رہبر انقلاب اسلامی کا  خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاہرین و لعنۃ اللہ علی اعدائہم اجمعین۔

میں خدا کا شکر گزار ہوں اور اس بات سے خوش ہوں کہ موجودہ نا مسا‏عد حالات میں بھی بحمد اللہ یہ نشست تشکیل پائي، چاہے اس طریقے (ویڈیو کانفرنس) سے ہی سہی۔ البتہ آپ نوجوانوں سے بالمشافہ ملاقات میرے لیے زیادہ شوق آفریں تھیں لیکن خیر یہ بھی ایک صورت ہے اور امید ہے کہ یہ نشست بھی نوجوانوں کے لیے، ملک کے لیے اور خود میرے لیے مفید رہے گي۔

نشست میں طلباء کی سنجیدہ اور ٹھوس باتیں

آپ لوگوں نے جو باتیں پیش کیں ان میں کئي خوبیاں تھیں جن کی طرف اجمالی اشارہ کر رہا ہوں۔ اول تو یہ ہے کہ باتیں بڑی پختہ، سنجیدہ اور اچھی تھیں۔ انصاف سے کہوں تو میرے خیال میں اس سال جو باتیں ہوئيں، ان کی سطح اس سے پہلے ان نشستوں میں پیش کی جانے والی باتوں سے اونچی تھی، ان پر غور کیا گيا تھا، کام کیا گيا تھا اور یہ بہت گرانقدر ہے۔ اس لحاظ سے میں شکر گزار ہوں۔ جو سوال ہوئے، ظاہر سی بات ہے کہ سوالات بہت زیادہ ہیں، اگر ہم ان میں سے صرف بعض کے بھی جواب دینا چاہیں تو ہمارا بہت زیادہ وقت صرف ہو جائے گا۔ شاید میری یہ توقع بے جا  نہ ہو کہ یونیورسٹیوں میں ہمارے نمائندہ دفاتر اور اسی طرح ہمارے دفتر میں طلباء اور نوجوانوں سے متعلق شعبوں کے افراد، ان سوالوں کے جواب دینے کی ذمہ داری لیں۔ ان سوالوں کے واضح جواب ہیں، کچھ شکوک کی قابل قبول وضاحتیں ہیں جنھیں پیش کیا جا سکتا ہے اور ان کے بارے میں بات کی جا سکتی ہے۔ جو تجاویز پیش کی گئي ہیں، وہ بڑی اچھی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر تجویز کو قطعی طور پر عملی جامہ پہننا ہی چاہیے۔ ان میں سے بعض تجاویز، بحث کے موضوع اور اس کی صورتحال کے بارے میں مکمل علم نہ ہونے کے سبب ہیں، اسے میں بخوبی دیکھ رہا ہوں اور اگر ہم ان تجاویز کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہیں یعنی میں فیصلہ کروں یا ادارے فیصلہ کریں تو مزید کام کی ضرورت ہوگی اور امید ہے کہ خداوند متعال ہمیں یہ توفیق عطا کرے۔

البتہ اس وقت میں اپنے دفتر کے افراد سے کہنا چاہوں گا کہ وہ ان تجاویز کو لے لیں، ان کا جائزہ لیں اور ان تجاویز کے ایک ایک حصے پر کام کریں۔ یہ بھی عرض کروں کہ آپ عزیزوں کے بیانوں میں اداروں پر جو اعتراضات کیے گئے ہیں ان میں سے بعض صحیح نہیں ہیں، بعض تو صحیح ہیں لیکن بعض ٹھیک نہیں ہیں۔ اس وجہ سے صحیح نہیں ہیں کہ اس موضوع کے جو موجودہ حالات ہیں ان کے بارے میں آپ کو زیادہ علم نہیں ہے۔ اسی وجہ سے فطری طور پر یہ اعتراضات ذہن میں آتے ہیں اور جو بھی اس صورتحال میں ہوگا، اس کے ذہن میں یہ اعتراض ہوگا۔ بہرحال ان سوالوں، ان شکوک و شبہات اور ان اعتراضوں کو بالمشافہ گفتگو میں دور کیا جا سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی عرض کروں کہ جو بہت سی باتیں کہی گئيں، وہ بالکل صحیح تھیں اور یہاں اور اس پروگرام میں انھیں پیش کرنا، اس سلسلے میں ایک مکالمے اور اجتماعی گفتگو کی تشکیل میں معاون ہوگا۔ میں اس بات کا خیر مقدم کرتا ہوں کہ ان میں سے بعض چیزوں کے بارے میں عمومی و اجتماعی گفتگو شروع کی جائے اور ہمارے سماج اور ہمارے ملک میں عام لوگوں کے ذہنوں کو اس طرف موڑا جائے۔

سوال کیا گيا کہ یہ جو باتیں کی جاتی ہیں یا جو تجاویز پیش کی جاتی ہیں، ان کے ایک ایک حصے کے بارے میں مجھ حقیر کا کیا نظریہ ہے؟ دیکھیے ان میں سے بعض کو میرے عمومی بیانوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کیجیے کہ آپ کو انصاف کے مسائل پر کچھ گلہ شکوہ ہے کہ کیوں ایک گروہ، انصاف کے سلسلے میں شدت پسندانہ بحث کرنے والے پر اعتراض کرتا ہے؟ بھئي اس سلسلے میں کہیں پر جو شدت پسندی دکھائي دیتی ہے اس پر اعتراض تو خود آپ کو بھی تھا۔ انصاف سے متعلق مسائل کے بارے میں میرا نظریہ پوری طرح واضح ہے اور میں اس سلسلے میں تفصیلی بات کر چکا ہوں۔ بعض دیگر مسائل کے بارے میں بھی اظہار رائے کیا جا سکتا ہے اور پھر میں یہی کہوں گا کہ ہمارے دفتر میں یا یونیورسٹیوں کے نمائندہ دفاتر میں نوجوانوں اور طلباء سے متعلق شعبوں کے جو افراد ہیں، یہ انھیں کی ذمہ داری ہے۔ میں اس وقت اس بحث کو چھیڑنا نہیں چاہتا کیونکہ اگر ہم ان بیان شدہ مسائل کے بارے میں گفتگو کریں گے تو ایک طویل بحث ہمارے سامنے ہوگي۔

نوجوانوں کو مخاطَب قرار دینے پر اصرار کی وجہ: (1) مستقبل نوجوانوں کا ہے

کچھ باتیں ہیں جنھیں میں نے نوٹ کیا ہے جنھیں عرض کروں گا کیونکہ میری نظر میں وہ قابل توجہ ہیں۔ گو کہ یہ نشست طلباء کی ہے لیکن اس کے مخاطَب صرف طلباء نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں چالیس لاکھ طلباء ہیں کہ جو ایک بڑی تعداد ہے لیکن جو لوگ ان موضوعات کے مخاطَب ہیں جو میں عرض کروں گا زیادہ تر نوجوان ہیں، نوجوان طلباء، نوجوان دینی طلباء، تعلیم مکمل کر چکے نوجوان، بر سر روزگار نوجوان، یعنی تمام نوجوانوں سے ان باتوں کا تعلق ہے۔ نوجوانوں سے بات کرنے پر، ان سے بحث کرنے پر، ان کی باتیں سننے پر اور ان سے کچھ باتیں عرض کرنے پر جو ہمارا اصرار ہے، اس کی وجہ ایک یقینی بات ہے اور وہ یہ ہے کہ مستقبل نوجوانوں کے ہاتھ میں اور ان کا ہے۔ اس بات میں کوئي شک نہیں ہے کہ مسقبل قریب میں یا اس سے تھوڑا سا آگے چل کر، ان بہت سی باتوں کی ذمہ داری، جو آپ آج بیان کر رہے ہیں، آپ نوجوانوں اور ان باتوں کے مخاطب تمام نوجوانوں ہی کے دوش پر ہوگي، اس میں کوئي شک نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں سے باتیں کرنا اور ان کی باتیں سننا ہمارے لیے اہم ہے۔ جو بھی اپنے ملک کے مستقبل سے محبت کرتا ہے، اسے نوجوانوں کی مدد کرنی ہی چاہیے تاکہ ان شاء اللہ وہ اس مستقبل کو احسن طریقے سے تعمیر کر سکیں۔

(2) جوان فطرت میں گرانقدر عناصر کا وجود

نوجوانوں سے گفتگو کی منطق کا ایک پہلو جوان فطرت پر توجہ ہے۔ جیسا کہ آپ عزیزوں کی آج کی باتوں میں بھی مشاہدہ کیا گيا اور نوجوانوں کے بارے میں ہمیشہ میں یہی کہتا ہوں کہ نوجوان فطرت میں امید، جدت عمل، صراحت، جوکھم اٹھانے اور کبھی نہ تھکنے جیسی خصوصیات ہوتی ہیں اور یہ معاشرے کو چلانے کے لیے بڑے قیمتی عوامل ہیں۔ ہماری مشکلات کے ایک حصے کی ایک وجہ جوکھم نہ لینا یا تھک جانا یا جدت عمل کا فقدان یا صراحت نہ ہونا یا پھر ناامیدی ہے۔ یہ چیزیں نوجوانوں میں نہیں ہوتیں۔ اسی وجہ سے ہم چاہتے ہیں کہ نوجوانوں کے اس عظیم طبقے سے، جس میں فطری طور پر یہ خصوصیات ہیں، زیادہ گفتگو اور بات کی جائے۔

ملک کی حساس صورتحال پر تین زاویوں سے توجہ

البتہ ہمارے ملک کے موجودہ حالات میں یہ مسئلہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور میرے خیال میں کسی بھی قسم کے فیصلے اور کسی بھی طرح کے اقدام کے لیے ملک کی موجودہ صورتحال پر توجہ دینا بہت ضروری ہے جو بہت زیادہ اہم اور حساس ہے۔ میں اس موضوع پر یعنی ملک کی موجودہ صورتحال کے مسئلے پر مختصرا کچھ عرض کروں گا۔ تین زاویوں سے ملک کی صورتحال پر نظر ڈالی جا سکتی ہے۔

(1) اسلامی جمہوریہ ایران، عالمی سطح پر وسیع و عظیم جد و جہد کا ایک فریق

ایک زاویہ تو یہ ہے کہ یہ حقیقت پوری طرح سے عیاں ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران آج عالمی سطح پر ایک وسیع و عظیم جد و جہد کا فریق ہے، ایک انتہائي سنجیدہ جد و جہد جس میں ایک طرف اسلامی جمہوری نظام ہے اور دوسری طرف کفر، ظلم اور سامراج کا محاذ ہے۔ اسلامی جمہوریہ آج اس طرح کی ایک عظیم جد و جہد میں مصروف ہے۔ اس میں کسی طرح کا کوئي شک نہیں ہونا چاہیے۔ فریق مقابل اور سامنے والا محاذ کوشش کر رہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو میدان سے باہر کر دے اور اس کے پاس طرح طرح کے جو حربے اور ہتھکنڈے اور اسی طرح وسیع وسائل ہیں، ان کی مدد سے اگر وہ کامیاب ہو گیا، کہ ان شاء اللہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا، تو یہ ملک کے مستقبل کے لیے بہت سخت ہوگا کہ اسلامی جمہوریہ ظلم و کفر و سامراج کے اس محاذ سے ٹکراؤ میں پسپائي اختیار کرے، گھٹنے ٹیک دے اور میدان سے نکل جائے۔

دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران سے کفر و استکبار کے محاذ کی لڑائي اس لیے ہے کہ ایک آئيڈیل وجود میں نہ آنے پائے۔ آج تک ہمارے سامنے جو بہت سی مشکلات ہیں، وہ اسی وجہ سے ہیں یعنی ہمارے خلاف جو کام ہوئے ہیں، جو خلاف ورزیاں ہوئي ہیں وہ اس لیے  ہیں کہ اقوام کے لیے ایک پرکشش آئيڈیل وجود میں نہ آئے۔ ہم انھیں نہ تو غیر اہم سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی نظر انداز کر سکتے ہیں۔ یہ پہلے بھی تھیں اور اب بھی ہیں۔ بنابریں ملک کی صورتحال کے بارے میں ہمارا ایک زاویۂ نظر، اس مسئلے پر ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران، ظلم و کفر و سامراج کے ساتھ اس طرح کی ایک سیاسی جنگ، نظریاتی جنگ، نرم جنگ اور کبھی کبھی عسکری تصادم میں مصروف ہے۔

(2) مقابلے کے لیے ملک اندر موجود توانائیاں

ملک کی صورتحال کے بارے میں دوسرا زاویۂ نظر یہ ہے کہ ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ مقابلہ آرائی کے لیے ملک کی توانائیاں کافی زیادہ ہیں۔ اس بڑے محاذ سے مقابلے کے لیے، جو طاقتور بھی ہے اور ظاہری طاقتوں کا مالک بھی ہے، ہمارے پاس بہت زبردست گنجائشیں ہیں۔ یہ بات تجربات سے ثابت ہوتی ہے، اس سلسلے میں ان برسوں کے دوران ہمارا کافی تجربہ رہا ہے اور یہ تجربہ ہمارے سامنے اس بات کو عیاں کر دیتا ہے کہ ہم میں اس بڑے محاذ سے مقابلہ کرنے اور ٹکرانے کی صلاحیت ہے۔ ہمارے پاس فوجی مجاہدت کا بھی تجربہ ہے جیسے مقدس دفاع کے آٹھ برس، اس کے بعد کے مختلف واقعات اور علاقائي مسائل جن کی طرف آپ میں سے کچھ لوگوں نے ہمارے عزیز شہید، جنرل سلیمانی سے اظہار عقیدت کے دوران اشارہ کیا اور اسی طرح ہمارے پاس علمی و سائنسی جہاد کا بھی تجربہ ہے جس کا اعتراف دنیا کرتی ہے کہ سائنسی مسائل میں پیشرفت کے لحاظ سے اسلامی جمہوریہ ایران کی رفتار، دنیا کی اوسط رفتار سے کئي گنا زیادہ ہے۔ یہ بہت اہم موضوع تھا اور بحمد اللہ اب بھی جاری ہے۔ اسی طرح ہمارے پاس ثقافتی جہاد کا بھی تجربہ ہے۔

دشمن کی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں دینی تعلیمات کے پابند نوجوانوں کا ایک وسیع مجموعہ

دیکھیے ان تمام ظاہری باتوں کے باوجود، جن کی طرف آپ لوگوں نے اشارہ کیا، جن کی طرف میں متوجہ ہوں اور مانتا بھی ہوں، ایک حقیقت ہے اور وہ یہ کہ ہمارے ملک کے خلاف ثقافتی یلغار کے سلسلے میں بہت زیادہ کام کیا جا رہا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں ہے، آج سائبر اسپیس بھی آ گيا ہے جس کی وجہ سے یہ یلغار کئي گنا بڑھ گئی ہے لیکن پہلے بھی ریڈیو، ٹی وی اور ديگر وسائل کے ذریعے اسلامی جمہوریہ ایران کے ثقافتی مسائل پر حملے کیے جاتے تھے اور ان پر کام کیا جاتا تھا۔ ان سب کے باوجود نوجوانوں کا ایک چھوٹا اور اقلیت والا نہیں بلکہ ایک بہت بڑا اور وسیع مجموعہ دینی تعلیمات، عقائد کی تعلیمات اور اسلامی جمہوریہ کی ثقافتی تعلیمات کا پابند ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ثقافتی جہاد میں ہم دشمن سے زیادہ مضبوط ہیں۔ بہت سے مسائل ہیں جن میں سے بعض کی طرف آپ نے اشارہ کیا اور بعض کی طرف نہیں کیا۔ دینی مظاہرے جو ان برسوں میں انجام پا رہے ہیں، جیسے اربعین کا پیدل مارچ، اعتکاف، امام حسین کی عزاداری، پچھلے دنوں ہمارے عزیز شہید، جنرل سلیمانی کے جلوس جنازہ میں لوگوں کی عظیم الشان شرکت اور اسی طرح کی دوسری باتیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران سامراج کے محاذ کے ساتھ ثقافتی جنگ میں اس کی تمام تر کوششوں کے باوجود، پیچھے نہیں ہے اور اس نے بڑے عظیم کام کیے ہیں اور بہت زبردست پیشرفت کی ہے۔ بنابریں ثقافتی جہاد میں بھی ہماری گنجائش بہت زیادہ ہے۔ سماجی جہاد میں بھی ایسا ہی ہے۔ جیسا کہ حالیہ واقعات میں یا پھر پچھلے سال کے سیلاب میں یا زلزلوں کے دوران اور اسی طرح دیہی علاقوں میں تعمیری جہاد کے ان گروہوں کی موجودگي اور اس سلسلے میں ہونے والے عظیم الشان کام، یہ سب یہی دکھاتے ہیں کہ سماجی جہاد کے میدان میں بھی ہماری کارکردگي، ملک کی کارکردگي اور ملک کی گنجائش بہت زیادہ ہے اور قطعی طور پر پچھڑے علاقوں وغیرہ میں اس سے بھی زیادہ ہے۔

یہیں پر میں ایک اور بات عرض کرتا چلوں۔ اعلی قیادت سے جڑے ہوئے خدمت رسانی کے اداروں کی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کیا گيا۔ میں آپ سے عرض کروں کہ مجھے یقین ہے کہ ان میں سے اکثر سرگرمیوں کے بارے میں آپ کو خبر نہیں ہے۔ چونکہ آپ کو اس کا علم نہیں ہے، اس لیے یہ اعتراض کیا گيا، دوسرے الفاظ میں یہ لوگ جو بڑے بڑے کام کر رہے ہیں، ان کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کو پتہ نہیں ہے۔ سماجی خدمات کے شعبے میں بڑے اچھے کام ہو رہے ہیں، فکری جہاد کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہے۔ اس سلسلے میں بھی بہت زیادہ کام ہوا ہے۔ انقلاب کے نعروں کی پابندی بہت بہتر ہوئي ہے، انہی باتوں سے جو آپ لوگ کر رہے ہیں، پتہ چلتا ہے کہ فکری کام کتنا گہرائي سے کیا گيا ہے اور اس میں کتنی پیشرفت ہوئي ہے۔

البتہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ کہیں کہ جناب انقلاب کی کامیابی کو چالیس سال اور ایک صاحب کے بقول بیالیس سال گزر چکے ہیں، جی ہاں! بیالیس سال اس طرح کے عمومی اور بڑے مسائل کے لیے بہت زیادہ وقت نہیں ہے، بہت کم وقت ہے۔ ان میں سے بہت سے کام وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تدریجی طور پر انجام پا رہے ہیں، خاص طور پر ان مسائل و مشکلات کے ساتھ جو ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ بنابریں اگر ہم ملک کی صورتحال پر اس زاویے سے نظر ڈالنا چاہیں تو ہمیں اعتراف کرنا ہوگا اور تسلیم کرنا ہوگا کہ دشمن سے مقابلے کے لیے، چاہے وہ فوجی میدان میں ہو، چاہے سائنسی میدان میں ہو، چاہے سماجی میدان میں ہو اور چاہے ثقافتی اور دیگر میدانوں میں ہو، ہمارے ملک کی گنجائش بہت زیادہ ہے اور ہم آسانی سے اس محاذ کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور اس پر غالب آ سکتے ہیں، مطلب یہ کہ فتح کی یہ امید، کوئي موہوم امید نہیں ہے بلکہ اس روشن حقیقت پر مبنی امید ہے۔

(3) ملک میں طاقت اور عزت کا ہمہ گير احساس

ملک کی صورتحال پر نظر ڈالنے کے لیے ایک اور زاویۂ نظر ہے اور وہ طاقت اور عزت کا احساس ہے جو ملک میں ہمہ گیر ہو چکا ہے اور یہ بہت اہم چیز ہے۔ یعنی ملک میں عمومی سطح پر یہ احساس پایا جاتا ہے۔ ہاں کچھ لوگ ہیں جو منفی سوچ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور جو کمزوریاں خود ان کے اندر ہیں انھیں ملک، سماج اور اسلامی جمہوری نظام سے منسوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ بحمد اللہ ملک میں عمومی سطح پر ایک گہرا احساس پایا جاتا ہے اور وہ عزت اور طاقت کا احساس ہے۔

اقوام میں حقارت کا احساس پیدا کرنا ظلم و سامراج کے تسلط کی تمہید

یہیں پر میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں: اقوام  کے ساتھ ظالمانہ اور سامراجی رویے کے سلسلے میں جو چیزیں بہت اہم ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ سامراجی اور تسلط پسند طاقتوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان اقوام میں حقارت کا احساس پیدا کر دیں جن پر وہ تسلط جمانا چاہتی ہیں، یعنی ان کے لیے ایک ضروری تمہید یہ ہے کہ اس قوم کی تذلیل کریں اور اس کے اندر حقارت کا احساس پیدا کر دیں، اس میں ناتوانی کا احساس انجیکٹ کر دیں، اسے یہ باور کرا دیں کہ وہ ہیچ ہے، اس کا کوئي تشخص نہیں ہے، وہ کچھ نہیں ہے اور اس کی کوئي اہمیت نہیں ہے۔ یہ بنیادی کاموں میں سے ایک ہے اور افسوس کہ ایران میں یہ کام کیا گيا۔ یعنی عہد قاجار کے اواخر سے یہ کام شروع ہوا، عہد قاجار کے آخری فرمانرواؤں کی داخلی آمریت نے بھی اور ملک میں موجود مداخلت کرنے والی انتہائي خطرناک اور بارسوخ پالیسیوں نے بھی، جو خاص طور پر انگریزوں کی پالیسی تھی، اس کام کو ہوا دی۔ اس وقت روس اور برطانیہ دونوں کا ایران پر تسلط تھا لیکن روس، مختلف وجوہات کی بنا پر، جن کے بارے میں بات کرنے کی اس وقت گنجائش نہیں ہے، تھوڑا سا پیچھے رہا۔ زیادہ تر انگریز ایران کے مسائل پر مسلط تھے جس کی ایک مثال سن انیس سو انیس کا مشہور وثوق الدولہ سمجھوتہ (1)  ہے۔ یہ مشہور سامراجی معاہدہ ہے۔ مطلب یہ کہ انھوں نے تذلیل، عمومی حقارت، فضول ہونے اور ہیچ ہونے کا احساس قوم پر مسلط کر دیا تھا اور یہی بات رضا پہلوی جیسے شخص کے بر سر اقتدار آنے، اس کی حکومت جاری رہنے اور اس کے بعد اس کے بیٹے محمد رضا کے بر سر اقتدار آنے کی تمہید بن گئي کہ جو ہمارے ملک میں ایک بہت ہی برا واقعہ تھا جو دشمنوں نے انجام دیا تھا اور قوم تماشائي بنی ہوئي تھی۔ رضا خان کے بر سر اقتدار آنے کے مسئلے میں قوم صرف ایک تماشائي تھی اور اس کا کوئي رول نہیں تھا، اس کی کوئي موجودگي نہیں تھی، اس نے نہ تو "ہاں" کہا اور نہ ہی "نہ" کہا، بس دیکھتی رہی۔ ایک واقعہ ہوا، ایک بغاوت ہوئي، قوم کو کوئي فکر ہی نہیں تھی کہ یہ دیکھے کہ کون تھا؟ کیا تھا؟ اس نے نہ کوئي خیال ظاہر کیا، نہ استقامت دکھائي جس کی وجہ سے انتہائي سخت نتیجے بھگتنے پڑے۔ یعنی وہ پچاس سالہ آمریت ایرانی قوم پر مسلط کر دی گئي، اسی ذلت و حقارت کے احساس کی وجہ سے جو قوم پر پہلے ہی مسلط کر دیا گيا تھا۔

اسلامی انقلاب اور پہلوی حکومت کا جڑ سے خاتمہ، دنیا میں ایک زلزلہ

اس کے بالکل برخلاف، اسلامی انقلاب میں ہوا۔ اسلامی انقلاب میں ملک کے نوجوانوں نے محسوس کیا کہ وہ ایک نہ ہو پانے والے کام کو بہترین طریقے سے انجام دے سکتے ہیں، جس کے بارے میں ہمیشہ یہی کہا جاتا تھا کہ وہ ممکن نہیں ہے، یعنی پہلوی حکومت کو ہلا دینا اور وہ بھی صرف حکومت کو ہلانا نہیں بلکہ اسے جڑ سے ختم کر دینا۔ وہ ایسی حکومت تھی کہ غیر ملکی پوری طاقت سے اس کی حمایت کر رہے تھے، اسے بچانے کے لیے کوشش کر رہے تھے اور ہر ممکن کام کر رہے تھے۔ امریکی، جیسا کہ آپ آج دیکھتے ہیں بعض حکومتوں کی حمایت کر رہے ہیں، بھر پور طریقے سے پہلوی حکومت کی حمایت کر رہے تھے، اس کے سینہ سپر بنے ہوئے تھے، اس کے لیے ڈٹ کر کھڑے تھے لیکن پہلوی حکومت کے لیے ان کی جو حمایت تھی وہ آج ان کے ذریعے اپنی بعض پٹھو حکومتوں کی حمایت سے کہیں زیادہ تھی۔

دوسری طرف اندرونی سختیاں بھی غیر معمولی تھیں یعنی اس وقت لوگوں، جد و جہد کرنے والوں، حکومت کے مخالفوں اور اعتراض کرنے والوں کے ساتھ جو کام کیا جاتا تھا وہ آج کے نوجوانوں کے تصور سے باہر ہے۔ مطلب یہ کہ اس وقت جو کام وہ لوگ کرتے تھے وہ آپ کے ذہنوں سے بہت دور ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک کتاب رکھنا یا کاپی میں لکھی ہوئي آدھی سطر اس بات کا سبب بن جاتی تھی کہ انسان مدتوں تک جیل میں ڈال دیا جائے۔ یہ ان ایذاؤں کے علاوہ ہوتا تھا جو اسے سزا سنائے جانے سے پہلے برداشت کرنی ہوتی تھیں۔ یہ ایک غیر معمولی چیز ہے اور اب اس بارے میں گفتگو نہیں کی جا سکتی۔ ایرانی نوجوان اور ایرانی قوم نے مل کر اپنے عزم سے اور اپنی طاقت سے اس طرح اس حکومت کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور ایک ناممکن بتائے جانے والے کام کو انجام دے کر دنیا کو مبہوت کر دیا۔ یعنی جب اسلامی جمہوری نظام قائم ہوا اور ملک کی پٹھو شاہی حکومت کا خاتمہ ہو گيا تو دنیا حیرت زدہ رہ گئي، کچھ عرصے کے لیے مبہوت رہ گئي کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ حقیقی معنی میں دنیا میں ایک زلزلہ آ گیا۔ اس کے بعد سے اب تک ملک میں عزت اور طاقت کے احساس کے عوامل مسلسل وجود میں آتے رہے ہیں اور بحمد اللہ قومی اقتدار کی سطح یہاں تک پہنچ چکی ہے۔ یعنی اب ہمارا ملک ایسا ہے کہ منہ زوری کے مقابلے میں پوری طاقت سے ڈٹ جاتا ہے اور صرف حکومتی اداروں کے ایک یا دو افراد میں یہ احساس نہیں ہے بلکہ عمومی طور پر پوری قوم میں یہ احساس ہے، طاقت کا یہ احساس ہے، عزت کا یہ احساس ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو منفی باتیں کرتے ہیں لیکن وہ بہت ہی کم ہیں اور الگ تھلگ ہیں، عام طور پر قوم میں طاقت اور عزت کا یہ احساس ہے۔

عزت و طاقت کے اس احساس کو نقصان پہنچانے کی دشمن کی کوشش

البتہ دشمن، ایرانی قوم کی تذلیل کی اپنی پالیسی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ آج بھی وہ انھیں پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے، وہ لوگوں کے جذبات و احساسات پر اثر ڈالنے کی طرف سے مایوس نہیں ہوا ہے۔ اس بات کو ہم سب کو اپنی باتوں میں، اپنے تجزیوں میں، اپنے اظہار خیال میں، اپنے اعتراض میں مد نظر رکھنا چاہیے کہ دشمن آج یہ چاہتا ہے کہ عزت کے اس احساس کو، طاقت کے اس احساس کو اور قومی خود اعتمادی کو نقصان پہنچائے اور ختم کر دے۔ وہ کوشش کر رہا ہے لیکن خداوند متعال نے اس کے برخلاف فیصلہ کر رکھا ہے۔ دیکھیے یہی کورونا کا معاملہ، لوگوں میں عزت کا احساس بڑھنے کا موجب بنا۔ آپ دیکھیے کہ مغرب میں، مغربی ممالک میں اور امریکا میں کیا ہو رہا ہے؟! کورونا ایران میں بھی آیا اور وہاں بھی پہنچا۔ دیکھیے کہ وہاں صورتحال کیسی ہے اور یہاں کیسی ہے؟ یہاں کس طرح سے مینیج ہوا، لوگ کس طرح سے میدان میں آئے، اس سلسلے میں کتنے بڑے بڑے کام ہوئے؟! یا مثال کے طور پر سیٹلائٹ کو خلا میں بھیجنا یا اسی وائرس کی شناخت کے لیے جو سائنسی و تکنیکی کام ہو رہے ہیں۔ یہ سارے وہ واقعات ہیں جو خداوند عالم نے مقرر کر رکھے ہیں، یا رمضان کے مہینے میں غریبوں اور محتاجوں کی مدد کی جو عظیم تحریک چلی۔ تو ملک کے حالات یہ ہیں۔ وہ محاذ آرائي ہے، وہ دشمنی ہے، وہ گنجائشیں ہیں تو یہ عزت و طاقت کا احساس بھی ملک میں موجود ہے۔

مختلف شعبوں میں نوجوانوں کی موجودگي پر توجہ کی ضرورت

تو اس بات کے پیش نظر، نوجوانوں کے امور سے متعلق مسائل اور نوجوانوں سے کہنے کے لیے میرے ذہن میں جو کچھ ہے، اس میں سے کچھ باتیں میں نے عرض کرنے کے لیے نوٹ کر لی ہیں۔ بحمد اللہ اس بات پر جتنی تاکید کی گئی اور جتنا اسے دوہرایا گيا اس کی وجہ سے نوجوانوں کے امور پر کافی توجہ دی جانے لگي ہے۔ کچھ لوگوں کے بیان میں شاید مایوسی بھی جھلک رہی تھی لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ مختلف شعبوں میں نوجوانوں کی موجودگي پر توجہ دی جانے لگي ہے اور اس سلسلے میں کام ہو رہا ہے۔ یہ جو پوچھا گيا کہ "نوجوانوں پر توجہ" سے ہماری مراد کیا ہے؟ تو یہ بھی انھیں سوالوں میں سے ہے جن کا جواب یونیورسٹی کے مختلف شعبوں اور دفتر کے دوستوں کو دینا چاہیے۔ توجہ ہو رہی ہے اور نوجوانوں کی موجودگي کو اہمیت دی جا رہی ہے، مینیجمینٹ میں ان کے شامل ہونے، ان کے خیالات اور اسی طرح کی دیگر باتوں پر توجہ دی جا رہی ہے۔

پچھلے ایک سال میں طلباء اور دینی طلباء کے لیے کیے گئے اچھے کام

بحمد اللہ طلباء کے لیے خاص طور پر اچھے کام کیے گئے ہیں۔ پچھلے ایک سال میں جب یہ نشست تشکیل پائي تھی، تب سے لے کر آج کی نشست تک اچھے کام ہوئے ہیں۔ طلباء کے لیے یونیورسٹیوں وغیرہ اور اسی طرح دینی طلباء کے لیے اعلی دینی تعلیمی مراکز میں جو ایک بہت اچھا کام ہوا ہے وہ، بحث اور کام میں اصل مسئلے پر توجہ دینا ہے جس کی ہم نے تاکید کی تھی۔ بحمد اللہ اس پر کام ہوا اور خاص مسائل اور اہم مسائل کو اس سلسلے میں پیش کیا گيا اور ان پر کام ہوا جس کے نتیجے میں اچھے خیالات سامنے آئے۔ یا اسی طرح سے عالمی مسائل پر توجہ، کہ اس کی بھی ہم نے تاکید کی تھی۔ بحمد اللہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس ایک سال میں عالمی موضوعات کے سلسلے میں متعدد مسائل پر توجہ دی گئي ہے، جن کا میں نام نہیں لینا چاہتا۔ یہ اعتراض کیا گيا کہ  فلاں موضوع پر کام کیوں نہیں کیا گيا؟ آپ کو معلوم نہیں ہے، کام کیا گيا ہے۔ ایک خاص موضوع جس کا دوستوں نے نام بھی لیا کہ کیوں اس سلسلے میں کام نہیں ہوا؟ کام ہوا، بلکہ بڑی سنجیدگي سے کام ہوا لیکن وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے تاہم پوری سنجیدگي سے کام کیا گيا۔ کام کا ایک سرا ہمارے ہاتھ میں تھا اور دوسرا سرا دوسروں کے ہاتھ میں تھا، اس لیے یہ کام نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ بہرحال بین الاقوامی مسائل میں نوجوانوں نے کام کیا، یعنی سوچا، حقیقت میں حیرت انگيز جہادی سرگرمیوں کی بحث، جس پر میں کئي بار شکریہ ادا کر چکا ہوں لیکن ایک بار پھر شکریہ ادا کرنا اور اللہ کا شکر بجا لانا چاہتا ہوں کہ اس نے ہمارے نوجوانوں کو اس طرح تیار کیا۔ جہادی دوستوں کو یہ شکایت ہے اور بجا شکایت ہے کہ مسائل کے بارے میں فیصلہ کن اداروں میں انھیں کیوں نہیں بلایا جاتا یا خدمات کی تدوین کے لیے ان کی رائے کیوں نہیں لی جاتی اور انھیں صرف افرادی قوت یا خدمت گزار کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا ہے؟ یہ صحیح اعتراض ہے۔

کاموں کو سونپنے سے متعلق مسائل پر توجہ، ان امور میں سے ایک ہے جو اس سال نوجوانوں کے سلسلے میں انجام دیے گئے۔ ممکن ہے کہ اس سلسلے میں کچھ شدت پسندی بھی رہی ہو لیکن ان موضوعات پر کام کرنا میرے خیال سے ٹھیک تھا۔ اس نے ذمہ داروں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرایا۔ ایک دوست نے جو یہ اعتراض کیا ہے کہ طلباء نے اس سلسلے میں زمینی سطح پر کام کیا ہے اور وہ متفق نہیں ہیں، تو اس پر بحث کی جا سکتی ہے لیکن ان موضوعات پر کام کرنا ہماری نظر میں اچھا تھا اور اس سے کچھ گروہ اپنے آپ ہی وجود میں آ گئے۔ گھرانے کے مسائل اور خواتین کے مسائل جن کی طرف یہاں بھی اشارہ کیا گيا، میری نظر میں بہت اہم مسائل ہیں اور ان پر کام ہونا چاہیے اور یقینا اس سلسلے میں صحیح سے کام نہیں ہوا ہے اس لیے اس بارے میں جو بھی کہا جائے یا اعتراض کیا جائے، وہ مجھے قبول ہے اور میرا خیال ہے کہ اس میدان میں بہت تساہلی ہوئي ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئي کہ طلباء نے جو باتیں پیش کیں، ان میں سے ایک یہ بھی تھی۔

نوجوانوں کے لئے چند سفارشایت:

1) انفرادی اور اجتماعی خودسازی

اب میں چند سفارشات کرنا چاہتا ہوں۔ جو کچھ کہا گیا ہے اس کے پیش نظر  میں نے چند باتیں نوٹ کی ہیں۔ آپ عزیز نوجوانوں سے چاہے طالب علم ہوں یا وہ نوجوان ہوں جن کے نام میں نے لئے، سبھی سے میری پہلی سفارش خودسازی کے لئے ہے؛ خود سازی بہت اہم ہے؛ انفرادی پہلو سے بھی اور اجتماعی پہلو سے بھی۔ آپ کو خود اپنی ذات کی تعمیر بھی کرنی ہے اور اجتماعی خودسازی کے عنوان سے اپنے معاشرے کی تعمیر بھی کرنی ہے؛ خودسازی بہت اہم ہے۔ رمضان المبارک اچھا موقع ہے؛ اگرچہ ہم اس مہینے کے اواخر میں پہنچ چکے ہیں، لیکن جو چند روز باقی بچے ہیں، وہ دعا، مناجات، قرآن کریم سے انسیت (تلاوت قران مجید) کے لئےغنیمت ہیں اور رمضان المبارک ختم ہونے کے بعد معنوی اور روحانی سلسلے کو چھوڑ نہیں دینا چاہئے؛ یعنی یہ نہ ہو کہ چونکہ رمضان المبارک میں روزے سے ہیں اور گویا دعا و مناجات اور خاص (معنوی) کیفیت وحالات کی فضا ہے، اس لئے کچھ امور انجام دئے جائيں اور رمضان ختم ہونے پر اس سلسلے کو بالکل بند کر دیا جائے۔ نہیں، تلاوت قرآن، قرآن سے ارتباط، خلوص کے ساتھ نماز، اول وقت نماز کی ادائیگی، دعاؤں پر توجہ – میں نے بعض دعاؤں کا اشارتا ذکر کیا اور بعض کی طرف ابھی اشارہ کروں گا – میں سمجھتا ہوں کہ خودسازی کے لئے کچھ باتیں ضروری ہیں۔ اس سے ان مراحل کو آسانی سے، محفوظ رہتے ہوئے عبور کر لینے میں آپ کو مدد ملے گی جہاں لغزش کا خطرہ ہوتا ہے۔ بہت سی لغزش گاہیں ہیں؛ خوف لغزشگاہ ہے، شک و تردید لغزشگاہ ہے، کمزوری کا احساس لغزشگاہ ہے، غلط جذبات لغزشگاہ ہیں؛ ہمارے سامنے بہت سی لغزشگاہیں آتی ہیں۔ خاص طور پر سماجی کارکنوں کے سامنے؛ اس لئے انہیں خودسازی کی زیادہ ضرورت ہے۔ ان کے لئے ضروری ہے کہ اپنی روحانی اور معنوی بنیادیں مضبوط کریں۔  میرے خیال میں، اگر آپ کی روحانی اور معنوی بنیادیں مضبوط ہوں توغور و فکر میں بھی، فیصلے میں بھی اور عمل میں بھی آپ کے اندر کافی توانائیاں موجود ہوں گی ۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل میں اس کی ضرورت ہے۔ آپ عزیز نوجوانوں سے یہ میری پہلی سفارش اور گزارش ہے؛ آپ حقیقی معنی میں میرے بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔ میں آپ کے لئے بھی وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے نسلی فرزندوں اور بیٹیوں  کے لئے پسند کرتا ہوں اور جو کچھ عرض کر رہا ہوں، انہیں واقعی مفید سمجھتا ہوں اس لئے عرض کر رہا ہوں؛ یہ میری پہلی سفارش ہے۔

 2) معرفت کی بنیادوں کی تقویت نیز انحراف اور مایوسی و احساس کمزوری سے پرہیز

 میری دوسری سفارش، معرفت آگاہی کی بنیادوں کی تقویت ہے؛ یہ بہت اہم ہے۔ الحمد للہ آپ کے درمیان اچھی فکر والے کافی ہیں اور مختلف شعبوں میں فکر و عمل سے کام لیتے ہیں، لیکن نوجوانوں اور یونیورسٹیوں کا ماحول، ہمیشہ خطرات اور حملوں کی آماجگاہ رہا ہے، ان میں دو بڑے خطرات نوجوانوں کو لاحق رہے ہیں، ان میں سے ایک مایوسی و کمزوری کا احساس اور دوسرا انحراف کا خطرہ ہے۔ مایوسی و کمزوری کا احساس، یعنی ہاتھ پیر بندھے ہونے کا احساس، بے فائدہ ہونے کا احساس اور سخت حوادث کے مقابلے میں ناامیدی، یہ پہلی سفارش پر عمل سے برطرف ہو جاتی ہے یعنی معنویت کی تقویت سے مایوسی و کمزوری کا احساس ہرگز باقی نہیں رہے گا۔ انحراف – فکری انحراف، معرفت کے اصولوں میں انحراف – اس سفارش  پر عمل سے برطرف ہو جائے گا۔ دیکھئے اوائل انقلاب میں کچھ نوجوان تھے جو مسلمان تھے اور اسلام کے لئے میدان میں اترے تھے لیکن ان کی معرفت کی بنیادیں کمزور تھیں، معرفت کی بنیادیں محکم نہیں تھیں– وجہ جو بھی رہی ہو، محکم نہیں تھیں– یہ  موقع پرست منحرف گروہوں میں شامل ہو گئے اور ایک اچھے اور مسلمان و مومن نوجوان سے ایسے لوگوں میں تبدیل ہو گئے جنہوں نے اپنے ہم وطنوں پر ہی اسلحہ اٹھا لیا اور نوجوانوں، بوڑھوں، تاجروں سب کو نشانہ بنایا،  حملہ کیا اور المناک جرائم کا ارتکاب کیا؛ وہ معرفت کی بنیادیں کمزور ہونے کی وجہ سے غلط گروہوں میں شامل ہو گئے۔ ان راستوں پر چلے اور سرانجام صدام کے پرچم تلے  ظاہر ہوئے؛ یعنی سرانجام اتنی پستی میں  پہنچ گئے۔ یہ سب فکری عدم استحکام کی وجہ سے ہوا۔ اسی زمانے میں کچھ دوسرے لوگ بھی تھے۔ ہم افراد کو پہچانتے تھے، میں انقلاب سے پہلے سے ان میں سے بہت سے لوگوں سے اچھی طرح واقف تھا، انہیں گروہوں وغیرہ میں ان سے واقفیت تھی۔ یہ استحکام کے ساتھ ٹھوس انداز میں اپنی جگہ باقی رہے؛ اس لئے کہ ان کی فکری بنیادیں صحیح تھیں۔ شہید مطہری کی کتابوں سے مرتبط تھے، علامہ طباطبائی کے افکار سے واقف تھے، شہید صدر کی باتوں سے واقف تھے، ان کی معرفتی اور فکری بنیادیں محکم تھیں۔ ( اس لئے) استحکام کے ساتھ اپنی جگہ باقی رہے؛ کچھ لوگوں کی معرفت کی بنیادیں کمزور تھیں اس لئے وہ چلے گئے۔ بعض نے اوائل انقلاب میں انقلابی کام کئے بعد میں منحرف ہو گئے۔ منحرفین میں شامل ہو گئے۔ ہمارے انقلاب  کو در پیش مسائل میں سے ایک انہیں منحرف لوگوں کا مسئلہ ہے جو کبھی انقلابی تھے اور بعد میں انقلاب کو چھوڑ دیا منحرف ہو گئے۔

صحیفہ سجادیہ کی غیر معمولی دعائیں

 اس کی وجہ معرفت کی بنیادوں کی کمزوری ہے؛ یعنی اگر معرفت کی بنیادیں کمزور ہوں تو یہ معرفت انہیں حوادث، سوالوں اور ابہامات کے مقابلے میں سیدھے راستے پر باقی نہیں رکھ سکتی۔ بنابریں میرے خیال میں ایمان، اعتقاد اور معرفت کے مسائل کا بیان ضروری ہے۔  دیکھئے یہ دعا جس کا میں نے ذکر کیا، صحیفہ سجادیہ کی بیسویں دعا ہے۔ مشہور، دعائے مکارم الاخلاق – یہ دعا اس طرح ہے : اَللَهُمَّ بَلِّغ بِایمانی اَکمَلَ‌الایمانِ وَاجعَل یَقینی اَفضَلَ الیَقین؛ فرماتے ہیں کہ یقین تو ہے لیکن میرے اس یقین کو بہترین یقین بنا دے۔ وَانتَهِ بِنیَّتی اِلى اَحسَنِ النِّیّات وَ بِعَمَلی اِلى اَحسَنِ الاَعمال‌، الی آخردعا۔ یہ بہت ہی حیرت انگیز دعا ہے۔  ہمارے عزیز نوجوان صحیفہ سجادیہ کی بیسویں دعا پڑھیں۔ البتہ صحیفہ سجادیہ کی سبھی دعائیں غیر معمولی ہیں؛ یعنی صرف ایک یا دو دعا نہیں بلکہ پورا صحیفہ سجادیہ (غیر معمولی ہے) یہاں میں بیسویں دعا کی بات کر رہا ہوں۔ اکیسویں دعا بھی ایک اور لحاظ سے حیرت انگیز ہے اور اس کتاب میں دوسری دعائيں بھی غیر معمولی اور اہم ہیں۔ آپ یہ بیسویں دعا جو دعائے مکارم الاخلاق ہے پڑھیں، اس پر غور کریں۔ خوش قسمتی سے صحیفہ سجادیہ کے بہت اچھے ترجمے بھی کئے گئے ہیں، میں نے ان میں سے تین چار ترجمے دیکھے ہیں، واقعی بہت اچھے ترجمے ہیں اور ان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؛ ان سے رجوع کریں اور استفادہ کریں۔ آپ عزیزوں کے لئے یہ میری دوسری سفارش ہے۔

3) اصول پسندی اور مطالبات

میری تیسری سفارش یہ ہے کہ مطالبات اور اصول پسندی کے پرچم کو گرنے نہ دیں؛ آپ دوستوں نے اس ڈیڑھ گھنٹے کے دوران جو بحثیں اور باتیں کی ہیں وہ سب مطالبات کے زمرے میں آتی ہیں؛ ان  میں سے بعض مطالبات کا تعلق اس حقیر سے تھا، بعض کا ہمارے دفتر سے تھا اور بعض کا تعلق دوسرے اداروں سے تھا۔ یہ بہت اہم ہے؛ مطالبات پیش کرنے کی اس روش کو جاری رکھیں، اس اصول پسندی کو ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ یہ اصول پسندی ہے؛ ممکن ہے کہ جن باتوں کا آپ نے مطالبہ کیا ہے ان میں سے بعض پرعمل نہ ہو سکتا ہو، اور حقیقت بھی یہی ہے؛ یعنی جب انسان عمل کی منزل میں قدم رکھتا ہے تو میدان عمل کی مشکلات اس کے سامنے زیادہ آشکار ہوتی ہیں۔ تب معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب باتیں جو ہم چاہتے تھے، ان میں بعض ایسی ہیں کہ ان پر عمل نہیں ہو سکتا اور بعض پر جلد ہی عمل ممکن نہیں ہے؛ لیکن خود یہ اصول پسندی اہم ہے؛ اس لئے کہ اگر اصول پسندی نہ ہو تو ہم راستہ کھو بیٹھیں گے ؛یہ اصول پسندی اس بات کا باعث بنتی ہے کہ ہم راستہ گم نہ کریں اور بیچ میں بھٹک کے دائيں اور بائيں نہ چلنے لگیں۔ اس اصول پسندی کی حفاظت کریں؛ یہ اصول اور امنگیں اہم ہیں: عدل، آزادی، بد عنوانی کا خاتمہ اور سرانجام اسلامی تمدن۔ حقیقی اور اصلی امنگ اسلامی تمدن وجود میں لانا ہے ؛ اس کو فراموش نہ کریں، اس کا مطالبہ کریں اور اس پر غور و فکر کریں؛ البتہ مطالبات منطقی انداز میں پیش کئے جانے کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے کہ  اس سلسلے میں بھی میں کچھ باتیں عرض کروں۔

مطالبات میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ دشمن آپ کے مطالبات سے غلط فائدہ نہ اٹھا سکے۔ آپ کے مطالبات کے تعلق سے میں نے دو نکات نوٹ کئے ہیں جنہیں میں عرض کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بہتر ہے کہ ان پر توجہ دی جائے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ مطالبہ ایک طرح سے اعتراض کے ہمراہ ہے۔  یہ صحیح ہے کہ مطالبہ کا مطلب یہ ہے کہ کہیں نقص ہے اور ہم اس نقص کو دور کئے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ فطری طور پر مطالبہ یہ ہے بنابریں اعتراض کے ہمراہ ہے؛ یہ نہ ہونے دیں کہ آپ کا یہ مطالبہ اور اعتراض نظام اسلامی پر اعتراض سمجھا جائے؛ یہ اہم ہے؛ دشمن اس کا منتظر ہے۔ بعض اوقات ممکن ہے کہ فرض کریں، مثال کے طور پر آپ اسکالر شپ کے مسئلے پر یا پرائڈ کار کے مسئلے پر اعتراض کرتے ہیں؛ لیکن آپ کے اعتراض کے طریقے سے، دشمن اس کو نظام پر اعتراض سمجھتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ یہ ںظام پر اعتراض تھا؛ یہ نہ ہونے دیں؛ اس کو سنجیدگی سے روکیں ، دشمن کو یہ موقع نہ ملنے دیں کہ وہ آپ کے مطالبے اور آپ کے اعتراض سے یہ تاثر حاصل  کرے یا یہ تاثر دینے کی کوشش کرے۔

 دوسرا نکتہ  یہ ہے کہ مطالبات پیش کرنے کا پرچم اگر آپ اپنے ہاتھوں میں رکھیں تو اچھا ہے؛ لیکن اگر آپ نے یہ پرچم زمین پر رکھ دیا  تو ممکن ہے کہ ایسے لوگ یہ پرچم اٹھا لیں جن کا مقصد عوام کی مشکلات کو دور کرنا نہیں ہے؛ (بلکہ) ان کا مقصد اسلام، اسلامی جمہوریہ اور اسلامی نظام سے جنگ ہے۔ یہ نہ ہونے دیں، یعنی یہ نہیں ہونا چاہئے۔ بائيں بازو کی مارکسی تحریک کی آج دنیا میں کوئی حیثیت باقی نہیں رہی ہے، یہ تحریک تہی دست ہو چکی ہے، اپنی فکر کے لحاظ سے اور بقول خود ںظریاتی لحاظ سے بھی مارکسی بہت کمزور ہو چکے ہیں، ان کے پاس اب کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے اور سیاسی لحاظ سے اس تحریک کے سبھی بڑے لیڈر امریکا کے سامنے جھک چکے ہیں، صیہونی حکومت کے سامنے جھک چکے ہیں اور شاہی نظام کے طرفداروں کے سامنے جھک چکے ہیں۔ بنابریں وہ نظریاتی و سیاسی لحاظ سے بھی اور میدان عمل میں بھی تہی دست ہو چکے ہیں۔ ان کے پاس کارآمد، فعال اور فداکار افراد نہیں ہیں جنہیں وہ میدان میں اتاریں، بنابریں یہ بیکار ہو چکے ہیں لیکن بہرحال ہمیشہ ایسے افراد ہوتے ہیں جو اچھے نعروں اور صحیح نعروں سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ اس کو ترک کر دیں گے تو ممکن ہے کہ وہ اس کو اٹھالیں؛  یہ بھی ایک نکتہ ہے۔

4) تنقید کے ساتھ تجویز اور پرخاش سے پرہیز

  چوتھا نکتہ یہ ہے کہ مطالبے میں صرف تنقید نہیں ہونی چاہئے ۔ مطالبہ صرف اعتراض نہیں ہے، اگرچہ اس میں اعتراض ہے۔ تنقید کے ساتھ تجویز بھی ہونی چاہئے۔ البتہ آج تجاویز بھی پیش کی گئي ہیں، اچھی بھی ہیں، ان میں سے بعض تجاویز قابل قبول ہیں اور بعض قابل غور ہیں لیکن وہ سبھی نوجوان جو یہ بات سن رہے ہیں، اس میدان میں سرگرم ہیں وہ توجہ دیں کہ اگر ہم صرف تنقید کریں گے، صرف اعتراض کریں گے تو اس سے کام آگے نہیں بڑھے گا، اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اس میں دم نہیں ہوگا؛ ممکن ہے کہ شروع میں معمولی فوائد ہوں، لیکن جس سے فائدہ ہوتا ہے وہ تجویز ہے۔ دیکھئے اسلام میں نہی عن المنکر امر بالمعروف کے ساتھ ہے۔ نہی عن المنکر اعتراض ہے اور امر بالمعروف یعنی تجویز، راہ حل پیش کرنا، اس کام کی بات جو ہونا چاہئے اور جو ہو سکتا ہے؛ یہ ایک ساتھ ہیں؛ بنابریں مطالبات راہ حل، اچھی اور قابل قبول راہ حل کے ساتھ ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ مطالبات کو پرخاش اور بدکلامی کے ساتھ نہ پیش کریں۔ یہ میری گزارش ہے۔ البتہ آج آپ نے بہت اچھی طرح اور محترمانہ انداز میں مجھ سے بات کی ہے اس کے لئے میں بہت شکرگزار ہوں۔ البتہ میں ماضی میں، اپنی صدارت کے دور میں بھی اور اس سے پہلے بھی یونیورسٹیوں میں جاتا رہا ہوں، بعض اوقات میں نے پرخاش کا سامنا بھی کیا ہے میرے لئے اس کی کوئي اہمیت نہیں ہے، یعنی میرے لئے یہ سلوک قابل تحمل تھا، سرانجام اس حقیر سے جو اسٹیج پر ہوتا تھا اس گروہ کی بحث میں جو تنقید کرتا تھا، جو مغلوب ہوتا تھا وہ میں نہیں تھا۔

آج تو الحمد للہ آپ سبھی نے بہت اچھی بات کی ہے؛ لیکن بعض اوقات حکام یونیورسٹیوں میں یا طلبا کے اجتماع میں اور نوجوانوں کے مجمع میں جاتے ہیں، تقریر کرتے ہیں اور ان کی توہین ہو جاتی ہے۔ آپ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ فلاں صاحب، فلاں صاحب اور فلاں صاحب کو یونیورسٹی میں آنے کی دعوت دی گئی لیکن اس کے باوجود وہ نہیں آئے۔ میں نے بھی بارہا حکام سے سفارش کی ہے کہ یونیورسٹیوں میں جائيں، طلبا سے بات کریں، ان کے درمیان بولیں، توجیہ کریں، اپنے دلائل بیان کریں؛ میرا نظریہ یہ ہے، لیکن وہ جواب میں کہتے ہیں کہ جب ہم وہاں جاتے ہیں تو جو نوجوان وہاں جمع ہوتے ہیں ان کا مقصد مسائل کی وضاحت اور ان کو سمجھنا نہیں بلکہ ان کا مقصد توہین ہوتا ہے۔ اس لئے نہیں جاتے۔ میری گزارش ہے کہ گفتگو کے دروازے بند نہ کریں؛ یعنی جب توہین، بدکلامی اور بے عزتی کرنے جیسی باتیں ہوں گی تو گفتگو کا دروازہ خود بخود بند ہو جائے گا۔ یہ نہ ہونے دیں۔ دلیل اور منطق کے ساتھ بات کریں۔ ممکن ہے کہ بعض باتیں تند ہوں۔ کوئی حرج نہیں ہے؛ اگر پرخاش، توہین اور بے عزتی نہ ہو تو تند الفاظ میں کوئي حرج نہیں ہے۔

5) فکر سازی کی اہمیت

 پانچواں نکتہ فکر سازی ہے جس کی طرف میں نے گفتگو کے شروع میں ہی اشارہ کیا؛ آج آپ کے ساتھ جو جلسہ تشکیل پایا ہے اور نوجوانوں کے ساتھ جو جلسے ہوتے ہیں اور ہوتے رہے ہیں – ان اواخر میں کم سے کم سال میں ایک بار یہ جلسہ تشکیل پاتا ہے اور اس سے پہلے زیادہ تشکیل پاتے تھے، ان جلسوں کی جملہ برکات میں سے ایک فکرسازی ہے؛ یعنی یہی جو کوئی بات کہتے ہیں، وہ نشر ہوتی ہے اور کچھ نوجوان اور دوسرے لوگ اس کو سنتے ہیں اور تدریجی طور پر ایک سوچ اور فکر تیار ہوتی ہے، یہ وہی فکرسازی ہے؛ یعنی معاشرے میں ایک مخصوص فکری رجحان وجود میں آتا ہے۔ یہ اہم بات ہے۔ میری گزارش ہے کہ طلبا کی تنظیمیں اس تفکر سازی کو اہمیت دیں۔ نظام کے مسائل کا پتہ لگائيں، غور و فکر کریں، محکم اور مناسب  حل کی راہیں تلاش کریں اور انہیں بیان کریں۔

البتہ قومی ابلاغیاتی ادارے کو بھی مدد کرنا چاہئے۔ بیشک قومی ذرائع ابلاغ کو مدد کرنا چاہئے۔ آج یعنی حالیہ دور میں قومی ابلاغیاتی ادارے میں انقلابی اور پرجوش نوجوانوں سے متعلق شعبے بھی ہیں لیکن دوستوں نے ان پر توجہ نہیں دی۔ نوجوانوں کے نظریات اور جو باتیں وہ پیش کرتے ہیں، معاشرے میں ان پر توجہ دینے اور ان کے تعلق سے تفکر سازی کی ضرورت ہے۔  تفکر سازی ہوگی تو نوجوانوں سے متعلق پروگراموں کا بھی عوام میں استقبال ہوگا یعنی عوام استقبال کریں گے اور پھر صاحبان منصب اور اداروں کے سربراہوں کے انتخاب میں اس کے اثرات بھی مرتب ہوں گے۔

ملک کی مشکلات، اور حزب اللّہی نیز نوجوان حکومت

میں نےاس سے پہلے گزشتہ سال بھی تاکید کی تھی اور مکرر عرض کیا ہے- میں حزب اللّہی اور نوجوان حکومت پر یقین رکھتا ہوں اور اس سے مجھے زیادہ امید ہے لیکن نوجوان حکومت کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ حکومت کا سربراہ نوجوان اور وہ بھی  مثال کے طور پر بتیس سال کا نوجوان ہو' نہیں نوجوان حکومت کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنے پیروں پر کھڑی ہو، پرجوش ہو اور ہمیشہ آمادگی کی حالت میں رہے اور ارکان حکومت ایسی عمر کے ہوں کہ سعی و کوشش اور محنت کر سکیں، کام کر سکیں اور تھکن ان کے قریب نہ آئے، مقصد یہ ہے۔ بعض لوگ زیادہ عمر میں بھی نوجوانوں کی طرح ہوتے ہیں؛ اپنے اس عزیز شہید کو ہی لے لیجئے جن کا نام آپ نے لے لیا، شہید سلیمانی، میں شب و روز ان کو یاد کرتا ہوں۔ وہ ساٹھ سال سے کچھ اوپر کے تھے۔ بہت جوان نہیں تھے؛ لیکن اگر وہ دس سال اور بھی زندہ رہتے اور میں بھی زندہ رہتا اور مجھے ہی فیصلہ کرنا ہوتا تو میں ان کو ان کے عہدے  پر باقی رکھتا۔ یعنی میں ان کو  ان کے عہدے سے نہ ہٹاتا اگرچہ وہ جوان بھی نہیں تھے۔ بنابریں بعض اوقات ایسے افراد بھی ہوتے ہیں کہ جو جوانی کی عمر میں نہیں ہوتے لیکن نوجوانوں کے کام بہت اچھی طرح انجام دیتے ہیں۔ بہرحال میرے خیال میں ملک کی مشکلات کا حل حزب اللّہی، مومن اور نوجوان حکومت میں ہے جو ملک کو دشوار گزار راہوں سے گزار سکے۔

 6) انقلابی محاذ کی توسیع اور انقلابی افراد کو دور کرنے سے پرہیز

 اس کے بعد کا نکتہ اور سفارش جو میں نے نوٹ کی ہے اور میرے خیال میں چھٹی سفارش ہے، یہ ہے کہ انقلابی محاذ کی توسیع کریں، اس میں لوگوں کو شامل کریں، نکالیں نہیں؛ کسی مسئلے میں اختلاف نظر اور طرزعمل کا اختلاف لوگوں کو باہر نکالنے کا باعث نہیں ہونا چاہئے۔ بہت سے لوگ ہیں جو اسلام پر، انقلاب پر اور اسلامی نظام پر اور اس کی بہت سی ان خصوصیات پر جن کو آپ اہمیت دیتے ہیں، یقین رکھتے ہیں، لیکن کسی مسئلے میں آپ سے اختلاف رکھتے ہیں؛ یہ اختلاف اس بات کا باعث نہیں ہونا چاہئے کہ آپ انہیں مسترد کر دیں اور انہيں حلقہ انقلاب سے باہر سمجھیں۔ انقلابی محاذ کو جتنا ممکن ہو وسعت دیں اور لوگوں کو اس میں شامل کریں؛ البتہ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ منافقین کو اور بد عقیدہ لوگوں کو شامل کریں؛ ان لوگوں کو شامل کریں جو انقلاب پر یقین رکھتے ہیں لیکن آپ سے طرزعمل پر اختلاف رکھتے ہیں۔

7) بنیادی اصولوں کے بارے میں شک و تردد پیدا کرنے والوں اور دشمن کو اچھا بناکے پیش کرنے والوں کے مقابلے میں استحکام اور شفافیت

 بعد کا نکتہ جو ساتواں نکتہ ہے ،  یہ ہے کہ اپنوں کو خود سے دور کرنے کی حالت کے برعکس بھی ایک حالت ہے، وہ بھی غلط ہے۔ بعض لوگ ایسے ہیں جن کی پوری کوشش یہ ہے کہ انقلاب کی بنیادوں کے بارے میں شک و تردد پیدا کریں اور ملک کی ترقی و پیشرفت کی علامتوں اور نشانیوں کا انکار کریں؛ ان سے استحکام اور صراحت کے ساتھ بات کریں۔ یعنی ان کے اور اپنے درمیان حد اور فاصلہ نمایاں کریں۔ جو لوگ انقلاب کے بنیادی اصولوں کو قبول نہیں کرتے، ان کے بارے میں شک و تردد پیدا کرتے ہیں، دشمن کو اچھا بناکے پیش کرتے ہیں اور ہمارے سامنے غلط راستہ پیش کرتے ہیں، ان کے ساتھ کسی بھی طرح کی رو رعایت کی سفارش میں نہیں کروں گا۔ جی نہیں ان کے ساتھ صراحت کے ساتھ پیش آیا جائے۔ استحکام کے ساتھ پیش آیا جائے۔  شک و تردد پیدا کرنے کا کام، دشمن کی ثقافتی جنگ کی ریڑھ کی ہڈی ہے؛ یہ دشمن کی نرم جنگ (فکری و تشہیراتی جنگ) کا ہدف ہے کہ شک پیدا کریں۔ اگر ملک کے اندر کہیں کوئی ایسا ہے جو دشمن کا یہی کام کر رہا ہے تو اس کے مقابلے اور مخالفت کی ضرورت ہے۔ ہیں ایسے لوگ جو دشمن کو اچھا بناکے پیش کرتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں۔

 امریکا سے اقوام حتی حکومتوں کی نفرت

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ  اگرچہ امریکا نے طویل برسوں تک دنیا کے سامنے خود کو پرکشش بنانے پر بھاری رقم خرچ کی لیکن آج امریکی معاشرہ نہ صرف یہ کہ کوئي کشش نہیں رکھتا بلکہ دنیا کے بڑے حصے کے نزدیک امریکا، امریکی معاشرہ اور امریکی نظام منفور ہے؛ یہ حقیقت ہے ۔ یہ بات کہ امریکی پرچم کو بہت سے ملکوں میں حتی خود امریکا کے اندر بھی نذر آتش کیا جاتا ہے- کچھ دنوں قبل یہ واضح رپورٹ ملی تھی کہ امریکی پرچم کو خود امریکا کے اندر بھی کچھ لوگوں نے نذرآتش کیا ہے- (اس سے پتہ چلتا ہے کہ ) اقوام متنفر ہیں؛ حتی ان حکومتوں کے سربراہ بھی جوبہت سے مسائل میں امریکا کا ساتھ دیتی ہیں،جب بولنے پر آتے ہیں اور دل کی بات کرتے ہیں تو لوگ دیکھتے ہیں کہ ان کے اندر امریکی حکام اور امریکی حکومت سے نفرت، بے اعتمادی اور بے اعتنائی پائی جاتی ہے۔ البتہ ان حالیہ برسوں میں ان جناب کی وجہ سے جو وہاں برسر اقتدار ہیں، اس کے منفور اور مردود ہونے کی مقدار بڑھ گئی ہے یعنی اس منفور اور مردود ہونے کی وجہ کا کچھ تعلق انہیں جناب سے ہے جو وہاں برسراقتدار ہیں اور یہی امریکیوں کے صدر جن کے بارے میں کہا گیا ڈاکٹر ٹرمپ ! ہمارے طنزیہ پروگرام پیش کرنے والے نوجوان ایک پرگرام پیش کرتے تھے " ڈاکٹر سلام" اس کی یاد آجاتی ہے۔ اور وہ ان کا بہت ہی بے مایہ، مہمل باتیں کرنے والا اور بہت زیادہ بولنے والا وزیرخارجہ جو مستقل طور پر یہاں اور وہاں، بغیر سوچے سمجھے مہمل، اول فول اور غیر معقول باتیں کرتا رہتا ہے؛ البتہ اس کا اثر پڑتا ہے؛ ان لوگوں کا وجود امریکا سے اقوام اور حکام کی نفرت بڑھنے میں موثر ہوا ہے، لیکن بات صرف یہی نہیں ہے؛ امریکا کی طویل المیعاد کارکردگی، امریکا کی جنگ افروزی، افغانستان، عراق اور شام اور بہت سے ملکوں میں امریکا کی کارکردگی کی تاثیر بھی ہے۔ صراحت کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے شام میں فلاں جگہ فوج اس لئے اتاری ہے کہ وہاں تیل ہے؛ یعنی صراحت کے ساتھ اس کا اعلان کرتے ہیں، اتنی ذلالت۔ البتہ نہ عراق میں اور نہ ہی شام میں ، امریکی باقی نہیں رہیں گے ان کو یہاں سے نکلنا ہی پڑے گا، یقینا نکلیں گے، اس میں شک نہیں ہے یعنی نکالے جائيں گے ۔ لیکن ان کا طرز عمل یہ ہے ۔ قتل عام ، جنگ افروزی ، بدنام اوراستبدادی حکومتوں کی مدد جو واقعی دنیا میں بدنام ہیں، جو جرائم انھوں نے کئے ہیں، جنگوں کی جو آگ انہوں نے بھڑکائی، دہشت گردوں کی جو پرورش انھوں نے کی ہے غاصب  صیہونی حکومت کے ظلم و ستم کی جو بے دریغ حمایت انہوں نے کی ہے اور بے انصافیاں  کی ہیں اور حالیہ دنوں میں کورونا کے مسئلے میں جو شرمناک بد انتظامی سامنے آئي ہے، یہ سب  امریکا سے نفرت کے اسباب و موجبات ہیں؛ اب اسی امریکا کو بعض لوگ اچھا بناکے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

8)   علمی و سائںسی پیشرفت پر توجہ

 بعد کا نکتہ جو آٹھواں نکتہ ہے، علمی و سائنسی پیشرفت کا مسئلہ ہے۔ سائنسی پیشرفت کے مسئلے پر میں نے برسوں  زور دیا ہے اور اب بھی اس پر زور دیتا ہوں۔ میں پھر عرض کرتا ہوں کہ العلم سلطان، (2) علم اقتدار ہے ، علم طاقت ہے، علم حاصل کرنا چاہئے۔ یونیورسٹیوں کےماحول میں، تحقیقات اور ریسرچ کی فضا میں علمی مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس بات پر بھی توجہ دیں کہ میں جو علم و سائںس کے مسئلے پر زور دیتا ہوں تو یہ اس لئے ہے کہ علم و سائنس ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ علم مستقبل کی ترقی و پیشرفت کے لئے ضروری ہے۔ علم و سائںس اسی چیزکے لئے ہے جس کے لئے میں نے برسوں قبل کہا ہے کہ پچاس سال میں ہمیں اس جگہ پر پہنچ جانا ہے کہ جو بھی نئي سائںسی و علمی معلومات سے بہرہ مند ہونا چاہے وہ فارسی زبان سیکھنے پر مجبور ہو؛ اس نیت اور اس ہدف کے ساتھ علم و سائنس میں آگے بڑھیں ۔ جن لوگوں نے دنیا میں علم و سائںس کو آگے بڑھایا، وہ وہی لوگ ہیں جو اس طرح کے اہداف کے ساتھ آگے بڑھے تھے ورنہ اگر ہم وقتی اور ذاتی فائدے کے لئے علم حاصل کریں تو اس کی زیادہ اہمیت نہیں ہے؛ علم و سائنس پر اسی مستقبل کے وسیع تر افق کے نقطہ نگاہ سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

9) یونیورسٹیوں میں حجاب اور اسلامی شرم و حیا کی اہمیت میری نویں سفارش ۔ یونیورسٹیوں میں حجاب اوراسلامی شرم و حیاء کے بارے میں ہے۔ مجھے اس کی فکر ہے میں چاہتا ہوں کہ یونیورسٹیوں کے سربراہان اور ذمہ دارعہدیداران بھی اور یونیورسٹیوں سے متعلق وزارتخانوں کے شعبوں کے ڈائریکٹر حضرات بھی اور  خود طلبا اور بالخصوص طالبات بھی حجاب اور عورتوں اور مردوں کے درمیان فاصلے کو اہمیت دیں جس کو اسلام نے اہمیت دی ہے اور یونیورسٹیوں میں شرعی اصولوں کی پابندی کریں۔ 

10)دشمنوں کی جانب سے ملک کے نوجوانوں کی اپنی نیابتی فوج میں بھرتی پر توجہ

 آخری نکتہ یہ ہے کہ خود نوجوان بھی اور وہ لوگ بھی جو نوجوانوں اور ان سے متعلق تنظیموں کے مسائل سے سروکار رکھتے ہیں، یہ جان لیں کہ جس طرح ہم ملک کے مستقبل اور ملک کی پیشرفت کے لئے نوجوانوں کے مسئلے کو اہمیت دیتے ہیں، اسی طرح ہمارے دشمن اس ملک کی تخریب اور انقلاب کو ناکام بنانے کے لئے نوجوانوں کے مسئلے کو اہمیت دیتے ہیں۔ وہ بھی نوجوانوں کے کردار سے واقف ہیں۔ سب اس بات پر توجہ رکھیں کہ وہ ہمارے نوجوانوں پر کام کر رہے ہیں، وہ ہمارے نوجوانوں سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ بھی اس کی فکر میں ہیں اور اس کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں؛ بعض جگہوں پر انہیں ملک کے اندر موجود افراد کی ضرورت ہوتی ہے، ملک کے اندر نوجوانوں پر کام کرتے ہیں؛ بعض جگہوں پر انہیں ضرورت ہوتی ہے کہ ایک نوجوان کو اس بات پر مجبور کریں کہ وہ ملک سے منھ موڑ لے اور چلا جائے۔ ہم نے دیکھا ہے، ایسا ہوتا ہے؛ فنکاروں، کھلاڑیوں،  نیم تعلیم یافتہ دینی طلبا اور یونیورسٹیوں کے طلبا کو شورشرابے کے ساتھ اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ ملک سے باہر چلے جائيں؛ نوجوانوں کے تعلق سے دشمن اس طرح کے کام کر رہے ہیں۔ سب اس بات پر توجہ اور خیال رکھیں کہ اس ملک کے نوجوانوں کو اپنی نیابتی فوج میں بھرتی کرنے میں دشمن کی مدد نہ کریں۔

دعا ہے کہ خداوند عالم آپ سب کو اپنے کرم و تفضل سے بہرہ مند کرے۔ میں نوجوانوں کے لئے بغیر کسی وقفے کے، ہر روز کم سے کم ایک بار ضرور دعا کرتا ہوں؛ آپ نوجوانوں اور ملک کے سبھی نوجوانوں کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خدا ان کی مدد کرے۔ خدا ان کی ہدایت کرے۔ خدا ان کو سعادت عطا کرے،  خدا ان کی مشکلات کو برطرف کرے؛ روزگار کی مشکلات، شادی کی مشکلات، اور دیگر جو گوناگوں مشکلات ہیں ان سب کو برطرف کرے۔ آئندہ بھی ان شاء اللہ دعا کروں گا۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم ان دعاؤں کو مستجاب کرے گا۔ مستجاب کرے گا۔ یقینا ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کا آںے والا کل  خدا کی توفیق اور حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ ) کے تفضلات کی برکت سے آج سے بہتر ہوگا۔ آپ سے (یعنی حضرت امام مہدی عج اللہ تعالی فرجہ الشریف سے ) توسّل ہمیشہ یاد رکھیں اور آپ سے مدد، نصرت اور دعا کی التجا کریں ۔امید ہے کہ خدا وند عالم آپ (امام مہدی علیہ الصلوات والسلام کے) قلب مطہر کو آپ لوگوں کے لئے ہمارے لئے، سبھی مسلم اقوام کے لئے اور ہماری عزیز قوم کے لئے مہربان کرے گا اور مہربان باقی رکھے گا اور ہمیں اس مہربانی کے لائق بنائے گا ۔ میں اپنے امام (امام خمینی رحمت اللہ علیہ) کی  روح پاک اور شہیدوں کی ارواح پر درود و سلام بھیجتا ہوں اور خدا سے ان کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتا ہوں۔ (حضرات نے جو انگوٹھیوں کی فرمائش کی ہے اور ان محترم خاتون نے اشارتا کہا ہے، اسی طرح 'چفیئے' (انگوچھے)، قران کریم اور دوسری چیزوں کی جو فرمائش کی ہے، ان شاء اللہ سب کو پیش کریں گے۔ )

 والسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

1)اس سمجھوتے کے مطابق ایران کے فوجی اور مالیاتی ادارے انگریزوں کی نگرانی میں ہوتے اور ریلوے نیز ہمواراور بنی ہوئی سڑکیں بھی ان کے حوالے کردی جاتیں۔

2) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد 20 صفحہ 319

نوٹ: اس خطاب کو اپ ڈیٹ کیا جائے گا