بسم اللہ الرحمن الرحمن الرحیم

الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطیبین الطاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ ‌اللہ فی الارضین.

عزیز بھائيو اور بہنو! آپ کا خیر مقدم ہے۔ یہ سالانہ ملاقات، مجھ حقیر کی سب سے شیریں اور یادگار ملاقاتوں میں سے ایک ہے، جیسا کہ تبریز اور آذربائیجان کے عوام سے ملاقات، جو مختلف مواقع پر ہمارے سفر کے دوران ہوئی، میری سب سے شیریں اور سب سے یادگار ملاقاتوں اور دوروں میں شامل ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ایک بار پھر اس امام بارگاہ میں آذربائيجان اور تبریز کے غیور، مومن، انقلابی، سچے اور بہادر لوگوں سے ملاقات ہو رہی ہے، بہت بہت خوش آمدید۔

تبریز، تبریزی اور آذربائیجانی کی تعریف و تحسین میں ہم بہت کچھ کہہ چکے ہیں اور مزید گفتگو کی گنجائش باقی ہے۔ ہم اسلامی انقلاب کے دوران اور اس سے پہلے کے واقعات کے بارے میں جتنا سوچیں، اتنا ہی تبریز اور آذربائیجان کے عوام کی اہمیت اور ان کے مؤثر کردار کا اندازہ ہوتا ہے۔ اگر ہم ایک جملے میں ان لوگوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں تو یہ کہنا ہوگا کہ آذربائيجان میں لوگوں کے کردار میں، ان کی شخصیت میں اور ان کے تشخص میں دینی غیرت، قومی غیرت اور انقلابی غیرت پوری طرح سے جلوہ گر ہے۔ ان لوگوں نے دین کا دفاع کیا ہے، ملک کا دفاع کیا ہے، انقلاب کا دفاع کیا ہے، قومیت کا دفاع کیا ہے، مذہبی تشخص کا دفاع کیا ہے۔ جب آذربائيجان میں دشمنانہ محرکات کے تحت مذہب مخالف منحرف افکار کی ترویج کی جا رہی تھی تو اس وقت کے انقلاب مشروطہ (آئينی انقلاب) کے نجات دہندگان، فقہاء کے فتوؤں پر بھروسہ کیے ہوئے تھے۔ کسی کو بھی یقین نہیں آتا تھا کہ ستار خان اور باقر خان (2) مرجع تقلید کے حکم کے مطابق کام کریں گے لیکن ایسا ہی تھا۔ ان لوگوں نے مذہبی تشخص کی حفاظت کی اور اسے ہمیشہ باقی رکھا۔

ایک اہم نکتہ، جس کی طرف تبریز کے محترم امام جمعہ نے بھی اشارہ کیا، یہ تھا کہ آذربائيجان میں، تبریز میں واقعات بر وقت رونما ہوتے ہیں، تاخیر سے رونما نہیں ہوتے یعنی جب بھی ضروری ہو تب اور ضروری لمحات میں رونما ہوتے ہیں۔ میں نے کئی بار کہا ہے کہ پروڈکشن لائن میں جب یہ پروڈکٹ آپ کے سامنے سے یعنی جہاں آپ کھڑے ہیں، وہاں سے گزر رہا ہے، اسی وقت آپ کو اس پر کوئی کام کرنا چاہیے، اگر آپ پانچ سیکنڈ کی تاخیر کر دیں گے تو پروڈکٹ آگے بڑھ جائے گا اور معیوب رہ جائے گا، آپ کو اسی لمحے فیصلہ کرنا چاہیے اور عمل کرنا چاہیے۔ آذربائيجان نے اسی طرح کام کیا ہے، بر وقت فیصلہ کیا اور اس پر عمل کیا ہے۔ انتیس بہمن سن تیرہ سو چھپن ہجری شمسی (اٹھارہ فروری سن انیس سو اٹھہتر) کو بھی ایسا ہی ہوا تھا اور آج اسی عظیم واقعے کی سالگرہ ہے۔ اس دن بھی لوگوں نے بروقت فیصلہ اور عمل کیا اور خداوند عالم نے ان کے عمل میں برکت عطا کی، میں اختصار سے عرض کروں گا کہ خداوند عالم اس طرح کے کاموں میں کس طرح برکت عطا کرتا ہے۔

اسلامی انقلاب کے بعد کے مسائل میں بھی ایسا ہی رہا ہے۔ ہمیں حالات کا علم ہے۔ یہاں انقلابی کونسل میں، سبھی تبریز کے مسائل کی طرف مستقل متوجہ تھے۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو وحشت میں تھے، امام خمینی نے فرمایا کہ کوئي بھی وحشت زدہ نہ ہو، تبریز کے عوام خود ہی فتنے سے نپٹ لیں گے، کسی دوسرے کی ضرورت نہیں ہے اور ہوا بھی ویسا ہی۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد کے ابتدائي مہینوں میں ہی تبریز کے اطراف سے انقلاب مخالف افراد کو تبریز پہنچایا گیا تھا تاکہ وہ ایک ہنگامہ، ایک فتنہ کھڑا کر دیں۔ جس نے فتنے کو ناکام کیا، وہ خود تبریز کے عوام تھے۔ خود تبریز کے عوام، خود تبریز کے نوجوان میدان میں آ گئے۔ مقدس دفاع کے دوران بھی ایسا ہی ہوا، مقدس دفاع کے بعد بھی، مختلف فتنوں کے دوران، سن 2009 میں، اس کے بعد کے مسائل میں بھی تبریز پیش پیش رہا، وہ ہمیشہ دوسروں سے آگے رہا۔ اگرچہ شہید قاسم سلیمانی کا جنازہ تبریز نہیں لے جایا گيا لیکن اس شہید کے لیے تبریز میں ہونے والے الوداعی پروگرام میں، جسے میں نے ٹیلی ویژن پر دیکھا، عوام کی کثیر تعداد اور مجمع کو دیکھ کر واقعی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں، یہ باتیں بہت اہم ہیں، یہ بہت معنی خیز ہیں۔ اس کے بعد بائيس بہمن (گيارہ فروری) کی ریلی میں، شدید ٹھنڈ، برفباری اور اس طرح کے موسم میں عوام کا وہ عظیم اجتماع۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنھیں آنکھیں دیکھتی ہیں، دوست آنکھیں دیکھتی ہیں اور پرامید ہوتی ہیں، دشمن آنکھیں بھی دیکھتی ہیں اور حیران ہو جاتی ہیں، ان سب کو دشمن بھی دیکھتا ہے۔ نہ تو دشمن سویا ہوا ہے اور نہ ہی اندھا ہے، وہ دیکھ رہا ہے کہ ایران میں کیا ہو رہا ہے؟ بنابریں ان باتوں کا اثر پڑتا ہے جس کے بارے میں عرض کروں گا۔

بروقت اور صحیح موقع پر موجودگي کا اثر، ایسا ہوتا ہے کہ جس پر خداوند عالم کی ایک خاص نظر ہوتی ہے۔ یعنی جب آپ کسی کام کو اس کے صحیح وقت اور موقع پر انجام دیتے ہیں تو اس کی برکت زیادہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر انتیس بہمن سن تیرہ سو چھپن ہجری شمسی کے واقعے کو ہی لیجیے، میرا خیال ہے کہ اگر تبریز کے لوگ اس دن انیس دی سن تیرہ سو چھپن (نو جنوری سن تیرہ سو اٹھہتر) کے سانحے کا چہلم نہ مناتے تو قوی امکان تھا کہ انیس دی کو بھلا دیا جاتا، اس وقت کے مختلف پروپیگنڈوں میں وہ واقعہ طاق نسیاں کی زینت بن جاتا، لیکن خداوند عالم نے برکت عطا کی، لوگ ڈٹ گئے، انھوں نے استقامت کی، شجاعت سے کام لیا اور انیس دی کو قم میں شہید ہونے والوں کا چہلم منایا، کیونکہ وہ صحیح موقع تھا، چونکہ وہ صحیح اور بروقت تھا اس لیے خداوند متعال نے برکت عطا کی۔ وہ برکت کیا تھی؟ وہ یہ تھی کہ اس قدم کے بعد ایرانی قوم کی اجتماعی تحریک شروع ہو گئي۔ تبریز کے بعد کئي شہروں میں، تبریز کے شہداء کا چہلم منایا گیا، یعنی لوگوں نے سیکھ لیا کہ کیا کرنا چاہیے۔ راستہ تبریز کے لوگوں نے کھولا تھا۔ خدا اس طرح سے برکت عطا کرتا ہے۔ اور ایرانی قوم کی اجتماعی تحریک، ایک ایسے واقعے پر منتج ہوئي جو ہمارے ملک کی تاریخ میں بے نظیر ہے یعنی طاغوتی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور اسلام کی حکومت کو اقتدار میں لانا، اللہ کی برکت یہ تھی۔

مجھے آذربائیجان اور تبریز سے بہت امید ہے، نوجوانوں سے بہت امید ہے۔ آپ میں سے اکثر لوگ جو یہاں ہیں، نوجوان ہیں؛ آپ کو وہ دن یاد نہیں ہے، آپ نے وہ دن نہیں دیکھا ہے، امام خمینی کو بھی نہیں دیکھا ہے، مقدس دفاع کے زمانے کو بھی نہیں دیکھا ہے لیکن اگر آپ کی اہلیت اور گنجائش، مقدس دفاع کے دوران جہاد کرنے والے عزیزوں سے زیادہ نہیں ہے تو کم بھی نہیں ہے، یہ میرا یقین ہے۔ آج آذربائيجان کا نوجوان اسلامی انقلاب کے دفاع کے میدان میں مردانہ وار ڈٹ جاتا ہے، سینہ سپر ہو جاتا ہے، نرم جنگ کے میدان میں، عقائد کے مسئلے میں، مختلف افکار کے مسئلے میں، دشمن کے معاندانہ پروپیگنڈوں کا سامنا کرنے میں اور اگر کوئي حادثہ پیش آ جائے اور میدان میں کسی دوسرے طریقے کی موجودگي ضروری ہو تب بھی میں دیکھتا ہوں کہ یہ نوجوان پوری طرح تیار ہیں۔ معاشی مسائل میں، سیاسی مسائل میں، علمی مسائل میں اور ملک کے مختلف مسائل میں آذربائیجان اپنا کردار ادا کرنے کے لیے واقعی پوری طرح سے تیار ہے اور ان شاء اللہ، خداوند عالم کی توفیق سے وہ یہ فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔

آج میں انتخابات کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ میری بات کے مخاطب آپ عزیزان محترم ہیں جو یہاں موجود ہیں اور وہ لوگ بھی جو بعد میں دوسری جگہوں سے ہماری بات سنیں گے۔ انتخابات کا مسئلہ بڑا اہم ہے۔ میں آپ سے عرض کروں کہ الیکشن ایک عمومی جہاد ہے، ملک کی قوت اور استحکام کا باعث ہے، اسلامی نظام کی عزت افزائي کا سبب ہے۔ آپ امریکیوں کے پروپیگنڈوں کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ کس طرح اسلامی نظام اور عوام کے درمیان خلیج پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ وہ بہت زیادہ کام کر رہے ہیں، مسلسل کام میں مشغول ہیں، انہی کے بقول تھنک ٹینک (3) تشکیل دیتے ہیں، بیٹھتے ہیں، پروگرام بناتے ہیں، مختلف شعبوں میں دسیوں، سیکڑوں لوگ، جنھیں ایران کے بارے میں، ایران کی رائے عامہ کے بارے میں ذمہ داری سونپی گئي ہے، بیٹھتے ہیں، کام کرتے، سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ ان کی سرگرمیوں کا ہدف یہ ہے کہ ایرانی نوجوان کو، اسلامی نظام سے دور کر دیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہو پاتے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ گيارہ فروری کو کیا ہوتا ہے، ہمارے عزیز شہید قاسم سلیمانی کو الوداع کہنے کے دوران کیا ہوتا ہے! انتخابات میں بھی یہی ہونا چاہیے، یعنی دشمنوں کو یہ دکھا دینا چاہیے کہ لوگوں کو اسلامی نظام سے دور کرنے کی ان کی سرتوڑ کوشش کے باوجود، عوام، انتخابات کا استقبال کرتے ہیں اور یہ چیز اسلامی نظام کی عزت ہے، آبرو ہے۔

اس پر بھی توجہ رکھیے کہ دوستوں اور دشمنوں کی نظریں بھی یہیں لگی ہوئي ہیں۔ دشمن یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اتنی زیادہ کوششوں اور پروپیگنڈوں، ملک میں موجود معاشی مسائل، مغربی اور یورپی ملکوں کی جانب سے ہمارے ساتھ کی جانے والی وعدہ خلافیوں اور امریکی جو دباؤ، بقول ان کے انتہائي دباؤ ڈال رہے ہیں اس کا عوام کے اندر کیا نتیجہ نکلا ہے؟ دشمن نظر رکھ رہا ہے اور اسے دیکھنا چاہتا ہے۔ دنیا میں ہمارے دوست بھی پریشانی اور تشویش کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ البتہ ہم اپنے دوستوں کو جب بھی کوئي پیغام دیتے ہیں تو میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ پریشان نہ ہوں، ایرانی قوم کی طرف سے پریشان نہ ہوں، ایرانی قوم جانتی ہے کہ وہ کیا کر رہی ہے، اسے معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے اور وہ اپنا کام کر رہی ہے۔

امریکیوں اور صیہونیوں کے ذہن میں ایران کے خلاف جو منحوس عزائم ہیں، ان میں سے بہت سے عزائم کو ناکام بنانے والے انتخابات ہیں۔ یہ انتخابات، ایران کے دشمنوں کے حربوں، چالوں اور سازشوں کا جواب ہیں۔ اس کا ایک نمونہ وہی بروقت موجودگي ہے جس کا ہم نے ذکر کیا۔ ہم نے عرض کیا کہ بر وقت موجودگی پر خداوند عالم برکت عطا کرتا ہے، جیسا کہ اس نے انتیس بہمن سن تیرہ سو چھپن ہجری شمسی (اٹھارہ فروری سن انیس سو اٹھہتر) کی موجودگي کو برکت عطا کی، یہاں بھی ووٹنگ کے مراکز پر لوگوں کی موجودگي، خداوند عالم کی توفیق سے برکت کا باعث ہوگي۔ اگر ہم اپنے کاموں کو اچھی طرح سے انجام دیں تو ممکن ہے کہ ان میں تبدیلی پیدا کرنے کا اثر ہو، اس کام سے ملک میں تبدیلی لانے والا ایک اثر پیدا ہوگا۔

ہم نے بارہا عرض کیا ہے کہ ایران کو مضبوط ہونا چاہیے، اگر وہ مضبوط ہو گیا تو دشمن مایوس ہو جائے گا، دشمن کی سازشیں ابتدا میں ہی ناکام ہو جائیں گي اور ان کا کوئي نتیجہ نہیں نکلے گا، یہ مضبوط ہونے کا نتیجہ ہے۔ مضبوط ہونے کا ایک مصداق یہی ہے کہ ہماری پارلیمنٹ مضبوط ہو، ایسی پارلیمنٹ جو دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں ضروری قوانین بنا کر اور حکومتوں کو صحیح سمت میں آگے بڑھا کر ملک کو محفوظ بنا سکتی ہے، ایک مضبوط پارلیمنٹ ایسی ہوتی ہے۔ بنابریں پولنگ اسٹیشنوں پر عوام کی موجودگي جتنی زیادہ ہوگي، پارلیمنٹ اتنی ہی زیادہ مضبوط ہوگي۔ البتہ یہ اس کا ایک بنیادی عنصر ہے، دوسرے عنصر کے بارے میں بھی بات کروں گا۔ پارلیمنٹ کی مضبوطی کا ایک عنصر یہی ہے کہ بڑی تعداد میں، زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگ پارلیمنٹ کو ووٹ دیں۔ وہ پارلیمنٹ جو عوام کے ٹھوس اکثریتی ووٹوں سے تشکیل پائے گي، وہ ایک مضبوط اور معتبر پارلیمنٹ ہوگي۔ الیکشن کا جو اثر پڑتا ہے وہ صرف پارلیمنٹ کے چار سالہ دور پر نہیں ہوتا بلکہ اس کے طویل مدتی اثرات ہوتے ہیں، اس لیے کہ جن اراکین کو آپ پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں وہ ممکنہ طور پر ایسے فیصلے کر سکتے ہیں، ایسے قوانین منظور کر سکتے ہیں جن کا اثر برسوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ بنابریں، ایک پارلیمنٹ کا اثر، چاہے وہ مضبوط اور اچھی پارلیمنٹ ہو یا پھر کمزور پارلیمنٹ ہو، طویل مدتی ہوگا۔ خدانخواستہ اگر کوئي پارلیمنٹ کمزور ہو اور دشمن کے سامنے سپر انداختہ پارلیمنٹ ہو تو اس کے منفی اثرات بھی طویل مدتی ہوں گے۔

میرے خیال میں تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے آج انتخابات میں شرکت اور رائے دہی ایک شرعی حکم ہے، یہ صرف ایک قومی اور انقلابی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ شرعی ذمہ داری بھی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ ایک قومی جشن بھی ہے، ایک شہری حق بھی ہے۔ لوگوں کو ملک کے مستقبل میں کردار ادا کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ عوام کے تمام طبقوں کے حق کے حصول کا ذریعہ ہے کہ وہ انتخابات میں شرکت کریں۔ بنابریں شرعی لحاظ سے بھی، قومی لحاظ سے بھی اور شہری حقوق کے حصول کے لحاظ سے بھی انتخابات کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ یہ تو معاملے کا ایک پہلو ہے۔

معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کیسے انتخاب کیا جائے: ہم کیسے انتخاب کریں اور کس کو منتخب کریں یہ بہت اہم ہے۔ میں نے اپنی پچھلی باتوں میں اس سلسلے میں کچھ جملے عرض کیے ہیں، اس وقت بھی میں انھی چند جملوں پر زور دوں گا: باایمان ہوں، بہادر ہوں، مفید اور مومن ہوں۔ شجاع ہوں، ذمہ داری سمجھتے ہوں، کام کرنے کا جذبہ ہو، عوام کے وفادار ہوں، انقلاب کے وفادار ہوں۔ میرے عزیزو! مجلس شورائے اسلامی میں کبھی ہمارے کچھ اراکین پارلیمنٹ تھے، اپنی اسی پارلیمنٹ میں، جو آج امریکا اور ایران کے دشمنوں کے غلام اور پٹھو ہیں، اسلامی جمہوریہ کے دشمن ہیں لیکن کبھی یہاں رکن پارلیمنٹ تھے۔ ان باتوں کا بہت زیادہ خیال رکھا جانا چاہیے۔ اسلام کے وفادار، عوام کے وفادار، انقلاب کے وفادار، ملک کے وفادار، دشمن کے مقابلے میں سخت ہوں، دشمن کے مقابلے میں نہ تو کمزوری محسوس کریں اور نہ کمزوری کا اظہار کریں۔ مال دنیا کے حریص نہ ہوں، ان کے دل سیر ہوں۔ ممکن ہے کچھ لوگ اس لیے رکن پارلمینٹ بننا چاہ رہے ہوں کہ کچھ دولت و ثروت یا وسائل حاصل کر لیں۔ یہ لوگ اس قوم کی نمائندگی کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ یعنی جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ رکن پارلیمنٹ بن کر بعض جگہوں کے دفتری حالات پر اثر انداز ہوں، اس کو ہٹائیں، اس کو بٹھائيں اور اس عہدے کو مالی امور کے لیے حرص و طمع کا ذریعہ بنانے کی کوشش کریں، (وہ اس عہدے کے لائق نہیں ہیں) ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

پارلیمنٹ میں جوانوں اور تجربہ کار افراد کا ایک مناسب امتزاج ہونا چاہیے، یہ ضروری ہے۔ میں ہمیشہ جوانوں پر بھروسہ کرتا ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم تجربہ کار، دانا اور ماہر افراد کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں۔ اصل میں جوان ہی بنیادی طور پر کام کرنے والے، پیش پیش رہنے والے اور آگے کی طرف بڑھانے والے ہوتے ہیں، اس لیے ان کا وجود ضروری ہے، حکومتی اداروں میں بھی ضروری ہے اور قانون ساز اداروں میں بھی ضروری ہے، دوسرے شعبوں میں بھی ضروری ہے۔ جوانوں کو ترجیح دینے کی جو بات ہم نے کہی ہے وہ ملک کی ایک یقینی ضرورت ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تجربہ کار، ماہر اور اہلیت رکھنے والے افراد کو باہر کر دیا جائے، نہیں، ان دونوں کا امتزاج ایک اچھا اور مطلوبہ امتزاج ہے۔

دشمن سے دلبستگی اور اس کے مقابلے میں پسپائی کو بھی ایک منفی نکتہ سمجھنا چاہیے اور اسے مسترد کیا جانا چاہیے۔ جو لوگ دشمن کے مقابلے میں پسپا ہوتے رہے ہیں، دشمن کے مقابلے میں کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتے، جن میں خود اعتمادی نہیں ہے وہ یقینا اس قوم کی نمائندگی کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ ایرانی عوام میں قومی خود اعتمادی پائي جاتی ہے، ہماری قوم میں قومی خود اعتمادی پائي جاتی ہے اور جو بھی ہمارے ملک کو دیکھتا ہے وہ یہی محسوس کرتا ہے۔

آپ اس بات پر توجہ رکھیے کہ اس وقت دنیا میں، اب یہ پتہ نہیں کہ یہ خبریں ہمارے تمام عزیز عوام تک پہنچتی ہیں یا نہیں، بہت سارے دانشور، مفکرین، مصنفین اور سیاستداں ایرانی قوم کے بارے میں یہی نظریہ رکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ قوم ایک عظیم قوم ہے، طاقتور قوم ہے، ایسی قوم نہیں  ہے جسے ڈرایا جا سکے اور  دباؤ ڈال کر کسی کام پر مجبور کیا جا سکے۔ یہ بات سبھی کہتے ہیں یعنی وہ لوگ جو ایران کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ سی آئی اے کا رکن یہ بات نہیں کہے گا، واضح سی بات ہے کہ فلاں دشمن حکومت کا پٹھو یہ بات نہیں کہے گا لیکن آزاد منش انسان کہے گا۔ غیر ملکی اخبارات و جرائد میں اس طرح کی باتیں فراوان ہیں جن کی رپورٹیں ہمارے پاس آتی ہیں۔

ہم نے انتخابات کی اہمیت کے بارے میں اپنی بات عرض کی۔ پارلیمنٹ کا  الیکشن بہت اہم ہے۔ ماہرین اسمبلی کا الیکشن بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے جو ساتھ ہی میں ہو رہا ہے۔ کچھ شہروں میں ماہرین اسمبلی کا الیکشن ہے۔ وہ الیکشن حاشئے پر نہیں جانا چاہئے۔ ماہرین اسمبلی کے ارکان کے ذمے جو کام ہے وہ بہت اہم ہے۔

انتخابات کے سلسلے میں دو کلیدی پہلو ہیں۔ ایک تو خود انتخابات اور اس میں بھرپور عوامی شرکت جس کے تعلق سے ہم نے عرض کیا کہ جو بھی اسلام سے لگاؤ رکھتا ہے، انقلاب کو چاہتا ہے، نظام سے محبت کرتا ہے، ایران سے لگاؤ رکھتا ہے اسے الیکشن میں ضرور شریک ہونا چاہئے۔ لیکن گوناگوں تشہیرات اور پروپیگنڈے کے زیر اثر نہیں۔ جس کے اندر بھی یہ خصوصیات ہیں اسے بہترین انتخاب کرنا چاہئے۔ میرے پاس ایک رپورٹ آئی، جو امکان غالب یہ ہے کہ بالکل صحیح اور باریک بینی سے تیار کی گئی رپورٹ تھی، کہ علاقے کے ایک ضدی ملک نے جس کا میں نام نہیں لینا چاہتا، ایک مغربی، برطانوی صحافتی ادارے کو پیسے دئے کہ وہ اپنے فارسی زبان کے پروگراموں میں ایسی باتیں کرے کہ لوگ انقلابی امیدواروں سے دور ہو جائیں۔ پیسے خرچ کرتے ہیں۔ پیٹرو ڈالر برباد کرتے ہیں کہ ہمارے عوام کو ورغلائیں، کسی اور سمت میں لے جائیں! یہ دوسرا کلیدی پہلو۔ پہلی بنیادی چیز خود الیکشن ہے اور دوسرا کلیدی پہلو انتخابات کی کیفیت اور انتخابات کی نوعیت ہے۔ انتخابات کے سلسلے میں ہماری یہ عرضداشت ہے۔ الیکشن میں بس چند دن ہی تو بچے ہیں۔ اللہ کی نعمت اور اللہ کا امتحان ہے۔ عوام کی بھرپور شرکت کا میدان ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ ہمارے سارے عزیز عوام، آذربائیجان کے ہمارے عوام اور تبریز کے ہمارے عزیز عوام اس امتحان سے سرخرو ہوکر نکلیں گے۔

ایک نکتہ امریکیوں کی  حالیہ ہرزہ سرائی کے بارے میں بھی عرض کرتا چلوں۔ اس لئے کہ حالیہ دنوں  یہ پرلے درجے کے احمق پھر جمع ہو گئے ہیں۔ ایک صف میں شامل ہو گئے ہیں اور ان میں سے ہر  ایک مسلسل ایران کے بارے میں، ملت ایران کے بارے میں، اسلامی جمہوری نظام کے بارے میں، انتخابات کے بارے میں، یونہی جو منہ میں آ رہا ہے بیان دے رہا ہے۔ وہ جو بیان بازی کر رہے ہیں اس کا ایک مقصد انتخابات پر اثر انداز ہونا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو انتخابات پر اپنا اثر ڈالیں، لوگوں میں مایوسی پھیلائيں، انھیں بیلٹ باکس سے مایوس کر دیں۔ اس بیان بازی کی ایک اور وجہ ان کا احساس بے بسی ہے۔ ہمارے عزیز شہید کی شہادت اور امریکیوں نے بغداد ایئرپورٹ پر جو مجرمانہ اقدام کیا اس کے بعد وہ بے بس ہوکر رہ گئے ہیں۔ یعنی خود امریکی صدر اور اس کے گردو و پیش موجود عہدیداران بے دست وپا ہوکر رہے گئے ہیں۔ اب ان کی سمجھ میں آ چکا ہے کہ بغیر سوچھے سمجھے انھوں نے کام کر دیا۔ نتیجتا دنیا بھر میں ان پر حملہ کیا گيا اور خود امریکہ کے اندر وہ شدید حملوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں کہ آپ نے یہ کیا حماقت کر ڈالی؟! اس کا نتیجہ بالکل برعکس نکلا۔ امریکی یہ چاہتے تھے کہ ہمارے عزیز شہید کو جو علاقے میں انتہائی گہرا اثر و رسوخ رکھتے تھے ختم کر دیں تاکہ انھیں غلبہ حاصل ہو جائے مگر معاملہ الٹ گیا۔ بغداد میں عراقی عوام کی عظیم الشان ریلی، شام میں عوام کے اقدامات، حلب سے متعلق تغیرات اور علاقے میں دیگر واقعات امریکیوں کی خواہش اور کوشش کے بالکل برخلاف سمت میں جا رہے ہیں۔ امریکی بے دست و پا ہو گئے ہیں۔ ان کی حالیہ ہرزہ سرائی کسی حد تک ان کی اسی بے بسی کی وجہ سے ہے، وہ کسی طرح اپنے نقصان کی بھرپائی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب تو دوسری جانب کے حالات ہیں۔ بے شک شہید سلیمانی کی شہادت ہمارے لئے بہت تلخ خسارہ ہے۔ یہ شہید بہت اچھے انسان تھے، بہت عزیز تھے، انتہائی مفید تھے، انسان ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ ہے، وہ ہمارے ہاتھ سے چلے گئے، لیکن جب ہم اس سانحے کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ یہ بھی دیگر الہی واقعات کی مانند ہے، اس میں بھی اللہ کا لطف اس کے قہر پر غالب ہے۔

خود شہید کی بات کی جائے تو اللہ تعالی قرآن میں مسلمانوں کی زبانی یہ بات کہتا ہے: بِنا اِلّا اِحدَی ‌الحُسنَیَین‌ (۴) ہمیں دو میں سے ایک 'حُسنیٰ' یقینا ملتی ہے۔ 'حُسنیٰ' کا مطلب ہے بہترین۔ ہمیں دو بہترین چیزوں میں سے ایک یقینا ملتی ہے۔ وہ دو بہترین چیزیں کون سی ہیں جن میں سے ایک انسان کو ضرور ملنی ہے۔ ایک ہے فتح اور دوسری ہے شہادت۔ شہید سلیمانی کو دونوں 'حُسنیین' ملیں۔ وہ فتحیاب بھی ہوئے، چونکہ کئی سال سے علاقے میں معرکے کے میدان میں شہید سلیمانی فتحیاب ہو رہے ہیں، امریکہ اور اس کے مہرے مغلوب ہو رہے ہیں، اس پورے علاقے میں یہی صورت حال ہے۔ اسی طرح انھیں شہادت بھی حاصل ہوئی۔ یعنی اللہ تعالی نے 'الحُسنَیَین' دونوں بہترین چیزیں اس شہید کو عطا فرمائیں۔

ملت ایران نے اپنی عظمت دکھائی، اپنے اتحاد کا مظاہرہ کیا، اپنے جذبے اور میدان میں موجود رہنے کی خصوصیت کا مظاہرہ کیا۔ تہران میں جو کچھ ہوا، تبریز میں جو ہوا، مشہد میں جو نظارہ سامنے آیا، اہواز میں جو ہوا، کرمان میں جو ہوا اور قم میں جو ہوا وہ بہت عظیم واقعات ہیں۔ اس طرح کے حالات شاذ و نادر ہی پیدا ہوتے ہیں کہ دسیوں ملین افراد مختلف شہروں میں ایک شہید کے جلوس جنازہ میں شرکت کریں۔ اس سے ملت ایران کی عظمت ظاہر ہوئی۔ اس سے ملت ایران کی قدر شناسی اور ملت ایران کی بصیرت کا مظاہرہ ہوا۔ یہ اس سمت نظر آنے والی الہی برکتیں تھیں۔ بہت سی ملتوں کی ہمدریاں ملت ایران کے ساتھ ہو گئیں۔ قوموں نے خود کو ہمارے درد میں شریک قرار دیا۔ ایک غیر ملک میں، جس کا نام میں کسی وجہ سے نہیں ذکر کر رہا ہوں، ورنہ اگر ذکر کرتا تو سبھی ان اعداد و شمار کی تصدیق کرتے، بالکل درست اعداد و شمار ہیں، سلیمانی کی یاد میں ایک ہزار مجلسیں ہوئیں، ایک ہزار مجلسیں! ممالک نے اس طرح خود کو ہمارے درد میں شریک رکھا۔ بعض یورپی ممالک میں، یہاں تک کہ بعض دور دراز کے ملکوں میں، افریقی ممالک میں۔ ہم اب تک بتدریج یہ خبریں سنتے رہے ہیں اور اب بھی سن رہے ہیں۔ الگ الگ ذرائع سے یہ خبریں مل رہی ہیں۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ قوموں نے بے ساختہ ہم سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ ان کے دل ہم سے قریب ہو گئے۔ یہ بڑی عظیم نعمت تھی۔ یہ اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کی اسٹریٹیجک گہرائی ہے۔ تو اس معاملے میں ہم کامیاب رہے۔ ایک ایسے واقعے میں جس کا ظاہر اس قدر تلخ ہے، ظاہر ہے ہم نے اپنے بڑے عزیز شہید کو گنوایا ہے، یہ بہت تلخ واقعہ ہے، ایسا باطنی پہلو پوشیدہ ہے جو شروع سے آخر تک فتح و کامرانی پر مبنی ہے۔

جب آقا مصطفی مرحوم، امام خمینی کے فاضل و ممتاز بڑے فرزند  نجف میں دنیا سے رخصت ہوئے، تو اس وقت بہت سے شبہات تھے کہ شاید ان کو زہر دے دیا گیا اور اس طرح کے دوسرے خیالات۔ امام خمینی نے اپنے پہلے تبصرے میں یہی فرمایا کہ مصطفی کا فوت ہو جانا اللہ کے پنہاں الطاف میں سے ایک لطف تھا (5)۔ اس وقت کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک انسان اپنے بڑے بیٹے کا، اپنے عالم و فاضل بیٹے کا، کیونکہ الحاج آقا مصطفی مرحوم بڑی ممتاز شخصیت کے مالک تھے، مستقبل کی امید تھے، اگر وہ زندہ رہتے تو آج یقینا مرجع تقلید ہوتے، داغ مفارقت اٹھائے اور اس کے بعد کہے کہ یہ اللہ کے خفیہ الطاف میں سے تھا؟ بعد میں جب ایران کے عوام حرکت میں آ گئے اور ان کا فاتحہ ہوا، فاتحے کی مجلس کے بعد دربار کی طرف سے رد عمل آیا، پھر قم  کے واقعات ہوئے، تبریز کے واقعات ہوئے، واقعات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا، تب لوگوں نے سمجھا کہ یہ انتقال کس طرح پنہاں لطف تھا۔ یعنی ایسا پنہاں لطف خداوندی جو ایک تلخ واقعے سے شروع ہوا اور اسلامی نظام کی تشکیل اور طاغوتی حکومت کی سرنگوںی پر منتج ہوا۔ اس معاملے میں بھی یہی صورت حال ہے۔ اس دفعہ بھی بڑا تلخ واقعہ ہوا ہے لیکن اس سانحے میں محاذ حق کی فتح ہوئی ہے اور خبیث دشمن کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ دشمن سمجھ رہا تھا کہ اس نے کوئی بڑا معرکہ سر کر لیا ہے لیکن در حقیقت اسے بہت بڑا نقصان پہنچا ہے۔

میں یہ بھی عرض کر دوں کہ صرف اس قضیئے میں امریکہ کو نقصان نہیں ہوا ہے، امریکہ چالیس سال سے جاری معرکے میں مسلسل ملت ایران سے ضربیں کھا رہا ہے، ہزیمت اٹھا رہا ہے۔ ان چالیس برسوں میں ملت ایران کے ہاتھوں امریکہ کی شکست کی وجہ یہ ہے کہ امریکیوں نے ایران کے خلاف جو ہتھیار بھی استعمال کرنا ممکن تھا استعمال کر ڈالا، سیاسی حربے، فوجی ہتھیار، سیکورٹی کی چالیں، اقتصادی اسلحے، ثقافتی، تشہیراتی اور ابلاغیاتی وسائل، وہ جو بھی کر سکتے تھے انہوں نے کرکے دیکھ لیا، مقصد کیا تھا؟ مقصد یہ تھا کہ ان چالیس برسوں میں روز اول سے تا حال وہ اسلامی نظام کو سرنگوں کر دینا چاہتے تھے۔ ان چالیس برسوں میں اسلامی نظام سرنگوں تو نہیں ہوا ہاں ہزار گنا زیادہ طاقتور ضرور ہو گيا۔ دشمن کی شکست کا یہی تو مطلب ہے۔ چالیس سال سے ایران کے عوام امریکہ کو شکست پر شکست دے رہے ہیں۔ ہم زیادہ مستحکم ہو گئے اور امریکہ زیادہ کمزور ہوا۔

عزیز بھائیو، عزیز بہنو، نوجوانو! میں تاکید کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ اس نکتے پر توجہ دیجئے۔ آج امریکہ ظاہری میک اپ اور آرائش کے ذریعے ظاہر کر رہا ہے کہ اس کی حالت ٹھیک ٹھاک ہے لیکن امر واقعہ کچھ اور ہے۔ آج امریکہ کی حکومت دنیا کی سب سے بڑی مقروض حکومت ہے۔ اس کے اوپر مختلف ممالک کا 22 ہزار ارب ڈالر کا قرضہ ہے۔ اس وقت امریکہ میں طبقاتی فاصلہ ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ یہ جو میں کہہ رہا ہوں یہ میری بات نہیں ہے، یہ امریکہ کی موجودہ سیاسی شخصیات میں سے ایک کا بیان ہے جو اس وقت امریکی نظام کا حصہ ہے، یعنی کانگریس کا رکن ہے، بظاہر سنیٹر ہے۔ یہ بات انھوں نے کہی ہے۔ مجھے ان کا نام بھی معلوم ہے لیکن میں افراد کا نام نہیں لینا چاہتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی حکومت کے دوران جس کی تشکیل کو تین سال ہو رہے ہیں، سب سے زیادہ دولت مند پانچ افراد کی دولت میں 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ ان پانچ میں سے تین افراد کے پاس امریکہ کی نصف آبادی کے برابر سرمایہ ہے! طبقاتی فاصلے پر آپ ذرا غور کیجئے! یعنی تین اشخاص کے پاس سولہ کروڑ کی آبادی کے مساوی دولت ہے۔ ایک طرف تو یہ صورت حال ہے اور دوسری جانب اسی فیصدی کارکنوں کی تنخواہیں ایسی ہیں کہ وہ اپنی ضروریات زندگی پوری نہیں کر پاتے، یعنی غریب ہیں۔ جس شخص کی آمدنی اس کے اخراجات سے کم ہو ظاہر ہے وہ غریب ہے۔ امریکہ میں اسی فیصدی ملازمت پیشہ افراد ایسے ہیں۔ اس طبقاتی فاصلے کو آپ دیکھئے! وحشت ناک ہے! یہی شخص کہتا ہے، یہ ان کے اعداد و شمار ہیں، یعنی یہ بات کوئی نامہ نگار نہیں کہہ رہا ہے، ایک بڑا سیاست داں، ایک معروف شخصیت یہ بات کہہ رہی ہے۔ ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے رجوع کرنے والے ہر پانچ افراد میں سے صرف ایک شخص اپنی دوائیں خریدنے پر قادر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کے پاس جانے والے بقیہ چار افراد کے پاس دوا خریدنے کا پیسہ نہیں ہوتا۔ سفید فاموں اور سیاہ فاموں کے درمیان دولت و ثروت کا فاصلہ گزشتہ پچاس سال کے دوران تین گنا بڑھ گیا ہے۔ موجودہ امریکی صدر کا دعوی ہے کہ انھوں نے اقتصادی حالت بہتر کر دی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ "ہاں اقتصادی حالت اچھی تو ہوئی ہے لیکن ارب پتیوں کی، امریکی عوام کی نہیں۔" امریکی سماج کی یہ حالت ہے۔

امریکہ کے ایک سابق صدر کا کہنا ہے کہ امریکہ میں 'اولیگارشی' نظام ہے۔ یعنی ایک خاص طبقے کی حکومت ہے جس میں عوام کا کوئی رول نہیں ہے۔ نا محدود سیاسی رشوت ستانی ہے۔ امریکہ میں غربت کے آثار بہ وفور ہیں، فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کے بھی اعداد و شمار موجود ہیں۔ لیکن میں اب مزید اعداد و شمار بیان نہیں کرنا چاہتا۔ ان اعداد و شمار پر انسان بہت بھروسہ بھی نہیں کر سکتا لیکن یہ واضح ہے کہ کروڑوں غریب جو نان شبینہ کے محتاج ہیں۔ بہت بڑی تعداد ان افراد کی ہے جو فٹ پاتھ پر رات گزارنے پر مجبور ہیں۔ تھوڑی سی سردی بڑھتی ہے تو آپ خبروں میں سنتے ہیں کہ امریکہ میں اتنے افراد مر گئے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں مر گئے؟ مثال کے طور پر اگر درجہ حرارت صفر سے پانچ ڈگری نیچے چلا جائے تو اس سے کوئی مر تو نہیں جاتا۔ لیکن چونکہ وہ فٹ پاتھ پر سو رہا ہے، سڑک پر سو رہا ہے اس لئے موت واقع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح گرمی کی شدت بڑھتی ہے، چالیس ڈگری یا بیالیس ڈگری تک درجہ حرارت پہنچتا ہے تب بھی کچھ لوگ مر جاتے ہیں، اس لئے کہ وہ سڑک پر ہیں۔ سڑک پو سوتے ہیں۔ جرائم اور گناہوں کے اعداد و شمار کو جانے دیجئے! اس ملک میں سماجی اعتبار سے بڑی عجیب و غریب چیزیں رائج ہیں، انھیں دیکھ کر انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ سماجی برائیاں اس ملک پر ٹوٹ پڑی ہیں اور دیمک کی طرح اسے ختم کر رہی ہیں۔ امریکی اپنے ظاہر کو بہت آراستہ رکھتے ہیں، ظاہری شکل میں شکوہ و جلال کا بڑا اہتمام کرتے ہیں، تاکہ دوسروں کو دھوکہ دیں اور کچھ لوگوں کو ہراساں کر سکیں۔ ان کا ظاہری روپ آراستہ ہے، اس میں شکوہ و ہیبت ہے۔ میں نے اس طرح نوٹ کیا ہے، لکھا ہے: "جس طرح معروف جہاز ٹائیٹینک کا شکوہ اور اس کی ہیبت اسے غرق ہونے سے نہیں بچا سکی، امریکہ کا شکوہ و جلال بھی اسے غرق ہونے سے نہیں بچا سکے گا، امریکہ ڈوبے گا۔"

ہم جس چیز کے مخالف ہیں وہ ظلم، سرکشی اور استکبار کی حکمرانی ہے۔ جب ہم امریکہ کہتے ہیں تو اس سے یہی مراد ہے۔ یہ امریکہ سے مختص نہیں ہے۔ آج استکبار، طغیان اور طاغوتیت کی چوٹی پر امریکہ ہے جو در حقیقت صیہونیوں کے چنگل میں ہے۔ صیہونی حکومت نہیں بلکہ صیہونی سرمایہ داروں اور کمپنی کے مالکان کی مٹھی میں۔ ملک اس طرح چل رہا ہے۔ کوئی بھی دوسرا ملک اگر یہی رویہ اپنائے تو وہ بھی اسی زمرے میں شامل ہے۔ ہم کسی بھی ملت کی بحیثیت ملت مخالفت نہیں کرتے۔ کسی بھی نسل اور کسی بھی ملت کے مخالف نہیں ہیں، ہم استکبار کے مخالف ہیں، ہم ظلم کے مخالف ہیں، انسانی و الہی اقدار کے خلاف سرکشی کے مخالف ہیں۔ آج ان چیزوں کا مظہر امریکہ ہے۔ ظلم کا مظہر ہے، استکبار کا مظہر ہے، لہذا وہ ساری دنیا میں نفرت انگیز بن گيا ہے۔ دوسروں کو اپنی مادی طاقت دکھاتا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک کے اطراف میں ان گوناگوں ممالک میں اس کی درجنوں فوجی چھاونیاں ہیں۔ لیکن یہ فوجی چھاونیاں اس کے کام نہیں آئیں گی۔ نہ خود اس کے کام آئیں گی اور نہ ان بیچاروں کے کام آئيں گی جو ان کا پیسہ ادا کر رہے ہیں اور ان سے بڑی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کے بھی کام نہیں آئیں گی۔ اگر کبھی کوئی مسئلہ پیش آ گیا تو یہ ان کے کام نہیں آئیں گی۔ یہ ملک، یہ استکبار معنوی اعتبار سے، فکری اعتبار سے اور باطنی اعتبار سے انحطاط کا شکار ہے۔

ہمارے لئے جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہم خود کو اللہ کے سیدھے راستے پر، اللہ کے صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھیں۔ اپنی پیش قدمی کو کند نہ ہونے دیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ اعلی اسلامی اہداف کی سمت اسلامی نظام کی پیش قدمی، اسلامی معاشرے کی پیش قدمی کی رفتار سست نہ پڑنے پائے۔ اس وقت پیش قدمی جاری ہے، البتہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی خامی نہیں ہے، خراب کارکردگی نہیں ہے، بد انتظامی نہیں ہے، کیوں نہیں، یہ چیزیں بھی ہیں، اگر یہ خامیاں نہ ہوتیں تو ہماری رفتار اور بہتر ہوتی، زیادہ ہوتی، ہم مزید آگے پہنچ چکے ہوتے، بہتر انداز میں ہم آگے بڑھتے، مشکلات کو اور آسانی سے حل کر لیتے، تاہم ان خامیوں کے باوجود پیش قدمی جاری ہے۔ حقیر کے لئے جو چیز امید کا مرکز ہے وہ آپ نوجوانوں کا وجود ہے۔ نوجوان خود کو آمادہ کریں، علمی اعتبار سے، عملی اعتبار سے، تجربے کے اعتبار سے، ایمان و عقیدے کے اعتبار سے خود کو آمادہ کریں۔ ملک کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کے اندر اس مملکت کو بام ثریا پر پہنچانے کی توانائی ہونا چاہئے اور ان شاء اللہ آپ یہ کام سر انجام دیںگے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائیں آپ کی پشت پناہی کریں گی۔ 

و السّلام علیکم و رحمة‌ الله و برکاته

۱)  اس ملاقات کے آغاز میں صوبہ مشرقی آذربائیان میں ولی امر مسلمین کے نمائندے اور شہر تبریز کے امام جمعہ  حجّت ‌الاسلام سیّد محمّد علی آل ‌هاشم نے تقریر کی۔

2 ایران میں آئينی انقلاب کے دوران آذربائيجان کے دو اہم انقلابی رہنما

3 ماہرین کا وہ گروہ جو کسی خاص سیاسی یا معاشی مسئلے میں مشورے دیتا ہے، نئے نئے خیالات پیش کرتا ہے اور سفارشیں کرتا ہے۔

۴) سوره‌ توبہ، آیت نمبر ۵۲ کا ایک حصہ

۵) صحیفہ‌ امام، جلد ۳، صفحہ ۲۳۴