اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ نماز شب پڑھنا اور ذکر خدا اس گروہ کی خصوصیت ہے جو نیک ہے اور فائدے میں ہے جبکہ اللہ کی نافرمانی اور گناہ اس گروہ کی خصوصیت ہے جو برا اور نقصان میں ہے۔

KHAMENEI.IR  نے یہ حدیث اور اس کی تشریح شائع کی جو حسب ذیل ہے؛

بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین.

وَ بِالاِسنادِ قالَ: حَدَّثَنَا الحُسَینُ بنُ اَحمَدَ بنِ اِدریسَ قالَ: حَدَّثَنا اَبی قالَ: حَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بنُ عَلیٍّ، عَن مُحَمَّدِ بنِ الحُسَینِ بنِ اَبِی الخَطّابِ، عَن اَبی داوُدَ المُستَرِقِّ وَ اسمُهُ سُلَیمَانُ بنُ سُفیانَ، قالَ: قالَ الصّادِقُ جَعفَرُ بنُ مُحَمَّدٍ (عَلَیهِمَا السَّلامُ): یَقومُ‌ النّاسُ‌ عَن‌ فُرُشِهِم‌ عَلى‌ ثَلاثَةِ اَصنَافٍ: فَصِنفٌ لَهُ وَ لَا عَلَیهِ، وَ صِنفٌ عَلَیهِ وَ لا لَهُ، وَ صِنفٌ لا لَهُ وَ لا عَلَیهِ؛ فَاَمَّا الصِّنفُ الّذی لَهُ وَ لا عَلَیهِ فَهُوَ الَّذی‌ یَقومُ مِن مَنامِهِ وَ یَتَوَضَّأُ وَ یُصَلّی وَ یَذکُرُ اللهَ (عَزَّ وَ جَلَّ)، وَ الصِّنفُ الَّذی عَلَیهِ وَ لا لَهُ فَهُوَ الَّذی لَم یَزَل فی مَعصیَةِ اللهِ حَتّى قامَ فَذلِکَ الَّذی عَلَیهِ وَ لا لَهُ، وَ الصِّنفُ الَّذی لا لَهُ وَ لا عَلَیهِ فَهُوَ الَّذی لا یَزالُ نائِماً حَتّى یُصبِحَ فَذلِکَ الَّذی لا لَهُ وَ لا عَلَیه.(۱(

 

عَن اَبی داوُدَ المُستَرِقِّ قالَ: قالَ الصّادِقُ جَعفَرُ بنُ مُحَمَّدٍ (عَلَیهِمَا السَّلامُ): یَقومُ‌ النّاسُ‌ عَن‌ فُرُشِهِم‌ عَلى‌ ثَلاثَةِ اَصنَافٍ: فَصِنفٌ لَهُ وَ لَا عَلَیهِ، وَ صِنفٌ عَلَیهِ وَ لا لَهُ، وَ صِنفٌ لا لَهُ وَ لا عَلَیه

آپ صبح کو جب نیند سے جاگتے ہیں اور بستر سے باہر آتے ہیں تو آپ تین میں سے کسی ایک حالت میں ہوتے ہیں۔ یعنی دنیا کے لوگ جب نیند پوری کرکے اٹھتے ہیں تو ان کی تین قسمیں ہوتی ہیں: ایک صنف ان لوگوں کی ہے جن کا نیند سے جاگنا اور بستر سے باہر آنا ان کے لئے کار خیر ہوتا ہے، اس میں کوئی برائی نہیں ہوتی۔ یعنی وہ فائدے میں ہوتے ہیں، کوئي چیز ان کے نقصان میں نہیں ہوتی۔ ایک صنف ایسے افراد کی ہے۔ دوسرا گروہ ان افراد کا ہے جو بستر سے اٹھتا ہیں تو وہ نقصان میں ہوتے ہیں، وہ فائدے میں نہیں ہوتے، انھیں کوئی فائدہ نہیں ملنے والا ہے۔ ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو نیند سے جاگتے ہیں اور بستر سے باہر آتے ہیں تو نہ وہ نقصان میں ہوتے ہیں اور نہ فائدے میں۔ اس طرح لوگ تین گروہوں میں منقسم ہیں۔

فَاَمَّا الصِّنفُ الّذی لَهُ وَ لا عَلَیهِ فَهُوَ الَّذی‌ یَقومُ مِن مَنامِهِ وَ یَتَوَضَّأُ وَ یُصَلّی وَ یَذکُرُ اللهَ (عَزَّ وَ جَلّ)

اس حدیث سے بظاہر یہی مفہوم نکلتا ہے کہ یہاں «یُصَلّی» نماز پڑھنے سے مراد نماز صبح پڑھنا نہیں ہے۔ کیونکہ تیسری صنف میں جو لوگ شامل ہیں نماز صبح تو انھیں بھی ادا کرنا ہے۔ اگر ادا نہیں کریں گے تو نقصان میں ہوں گے۔ لہذا یہاں جو نماز پڑھنے کی بات ہو رہی ہے وہ نماز صبح نہیں بلکہ مراد نافلہ صبح ہے یا نافلہ شب، اسی صورت میں تو نیند سے بیدار ہونا اس کے فائدے میں ہوگا، اس کے نقصان میں نہیں ہوگا۔ یہ بہت اہم ہے۔

آقا طباطبائی مرحوم رضوان اللہ تعالی علیہ کے بارے میں لوگ نقل کرتے ہیں کہ آپ شروع میں جب نجف گئے اور الحاج میرزا علی آقا قاضی سے نئے نئے آشنا ہوئے تھے تو ایک دن گلی میں ان سے ملاقات ہو گئی۔ الحاج میرزا علی آقا قاضی یعنی وہی نامور عارف رضوان اللہ تعالی علیہ ان سے کہتے ہیں کہ میرے بیٹے! اگر دنیا چاہئے تو نماز شب پڑھو، اگر آخرت چاہئے تو نماز شب پڑھو! نماز شب اور تہجد کی یہ خصوصیت ہے۔ ہم جیسوں کے لئے جو دن بھر مصروف رہتے ہیں، مختلف کاموں میں الجھے رہتے ہیں، مشکلات میں پھنسے رہتے ہیں، فلاں سے بحث کرو! فلاں کے سلسلے میں وہ کرو! ان تمام الجھنوں کے درمیان زندگی کی فضا میں بہت دشوار ہے کہ ہم اللہ سے کما حقہ رابطہ قائم  کریں، طلب نصرت کریں، تضرع کریں۔ ایک ہی چارہ ہے کہ انسان سحر کے وقت بیدار ہو، یہ عبارت غالبا اسی سحر کے وقت کی بات کر رہی ہے۔ تو ایک صنف ایسے افراد کی ہے۔

وَ الصِّنفُ الَّذی عَلَیهِ وَ لا لَهُ فَهُوَ الَّذی لَم یَزَل فی مَعصیَةِ اللهِ حَتّى قامَ فَذلِکَ الَّذی عَلَیهِ وَ لا لَه

دوسری صنف ان لوگوں کی ہے جو بستر خواب پر بھی، نیند کے عالم میں بھی اللہ کی معصیت کرتے رہتے ہیں، ممکن ہے کہ وہ قلبی معصیت ہو، جوارح (2) کی معصیت ہو یا جوانح (3) سے کی جانے والی معصیت ہو۔ اس صنف کے لوگ جب بیدار ہوتے ہیں تو یہ بیدار ہونا ان کے نقصان میں ہوتا ہے۔ اس لئے کہ بیدار ہونے کے بعد وہ اسی معصیت کو جاری رکھیں گے۔

وَ الصِّنفُ الَّذی لا لَهُ وَ لا عَلَیهِ فَهُوَ الَّذی لا یَزالُ نائِماً حَتّى یُصبِحَ فَذلِکَ الَّذی لا لَهُ وَ لا عَلَیه

تیسری صنف ایسے افراد کی ہے جن کا بیدار ہونا نہ ان کے مفاد میں ہے اور نہ نقصان میں۔ وہ صبح تک سوتے ہیں۔ بظاہر یہاں صبح سے مراد اذان تک سونا ہے، اول فجر تک سونا ہے۔ البتہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہاں صبح سے مراد طلوع فجر اور طلوع آفتاب کے بیچ کا وقت ہے۔ اس وقت یہ افراد نیند سے جاگتے ہیں، نماز صبح پڑھتے ہیں۔ لیکن «لا لَهُ وَ لا عَلَیه» نہ وہ نقصان میں ہیں اور نہ ہی فائدے میں۔ بہرحال یہ فریضہ ہے جو اس کے ذمے ہے، اسے ادا کرنا ہے، یہ واجب ہے۔ اسے بجا لانا ضروری ہے۔ وہ اس فریضے کو بجا لاتے ہیں لیکن اس سے انھیں کوئی خیر حاصل نہیں ہو پاتا۔

--------

۱) امالی طوسی، مجلس پانزدهم، صفحہ ۴۳۱ و ۴۳۲؛ «سلیمان ‌بن ‌سفیان نے روایت کی ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ بستر پر نیند پوری کرکے بیدار ہونے والے افراد تین قسم کے ہیں۔ ایک صنف ایسے لوگوں کی ہے جو منفعت حاصل کرتے ہیں، نقصان نہیں اٹھاتے، ایک صنف ان کی ہے جو نقصان میں رہتے ہیں، فائدہ نہیں حاصل کر پاتے، ایک صنف ان لوگوں کی ہے جو نہ فائدے میں ہیں اور نہ نقصان میں۔ فائدے میں رہنے اور نقصان نہ اٹھانے والے لوگ وہ ہیں جو نیند سے اٹھ کر وضو کرتے ہیں، نماز ادا کرتے ہیں اور اللہ کو یاد کرتے ہیں، نقصان میں رہنے والے اور فائد سے محروم رہنے والے لوگ وہ ہیں جو جب تک جاگتے رہتے ہیں اللہ کی معصیت کرتے رہتے ہیں۔ جو گروہ نہ فائدے میں ہے اور نہ نقصان میں وہ ان لوگوں کا گروہ ہے جو صبح تک سوتے رہتے ہیں۔

۲) عمل جوارح ایسے افعال کو کہا جاتا ہے جو اعضائے بدن کی مدد سے انجام دئے جاتے ہیں جیسے نماز، روزہ وغیرہ۔

۳) عمل جوانح ایسے افعال کو کہا جاتا ہے جو دل اور روح سے انجام دئے جاتے ہیں جیسے محبت، نفرت۔