"گریٹر اسرائیل" کا ابتدائی تصور صیہونی ادب اور بعض صیہونی فکری تحریکوں میں بیسویں صدی کے آغاز سے ہی موجود رہا ہے اور فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے بعد اس نے عملی شکل اختیار کر لی۔ اس سے پہلے "سرزمین موعود"، "ارض اسرائیل" اور "سرزمین مقدس" جیسے الفاظ استعمال ہوتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں، "گریٹر اسرائیل" کا تصور محض ایک سادہ مذہبی تحریف نہیں بلکہ عصری دنیا کی ایک سیاسی تحریف ہے جس کی فطرت جارحانہ ہے اور یہ مختلف مواقع پر مذہبی، صیہونی، قانونی، سیکورٹی اور یہاں تک کہ توسیعی رنگ بھی اختیار کر سکتا ہے! 1967 کی چھے روزہ جنگ کے بعد، جب صیہونی ریاست نے غرب اردن اور غزہ کے علاوہ شام، مصر اور لبنان کے کچھ حصوں پر بھی قبضہ کر لیا، مذہبی صیہونی اور دائیں بازو کے دھڑوں نے ان علاقوں کو اسرائيل کا حصہ بنائے رکھنے کے جواز کے لیے "گریٹر اسرائیل" کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کر دیا۔
آگے چل کر یہ تصور گش ایمونیم (Gush Emunim) تحریک جیسے گروہوں کی نظریاتی بنیاد میں تبدیل ہو گیا، جو 1967 کی جنگ میں اس حکومت کی فتح کو سرزمین موعود میں یہودیوں کی مکمل واپسی کی ایک الہی علامت سمجھتے تھے اور رفتہ رفتہ یہ تصور لیکوڈ جیسی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی سیاسی آئيڈیالوجی میں شامل ہو گیا۔ اگرچہ 1980 کی دہائی میں گش ایمونیم کا شیرازہ بکھر گیا لیکن وہ کچھ انتہائی شدت پسند اور پرتشدد یہودی تحریکوں کی آئيڈیل اور فکری پشت پناہ بن گئی اور پچھلے دو عشروں میں اس کا فکری ورثہ اور سماجی نیٹ ورک "مذہبی صیہونیت" کی سوچ کی شکل میں اور اس حکومت کی اس وقت کی دائیں بازو کی شدت پسند جماعتوں جیسے "مذہبی صیہونی"، "یہودی طاقت"، "نعوم"، "توریتی یہودیت کا اتحاد" اور ان جیسی دوسری پارٹیوں کی صورت میں جاری ہے۔
فی الحال صیہونی بستیوں کا معاملہ، گریٹر اسرائیل منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے جس کی اہمیت صیہونیوں کے لیے تکنیکی پہلو سے زیادہ ماہیتی، علامتی اور نظریاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، گزشتہ عشروں سے بنائی جا رہی صیہونی بستیاں، صرف مقبوضہ علاقوں میں نئے سیٹلرز کو بسانے کا ایک منصوبہ نہیں ہیں، بلکہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو زندہ رکھنے کی کوشش ہیں۔ اس کے باوجود، طوفان الاقصیٰ اور صیہونی وزیر اعظم کے گریٹر اسرائیل کو عملی جامہ پہنانے کے بارے میں واضح اعلان سے پہلے تک عرب ممالک کے رہنما، صیہونی بستیوں کے مسئلے کو فلسطینی-اسرائیلی تنازعے کا ایک حصہ سمجھتے تھے اور عرب دنیا میں بہت کم ممالک اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔
اردن، فلسطین کے ابتدائی غاصبوں کی نظر میں فلسطینی آوارہ وطنوں کو بسانے کے لیے ایک مناسب مقام یا واضح الفاظ میں "آبادیاتی تصفیے اور فلسطینیوں کے مسئلے کے حتمی حل" کے لیے بہترین جگہ سمجھا جاتا تھا۔ وادئ اردن میں آبی وسائل پر کنٹرول، معاشی اثر و رسوخ اور سیکورٹی دباؤ، اسرائیل کے وسیع تر اثر و نفوذ کے حربے کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ اردن پر صیہونیوں کا کنٹرول اس جیو پولیٹیکل اثر و رسوخ کے نیٹ ورک کی تشکیل کی درمیانی کڑی کو مکمل کرتا ہے جو گریٹر اسرائیل کے پھیلاؤ کو آسان بناتا ہے۔ اگرچہ 1994 میں تل ابیب اور عمان کے درمیان ہونے والا امن معاہدہ اب بھی باقی ہے لیکن صیہونی نظریے کے مطابق دریائے اردن ایک عارضی سرحد ہے اور بعض تلمودی متون اور ربی ابراہم کوک اور ان کے شاگردوں کی تشریحات کے مطابق مشرقی اردن، جو قدیمی ادوم، موآب اور عمون کے علاقوں پر مشتمل ہے، بنی اسرائیل کی سرزمین موعود کے دائرے میں آتا ہے اور ایک دن اسے اسرائیل میں واپس آنا ہوگا۔
مصر برسوں تک تل ابیب کے لیے سب سے بڑے فوجی خطرے کے طور پر سمجھا جاتا تھا اور قاہرہ، صیہونیوں کے خلاف چار بڑی لڑائیوں میں علمبردار کی صورت میں سامنے آيا اور 1970 کی دہائی کے اواسط تک وہ اسرائیل مخالف عربی محاذ کا لیڈر سمجھا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ مصر عرب دنیا میں عربی قومیت پسندی کا ایک ستون سمجھا جاتا تھا جس کے دانشوروں کے نوآبادیاتی مخالف اور بیدار کرنے والے خیالات صیہونیوں کے لیے ایک ممکنہ خطرہ سمجھے جاتے تھے۔ اگرچہ 1978 کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے نے بظاہر صحرائے سینا مصر کو واپس دلا دیا لیکن قاہرہ، واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان چھپی ہوئی اور کھلی ہوئی تبدیلیوں اور تعاون نے مصر کو اسٹریٹیجی کے لحاظ سے کمزور کر دیا یا اسرائیل کے بعض مفادات کے ساتھ ہم آہنگ کر دیا۔ اسرائیل اب بھی صحرائے سینا کو سیکورٹی کے نقطۂ نظر سے اور جیو پولیٹکل لالچ کی نظر سے دیکھتا ہے۔ امریکا اور اسرائیل پچھلے عشروں کے دوران کوشش کرتے رہے ہیں کہ مصر، معاشی اور فوجی لحاظ سے کمزور اور مغرب کا فرمانبردار رہے تاکہ وہ کبھی بھی اپنے سنہری دور میں ایک آزاد اور صیہونییت مخالف کردار میں واپس نہ جا سکے۔ صیہونی سرغنہ، مصر کے معاشرے کی صورتحال اور اسرائیل کے بارے میں مصریوں کے جذبات سے بخوبی واقف ہیں۔ بہت سے مصریوں کا خیال ہے کہ اسرائیل اب بھی نوآبادیاتی اور عرب مخالف جذبہ رکھتا ہے اور امن تو امریکا کی جانب سے مسلط کردہ تھا، دوسرے لفظوں میں اسرائیل کے ساتھ امن، سماج کے عمومی ضمیر میں نہیں بلکہ صرف حکومتی محلوں میں قائم ہے۔ اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ ہرٹزل ہالوی کا یہ جملہ کہ "مصر کے پاس ایک بڑی فوج ہے اور یہ بات ہمیں تشویش میں ڈالتی ہے کیونکہ اس کے جدید جیٹ طیاروں، آبدوزوں اور میزائیلوں سے صورتحال ممکنہ طور پر ایک لمحے میں بدل سکتی ہے۔" اس کا سرچشمہ مصر سے صیہونیوں کا تاریخی خوف ہے۔ وہی مصر جس کی توانائی، ترقی اور قدیم تاریخ کی علامت یعنی دریائے نیل کو اسرائيلی "گریٹر اسرائیل" پروجیکٹ کا ایک حصہ سمجھتے ہیں اور مصر کو اپنے شائع کردہ اور اپنے فوجیوں کے یونیفارم پر چھپے ہوئے نقشوں میں شامل کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
شام اور مصر پین عرب ازم اور صیہونیت مخالف نیشنلزم کی سوچ کے سامنے آنے کے دو اہم اور بڑے مراکز رہے ہیں۔ خاص طور پر حافظ اسد کے اقتدار میں آنے کے بعد دمشق، خود کو فلسطینی کاز کا محافظ اور جمال عبدالناصر کی راہ کو جاری رکھنے والا سمجھتا تھا۔ شام نے 1948، 1967 اور 1973 کی جنگوں میں اسرائیل کے خلاف بھرپور طریقے سے حصہ لیا اور مصریوں کے برخلاف تل ابیب کے ساتھ سمجھوتے سے انکار کر دیا چاہے اس کی قیمت اسے جولان میں اپنے غصب شدہ علاقوں کی صورت میں ہی کیوں نہ چکانی پڑے۔ بعد کے عشروں میں شام، ایران کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کر کے اور مزاحمتی گروہوں کی میزبانی کر کے "مزاحمت کے گہوارے" میں تبدیل ہو گیا۔ اس کے مقابل صیہونیوں نے ہمیشہ فوجی دباؤ، مغربی پابندیوں اور اس ملک کی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھا کر شام کو الگ تھلگ کرنے اور مزاحمت کے محاذ سے الگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ شام، اسرائیل کے لیے صرف ایک سرحدی دشمن نہیں بلکہ مزاحمت کی سوچ کا فکری اور عملی مرکز رہا ہے، اسی لیے اس نے اس ملک کو کمزور بنانے، تقسیم کرنے اور اندر سے خالی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی لیے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی، اسرائیل نے نہ صرف شام کے بنیادی ڈھانچوں پر حملے بند نہیں کیے بلکہ شام کو تقسیم کرنے اور اسے "گریٹر اسرائیل" کے منصوبے سے جوڑنے کے لیے اپنی غاصبانہ پالیسیاں جاری رکھیں۔ اگرچہ صیہونی حکومت نے 1981 میں جولان کو اپنے مقبوضہ علاقوں میں شامل کرنے کی یکطرفہ طور پر منظوری دی تھی اور وہ اسے شام سے دوبارہ ملحق ہونے سے روکنے کو اپنے اسٹریٹجک اہداف میں سے ایک سمجھتی ہے لیکن پچھلے ایک سال کے واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ شام کے سلسلے میں اسرائیل کا لالچ صرف جولان تک محدود نہیں رہے گا۔ کمزور، بحران زدہ اور تقسیم شدہ شام، گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں اسرائیل کے ٹرمپ کارڈز میں سے ایک بن سکتا ہے۔
"نیا مشرق وسطیٰ" اور "اسرائیل سے تعلقات" جیسے الفاظ سے بظاہر تعاون اور ترقی کا وعدہ سمجھ میں آتا ہے لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ یہ چیزیں ان جغرافیائی اور سیاسی افقوں کو تیار کرنے کے لیے ایک خوبصورت بہانہ ہیں جس کا عملی ترجمہ "گریٹر اسرائیل" ہے۔ اس منصوبے کا اصل مقصد نہ صرف مزاحمتی محاذ ہے بلکہ عربی اور اسلامی دنیا کی سیاسی، معاشی اور ثقافتی خودمختاری اور آخر میں اس کا خاتمہ اور تقسیم ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے اثرات فلسطین، شام، مصر اور اردن تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ سرحدوں، ذخائر کی ملکیت اور مغرب کے مطلوبہ علاقائی نظام کی نئی تعریف پر منتج ہوں گے۔ امریکا اور مغرب بارہا کوشش کر چکے ہیں کہ خطے کے سلامتی کے نظام کو بدل کر اپنے جیو اسٹریٹجک منصوبوں کو مغربی ایشیا میں نافذ کر دیں لیکن ہر بار وہ ناکام رہے ہیں اور ان کی کارروائیوں سے مزاحمتی محاذ کی تقویت ہوئی ہے؛ جیسے 11 ستمبر کے بہانے خطے پر امریکا کی لشکر کشی، 2011 سے 2015 کے درمیان اسلامی بیداری کا غلط استعمال اور اب طوفان الاقصیٰ کے دور میں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نئے مشرق وسطیٰ کا تصور اور گریٹر اسرائیل کا منصوبہ پوری طرح سے ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی تقویت کرتے ہیں۔ اسرائیل سے تعلقات کا قیام، ان دو نئے نوآبادیاتی پروجیکٹس کے عملی جامہ پہننے کا پہلا قدم ہے۔
اس عمل کو بے اثر بنانے، علاقائی ممالک کو کمزور ہونے سے روکنے، خطے کے ممالک کی آزادی و خودمختاری کی حمایت کرنے اور مقامی جیو پولیٹیکل نظام کی طرف بڑھنے کے لیے ایک دوسرے کی طاقت بڑھانے والے چار شعبوں کی تقویت ضروری ہے:
مزاحمت: طوفان الاقصیٰ کے بڑے کارناموں میں سے ایک، مزاحمت کے دائرے کو وسیع کرنا اور اس کے پہلوؤں کو بڑھانا ہے۔ آج مزاحمت صرف ایران، عراق، لبنان، فلسطین اور یمن تک محدود نہیں ہے بلکہ اول تو اس نے عالمی پہلو اختیار کر لیا ہے اور اس میں قانونی، سیاسی، شہری، میڈیا اور ثقافتی میدان بھی شامل ہو گئے ہیں اور دوسرے یہ کہ خطے کے ممالک کے خلاف صیہونی حکومت کے کھلے اقدامات نے ثابت کر دیا ہے کہ اس توسیع پسندی کے مقابلے میں "مزاحمت" کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے، چاہے خطے کے بعض ممالک اپنے سیاسی اور سیکورٹی تحفظات کی بنا پر باضابطہ طور پر خود کو "مزاحمتی محاذ" کی تعریف میں شامل نہ کریں۔
اتحاد: "تفرقہ" سامراج کا روایتی حربہ ہے جسے آج مغرب نئے رنگ، نئے موضوعات اور نئے تصورات کے ساتھ آگے بڑھا رہا ہے۔ پھوٹ سے بچنے اور بیرونی بحرانوں اور دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے اجتماعی اور مقامی اسٹریٹیجیز کی تیاری کے لیے خطے کی حکومتوں کے درمیان سیاسی-معاشی اور سلامتی کے میدانوں میں ہم آہنگی کے اقدامات، بھلے ہی چھوٹے کیوں نہ ہوں، ان ضروریات میں سے ہیں جن سے خطے کے رہنما واقف ہیں، چاہے وہ اس کا اعتراف کرنے سے گریز کریں۔
آگہی: "نئے مشرق وسطیٰ" جیسے منصوبے جن میں علاقائی نظام کی مغربی سوچ پوشیدہ ہے اور جو اسلامی اقوام کی فکری و ثقافتی خودمختاری کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، درحقیقت "گریٹر اسرائیل" کے منصوبے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ اس عمل کے مقابلے میں، آگہی کا دائرہ بڑھانے اور بیانیوں کی جنگ کا اہم کردار ہے۔ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی جیسے منصوبوں کے پوشیدہ مقاصد کو بے نقاب کرنا، تاریخ کو دوبارہ بیان کرنا اور سامراج اور غاصبانہ قبضے کے برسوں کے تجربات کو یاد دلانا، جو آج نئی شکلوں میں جاری ہیں، اور اسی طرح پیشرفت، امن اور منصفانہ بقائے باہمی کے بارے میں مقامی خیالات و افکار کو فروغ دینا، اس سلسلے میں بہت مؤثر ہو سکتا ہے۔
نیا اسلامی تمدن: یہ اسلامی نمونہ، مغرب زدہ "نئے مشرق وسطیٰ" کے منصوبے کا متبادل ہے۔ نئے اسلامی تمدن کا مطلب یہ ہے کہ مسلم اقوام، مغرب کے مسلط کردہ نمونوں کی نقل کرنے کے بجائے اپنے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی مشترکات پر بھروسہ کرتے ہوئے پیشرفت، علم، ٹیکنالوجی، انصاف اور سلامتی کا راستہ اپنے اسلامی اقدار کی بنیاد پر طے کریں، بغیر اس کے کہ ان کے قومی تحفظات اور اقدار مجروح ہوں۔ ایسا تمدن نہ صرف "گریٹر اسرائیل" جیسے منصوبوں کے فکری و ثقافتی نفوذ کو روکتا ہے بلکہ اسلامی ممالک کے درمیان تعاون کے نیٹ ورک قائم کرکے سافٹ پاور اور حقیقی علاقائی یکجہتی پیدا کرتا ہے۔ ایسا نظام جس میں امن اور پیشرفت کا سرچشمہ، اقوام کی آزادی اور عزت ہے، نہ کہ باہری طاقتوں کی مسلط کردہ پالیسیاں۔
تحریر: اللہ کرم مشتاقی