آج کا دن جو امام محمد تقی علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے ایک مناسب موقع ہے کہ حضرت کی زندگی سے متعلق کچھ باتیں اختصار سے عرض کروں۔
ہمارے اماموں میں امام محمد تقی علیہ السلام کی زندگی تقریبا منفرد اور کم نظیر ہے۔ کیونکہ آپ کی امامت کا دور 17 سال کا تھا جبکہ آپ کی پوری عمر مبارک محض 25 سال تھی۔
زندگی کے یہ پچیس سال جدوجہد میں گزرے۔ آپ دو یا تین سال کے تھے کہ آپ کے والد آٹھویں امام کو مدینہ سے جبرا جلا وطن کرکے خراسان اور طوس بلا لیا گیا۔ آپ اسی کمسنی سے ہی تنہائی اور والد سے دوری کی سختیاں برداشت کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس کے بعد آپ سات یا آٹھ سال کے تھے، روایتوں میں ویسے نو سال کی عمر ذکر کی گئی گئی ہے لیکن اگر حساب کیا جائے تو سات یا آٹھ سال ہوں گے۔ آپ تقریبا آٹھ سال کے تھے کہ طوس میں آپ کے والد گرامی کو شہید کر دیا گيا اور امامت کا بے حد سنگین فریضہ آپ کے دوش پر آن پڑا۔ اس کے بعد آپ نے سترہ سال مسلسل جدوجہد میں گزارے۔ ان تین اماموں یعنی امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانے میں جیسا کہ روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے اہل بیت اور علوی حکومت کا رجحان عالم اسلام میں وسیع طور پر پھیلا۔ مثال کے طور پر جب آپ درجہ امامت پر فائز ہوئے تو راوی نقل کرتا ہے کہ ہم مدینے میں امام محمد تقی علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے۔ ہم نے دیکھا کہ دنیائے اسلام کے گوشہ و کنار سے لوگ امام محمد تقی علیہ السلام سے ملنے آئے تھے۔
یہی صورت حال بعد میں بھی رہی یعنی سنہ 220 ہجری میں جب معتصم عباسی نے جو مامون کا بھائی تھا اور مامون کے بعد تخت خلافت پر بیٹھا تھا، حضرت کو مدینے سے بغداد بلوایا، اس سال کے ماہ محرم میں وہ حضرت کو بغداد بلواتا ہے اور اسی سال کے آخر میں یعنی 30 ذیقعدہ 220 ہجری قمری کو حضرت کو شہید کر دیا گیا، آپ کو زہر دے دیا گیا۔ چور کے ہاتھ کاٹنے کا وہ مشہور واقعہ اسی دوران پیش آیا۔ چور کو دربار میں پیش کیا گیا تھا۔ معتصم نے علما سے پوچھا کہ چور کے ہاتھ کہاں سے کاٹوں۔ کسی نے کہا کلائی سے، کسی نے کہا کہنی سے، کسی نے کچھ اور کہا۔ خلیفہ نے حضرت کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ آپ بتائیے کہ کہاں سے ہاتھ کاٹا جائے۔ پہلے تو حضرت نے جواب دینے سے اجتناب کیا، مگر بعد میں کہا کہ انگلیوں کو کاٹا جائے۔ ہر کوئی اپنے نظرئے کی قرآنی دلیل پیش کر رہا تھا لیکن حضرت نے جو دلیل پیش کی وہ سب پر بھاری تھی۔ اس واقعے کو قاضی احمد بن ابی داؤد نے نقل کیا ہے جو معتصم کے زمانے میں قاضی تھے۔ میں اس روایت سے بس ایک نکتہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔ قاضی نے کہا کہ امام محمد تقی کی دلیل کے بعد سب شرمندہ ہو گئے اور وہاں سے چلے گئے، خلیفہ نے امام محمد تقی کی دلیل قبول کی تھی۔ اگلے دن یا دو تین دن بعد میں معتصم کے پاس گيا اور کہا کہ اے خلیفہ! آپ نے جو کیا وہ مناسب نہیں تھا۔ خلیفہ نے پوچھا کہ کیوں؟ میں نے کہا اس لئے کہ آپ کے سامنے تمام عالم اسلام کے علماء جمع تھے، آپ نے ان سے فتوی دریافت کیا، سب نے اپنی اپنی بات کہی، آپ نے کسی کا فتوی نہیں مانا بلکہ اس نوجوان کا فتوی مان لیا جس پر عالم اسلام کا ایک بڑا حصہ گہرا عقیدہ و ایمان رکھتا ہے۔۔۔ یہ جملہ راوی ابن ابی داؤد کا ہے، سمجھدار اور آگاہ قاضی کا جملہ ہے۔ راوی نے یہ بات بالکل صحیح کہی تھی۔
دنیائے اسلام کا بڑا حصہ اس وقت امام محمد تقی کی طرف متوجہ تھا۔ امام علی رضا علیہ السلام کے بعد ہمارے تین اماموں نے علوی و قرآنی حکومت کے لئے سازگار حالات پیدا کرنے کی بھرپور جدوجہد کی اور ایسا نیٹ ورک تیار کرنے کی فکر میں رہے جو امام عصر کی غیبت کے زمانے میں بھی انتشار کا شکار نہ ہو بلکہ مضبوطی سے قائم رہے۔ اس زمانے کے خلفاء اسی چیز سے ہراساں رہتے تھے۔
مامون نے امام محمد تقی علیہ السلام سے اپنی بیٹی کی شادی بھی کر دی تھی۔ کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہو گئی کہ مامون کو امام سے دشمنی نہیں تھی۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ مامون نے امام علی رضا علیہ السلام کو شہید کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ سات سال کے امام محمد تقی علیہ السلام کو اپنے پاس رکھے تاکہ وہ نظر کے سامنے رہیں اور بعد میں اس نے بیٹی کی شادی بھی کر دی، اس طرح امام کے گھر میں جاسوس پہنچا دیا۔ اگر مامون زںدہ رہتا تو اسی کے ہاتھوں امام کی شہادت ہوتی۔ وہ تو قدرت نے اسے موقع نہیں دیا۔ امام چودہ یا پندرہ سال کے تھے کے مامون کی موت ہو گئی جس کے بعد معتصم نے یہ بھیانک جرم انجام دیا۔ سنہ 220 ہجری میں عباسی خلافت اس نتیجے پر پہنچی کہ اب امام کو شہید کر دینا ضروری ہے۔
امام محمد تقی علیہ السلام کے یوم شہادت پر امام بارگاہ مہدیہ تہران میں تقریر سے چند اقتباسات
17 اگست 1985