بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

والحمد للہ ربّ العالمین والصّلواۃ والسّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمد وعلی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین و صحبہ المنتجبین و من تبعھم باحسان الی یوم الدّین. 

میں سبھی حاضرین کرام، ملک کے محترم حکام، مہمانان گرامی اور یہاں تشریف فرما سبھی عزیزوں کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ آج بڑی عید ہے۔ نورانی اور مبارک دن ہے۔ پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور حضرت امام جعفر صادق (علیہ الصلاۃ و السلام) کا  یوم ولادت باسعادت ہے۔

 پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بارے میں مجھ جیسے بندے کی زبان بولنے سے اور ذہن و دل آپ کی اعلی شخصیت کے بارے میں سوچنے اور سمجھنے سے قاصر ہے۔ یہ حقیقت ہے۔ آج میں فضائل پیغمبر اعظم کی ضخیم کتاب سے اختصار کے ساتھ صرف ایک بات عرض کروں گا اور وہ یہ ہے کہ سبھی افراد بشر پرعالم ہستی کے اس خورشید تاباں کا حق ہے۔    میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ سبھی افراد بشر چاہے وہ اس دین پر ایمان رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں، سب پیغمبر اعظم اور در حقیقت آپ کے دین کے ممنون احسان ہیں۔ کیوں؟ بشریت پر آپ کا جو عظیم حق ہے وہ کیا ہے؟

 وہ یہ ہے کہ پیغمبر ا‏عظم  نے بنی نوع انسان کے سبھی اہم مسائل کا حل بشریت کے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ خداوند عالم فرماتا ہے

 "کتاب انزلناہ  الیک لتخرج النّاس من  الظّلمات  الی النّور" (2) ظلمات کیا ہے؟ ظلمات وہ تمام چیزیں ہیں جنہوں نے پوری تاریخ میں انسان کی زندگی کو تاریک اور تلخ کر دیا ہے، زہر آلود کر دیا ہے۔ یہ سب ظلمات ہیں۔ جہالت ظلمت یعنی تاریکی ہے، غربت تاریکی ہے، ظلم تاریکی ہے۔ امتیازی سلوک تاریکی ہے، شہوات میں ڈوب جانا تاریکی ہے، اخلاقی برائیاں اور سماجی نقائص یہ سب ظلمات ہیں۔ یہ وہ ظلمات یعنی تاریکیاں ہیں جنہوں نے پوری تاریخ میں بشریت کو رنج اور دکھ  دیے ہیں۔ بے ایمانی تاریکی ہے، بے مقصدیت بھی ظلمت یعنی تاریکی ہے۔ یہ بشریت کے بہت گہرے درد  اور مسائل ہیں۔ پیغمبر اعظم نے ان تمام مسائل کا حل، فکری حل بھی اور عملی حل بھی بشریت کے سامنے پیش کیا ہے۔ اگر ان مسائل سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو علاج یہ ہیں۔ یہ پیغمبر کی شریعت اور قرآنی تعلیمات، بشریت کے مسائل کا علاج ہیں ۔ یہ پیغمبر اسلام نے بشریت کو پیش کیا ہے۔ اسی لئے امیر المومنین (علیہ الصّلواۃ والسّلام) پیغمبر کے لئے فرماتے ہیں : طبیب دوّارّبطبّہ قد احکم مراھمہ و اَحمىٰ مواسمہ (3) اس طبیب حاذق نے   مرہم بھی دیے ہیں، وہ دوا بھی دی ہے جو زخم پر رکھنے سے زخم مندمل ہو جاتا ہے اور اس کو جلانے کا وسیلہ بھی عطا کیا ہے۔ ماضی میں جب کوئي زخمی مرہم سے ٹھیک نہیں ہوتا تھا تو اس کو جلاتے تھے۔ ٹھیک ہو جاتا تھا۔ آپ نے دونوں عطا فرمائے ہیں، مرہم بھی اور جلانے کا وسیلہ بھی۔ یہ چیزیں قرآن میں بشریت کو دی گئی ہیں۔ اگر اچھی زندگی چاہتے ہو تو اس طرح عمل کرو۔

دنیا کے دانشمندوں کی منطق میں ان تمام حقوق میں جو انسان ایک دوسرے کی نسبت رکھتے ہیں، سب سے اوپر حق حیات ہے۔   جب کسی کے بارے میں مبالغہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ وہ ہمارے اوپر حق حیات رکھتے ہیں۔ حق حیات کا مطلب کیا ہے؟ یعنی مثال کے طور پر آپ ڈوب رہے تھے، اس نے آپ کو بچا لیا۔ گھر گر رہا تھا، آپ اس میں دبنے والے تھے، اس نے آپ کو بچا لیا۔  یعنی یہ مادی زندگی جو آپ سے چھن رہی تھی، اس نے آپ کو واپس دلا دی ۔ یہ حق حیات ہے۔ یہ سب سے بڑا حق ہے۔ انسان لوگوں کے درمیان دیکھتا ہے، مطالعہ  کرتا ہے تو اس کو سب سے بڑا حق سمجھتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں حق حیات۔ لیکن یہ زندگی جو ہمیں واپس ملی، کب تک جاری رہ سکتی تھی؟ وہ بھی محدود ہے، ناقص ہے، کمزور ہے، ممکن ہے کہ جس دن یہ زندگی واپس ملی اس کے دوسرے ہی دن، عارضے سے، کینسر اور انواع و اقسام کی بیماریوں میں سے کسی کے ذریعے دوبارہ اس سے چھن جائے۔ خداوند عالم فرماتا ہے کہ "یا ایّھا الّذین آمنوا استجیبوا للہ وللرّسول اذا دعاکم لما یحییکم" (4) پیغمبر آپ کو زندگی دیتے ہیں۔ یہ زندگی وہ زندگی نہیں ہے۔ آنحضرت آپ کی  روح کو روشنی اور زندگی کو شیرینی عطا فرماتے ہیں۔ یہ حیات جاری رہنے والی ہے۔ یہ حیات ختم ہونے والی نہیں ہے۔ اس کو نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ یہ ابدی زندگی ہے۔  وہ زندگی جو اسلام، دین اور پیغمبر بشریت کو عطا کرتے ہیں، اس کی اہمیت اس زندگی سے ہزاروں گنا زیادہ ہے جو فرض کریں کہ ملبے کے نیچے سے نکال کے یا ڈوبنے سے بچاکے واپس ملی ہے۔ بشریت پر پیغمبر کا حق یہ ہے۔ یہ حق پیغمبر ہے۔ ہم پیغمبر کے مرہون منت ہیں۔

 کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں دین پیغمبر کی معرفت حاصل کرنے کی توفیق نہیں ملی- غیر مسلمین- احسان اتارنے کی راہ ان پر بند ہے۔ اب (یہ کہ) خداوند عالم ان کے ساتھ کیا کرے گا، یہ ہماری بحث کا موضوع نہیں ہے۔ یہ احسان کا بدلہ نہیں دے سکتے۔  لیکن جو اسلام پر یقین رکھتے ہیں، وہ احسان کا بدلہ اتار سکتے ہیں۔  یہ کام کر سکتے ہیں۔ اس کا راستہ بھی انہیں دکھایا گیا ہے: وجاھدوا فی اللہ حق جھادہ ھو اجتباکم وما جعل علیکم فی الدّین من خرج  ملّۃ ابیکم ابراھیم ھو سمّاکم المسلمین(5)  یہ جہاد فی سبیل اللہ  خدا کے سامنے تسلیم ہوکر احسان چکانے کا عمل ہے۔ اگر ہم حق پیغمبرکو، پیغمبر کے اس عظیم حق کو ادا کرنا چاہیں تو راستہ یہ ہے۔ جاھدوا فی اللہ  حق جھادہ۔ جہاد کامل۔ جہاد کا مطلب  صرف شمشیر،آر پی جی وغیر سے جنگ کرنا ہی نہیں ہے۔ سبھی میدانوں میں جہاد:علم کے میدان میں جہاد، سیاست کے میدان میں جہاد، معرفت کے میدان میں جہاد، اخلاق کے میدان میں جہاد جس کی ہمیں بہت ضرورت ہے۔ ہم سب کو اخلاق کی ضرورت ہے، علم کی ضرورت ہے۔ جہاد کریں۔ جہاد کر سکتے ہیں۔ اگر یہ حکم الہی یعنی "جاھدوا فی اللہ  حق جھادہ " عمل میں لائيں تو اس وقت کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر اعظم کا حق ہم نے اپنی توانائی بھر ادا کر دیا ہے۔ ہمیں راہ اسلام میں جہاد کرنا چاہئے۔

 آج اسلام سے دشمنی ہمیشہ سے زیادہ آشکار ہو چکی ہے۔ ماضی میں بھی دشمنی تھی، (لیکن) آج بالکل واضح ہے۔  اس کا ایک جاہلانہ نمونہ، قرآن کریم کی بے حرمتی ہے جس کا آپ مشاہدہ کرتے ہیں۔ ایک احمق کھلے عام یہ کام کرتا ہے اور ایک حکومت اس کی حمایت کرتی ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بات صرف اس منظر اور قرآن کریم کی بے حرمتی تک محدود نہیں ہے۔ میرا اشارہ اس معاملے میں اس احمق اور جاہل کی  طرف نہیں ہے جو یہ کام کرتا ہے۔ وہ تو اس لحاظ سے  کہ پس پردہ عوامل کے مقاصد کی تکمیل کرتا ہے سخت ترین سزا، سزائے موت کا مستحق ہے۔ میرا اشارہ اس کی طرف نہیں ہے بلکہ ان عناصر کی طرف ہے جو پشت پردہ ہیں۔ جو اس طرح کے جرائم اور اس طرح کے نفرت انگیز اقدامات کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات سے قران کریم کو کمزور کر سکتے ہیں۔ وہ غلطی پر ہیں۔ اپنی فضیحت کروا ہے ہیں۔ اپنا باطنی چہرہ بے نقاب اور ظاہر کر رہے ہیں۔  

قرآن کتاب حکمت ہے، کتاب معرفت ہے، انسانی سازی کی کتاب ہے۔ جو قرآن سے دشمنی کرتا ہے، وہ علم و معرفت سے دشمنی کرتا ہے، حکمت سے دشمنی کرتا ہے، انسان سازی سے دشمنی کرتا ہے۔ قرآن ظلم کا مخالف ہے، قرآن ظلم کے مقابلے میں انسانوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے: لا تَظلِمونَ وَ لا تُظلَمون‌،(6) قرآن عوام کو بیدار کرتا ہے۔ جو قرآن سے دشمنی کرتا ہے، وہ انسانوں کی بیداری کا مخالف ہے، ظلم کے مقابلے کا مخالف ہے۔ (ان کاموں سے) وہ خود کو رسوا کرتے ہیں۔ قرآن دن بہ دن روشن تر ہو رہا ہے۔ اس کا نورانی چہرہ دنیا میں دن بہ دن پہلے سے زیادہ  منور ہو رہا ہے اور ہوگا۔

قرآن بدعنوان طاقتوں کے لئے خطرہ شمار ہوتا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، یہ ظلم کی بھی مذمت کرتا ہے اور ظلم میں زندگی گزارنے والے انسانوں کی بھی ملامت کرتا ہے کہ ظلم سہنا گوارا کیوں کرتے ہیں۔ یہ ظالم طاقتوں کے لئے خطرناک ہے۔ جی ہاں قرآن میں ان کے لئے یہ خطرہ ہے، یہ خطرہ ان کے لئے قرآن میں ہے۔ جو لوگ آزادی اظہار رائے کے بہانے اور اسی طرح کے دوسری تکراری اور جھوٹی باتوں سے، ان کاموں کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ دنیا کے عوام کے سامنے خود اپنی عزت و آبرو خاک میں ملاتے ہیں۔ جن ملکوں میں قرآن کی بے حرمتی کی اجازت دی جاتی ہے، کیا انہی ملکوں میں صیہونی علامتوں پر حملے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ کس طرح اور کس زبان سے (اس سے بہتر) ثابت کیا جا سکتا ہے کہ یہ غاصب، ظالم، جرائم پیشہ اور لٹیرے صیہونیوں کے زیر تسلط ہیں۔ وہ بھی جو اس غصبی سرزمین میں زندگی گزارتے ہیں اور وہ بھی جو دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں۔ یہ چند جملے نبی مکرّم اسلام کے بارے میں تھے۔

اس جلسے اور اس ہفتے ہونے والے اجلاسوں  کا بنیادی موضوع وحدت مسلمین اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد تھا۔ اتحاد مسلمین کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ ہم نے بھی کہا ہے، دوسروں نے بھی کہا ہے، سبھی نے کہا ہے۔  میں آج  صرف چند مختصر نکات اس سلسلے پیش کروں کا۔  اتحاد کا دشمن کون ہے؟ اس پر توجہ دیں۔ کون ہے جس کے نقصان میں مسلمانوں کا اتحاد ہے؟ اس پر فکر کریں۔ مسلمانوں کے اتحاد کے دشمن وہ ہیں کہ اگر اسلامی ممالک اور اسلامی حکومتیں متحد ہو جائیں تو ان کو نقصان پہنچے گا۔ وہ مداخلت نہیں کر سکیں گے، دست درازی نہیں کر سکیں گے، غارتگری نہیں کر سکیں گے، انہیں مشکل ہوگی۔ (اتحاد مسلمین کے دشمن) وہ ہیں۔ البتہ اسلامی ملکوں  کا دائرہ وسیع ہے۔ میں خود اپنے علاقے، مغربی ایشیا اور شمالی افریقا، اسی محدود علاقے کی بات کرتا ہوں۔ اگر اسی علاقے کے ممالک باہم متحد ہوں تو کون سی بین الاقوامی طاقت ہے جو ان کے ساتھ زور زبردستی کر سکے۔ کوئی طاقت ان ملکوں کے معاملات میں نہ مداخلت کر سکتی ہے، نہ چوری کر سکتی اور نہ ہی زور زبردستی کر سکتی ہے۔ یہ طاقت کون ہے؟ سب جانتے ہیں کہ امریکا ہے۔

اگر ایران، عراق، شام، لبنان اور خلیج فارس کے ساحلی ممالک، سعودی عرب، مصر اور اردن  جیسے ممالک اپنے بنیادی اور کلی مسائل میں ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں تو منھ زور طاقتیں ان کے داخلی امور اور خارجہ پالیسی میں مداخلت نہیں کر سکتیں۔ اس وقت مداخلت کر رہی ہیں۔ اس وقت امریکا انہیں اقتصادی نقصان پہنچا رہا ہے، سیاسی نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ ظالم خونخوار اور وحشی داعش کو اپنے کیمپوں میں رکھتے ہیں، اس کی حفاظت کرتے ہیں، اس دن کے لئے جب انہیں اس کی ضرورت ہو، تاکہ اس  دن اس کو میدان میں اتاریں اور اس کو ان کی جان کے پیچھےلگا دیں۔ وہ یہ کام کر رہے ہیں۔  علاقے کی حکومتوں کی خارجہ سیاست میں مداخلت کرتے ہیں کہ یہ کام کرو، یہ کام نہ کرو۔ حتی بعض ملکوں میں ان کے داخلی معاملات میں بھی مداخلت کرتے ہیں۔

   اگر ہم متحد ہوں اور ایک حکمت عملی اختیار کریں، تو امریکا یہ کام نہیں کر سکتا۔ یہاں قدم رکھنے کی جرائت نہیں کر سکتا۔ اس مسئلے پر فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے فوائد کا اندازہ لگائيں۔ یقینا کوئی بھی ملک یہ نہیں چاہتا کہ بیرونی طاقت اس کے مسائل میں، اس کی سیاست میں، اس کی حکمت عملی میں مداخلت کرے اور اس کو فرمان سنائے ۔ ظاہر ہے، لیکن مجبوری میں قبول کرتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ اکیلے ہیں۔ اگر یہ ایک دوسرے سے متحد ہوں، حکومتیں ایک دوسرے کی پشت پناہی کریں، ایک ساتھ ہوں، باہم ہوں، تو امریکا جیسی طاقتوں کی بیجا مداخلت اور دست درازی کو روک سکتی ہیں۔    

 البتہ ظاہر ہے اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ ہم کسی سے بھی جنگ اور فوجی اقدام کے لئے نہیں کہتے، اس سے اجتناب بھی کرتے ہیں۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ ایک ساتھ رہیں تاکہ امریکی جنگ افروزی کی روک تھام کر سکیں۔ وہ جںگ افروزی کرتے ہیں۔ ان  سبھی علاقائي جنگوں کے، کسی استثنا کے بغیر، عوامل بیرونی ہیں۔ یہ سرحدی اختلافات وغیرہ جو اس طرح کی لڑائیوں پر منتج ہوتے ہیں جو ہم نے ان چند برسوں میں اس علاقے میں دیکھا ہے، بیرونی عوامل نے انہیں بھڑکایا، یہاں آئے، پیسے خرچ کئے، شر پسندوں کو عام شہریوں اور مظلوم عوام کے مقابلے میں بڑھایا۔ ملکوں کے دانشورحضرات، سیاستداں، سربراہان مملکت، اس حقیقت پرغورو فکر کریں۔(یہ) ان سبھی ملکوں کے لئے اہم مسئلہ ہے، حیاتی مسئلہ ہے۔ اتحاد سے کسی بھی ملک کا کوئی نقصان نہیں ہوگا (بلکہ) کچھ حاصل ہی ہوگا۔  

  صیہونی حکومت کا مسئلہ بھی ایک دوسرا مسئلہ ہے۔ یہ بھی اس علاقے کا ایک مسئلہ ہے۔ ہم نے امریکا کے بارے میں کہا۔ صیہونی حکومت کینہ اور برہمی سے لبریز سے۔ صرف ہمارے تئیں نہیں۔ ہم  تو اس کو اہمیت نہیں دیتے، اسلامی جمہوریہ کے تئیں تو معلوم اور واضح ہے، لیکن دوسرے ملکوں کے تعلق سے بھی یہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صیہونی حکومت اپنے اطراف کے ملکوں سے خوش ہو۔ نہیں، وہ مصر سے بھی کینہ رکھتے ہیں، شام سے بھی کینہ رکھتے ہیں، عراق سے بھی کینہ رکھتے ہیں۔ کیوں؟ (اس لئے کہ) ان کا ہدف "نیل سے فرات تک تھا"  پورا نہيں ہوا۔ انہی ملکوں نے مختلف ادوار میں، مختلف وجوہات سے نہیں ہونے دیا۔  لہذا یہ کینے سے بھرے ہوئے ہیں، برہمی سے بھرے ہوئے ہیں۔ البتہ قرآن کہتا ہے : قل موتوا بغیظکم۔(7) ہاں، برہم رہو اور اسی برہمی میں مر جاؤ۔ اور یہی ہوگا بھی، وہ مر رہے ہیں۔ خدا کی مدد سے یہ "قل موتوا بغیظکم" صیہونی حکومت کے تعلق سے صحیح ثابت ہو رہا ہے۔ بنابریں وحدت یہاں موثر ہے۔

فلسطین آج عالم اسلام کا اولین مسئلہ ہے۔ البتہ چند عشرے سے ہے، صرف آج کی بات نہیں ہے۔  کئی عشرے سے مسئلہ فلسطین، حقیقی معنی میں اسلامی دنیا کا پہلا مسئلہ ہے۔ ایک قوم کو اس کے گھر سے باہر کر دیا، غصب کر لیا، قبضہ کر لیا۔ ان کے ہزاروں افراد کو قتل کر دیا، اذیتیں دیں، جیلوں میں بند کیا، آوارہ وطن کر دیا ہے۔ یہ معمولی چیز نہیں ہے۔ عالم اسلام کا پہلا مسئلہ، مسئلہ فلسطین ہے۔ 

اسلامی جمہوریہ ایران  کا حتمی نظریہ ہے کہ جو حکومتیں صیہونی حکومت کے ساتھ روابط کی بحالی کا جوا کھیل رہی ہیں، وہ غلطی کر رہی ہیں، نقصان اٹھائيں گی۔ ہار ان کے انتظار میں ہے۔ یورپ والوں کے بقول وہ ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگا رہی ہیں۔ آج صیہونی حکومت کی حالت ایسی نہیں ہے کہ اس سے قربت کی ترغیب دلاتی ہو۔ انہیں یہ غلطی نہیں کرنی چاہئے۔ غاصب حکومت جانے والی ہے۔ آج فلسطینی تحریک ان ستّر اسّی برسوں کے ہر دور سے زیادہ اچھی پوزیشن میں ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج  فلسطینی نوجوان  اور فلسطینی تحریک غاصبانہ قبضے کے خلاف، ظلم کے خلاف اور صیہونزم کے خلاف ہمیشہ سے زیادہ قوی، محکم اور آمادہ ہے اور ان شاء اللہ یہ تحریک نتیجہ بخش ہوگی اور جیسا کہ  ہمارے عظیم امام ( امام خمینی رحمت اللہ علیہ ) نے غاصب حکومت کو کینسر سے تعبیر کیا ہے(8)یقینا  فضل الہی سے خود فلسطینی عوام اور استقامتی قوتوں کے ہاتھوں علاقے میں اس کو جڑ سے ختم کر دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ    

 ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم امت اسلامیہ کو سربلندی، عزت و شرف اور برتری عطا فرمائے گا تاکہ ان شاء اللہ اپنی بے نظیر قدرتی اور انسانی استعدادوں سے حد اکثر استفادہ کر سکے۔

   والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1۔ اس موقع پر پہلے صدر ایران حجت الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئیسی نے مختصر خطاب کیا۔

2۔ سورہ ابراہیم، آیت نمبر 1 "۔۔۔۔۔۔۔ کتاب ہے جو ہم تمھاری طرف لائے تاکہ لوگوں کو تاریکی سے نکال کے  روشنی میں لاؤ۔۔۔۔۔" 

 3۔ نہج البلاغہ خطبہ نمبر 108

 4۔ سورہ انفال، آیت نمبر 24 " اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو! جب خدا اور پیغمبر نے تمھیں بلایا کہ تمہیں زندگی عطا کریں تو انہیں جواب دو۔۔۔۔۔۔"

 5۔ سورہ حج، آیت نمبر 78 " اور راہ خدا میں اس طرح جہاد کرو جو جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تمہیں منتخب کیا اور دین میں تم پر سختی نہیں کی۔ تمھارے جد ابراہیم کا دین ( بھی ایسا ہی تھا) ۔ وہ تھے جنہوں نے تمہیں پہلے مسلمان کا نام دیا۔۔۔۔۔۔" 

 6۔ سورہ بقرہ، آیت نمبر 279"۔۔۔۔ نہ ظلم کرتے ہو اور نہ ظلم برداشت کرتے ہو۔"

 7۔ سورہ آل عمران، آیت نمبر 119

8۔  صحیفہ امام، جلد 15 صفحہ 519۔ مختلف طبقات کے لوگوں سے خطاب۔ (24-01-1982)