامنے کتنا وسیع میدان ہے؟! آپ کتنا عمل صالح انجام دے سکتے ہیں؟! لکھیں، قلم چلائيں، حق کا دفاع کریں، سینہ سپر ہو جائيں اور دشمن سے نہ ڈریں؛ " اَّلَّذینَ یُبَلِّغونَ رِسالٰتِ اللهِ وَ یَخشَونَه وَ لا یَخشَونَ اَحَدًا اِلَّا اللهَ وَ کَفیٰ بِاللهِ حَسیبًا (10) اس کا حساب کتاب خدا کرے گا۔ خدا حساب کرے گا، آپ کو اجر دے گا۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اسلامی دنیا فضل الہی سے ایک دن، اور وہ دن دور نہیں ہے، خدا کی نصرت اور قدرت سے ان تمام آرزؤوں کو پورا ہوتا ہوا دیکھے گی۔   

 و السلام علیکم و رحمت اللہ علیہ و برکاتہ    

 1) شرف الدین بوصبری، قصیدہ بردہ

2) سورہ مائدہ کی پندرھویں آیت کا ایک حصہ "۔۔۔ اور یقینا تمھارے پاس خدا کی جانب سے نور اور کتاب مبین آئی ہے۔"

3) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) جلد 6 صفحہ 340

4) احمد شوقی، دیوان اشعار (الشوقیات)

5) سورہ ابراہیم آیت نمبر 20 اور سورہ فاطر آیت نمبر 17 :'۔۔اور یہ کام خدا کے لئے مشکل نہیں ہے۔"

6)سورہ توبہ کی آٹھویں آیت کا ایک حصہ 'اور کس طرح (ان کے ساتھ یہ رعایت کی جائے کہ)  کہ اگر انہیں تم پر غلبہ مل گیا تو تمھارے بارے میں نہ کسی تعلق کی رعایت کریں گے نہ کسی عہد و پیمان کی پابندی کریں گے۔ وہ تو تمہیں صرف زبانی خوش کر رہے ہیں ورنہ ان کا دل اس سے انکار کر رہا ہے۔۔۔'

7) سورہ ہود کی آیت نمبر 112 کا ایک حصہ:"۔۔ پس جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے استقامت سے کام لو اور جس نے بھی تمھارے ساتھ توبہ کر لی ہے (وہ بھی یہی کرے) اور سرکشی نہ کرو۔

9) سورہ توبہ آیت نمبر 120 کا ایک حصہ: '۔۔ اس لئے کہ راہ خدا میں انہیں کوئی بھوک پیاس اور تھکن نہیں لگتی اور وہ کسی ایسی جگہ پر قدم نہیں رکھتے کہ جس سے کفار برہم ہوں اور دشمن سے کوئی غنیمت حاصل نہیں کرتے مگر یہ کہ (ان کے کارنامے میں)عمل صالح لکھ لیا جاتا ہے۔۔۔"

10) ایضا

11) سورہ احزاب آیت نمبر 39'۔۔ وہ لوگ اللہ کے پیغام پہنچاتے ہیں  اس کا خوف رکھتے ہیں اور خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے اور خدا حساب کرنے کے لئے کافی ہے۔ ۔۔"