امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے ایام کی آمد کی مناسبت سے آیت اللہ خامنہ ای کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR   آپ کی تقاریر کے اقتباسات کی روشنی میں قیام عاشور کے نتائج، خصوصیات اور اہداف کا ایک خاکہ  پیش کر رہی ہے۔ مندرجہ ذیل مطالب میں قیام عاشورا کی خصوصیات کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔

عاشور کا واقعہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ یہ محض تاریخی واقعہ نہیں تھا، واقعہ عاشور امت اسلام کے لئے ایک ثقافت، ایک دائمی تحریک اور ابدی قابل تقلید نمونے کا سرآغاز تھا (25 جنوری 2006)۔  حقیقت یہ ہے کہ حسین ابن علی علیہ السلام نے اپنے جہاد کی برکت سے اسلام کو نئی زندگی دی(24 مئی 1995)۔  ایسا واقعہ منفرد خصوصیات اور اوصاف کا حامل ہے جو اسے تاریخ کے دیگر واقعات اور انقلابات سے ممتاز بناتے ہیں اور اسی وجہ سے عاشور کے قیام نے اسلام کی تقدیر سنوارنے اور اس کی حفاظت میں بڑا بنیادی کردار ادا کیا۔

ان میں بعض خصوصیات حسب ذیل ہیں؛

۱. اخلاص

قیام حسینی کی انفرادیت و ابدیت کا راز

قیام حسینی کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک اخلاص ہے۔ حسین ابن علی کی تحریک صرف اور صرف، خالصتا اللہ کے لئے، دین کے لئے اور مسلمانوں کی اصلاح کے لئے تھی، اس میں کسی طرح کا کوئی اور شائبہ نہیں تھا۔ یہ جو حسین ابن علی علیہ السلام نے فرمایا: «انّی لم اخرج اشراً و لابطراً و لاظالماً و لامفسداً» خود نمائی نہیں ہے، اپنا لوہا منوانا مقصد نہیں ہے، اپنے لئے نہیں، کسی چیز کی طلب کے لئے نہیں، نمائش کے لئے نہیں۔ ذرہ برابر ستم اور فساد اس تحریک میں نہیں ہے۔ «و انما خرجتُ لطلب الاصلاح فی امّة جدّی» یہ بڑا کلیدی نکتہ ہے۔ انّما: بس یہی، یعنی کوئی دوسرا ہدف و مقصد اس پاکیزہ نیت، آفتاب کی مانند جگمگاتے ذہن کو مکدر نہیں کر سکتا (16 جنوری 1994)۔

یہی اخلاص امام حسین علیہ السلام کے قیام کی ابدیت کا ضامن ہے؛

امام حسین علیہ الصلاۃ و السلام کا عمل ایسا ہے جس میں سوئی کی نوک کے برابر بھی کسی اور نیت کی آمیزش نہیں ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ یہ خالص عمل آج تک باقی ہے اور تا ابد باقی رہے گا (16 جنوری 1994)۔

 

۲. عقل و منطق

امام حسین علیہ السلام کی تحریک عقل و منطق پر استوار تحریک تھی۔ اسلامی معاشرہ امام کا معاشرہ ہے۔ لیکن بنی امیہ نے اسلام میں امامت کی جگہ ملوکیت اور بادشاہت رائج کر دی (9 جون 1996)۔  ایسے حالات میں مسند اقتدار پر بیٹھنے والا یزید نہ تو عوام الناس سے کوئی رابطہ رکھتا تھا، نہ اس کے پاس علم تھا، نہ پرہیزگاری تھی، نہ پاکدامنی تھی، نہ پارسائی تھی، نہ راہ خدا میں جہاد کا کوئی ماضی تھا، نہ اسلام کے روحانی امور پر اس کا کوئی عقیدہ تھا، نہ اس کا طرز عمل مومنانہ تھا نہ گفتار حکیمانہ تھی۔ اس کی کوئی بھی خصوصیت پیغمبر سے مشابہت نہیں رکھتی تھی۔ ایسے حالات میں حسین ابن علی علیہ السلام کے لئے جو پیغمبر کی جانشینی کی مکمل شائستگی رکھتے تھے، ایک مرحلہ پیش آیا اور آپ نے قیام کیا (14 اپریل 2000)۔

حسینی تحریک اس حکمرانی کے خلاف بغاوت کی فکر پر مبنی تھی جس نے اسلامی امت پر سب سے بڑا انحراف مسلط کر دیا تھا۔

اس تحریک میں عقل و منطق کا عنصر حضرت کے بیانوں میں نمایاں ہے۔ تحریک کے آغاز سے پہلے بھی، مدینہ میں آپ کی موجودگی کے وقت سے آپ کے یوم شہادت تک۔ یہ نورانی بیانات بڑی پختہ منطقی فکر کو پیش کرتے ہیں (25 جنوری 2006)۔

منجملہ:

حضرت دشمن فوج سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «ایّها النّاس، انّ رسول‌ الله (صلّی‌ الله ‌علیه‌ و آله) قال: «من رأی سلطاناً جائراً مستحلاً لحرام الله، ناکثاً لعهد الله، مخالفاً لسنّة رسول‌ الله یعمل فی عباد الله بالاثم و العدوان ثم لم یغیّر بقول و لا فعل کان حقّاً علی الله ان یدخله مدخله» یعنی اگر معاشرے میں کوئی کسی حاکم کو دیکھے جو ظلم کر رہا ہے، حرام خدا کو حلال سمجھتا ہے، حلال خدا کو حرام قرار دیتا ہے، حکم الہی کو نظر انداز کرتا ہے، اس پرعمل نہیں کرتا، دوسروں کو اس پر عمل کی ترغیب نہیں دلاتا، یعنی لوگوں کے درمیان گناہ، عناد اور ظلم کر رہا ہے، بدعنوان، ظالم و جابر حکمراں ہے جس کا مکمل مصداق یزید تھا، «و لم یغیّر بقول و لافعل»، اور اپنی زبان اور عمل سے اس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتا تو «کان حقّاً علی الله ان یدخله مدخله» اللہ تعالی قیامت کے دن اس خاموش تماشائی، بے پروا اور بے عمل شخص کو اسی ظالم کے انجام میں مبتلا کرے گا، یعنی اسے اسی کی صف میں اور اسی کے زمرے میں قرار دے گا۔ یہ پیغمبر نے فرمایا ہے (9 جون 1995)۔  

 

۳.  وقار

حضرت امام حسین کے قیام کی ایک اور خصوصیت تھی وقار:

امام حسین کی تحریک وقار کی تحریک تھی۔ یعنی حق کے وقار، دین کے وقار، امامت کے وقار اور اس راستے کے وقار کی تحریک تھی جو پیغمبر نے پیش کیا تھا۔ امام حسین علیہ السلام وقار کا مظہر تھے اور جب ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہو گئے تو مایہ فخر و مباہات قرار پائے۔ یہ حسینی وقار و افتخار ہے۔ کبھی کوئی شخص ایک بات کہتا ہے۔ اپنی بات کہہ دیتا ہے اپنا ما فی الضمیر بیان کرتا ہے لیکن اس بات پر قائم نہیں رہتا بلکہ کبھی پسپائی بھی اختیار کر لیتا ہے۔ ایسے شخص کو افتخار کرنے کا حق نہیں ہے۔ افتخار کا حق اس انسان، اس قوم اور اس جماعت کو ہے جو اپنی بات پر قائم رہے اور جو پرچم اس نے بلند کر دیا ہے اسے کسی طوفان اور کسی ہوا کے جھونکے سے گرنے نہ دے۔ امام حسین علیہ السلام نے اس پرچم کو بڑی مضبوطی سے تھامے رکھا (29 مارچ 2002)۔

یہ خصوصیت تحریک حسینی میں جا بجا نظر نظر آتی ہے:

امام حسین نے جب ایک شب کی مہلت لی تب بھی آپ کا انداز پروقار تھا۔ آپ جب فرماتے ہیں: «هل من ناصرٍ» طلب نصرت کرتے ہیں تب بھی آپ کا انداز پروقار ہے۔ جب مدینے سے کوفے کے سفر میں ہیں اور مختلف افراد سے آپ کی ملاقات ہوتی ہے اور ان سے گفتگو ہوتی ہے اور ان میں بعض کو آپ اپنے ساتھ آنے کی دعوت دیتے ہیں تو یہ دعوت بھی کمزوری اور ناتوانی کے احساس کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ بڑی نمایاں خصوصیت ہے (25 جنوری 2006)۔

۴.  بیکسی و مظلومیت

امام حسین علیہ السلام ظلم و جور کے خلاف اپنی تحریک اور جدوجہد میں اسلام کے احیاء کے لئے بے کسی کے عالم میں میدان میں اترے۔

سب سے سخت جدوجہد وہ ہے جس میں انسان تنہا ہو۔ عاشورا کے واقعے میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ عبد اللہ ابن عباس اور عبد اللہ ابن جعفر جیسے افراد بھی جو خود خاندان بنی ہاشم اور اسی شجرہ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں، مکے میں یا مدینے میں قیام کرنے اور آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کر پائے، امام حسین کے نام کا نعرہ نہیں لگا سکے۔ ایسی جدوجہد تنہائی کی جدوجہد ہے جو سب سے سخت جدوجہد ہوتی ہے۔ ہر کوئی دشمنی پر تلا ہوا، ہر کوئی روگردانی پر مصر! امام حسین علیہ السلام کی جدوجہد میں بعض احباب بھی مخالف ہو گئے۔ حضرت نے ایک سے فرمایا: 'میرے ساتھ آؤ' مگر اس نے نصرت کے بجائے اپنا گھوڑا امام حسین کے پاس بھیج دیا اور کہا کہ آپ میرا گھوڑا استعمال کیجئے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا تنہائی ہوگی، اس سے زیادہ شدید غربت کا عالم کیا ہوگا؟! پھر اس عالم غربت کے جہاد میں آپ  کے پیارے آپ کی آنکھوں کے سامنے شہید ہو گئے (7 جون 1994)۔

امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت آپ کی اسی تنہائی کا نتیجہ ہے

امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ایک ہزار سے زائد افراد مکے سے روانہ ہوئے یا راستے میں آپ سے ملحق ہوئے مگر عاشور کی شب گنے ہوئے افراد آپ کے ہمراہ تھے، عاشور کے دن جب چند افراد آپ سے آکر ملے ان سب کو ملاکر مجموعی تعداد بہتر ہوئی۔ یہ مظلومیت ہی تو ہے۔ مگر یہ مظلومیت حقارت و ذلت کے معنی میں نہیں ہے۔ امام حسین علیہ السلام تاریخ اسلام کے سب سے عظیم مجاہد ہیں۔ کیونکہ آپ اس میدان میں ثابت قدمی سے کھڑے رہے، ہراساں نہیں ہوئے اور جہاد میں مشغول رہے۔ مگر اس عظیم ہستی کی جتنی عظمت ہے مظلومیت بھی اتنی ہی شدید ہے۔ آپ جتنے عظیم انسان ہیں اتنے ہی مظلوم بھی ہیں۔ عالم غربت میں آپ شہید ہوئے (1 جولائی 1992)۔

یہی چیز اس تحریک اور اس راہ کے شہیدوں کی عظمت کا راز بھی ہے؛

شہدائے کربلا کی عظمت اسی وجہ سے ہے۔ یعنی انہوں نے اپنے فریضے کو سمجھا، فریضہ راہ خدا اور راہ دین میں جہاد تھا۔ وہ دشمن سے نہیں ڈرے، تنہائی سے نہیں گھبرائے، وحشت میں مبتلا نہیں ہوئے، اپنی تعداد کی کمی کو دشمن کے سامنے اپنی پسپائی کا جواز نہیں بنایا۔ یہی چیز انسان کو، کسی رہنما اور کسی ملت کو عظمت عطا کرتی ہے۔ دشمن کی کھوکھلی عظمت سے نہ ڈرنا (1 جولائی 1992)۔

 

۵.  روحانیت و بندگی

اللہ کے سامنے سر تسلیم خم رکھنا، یہ بھی ایسی خصوصیت ہے جو کربلا کی پوری تحریک میں ہر جگہ جلوہ گر ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے مختلف مواقع پر اپنے عمل سے اس خصوصیت کا مظاہرہ کیا۔

امام حسین علیہ السلام کے طرز عمل میں روحانیت، وقار اور سربلندی کے ساتھ ہی ساتھ بندگی اور اللہ کی بارگاہ میں سراپا تسلیم رہنا بھی وہ خصوصیت ہے جو نمایاں ہے۔ یہ چیز تمام مراحل میں رہی۔ جب سیکڑوں بلکہ ہزاروں خطوط اس مضمون کے ساتھ آئے کہ ہم آپ کے شیعہ اور مخلص افراد ہیں اور کوفہ و عراق میں آپ کے منتظر ہیں تو آپ کسی غرور میں مبتلا نہیں ہوئے۔ جب آپ نے تقریر کی اور فرمایا: «خط الموت علی ولد آدم مخط القلاده فی جید الفتاة» موت کی بات کی۔ نہیں کہا کہ ہم ایسا کر دیں گے، ویسا کر دیں گے۔ آپ نے دشمن کو دھمکیاں نہیں دیں اور حمایت کرنے والوں کو کوفہ میں بڑے بڑے عہدے دینے کا لالچ نہیں دیا۔ آپ نے خالص اسلامی انداز میں معرفت میں ڈوب کر اپنی تحریک آگے بڑھائی، بندگی اور تواضع کے ساتھ جدوجہد کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج سب کے ہاتھ ان کی جانب پھیلے ہوئے ہیں اور لوگ ان سے اظہار عقیدت کرتے ہیں۔ جب کربلا میں آپ کے سو سے بھی کم ساتھیوں کو تیس ہزار اوباشوں کے لشکر نے گھیر لیا اور ان سب کی جان خطرے میں پڑ گئی تب بھی آپ کے چہرے پر کہیں دور دور تک اضطراب نہیں تھا (14 اپریل 2000)۔