مگر میری ایسی حالت نہیں تھی کہ بخوبی سمجھ پاتا کہ یہ کیسا واقعہ ہے؟ بلکہ شاید میں پوری طرح ہوش میں بھی نہیں تھا۔ تاہم مجھے یہ یاد ہے کہ مجھے کچھ بتایا گيا جسے میں بعد میں بھول گیا۔ کیونکہ غالبا میری نیم بے ہوشی والی کیفیت تھی۔ بار بار آپریشن کیا جا رہا تھا، درد بھی بہت زیادہ تھا تو مجھے بے ہوشی جیسی کیفیت میں رکھا گیا تھا۔ یعنی آپریشن کے بعد کی جو خاص ذہنی حالت ہوتی ہے وہ طاری تھی۔ 
اس واقعے کو ایک ہفتہ یا آٹھ دن کا وقت گزر چکا تھا۔ میرا اصرار تھا کہ مجھے ریڈیو اور اخبار لاکر دیا جائے مگر وہ (ساتھ میں موجود افراد) کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ مجھے اس سانحے کی خبر نہ ہو۔ میرے آس پاس جو افراد تھے وہ میرے اصرار کو ٹال نہیں کر سکتے تھے اس لئے مجبورا انھوں نے سانحے کے بارے میں مجھے بتایا۔ اس سانحے کے بارے میں مجھے جو شخص اطلاع دے سکتا تھا وہ جناب ہاشمی صاحب کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ یعنی لوگوں کو معلوم تھا کہ ہمارے درمیان جس قسم کا رابطہ ہے اس کے مد نظر وہ کسی نہ کسی شکل میں اس مسئلے کا ذکر کر سکتے تھے اور انہوں نے یہی کیا۔ البتہ میں متوجہ نہیں تھا۔ ایک دن شام کے وقت ہاشمی صاحب اور جناب احمد آقا فرزند ا مام میرے پاس آئے۔ میرے ساتھ جو افراد تھے ان میں سے ایک نے انھیں بتایا کہ میں ریڈیو اور اخبارات مانگ رہا ہوں جبکہ یہ مناسب نہیں ہے، آپ کا کیا خیال ہے۔ اگر آپ کہئے تو ہم دے دیں؟ بات اس طرح شروع کی۔
ہاشمی صاحب نے اپنے شیریں لہجے میں جس کی مدد سے وہ ہمیشہ مسئلے کو بہت نرم اور قابل ہضم بنا دیتے تھے، اس سانحے کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں، ریڈیو لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ باہر جو خبریں ہیں وہ بہت اچھی اور شیریں ہیں تو انھیں بھی ان کی خبر ہونی چاہئے۔ میں سمجھ گیا کہ کچھ تلخ خبریں ہیں۔ میں نے کہا کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ یہی سب ہے کہ دھماکہ کر دیتے ہیں، کچھ لوگ شہید ہو جاتے ہیں، کچھ زخمی ہو جاتے ہیں۔ اس انداز سے انھوں نے مجھے سانحے کے بارے میں ایک اطلاع دے دی۔ میں نے پوچھا کہ کون سے افراد شہید ہوئے، کون لوگ زخمی ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ آقائے بہشتی زخمی ہیں۔ میں بہت گھبرا گیا۔ یہ خبر سنتے ہی میں مضطرب ہو گیا کہ آقائے بہشتی کو سانحہ پیش آیا ہے اور وہ زخمی ہو گئے ہیں۔ 
میں نے پوچھا کہ ان کی کیسی حالت ہے؟ وہ کہاں ہیں؟ کیا صورت حال ہے؟ جواب دیا کہ اسپتال میں ہیں، لیکن تشویش کی بات نہیں ہے۔ میں نے پوچھا کہ کس حد تک زخمی ہیں؟ جواب دیا کہ بس زحمی ہیں، پریشان ہیں۔ میں نے پوچھا کہ مجھ سے زیادہ بری حالت ہے یا مجھ سے بہتر حالت میں ہیں؟ میں اندازہ لگانا چاہتا تھا کہ کیا صورت حال ہے۔ انھوں نے کہا کہ بس اسی طرح ہیں، اب آپ کے لئے مناسب نہیں ہے کہ تحقیقات شروع کر دیں۔ مختصر یہ کہ باہر کی خبریں زیادہ شیریں نہیں ہیں، زیادہ اچھی نہیں ہیں۔ کچھ لوگ شہید بھی ہو گئے ہیں۔
وہ مجھے تشویش میں ڈال کر چلے گئے۔ میں سمجھ گیا تھا کہ واقعہ بہت اہم ہے جس میں آقائے بہشتی بھی زخمی ہو گئے ہیں۔ جانے سے پہلے میں نے ان سے کہا کہ جہاں تک ممکن ہو ان کی دیکھ بھال کی جائے۔ ملک کے تمام طبی وسائل بروئے کار لائے جائیں اور جتنی جلد ممکن ہو آقائے بہشتی کو بچایا جائے۔ ایسا نہ ہونے پائے کہ خدانخواستہ ان کے لئے کوئی مشکل پیش آئے۔ 
جب یہ لوگ چلے گئے تو اپنے پاس موجود افراد سے جن کو یہ نہیں معلوم تھا کہ سانحے کے بارے میں مجھے کتنی اطلاعات مل چکی ہیں، رفتہ رفتہ میں نے ساری معلومات حاصل کر لیں۔ یعنی میرے پاس جو افراد تھے میں نے دھیرے دھیرے ان سے سب کچھ معلوم کر لیا اور سمجھ گیا کہ وہ شہید ہو گئے۔ ظاہر ہے یہ میرے لئے بہت سخت مرحلہ تھا۔ حالانکہ مجھے سانحے کی ساری تفصیلات ابھی نہیں معلوم تھی اور اس میں شہید ہونے والے افراد کے بارے میں نہیں جانتا تھا کہ کتنی تعداد میں ہیں۔ تاہم خود آقائے بہشتی کی شہادت ہی میرے لئے ایک غیر معمولی جھٹکا تھا۔ بہت دنوں تک میری حالت خراب رہی، ذرا سی بات پر مجھے یہی تلخ واقعہ یاد آ جاتا تھا۔ بہرحال یہ چیز میرے لئے بہت سخت اور بہت تلخ تھی۔ 

~امام خامنہ ای 
22 جون 1996