21 اپریل 2020 کو رہبر انقلاب اسلامی نے محفل قرآنی میں ویڈیو کانفرنس سے شریک ہونے والے افراد سے خطاب کرتے ہوئے ماہ رمضان کی آمد کی مبارکباد پیش کی اور انسان کی شخصی و سماجی زندگی کے ارتقا کے لئے سعادت کی ضامن قرآنی تعلیمات کے سلسلہ میں گفتگو فرمائی۔ (۱)

رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛ 

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله‌ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین.

ماہ رمضان کی آمد کی دنیا کے سارے مسلمانوں کو مبارکباد

میں بہت شکر گزار ہوں ان برادران عزیز کا جنہوں نے یہ پروگرام ترتیب دیا، اس کا انتظام کیا اور آج کے دن ہمیں تلاوت آیات کریمہ قرآن سے مستفیض کیا۔ تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ان قاریان محترم کا جنہوں نے آج تلاوت کی۔ واقعی ان تلاوتوں سے ہمیں بڑا لطف آیا، ہم نے استفادہ کیا، مستفیض ہوئے۔ اسی طرح نشست کے ناظم کا بھی شکریہ جنہوں نے نشست کی بہت اچھے انداز سے نظامت کی۔

سب سے پہلے تو میں رمضان کے اس مبارک مہینے کی مبارکباد پیش کرتا ہوں ان تمام افراد کو جو اس گفتگو کو سن رہے ہیں اور ساری دنیا کے اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو (بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں)۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں توفیق دے کہ اس مہینے کا حق ادا کر سکیں۔ یہ مہینہ قرآن کا مہینہ ہے۔ قرآن کی آیہ کریمہ میں بھی جہاں رمضان کا نام آیا ہے وہاں ذکر ہوا ہے کہ؛ «اَلَّذیِ اُنزِلَ فیهِ القُرءان»(۲) یہ اس عزیز اور با شرف مہینے کی بہت اہم خصوصیت ہے۔

دنیا و آخرت کی سعادت کا واحد راستہ قرآن پر عمل آوری

میں نے کچھ نکات نوٹ کئے ہیں جو قرآن کے بارے میں عرض کروں گا۔ لیکن وقت نہیں ہے۔ وقت بہت کم ہے۔ اختصار سے عرض کروں گا۔ ہم نے قرآن کے بارے میں بارہا عرض کیا ہے اور بارہا سنا ہے کہ قرآن کتاب زندگی ہے۔ امر واقعہ بھی یہی ہے۔ قرآن واقعی کتاب زندگی ہے۔ اگر انسان اپنی زندگی کے اصولوں کو قرآن کے مطابق ڈھال لے تو دنیا و آخر کی سعادت اس کا مقدر ہو جائے گی۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم یہ کام نہیں کرتے۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم زندگی کے اصولوں کو قرآن کے مطابق نہیں ڈھالتے۔ اس شخص کی مانند جو معالج کے پاس جاتا ہے اس سے نسخہ بھی لکھواتا ہے لیکن اس نسخے پر عمل نہیں کرتا۔ اگر نسخے پر عمل نہیں کیا جائے گا تو معالج کے پاس جانے کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ آج ہماری حالت بھی یہی ہے۔

قرآن علم و معرفت کا سرچشمہ اور زندگی کا دستور العمل

قرآن علم و معرفت کی کتاب بھی ہے، یعنی انسانی قلب اور فکر کو سیراب کرتا ہے۔ قرآن ان لوگوں کے لئے جو علم معرفت کی تشنگی رکھتے ہیں لا متناہی سرچشمہ ہے۔ مگر اس کے علاوہ قرآن ضابطہ حیات بھی ہے۔ قرآن میں معرفتی اور معرفت آموز پہلوؤں کے ساتھ ہی زندگی کے لئے بڑے کارساز احکامات بھی موجود ہیں۔ یعنی وہ زندگی کی فضا کو آباد کرتا ہے، زندگی کو امن و سلامتی اور آسائش سے بہرہ مند کرتا ہے۔ یَهدی بِهِ اللهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضوانَه سُبُلَ السَّلام (۳)۔ سلامتی کے راستوں، تحفظ کے راستوں، زندگی میں آسائش کے راستوں سے انسان کو روشناس کراتا ہے۔ ساری تاریخ میں انسان ہمیشہ ظلم، تفریق، جنگ، بدامنی اور اقدار کی پامالی سے دوچار رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ ان سب کا حل قرآن ہے۔ اگر ہم قرآن پر عمل کریں تو یہ ساری مشکلات ختم ہو جائیں گی۔ یعنی انسانی معاشرے اگر قرآن کے کارساز احکامات پر، میں ابھی ان میں سے چند کو اختصار سے بیان کروں گا، بس اتنی مقدار میں جتنی وقت میں گنجائش ہوگی، عمل کرنے لگیں، تو یقینا ان ساری مشکلات سے گلوخلاصی ہو جائے گی۔ قرآن کے اسی ظاہری پیرائے میں بھی زندگی کے لئے ہزاروں احکامات موجود ہیں۔ امیر المومنین فرماتے ہیں: اِنَّ القُرآنَ ظاهِرُهُ اَنیقٌ وَ باطِنُهُ عَمیق (۴) انیق یعنی حیرت انگیز اور پرکشش۔ قرآن کا ظاہر حیرت انگیز اور پرکشش ہے۔ خوبصورتی کو پرکھنے والی نظر جن کے پاس ہے ان کے لئے قرآن کشش اور حیرت انگیزی میں بے نظیر ہے۔ لیکن اس کا باطن بہت عمیق ہے۔

زندگی کے لئے قرآن کے رہنما احکامات

1: دنیا کی زندگی کو محور نہ بنانا

یہ چیزیں جو میں عرض کر رہا ہوں کہ قرآن میں موجود ہیں اور زندگی کا درس دیتی ہیں وہ قرآن کے اسی ظاہری پیرائے میں موجود ہیں۔ یہ اسی ظاہری قالب میں ہیں جو یہ حقیر اور مجھ جیسے دیگر افراد قرآن سے اخذ کر سکتے ہیں۔ ورنہ وہ شئے جو کُمَّلین توحیدی (5) قرآن سے درک کرتے ہیں، راسخون فی العلم جس کا ادراک کرتے ہیں، اولیائے الہی کو جس کا علم ہوتا ہے وہ قرآن کا باطن اور قرآن کا عمیق سمندر ہے۔ قرآن ان چیزوں سے بہت بالاتر ہے۔ یہ جو میں عرض کر رہا ہوں کہ زندگی کے ہزاروں احکامات ہیں تو یہ ان چیزوں میں ہیں جو قرآن کے ظاہر سے سمجھ میں آتی ہیں۔ یہ چیزیں جو رہنما ہیں، ان میں سے بعض کا تعلق زندگی کے اصول وضع کرنے سے ہے۔ مثال کے طور پر آپ فرض کیجئے کہ «فَمِنَ النّاسِ مَن یَقولُ رَبَّنا ءاتِنا فِی الدُّنیا وَ ما لَه فِی الأخِرَةِ مِن خَلاق» (۶) کچھ لوگ ایسے ہیں جو انسانی زندگی کے تمام اصولوں کو، دوستیوں کو، دشمنیوں کو، روابط کو، اہداف کو اور جذبات و احساسات کو دنیا کے امور میں محصور کر دیتے ہیں۔ دنیا سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد ہے پیسہ، طاقت، خواہشات۔ یہاں دنیا سے مراد یہی ہے۔ ان کی دوستیاں بھی اسی کی خاطر ہوتی ہیں، ان کی دشمنیاں بھی اسی کی خاطر ہوتی ہیں، ان کے روابط بھی اسی مقصد سے قائم ہوتے ہیں، ان کی کوششیں بھی اسی مقصد سے ہوتی ہیں، ان کے اہداف بھی اسی وجہ سے ہوتے ہیں۔ مگر اللہ تعالی اسے مسترد کرتا ہے۔ اس انداز سے زںدگی کو ڈھالنا اللہ کو قبول نہیں ہے؛ وَ ما لَه فِی الأخِرَةِ مِن خَلاق۔ ایسے افراد دنیاوی زندگی میں کچھ چیزیں حاصل کر لیں گے، اس عارضی اور مختصر زندگی میں، لیکن اصلی، حقیقی اور اخروی زندگی میں جو انسان کی اصلی زندگی ہے، ان کے ہاتھ خالی ہیں، ان کی قسمت میں کچھ نہیں ہے وہ بے بہرہ ہیں۔

2) زندگی کا حقیقی مقصد دنیا و آخرت کا باہم حصول

 تاہم اس کے مقابلے میں زندگی کا دوسرا ضابطہ بھی ہے؛ وَ مِنهُم مَن یَقولُ رَبَّنا ءاتِنا فِی الدُّنیا حَسَنَةً وَ فِی الأخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنا عَذابَ النّار (۷) یہ دوسرا ضابطہ ہے۔ یعنی وہ لوگ جو دنیا میں بھی 'حسنہ' کے متلاشی ہیں، ہر چیز کی فکر میں نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ «ءاتِنا فِی الدُّنیا» تو یہ نہیں کہتے کہ ہمیں کیا دے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ مانگنے والا دنیا مانگ رہا ہے لیکن وہ «ءاتِنا فِی الدُّنیا حَسَنَة»؛ دنیا میں نیک چیزوں کا متمنی ہے، وہ چیزیں جو انسان کی فطرت سے مطابقت رکھتی ہیں، جو انسانی کی حقیقی ضرورتوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔ وَ فِی الآخِرَةِ حَسَنَة؛ یعنی اسے آخرت کی بھی فکر ہے:  وَ قِنا عَذابَ النّار (۸)۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں اللہ تعالی زندگی کے ان حقیقی مقاصد سے ہمکنار کرتا ہے۔ قرآن کی کچھ آیتیں ایسی ہیں جو زندگی کے ضوابط معین کرتی ہیں۔ یا مثال کے طور پر بنی اسرائیل کے عقلمند افراد کے بارے میں جو آیت ہے اس میں کچھ لوگ قارون کو مشورہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں: وَ ابتَغِ فیما ءاتیکَ اللهُ الدّارَ الأخِرَةَ وَلا تَنسَ نَصیبَکَ مِنَ الدُّنیا وَ اَحسِن کَما اَحسَنَ اللهُ اِلَیک (۹) وہ قارون سے یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ تمہارے پاس جو کچھ ہے سب پھینک دو۔ ان کا کہنا تھا کہ تمہارے پاس جو کچھ ہے اسے ذریعہ بناؤ۔ دنیا کا مال و دولت ایک ذریعہ ہے۔ اعلی اور بلند انسانی مقامات و مدارج تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ وہ وسیلہ بن سکتا ہے۔ آپ پیسے سے دنیا کو آباد کر سکتے ہیں، انسانوں کی زندگی کو نجات دلا سکتے ہیں، تفریق و امتیاز ختم کر سکتے ہیں، فقیروں اور کمزوروں کو غربت اور کمزوری کی حالت سے باہر لا سکتے ہیں۔ وَ ابتَغِ فیما ءاتیکَ اللهُ الدّارَ الأخِرَة، سب سے پہلی بات تو یہ کہ جو چیز تمہارے پاس ہے وہ اللہ کی دی ہوئی ہے، اللہ نے تمہیں دیا ہے۔ دوسری چیز یہ کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ تم اسے اللہ کی خوشنودی کے لئے خرچ کرو، وَ لا تَنسَ نَصیبَکَ مِنَ الدُّنیا، البتہ ایسا بھی نہیں ہے کہ تمہارا کوئی حصہ نہ ہوں۔ کیوں نہیں، تمہارا بھی حصہ ہے۔ تم اپنا حصہ استعمال کر سکتے ہو۔ وَ اَحسِن کَما اَحسَنَ اللهُ اِلَیک، آپ دیکھئے کہ ضابطہ حیات ہے جو اسلام نے ہمارے لئے معین کیا ہے۔ اس کے بالکل برخلاف جو وہ بے عقل سوچ رہا تھا۔ گدھے کی طرح پیسے کا بوجھ ڈھونے والا بے عقل قارون کہتا تھا؛ اِنَّما اوتیتُه عَلی عِلمٍ (۱۰) میں نے خود یہ چیزیں حاصل کی ہیں، اپنے فن سے حاصل کی ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے ذرائع بنائے تو اس کے نتیجے میں اسے وہ سب حاصل ہوا۔ تو قرآن کی کچھ آيتیں ایسی ہیں۔ اس طرح کی آیتیں کثرت سے ہیں جو ضابطہ حیات معین کرتی ہیں۔

3) سماجی تعلقات قائم کرنا

بعض آیتیں ایسی ہیں جن کا تعلق سماجی روابط سے ہے۔ یہ رہنما ہدایات سماجی تعلقات سے مربوط ہیں۔ مثال کے طور پر: وَلایَغتَب بَعضُکُم بَعضًا (۱۱) غیبت نہ کرو۔ یہ حکم سماجی روابط قائم کرنے والا ہے۔ جب آپ غیبت کرتے ہیں تو اپنا دل بھی مکدر کرتے ہیں اور سننے والوں کا دل بھی مکدر کرتے ہیں۔ کسی مومن بھائی یا مومن بہن کی پنہاں حقیقت کو بلا وجہ دوسروں کے سامنے آشکارا کرتے ہیں۔ یہ غلط اور نا درست عمل ہے۔ وہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے بارے میں یہی کرے۔ یہ عمل زندگی کو، سماجی روابط کو درست نظم و ضبط سے خارج کر دیتا ہے۔

4) عدل و انصاف کا خیال حتی مخالف اور دشمن کے سلسلے میں بھی

یا مثال کے طور پر ارشاد ہوتا ہے: لا یَجرِمَنَّکُم شَنَئانُ قَومٍ عَلی اَلّا تَعدِلُوا (۱۲) اگر آپ کسی کے مخالف ہیں، یا کسی سے دشمنی ہے تو اس کی وجہ سے آپ اس کے ساتھ نا انصافی نہ کیجئے، اس پر ظلم نہ کیجئے، بے انصافی نہ کیجئے۔ آپ دیکھئے کہ یہ رہنما حکم ہے۔ جی ہاں، یہ ممکن ہے کہ آپ کسی کے مخالف ہو جائیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے سلسلے میں اپنی مخالفت کی وجہ سے آپ ایسے مواقع پر جب وہ حق بجانب ہے تو اس کے حق کو چھپائیں، اس پر پردہ ڈالیں، یا اس کا حق ضائع کریں اور اس کے سلسلے میں نا انصافی کریں۔ آپ سماجوں کو دیکھئے، خود ہمارے سماج میں دیکھ لیجئے، کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، اگر ہم ایسے شخص کے سلسلے میں جس کے ہم مخالف ہیں اس آیت پر عمل کرنا شروع کر دیں، یعنی اس کے بارے میں ناانصافی نہ کریں، اسی طرح وہ ہمارے ساتھ نا انصافی نہ کرے تو آپ سوچئے کہ معاشرے کی حالت اس طرح بہبودی کی طرف مائل ہو جائے گی۔

5) افواہ اور جھوٹ پھیلانے سے گریز

یا مثال کے طور پر «لا تَقفُ مالَیسَ لَکَ بِه عِلم» (۱۳) میں نے عرض کیا کہ اسی انداز سے، اسی طرح کی آیتیں قرآن میں ہیں، ہزاروں قرآنی فرامین موجود ہیں۔ لا تَقفُ مالَیسَ لَکَ بِه عِلم، جس چیز کے بارے میں یقین نہیں اس کے پيچھے نہ چل پڑو۔ آج دنیا میں رائج جرنلزم اس کے بالکل برعکس عمل کرتا ہے۔ یعنی جن چیزوں کا پروپیگنڈا کرتے ہیں، جن چیزوں کے بارے میں دروغ گوئی کرتے ہیں، وہ  ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں انھیں خبر نہیں ہے، یقین نہیں ہے۔ بلا وجہ اسے پھیلاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی افسوس کی بات ہے کہ یہ چیزیں موجود ہیں۔ تو یہ اس طرز عمل کے عین مخالف ہے جو آج دنیا میں رائج ہے۔ اگر ہم اسی ایک ہدایت پر عمل پیرا ہو جائیں تو ہماری مشکلات کا ایک بڑا حصہ حل ہو جائے گا۔

6) ستمگر اور ظالم پر اعتماد نہ کرنا

یا «لا تَرکَنوِّا اِلَی الَّذینَ ظَلَموا» (۱۴) جو ستمگر ہے، ظالم ہے اس پر اعتماد نہ کرو، اس کی جانب راغب نہ ہو۔ «رکون» کا مطلب ہے راغب ہونا، مائل ہونا اور اس پر اعتماد کرنا۔ ظالم شخص پر اعتماد نہ کرو! ظالم پر اعتماد کا یہی نتیجہ ہوتا ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان حکومتوں نے، اسلامی نظاموں نے دنیا کے سب سے ظالم اور سب سے بڑے ستمگر عناصر پر اعتماد کیا اور آج اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں۔

7) امانت میں خیانت نہ کرنا

یا «اَقسِطوا اِنَّ اللهَ یُحِبُّ المُقسِطین» (۱۵) عدل سے کام لو۔ عدل و قسط و انصاف کو زندگی کے تمام امور میں مد نظر رکھنے کا حکم دیا گيا ہے۔ یا «لا تَخونُوا اللهَ وَ الرَّسولَ وَ تَخونوا اَمانتِکُم» (۱۶) امانت میں خیانت نہ کرو۔ امانت صرف وہ پیسہ نہیں ہے جو مثلا آپ نے مجھے دیا ہے۔ آپ نے اگر کوئی عہدہ اور کوئی ذمہ داری مجھے سونپی ہے تو وہ بھی امانت ہے۔ اگر ہم نے صحیح طریقے سے عمل نہ کیا تو یہ امانت میں خیانت ہے۔ آپ دیکھئے کہ اگر ہم اسی ایک فرمان پر عمل کر لیں تو کیا ہوگا! تو قرآن میں ہمارے لئے جو چیزیں بیان کی گئی ہیں وہ بڑے کارساز عملی احکامات ہیں۔

8) بے خوفی اور دشمن کے مقابلے میں استقامت

یا مثال کے طور پر «فلا تَخافوهُم وَ خافونِ اِن کُنتُم مُؤمِنین» (۱۷) جو اس آیہ کریمہ کے بعد: «اِنَّما ذلِکُمُ الشَّیطنُ یُخَوِّفُ اَولِیاءَه» (۱۸) آیا ہے۔ آکر لوگوں نے کہا کہ آپ کے خلاف وہ سازشیں کر رہے ہیں تو آپ کو ڈرنا چاہئے۔ وہ مسلمانوں کو ڈرا رہے تھے۔ قرآن کہتا ہے کہ ہرگز نہیں۔ ان سے نہ ڈرو، مجھ سے ڈرو۔ اللہ تعالی کی عبادت کرو۔ اللہ پر اعتماد کرو۔ دشمن کے مقابلے میں پوری مضبوطی سے ڈٹ جاؤ، تم دشمن کو  پسپا کر سکتے ہو۔ خود یہ ڈرانے والا جو انسانوں کو ظالموں سے، کبھی کسی سے اور کبھی کسی اور سے ڈراتا ہے کہ ان طاقتوں سے ڈرو، ان کا بہت خیال رکھو، در حقیقت وہ شیطان ہے۔ ہم تاریخ میں بھی دیکھتے ہیں کہ جو لوگ ان طاقتوں سے خوفزدہ ہوئے، وہ زندگی کی بڑی سخت اور تلخ آزمائشوں میں پڑ گئے۔ آج اسلامی طاقتیں، اسلامی حکومتیں، دنیا کی ظالم طاقتوں کا منہ دیکھتی ہیں، ان سے ڈرتی ہیں۔ اپنی قوت پر توجہ نہیں دیتیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ انھیں ہمیشہ ذلت اٹھانی پڑتی ہے۔

امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ہم سب کو بڑی طاقتوں سے نہ ڈرنے کی تعلیم دی کہ ظالم و جابر طاقتوں سے ہرگز نہ ڈرو۔ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ 1979 میں جب ہمارے نوجوانوں نے امریکی جاسوسوں کو اور امریکہ کے جاسوسی مرکز کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا تو کچھ لوگ انقلابی کونسل پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ ان سے کہئے کہ ان لوگوں کو رہا کر دیں۔ میں، جناب ہاشمی مرحوم اور بنی صدر، ہم تین لوگ انقلابی کونسل سے قم گئے۔ اس وقت امام (خمینی) قم میں تھے۔ ہم امام (خمینی) کے پاس پہنچے کہ ان سے پوچھیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ ہم نے کہا کہ آقا یہ صورت حال ہے۔ دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ ان لوگوں کو جتنی جلدی ہو سکے رہا کر دیا جائے۔ امام (خمینی) نے ہمیں دیکھا اور پوچھا کہ آپ امریکہ سے ڈرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ جی نہیں، ہم نہیں ڈرتے۔ انھوں نے فرمایا کہ پھر رہا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقت بھی یہی تھی۔ یعنی اگر اس وقت کوئی امریکہ سے خوفزدہ ہو جاتا اور اس کا خیال کرتا تو ملک کو بڑے تلخ نتائج کا سامنا کرنا پڑتا۔ ہم نے ایسے مواقع بھی دیکھے ہیں کہ خود ہمارے ملک کی حکومتیں، طاقتیں دشمن سے ڈر رہی تھیں تو اس خوف نے انھیں بہت سی مشکلات میں مبتلا کر دیا۔ قرآن کہتا ہے: فَلا تَخـافوهُم وَ خافون (۱۹) «خافون» یعنی میرے ضوابط کو مد نظر رکھو۔ جہاں اللہ نے فرمایا کہ جدوجہد کرو وہاں جدوجہد کرو۔ جہاں ارشاد ہے کہ ہاتھ روک لو وہاں ہاتھ روک لو۔ اس لفظ «خافون» کا یہی مطلب ہے۔

9)نماز کو ذکر و یاد الہی کا درجہ رکھنے والے عمل کے طور پر قائم کرنا

اور اسی طرح «اَقِمِ الصَّلْوةَ لِذِکری» (۲۰) ماہ رمضان کی مناسبت ہے تو ہمیں اس پر بھی توجہ رکھنا چاہئے؛ «وَ اَقِمِ الصَّلوةَ لِذِکری» یہ کارساز فرامین میں سے ایک ہے۔ نماز ذکر اور یاد کے لئے ہوتی ہے۔ نماز کو ذکر خدا کے لئے محفوظ رکھو۔ آج اگر  ہم اپنے سلسلے میں اس چیز پر عمل کر سکیں، ظاہر ہے کہ اس پر عمل کرنا ہم سب کے بس میں بھی ہے، کہ نماز کو  پوری  توجہ سے پڑھیں، نماز میں اپنا دل و دماغ کہیں بھٹکنے نہ دیں، بلکہ نماز کو ذکر خدا کے مقصد سے پڑھیں تو یقینا اس کا ہمارے روحانی ارتقاء میں بڑا گہرا اثر ہوگا۔ اسی طرح «یـاَیُّهَا الَّذینَ ءامَنوا توبوا اِلَی اللهِ تَوبَةً نَصوحًا» (۲۱) یہ ایام توبہ کے ایام ہیں، استغفار کے ایام ہیں، اللہ کی جانب رجوع کرنے کے ایام ہیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ خداوند عالم ہماری ملت کو، تمام مسلمانوں کو یہ توفیق عطا کرے کہ وہ ماہ رمضان کے فرائض بجا لائیں، اسلامی فرائض پر عمل کر سکیں، قرآن پر عمل کر سکیں۔ یہ قرآنی احکامات، قرآن کے یہ سارے رہنما اور کارساز احکامات قابل عمل ہیں، ان پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ البتہ حکومتوں کی ذمہ داری زیادہ ہے۔ ملک کے امور اپنے ہاتھ میں رکھنے والی طاقتوں اور معاشرے کے ذمہ داران کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔

بظاہر اب ہمارا وقت ختم ہو چکا ہے۔ میرے خیال میں اب اذان کا وقت ہے۔ تو میں اپنے معروضات بھی ختم کرتا ہوں۔ مجھے بڑی خوشی ہے۔ آج کی نشست بہت اچھی تھی۔ جو متنظمین ہیں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

و السّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

۱) اس نشست کے آغاز میں جو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے منعقد ہوئی کچھ قاریان قرآن نے قرآن کی آیتوں کی تلاوت کی۔

۲) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۱۸۵ کا ایک حصہ «.. اس میں قرآن کو نازل کیا گيا ہے۔ ...»

۳) سوره‌ مائده، آیت نمبر ۱۶ کا ایک حصہ؛ «وہ شخص جو اللہ کی خوشنودی کا خیال رکھتا ہے اللہ تعالی اس (کتاب) کے ذریعے سلامتی کی سمت اس کی رہنمائی کرتا ہے۔...»

۴) نہج‌ البلاغه، خطبه‌ ۱۸

۵) کامل افراد، عظیم ہستیاں

۶) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۲۰۰ کا ایک حصہ؛ « ... اور لوگوں میں کوئی ہے جو کہتا ہے کہ اے پالنے والے! ہمیں اسی دنیا میں عطا فرما » جبکہ آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

۷) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۲۰۱؛ « اور ان میں سے بعض کہتے ہیں: پروردگار! اس دنیا میں ہمیں نیکی دے اور آخرت میں بھی عطا کر اور  ہمیں عذاب جہنم سے دور رکھ۔"»‌

۸) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۲۰۱ کا ایک حصہ؛ « ... اس دنیا میں ہمیں نیکی دے اور آخرت میں بھی نیکی عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ رکھ»

۹) سوره‌ قصص، آیت نمبر ۷۷ کا ایک حصہ؛ « اور جو اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت سنوار لے اور دنیا میں بھی جو تیرا حصہ ہے اسے بھی فراموش نہ کر، جس طرح اللہ نے تجھ پر احسان کیا تو بھی نیکی کر۔ ...‌»

۱۰) سوره‌ قصص، آیت نمبر ۷۸ کا ایک حصہ

۱۱) سوره‌ حجرات، آیات نمبر ۱۲ کا ایک حصہ

۱۲) سوره‌ مائده، آیت نمبر ۸ کا ایک حصہ

۱۳) سوره‌ اسراء، آیت نمبر ۳۶ کا ایک حصہ

۱۴) سوره‌ هود، آیت نمبر ۱۱۳ کا ایک حصہ

۱۵) سوره‌ حجرات، آیت نمبر ۹ کا ایک حصہ

۱۶) سوره‌ انفال، آیت نمبر ۲۷ کا ایک حصہ «... اللہ اور اس کے پیغمبر سے خیانت نہ کرو اور اپنی امانتوں میں بھی خیانت کے مرتکب نہ ہو۔ ...»

۱۷) سوره‌ آل عمران، آیت نمبر ۱۷۵ کا ایک حصہ «...تو اگر مومن ہو تو ان سے نہ ڈرو مجھ سے ڈرو۔»

۱۸) سوره‌ آل عمران، آیت نمبر ۱۷۵ کا ایک حصہ؛ « در حقیقت یہ شیطان ہے جو اپنے چاہنے والوں کو ڈراتا ہے۔...»

۱۹) سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر ۱۷۵ کا ایک حصہ؛ «... تو ان سے نہ ڈرو مجھ سے ڈرو...»

۲۰) سوره‌ طه، آیت نمبر ۱۴ کا ایک حصہ؛ «... اور میرے ذکر کے لئے نماز قائم کرو۔ »

۲۱) سوره‌ تحریم، آیت نمبر ۸ کا ایک حصہ؛ «اے ایمان لانے والو اللہ کی بارگاہ میں حقیقی توبہ کرو...»