جدید مشرق وسطی کی تشکیل میں امریکی پالیسیوں کی شکست
2001 میں جب اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارت سے ہوائی جہاز کے ٹکرانے کے بعد تقریر کر رہے تھے تو انہوں نے اس واقعے کو صلیبی جنگوں کا سر آغاز قرار دیا تھا اور فوری طور پر مسلمانوں پر الزام عائد کر دیا۔ یہ مشرق وسطی کا نقشہ تبدیل کرنے کے امریکی منصوبے کا آغاز تھا۔ مشرق وسطی کا نقشہ تبدیل کرنے سے کیا مراد ہے؟ مراد یہ ہے کہ عالمی استکبار کے مہرے ظالم صیہونیوں کو اس علاقے کا مالک و مختار بنا دیا جائے اور اس علاقے میں کوئی بھی ملک، حکومت، طاقت اور ملت ایسی نہ ہو جو صیہونیوں کے استعماری پنجے میں جکڑی ہوئی نہ ہو۔ (24 ستمبر 2003)
گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد افغانستان اور عراق پر امریکہ اور صیہونی حکومت کی لشکر کشی اور آشکارا و خفیہ عناد کا یک اور مقصد بھی تھا اور وہ تھا مسئلہ فلسطین کو حاشئے پر ڈالنا اور فرمواش کروا دینا۔ امریکیوں نے نیویارک اور واشنگٹن میں ہونے والے گیارہ ستمبر کے واقعے کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور وہ مسئلہ فلسطین کو دنیائے اسلام کے بنیادی موضوعات سے نکال کر حاشئے پر ڈالنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس اعتبار سے بھی امریکہ نے صیہونیوں کی سو فیصدی مدد کی۔ (31 جنوری 2002)
افغانستان اور عراق کی دلدل میں پھنس جانے کی وجہ سے امریکہ اپنے منصوبے کے مطابق مشرق وسطی کی تشکیل نہیں کر پایا تو لبنان کی طرف بڑھا تاکہ 2006 کے موسم گرما میں حزب اللہ پر صیہونی حکومت کے حملے کی ہمہ جہتی مدد کرکے جدید مشرق وسطی کی 'پیدائش کے درد' کو علاقے پر مسلط کرے۔ اس دفعہ بھی اس کی زد میں صرف لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک نہیں تھی۔
اپنی اس سازش کے تحت امریکیوں نے صیہونی حکومت کو اس جنگ میں اتارا تاکہ امریکہ کی پسند کے مطابق مشرق وسطی کی تسکیل کے سلسلے میں ایک بڑا اور عملی قدم اٹھایا جائے۔ (29 جولائی 2006)
امریکہ کی سابق وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے اولمرٹ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں جدید مشرق وسطی کی پیدائش سے پہلے کے درد کی بات کی تھی تو انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس خواب کے چکناچور ہونے میں محض چند دن باقی بچے ہیں اور جدید مشرق وسطی نام کا کوئی مولود پیدا ہی نہیں ہوگا!
دنیا میں سب یہ سمجھ چکے ہیں کہ مشرق وسطی کے حوادث کی کتاب میں، تینتیس روزہ جنگ میں، معرکہ کارزار میں اسرائیل کی کھلی ہوئی شکست اور لبنان کے حزب اللہ کی فتح کے بعد بالکل نیا باب شروع ہو گيا۔ علاقے میں امریکی جو منصوبہ نافذ کرنا چاہتے تھے وہ شکست سے دوچار ہوا۔ (24 اکتوبر 2006)
دو سال بعد جب مغربی ایشیا کے علاقے میں اپنے اہداف کی تکمیل میں ناکامی کی شرمندگی کے ساتھ ریپبلکن جارج بش نے عہدہ صدارت ڈیموکریٹ اوباما کو سونپا تو کچھ ہی گھنٹوں کے بعد اوباما نے بھی علاقے میں صیہونی حکومت کے تحفظ کی بھرپور کوشش کی بات کی۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ انہوں نے اس دفعہ تکفیری تحریک کا آغاز کرکے اور داعش کی آڑ میں اور عراق و شام میں بدامنی پھیلا کر علاقے میں تبدیلیاں لانے کے لئے اپنی قسمت آزمائی۔ اس دفعہ بھی اس جنگ افروزی کے کچھ الگ ہی مقاصد تھے۔
عالمی استکبار اور اس میں سر فہرست امریکہ چاہتا ہے کہ اس علاقے کو الجھا دیں تاکہ صیہونی حکومت چین سے رہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین فراموش کر دیا جائے اور ایک جغرافیائی علاقے اور ایک قوم کا سرے سے انکار کر دیا جائے۔ (7 جولائی 2006)
اس دفعہ بھی مشرق وسطی کے بارے میں امریکیوں کی سازش پر مہر باطل لگ گئی۔ اوباما بھی بش کی طرح مغربی ایشیا میں شکست کا داغ لیکر اقتدار سے ہٹے اور باگڈور ٹرمپ کو سونپی۔ اس دفعہ ٹرمپ جنہوں نے انتخابی مہم میں انکشاف کیا تھا کہ داعش کی تشکیل اوباما کے ہاتھوں ہوئی اور عہدہ صدارت مل جانے کے بعد بھی کہا کہ مغربی ایشیا پر تسلط قائم کرنے کی کوشش میں امریکہ کے سات ٹریلین ڈالر برباد ہو گئے، اس کوشش میں لگ گئے کہ امریکہ کے مشرق وسطی پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنائیں لیکن علاقے کی اقوام کے اندر امریکہ سے نفرت سد راہ بن گئی اور ٹرمپ اس علاقے میں امریکہ کے اہداف کو مستحکم بنانے والے رہنما کے طور پر اپنا نام ثبت کروانے میں ناکام رہے۔
امریکیوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس علاقے کے عوام امریکہ سے نفرت کرتے ہیں۔ امریکیوں کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی؟ آپ امریکیوں نے عراق میں بھیانک جرائم انجام دئے، افغانستان میں جرائم انجام دئے، انسانوں کو قتل کیا۔ صدام کے زوال کے بعد شروعاتی دور میں امریکیوں نے بلیک واٹر وغیرہ جیسی ایجنسیوں کی مدد سے شاید ایک ہزار سے زائد عراقی سائنسدانوں کو قتل کر ڈالا، ختم کر دیا۔ بے گناہ شہریوں کے گھروں پر حملے کئے، اہل خانہ کے سامنے گھر کے مرد کو زمین پر لٹا دیا اور بیوی بچوں کے سامنے اس کے چہرے کو جوتوں سے کچلا۔ آپ نے یہ حرکتیں کی ہیں۔ آپ امریکیوں نے افغانستان میں شادی کی تقریب پر بمباری کی، ایک دفعہ دو دفعہ نہیں بلکہ درجنوں بار! سوگ اور تعزیت کے پروگرام پر بمباری کر دی۔ آپ نے بھیانک جرائم انجام دئے ہیں، عوام آپ سے نفرت کرتے ہیں، عراق، شام، افغانستان اور دیگر خطوں کے عوام۔ (1 جنوری 2020)
علاقے میں اپنے مقاصد کی تکمیل میں امریکہ کی شکست سے آج ثابت ہو گیا ہے کہ ہمارے اس علاقے میں امریکہ کی موجودگی کا نتیجہ تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ اور نہیں رہا۔ اس علاقے میں وہ آئے تو اپنے ساتھ بدامنی شرانگیزی لائے۔ وہ جہاں بھی قدم رکھتے ہیں وہاں بدامنی ہوتی ہے، خانہ جنگی ہوتی ہے یا داعش کی تشکیل جیسے کام ہوتے ہیں۔ (15 نومبر 2019)
یہ بھی خیال رہے کہ اس علاقے میں امریکہ کا سب سے اہم اسلحہ نقب زنی ہے، حساس اور اہم فیصلے کرنے والے مراکز میں نقب زنی، ان کا حربہ تفرقہ اندازی ہے، قوموں کے عزم و ارادے میں تزلزل پیدا کرنا ہے، قوموں کے مابین عدم اعتماد کی فضا ایجاد کرنا ہے، کلیدی فیصلے کرنے والے افراد کے تخمینوں کو درہم برہم کرنا اور یہ تاثر دینا ہے کہ مشکلات کا واحد حل امریکہ کے پرچم تلے پناہ لینا اور امریکہ کے سامنے سر جھکانا ہے۔ (15 نومبر 2019)
اس بحران ساز موجودگی کو دیکھتے ہوئے ایک ہی حل بچتا ہے اور وہ علاقے سے امریکہ کا اخراج ہے۔ مغربی ایشیا کے علاقے میں روز بروز امریکہ کی شکستوں کی فہرست طویل تر ہوتی جا رہی ہے اور وہ خود جو ان شکستوں کا اعتراف بھی کر رہے ہیں اس علاقے میں واحد راہ حل یہ دیکھتے ہیں کہ یہاں سے چلے جائیں۔ امریکیوں کو چاہئے کہ اپنے گزشتہ تجربات سے سبق لیں اور ہرگز فراموش نہ کریں کہ مغربی ایشیا کے اس علاقے میں "انہوں نے سات ٹریلین ڈالر خرچ کئے ہیں۔" یہ ملین کی بات نہیں ہے، ارب کی بات نہیں ہے ٹریلین ڈالر کی بات ہے۔ سات ٹریلین، سات ہزار ارب ڈالر "ہم نے یہاں خرچ کر ڈالے اور ہمارے ہاتھ کچھ نہیں لگا۔" اس کا مطلب شکست ہی تو ہے۔ امریکہ کو اس علاقے میں شکست ہوئی ہے۔ امریکہ ناکام ہو گیا۔ شیطان بزرگ اتنی وسیع کوششوں کے باوجود، اتنے شور شرابے کے باوجود اس علاقے میں اپنا ہدف پورا نہیں کر پایا۔ پیسہ بھی خرچ کیا، فَسَیُنفِقونَها ثُمَّ تَکونُ عَلَیهِم حَسرَةً ثُمَّ یُغلَبون (انفال 36 پھر وہ اسے خرچ کریں گے اور حسرت ان کا مقدر ہوگی اور مغلوب وہ ہو جائيں گے۔) یہ قرآن کی آیت ہے۔ پیسے خرچ کرتے ہیں لیکن انھیں کوئی فائدہ نہیں مل پاتا۔ آئندہ بھی شیطانی طاقتیں اس علاقے میں جتنے بھی پیسے خرچ کر لیں نتیجہ یہی رہے گا۔ (15 جون 2018)