رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اسرائیل کی نابودی سے مراد جعلی صیہونی حکومت کا خاتمہ اور فلسطین کے اصلی مالکین  کے ذریعے بشمول مسلمان، عیسائی اور یہودی، منتخب حکومت کی حکمرانی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ دشمنان اسلام اور ان میں سر فہرست امریکہ بنیادی طور پر اسلام اور تمام اسلامی ممالک کا دشمن ہے اور ہمارے علاقے میں ان کا اصلی حربہ حساس اور فیصلہ ساز مراکز میں رسوخ قائم کرنا، اقوام کے درمیان تفرقہ ڈالنا اور امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈال دئے جانے کو مشکلات کے حل کے طور پر تسلیم کروانا ہے اور اس حربے کو ناکام کرنے کا طریقہ سازشوں کے مقابلے میں ڈٹ جانا، حقائق کی تشریح اور راہ حق میں استقامت ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس ملاقات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے پیغمبر اسلام کو مجسم قرآن، اللہ کی سب سے عظیم اور سب سے اعلی مخلوق اور انسانی سماجوں کی زندگی و روشنی کا ذریعہ و نور قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ انسانیت بتدریج ان حقائق کو سمجھے گی اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ دن بھی دیکھیں گے جب اس مقدس ہستی کی ولادت کے ان ایام میں دنیائے اسلام پر تبسم چھایا ہوگا اور غم و اندوہ کا نام و نشان نہ ہوگا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے 12 سے 17 ربیع الاول کے ایام کو اسلامی جمہوریہ میں ہفتہ وحدت سے موسوم کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ وحدت کوئی سیاسی اقدام اور ٹیکٹک نہیں بلکہ اس کی وجہ امت اسلامیہ کے اتحاد کی ضرورت پر گہرا قلبی ایمان و اعتقاد ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل سے پہلے بھی اس دیرینہ فکر کے بڑے اہم طرفدار منجملہ عالم تشیع کے بزرگ مرجع تقلید آیت اللہ بروجردی تھے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اتحاد کے متعدد درجات بیان کئے اور فرمایا کہ دنیائے اسلام کے اتحاد کا پہلا درجہ اسلامی معاشروں، حکومتوں، قوموں اور مسلکوں کا ایک دوسرے کے خلاف جارحیت اور وار کرنے سے اجتناب اور مشترکہ دشمن کے مد مقابل متحد ہونا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اتحاد کے بلند تر درجات میں اسلامی ممالک کے لئے ضروری ہے کہ علم و دانش، ثروت، امن و سلامتی اور سیاسی طاقت جیسے میدانوں میں ایک دوسرے کے تعاون اور باہمی کوششوں سے جدید اسلامی تمدن کی تشکیل کریں اور اسلامی جمہوریہ نے بھی اسی منزل یعنی جدید اسلامی تمدن کی تشکیل کو اپنا آخری ہدف قرار دیا ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دنیائے اسلام میں موجود مسائل منجملہ مسئلہ فلسطین، یمن، مغربی ایشیا اور شمالی افریقا میں خونریز جنگوں کو باہمی دشمنی سے اجتناب اور دشمن کے مقابلے میں متحد رہنے کے اصول کی عدم پابندی کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا کہ آج دنیائے اسلام کی سب سے بڑی مصیبت مسئلہ فلسطین ہے جہاں ایک قوم کو اس کے آشیانے اور وطن سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلامی تحریک کے آغاز کے وقت ہی بالکل واضح اور آشکارا موقف اختیار کرتے ہوئے صیہونزم کے اثر و نفوذ، مداخلت اور مظالم کے خطرات سے آگاہ کر دیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف ایک حتمی اور اصولی موقف ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے آغاز سے اب تک ہم اس موقف پر ثابت قدم ہیں، یعنی کسی بھی تامل کے بغیر ہم نے فلسطین اور فلسطینیوں کی مدد کی اور کرتے رہیں گے اور ہم اسے تمام دنیائے اسلام کا فریضہ سمجھتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسرائیل کو مٹا دینے کے سلسلے میں امام خمینی اور اسلامی نظام کے عہدیداران کے مکرر بیانوں میں تحریف کی دشمن کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم فلسطین، اس کی خود مختاری اور اس کی نجات کے حامی ہیں، جبکہ اسرائیل کو مٹا دینے کا مطلب یہودی عوام کو ختم کر دینا نہیں ہے، کیونکہ ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں ہے، چنانچہ ہمارے ملک میں بھی یہودیوں کی ایک تعداد مکمل امن و سلامتی کے ماحول میں زندگی بسر کر رہی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا مطلب ہے مسلط کردہ صیہونی حکومت کا خاتمہ۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ فلسطین کے عوام کو جو اس سرزمین کے اصلی مالک ہیں، خواہ وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی یہ موقع ملنا چاہئے کہ خود اپنی حکومت منتخب کریں اور نیتن یاہو جیسے اوباشوں، بدمعاشوں اور اغیار کو بے دخل کرکے اپنے امور مملکت چلائیں اور یہ ہوکر رہے گا۔

 رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ امریکہ، صیہونی حکومت اور وحدت اسلامی کے دیگر دشمنوں کو تمام اسلامی ممالک سے عناد ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ظلم و استکبار اور تسلط پسندی کی نفی کرنا اسلام کی ماہیت کا حصہ ہے، بنابریں وہ بنیادی طور پر اسلام اور تمام اسلامی ممالک کے خلاف ہیں، یہ تصور درست نہیں ہے کہ ان کی دشمنی صرف اسلامی جمہوریہ سے ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے سعودی حکام کے بارے میں امریکیوں کے توہین آمیز بیانوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ جو وہ صریحی طور پر کہتے ہیں کہ سعودیوں کے پاس پیسے کے علاوہ کچھ نہیں ہے، یعنی ہم چلیں اور انھیں لوٹیں تو یہ در حقیقت کسی بھی ملک اور قوم کے خلاف کھلی ہوئی دشمنی ہے، ان کے فریق مقابل کو سمجھنا چاہئے کہ اس قسم کی توہین کے مقابلے میں عرب غیرت اور اسلامی وقار کے تقاضے کے تحت ان کا کیا فرض بنتا ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ علاقے میں امریکہ کی موجودگی شر پسندی، تباہی، بدامنی اور داعش جیسے گروہوں کی تشکیل کی بنیادی وجہ ہے۔ آپ نے امریکہ کے اصلی منافقانہ چہرے سے تمام مسلم اقوام کی آشنائی کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ آج ہمارے علاقے میں امریکہ کا اصلی حربہ حساس اور فیصلہ ساز مراکز میں اثر و رسوخ قائم کرنا، اقوام کے عزم و ارادے میں تزلزل پیدا کرنا اور تفرقہ ڈالنا، اقوام اور حکومتوں کے درمیان بے اعتمادی پیدا کرنا، کلیدی فیصلے کرنے والے افراد کے اندازوں اور تخمینوں میں رد و بدل کرکے یہ تاثر دینا ہے کہ مشکلات کی واحد راہ حل امریکہ کے سائے میں پناہ لینا اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ حربہ عسکری وسائل اور ہتھیاروں سے زیادہ سخت اور خطرناک ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق دشمنوں کے مقابلے کا راستہ اللہ کے فرمان پر عملدرآمد یعنی راہ حق میں ثابت قدم رہنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بے شک اس استقامت میں بڑی دشواریاں بھی آئیں گی لیکن ان سختیوں کو برداشت کرنا عمل صالح ہے اور بارگاہ پروردگار میں اس کا اجر ملے گا، جبکہ دشمن کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے میں اور زیادہ سختیاں ہیں اور اللہ تعالی ظلم کے سامنے سر جھکا دینے والوں کو سزا دے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں فرمایا کہ مسلم اقوام کی سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی خود مختاری، امت اسلامیہ کے اتحاد و اقتدار، مستضعفین اور عوام الناس کی مدد، حقائق کی تبلیغ، توہمات کے سد باب، علم و تحقیقات منجملہ ایٹمی انرجی کی ترویج کے سلسلے میں عالم اسلام میں انجام دئے جانے والا ہر اقدام اور ہر بیان عمل صالح اور نیکی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی اقوام کی ضرورت ہے لیکن اجارہ داری کی پالیسی پر گامزن مغربی طاقتیں اسے اپنے انحصار میں رکھنے کی کوشش میں ہیں اور قوموں کے وقار اور خود مختاری کے عوض انھیں قطرہ قطرہ کرکے یہ ٹیکنالوجی دے رہی ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مغربی طاقتوں کو بخوبی معلوم ہے کہ ہم اپنے اصول اور عقیدے کی وجہ سے ایٹمی ہتھیاروں کی جانب نہیں جانا چاہتے، بنابریں ایسی صورت میں بھی ایران کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت کی وجہ ایران کو اس ٹیکنالوجی، صنعت اور انرجی تک رسائی سے روکنا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ دنیائے اسلام کے دانشوروں اور علما کا فرضہ بہت اہم ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پوری طاقت سے حق کا دفاع کیجئے، دشمن سے ہراساں نہ ہوئیے اور یاد رکھئے کہ دنیائے اسلام فضل پروردگار سے عنقریب اپنے درخشاں مقاصد کی تکمیل کا منظر دیکھے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے اپنی تقریر میں کہا کہ پیغمبر اسلام ایسے حالات میں تشریف لائے کہ دنیا تفریق، جنگوں اور خونریزی میں غرق تھی۔

ڈاکٹر روحانی نے کہا کہ پیغمبر اسلام اپنے ساتھ آسمانی کتاب، میزان، صداقت، علم، ایمان اور وحدت و یگانگت کا تحفہ لائے اور آپ نے دنیا اور سماج کے لئے بہترین نمونہ عمل پیش کیا۔

ڈاکٹر روحانی نے کہا کہ علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا اثر و رسوخ اسلامی انقلاب کے پیغام اور دعوت کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ انقلاب کا گہرا اثر ہے جس نے دلوں کو اپنی جانب مائل کیا ہے اور اگر آج شام، لبنان، یمن، عراق اور بحرین کی اقوام خود کو اسلامی جمہوریہ کے قریب محسوس کرتی ہیں تو اس کی وجہ انقلاب کا یہی پیغام ہے۔

صدر روحانی نے کہا کہ اسلامی مملکت ایران کے فرزندوں نے شام اور عراق کی اقوام کے دفاع کے لئے جان ہتھیلی پر رکھی اور مشیر کے طور پر وہاں پہنچ گئے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہمارے فرزند شام، عراق اور لبنان گئے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے لئے انسانوں کی آزادی اور رسول اللہ کی پیروی کسوٹی تھی اور آج بھی ہم جس چیز کے خواہاں ہے وہ وحدت، اخوت اور راہ پیغمبر اسلام کی  پیروی ہے۔

صدر مملکت نے زور دیکر کہا کہ آج کی دنیا میں تفرقے، رجعت پسندی، امریکہ و صیہونی حکومت کی جارحیتوں سے نجات پانے کا واحد راستہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اپنے پیارے رسول کے یوم ولادت پر ہم یہی چاہتے ہیں کہ دنیائے اسلام متحد ہوکر اور باہمی بھائی چارے کے ساتھ ظلم کا مقابلہ کرے اور فتح سے ہمکنار ہو۔

اس ملاقات کے آخر میں وحدت اسلامی کانفرنس کے کچھ مہمانوں نے رہبر انقلاب اسلامی سے قریب سے گفتگو کی۔