در اصل یہ ہمارا مسئلہ ہے ہی نہیں کہ امریکا ایٹمی سمجھوتے میں لوٹے یا نہ لوٹے۔ ہمارا جو منطقی اور عاقلانہ مطالبہ ہے، وہ پابندیوں کا خاتمہ ہے؛ یہ ایرانی قوم کا غصب شدہ حق ہے۔" قائد انقلاب اسلامی نے ان جملوں کو 'اسلامی جمہوریہ ایران کی آخری اور حتمی بات' کی حیثیت سے پیش کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے 'آخری بات' کے زیر عنوان وزیر خارجہ اور ایٹمی سمجھوتے کے نفاذ کی نگرانی کرنے والی ٹیم کے رکن ڈاکٹر محمد جواد ظریف سے گفتگو میں پابندیوں اور ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کا جائزہ لیا ہے۔
سوال: مغرب والے ایرانی قوم کے خلاف تمام پابندیوں کے خاتمے کے کیوں پابند ہیں؟ پابندیوں کے اٹھائے جانے کو ایٹمی معاہدے میں امریکا کے لوٹنے پر کیوں ترجیح حاصل ہے؟
جواب: امریکیوں نے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد پچھلی پابندیوں کو بھی بحال کر دیا اور نئے ناموں سے پابندیوں کو زیادہ دشوار بھی بنا دیا۔ اس لیے موجودہ حالات میں ایٹمی معاہدے میں امریکا کا صرف لوٹنا کافی نہیں ہے۔ اس لیے کہ ایٹمی معاہدے کے بارے میں ایسے حالات میں مذاکرات ہوئے تھے کہ ایران کے خلاف دوسری طرح کی پابندیوں کی بات کی جا رہی تھی اور ان پابندیوں کو ہٹانے کی بات کی تشریح ایٹمی معاہدے میں کی گئی تھی؛ یعنی ایٹمی معاہدے کا مقصد یہ تھا کہ ان پابندیوں کو ختم کر دے۔ آج ان باتوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس معاہدے میں امریکا کا صرف لوٹنا کافی نہیں ہے بلکہ اسے پابندیوں کو بھی اٹھانا ہوگا، یعنی یہ نہیں کہ صرف وہ یہ کہے کہ میں ایٹمی معاہدے پر لفظ بہ لفظ عمل کروں گا۔ ٹرمپ نے ان چار برسوں میں کوشش کی کہ ایٹمی معاہدے کو اس کے مندرجات سے عاری کر دے اور پابندیوں کو مسلط کر دے تاکہ اگر امریکا ایٹمی معاہدے میں لوٹ بھی جائے تو وہ پابندیاں بدستور باقی رہیں۔ مثال کے طور پر انھوں نے ہمارے مرکزی (سینٹرل) بینک اور وزارت پیٹرولیم کو ایٹمی پابندیوں کے دائرے سے خارج کر دیا مگر دہشت گردی کی حمایت کے نام پر ان پر پابندی لگا دی۔ انھوں نے پابندیوں کے ناموں تک کو بدل دیا۔
اگرچہ اوباما نے بھی اپنی ذمہ داریوں پر کوئي خاص عمل نہیں کیا لیکن گزشتہ چار سال میں ٹرمپ کا ہدف، ایٹمی معاہدے کو تباہ کرنا تھا۔ امریکا پہلے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے، ایٹمی معاہدے میں اس کی واپسی تو ایک ثانوی بات ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کے ساتھ ہمارے معاشی تعلقات معمول پر آئيں۔ اگر آپ ایٹمی معاہدے اور قرارداد نمبر بائیس اکتیس پر نظر ڈالیں تو وہاں جو ذمہ داری موجود ہے وہ دنیا کے ساتھ ایران کے معاشی تعلقات کو معمول پر لانے کی تھی، جو امریکا اور یورپی یونین کی پابندیوں اور اسی طرح بہت سے ملکوں کی جانب سے امریکا کی پیروی کے سبب بغیر کسی قانونی منطق کے، معمول سے ہٹ گئے تھے اور ان چار برسوں میں بھی ٹرمپ کی جانب سے ڈالے جانے والے دباؤ کے سبب یہ صورتحال جاری رہی۔
سوال: پابندیوں کے خاتمے کے لیے امریکا اور یورپ کو کچھ عملی قدم اٹھانے ہوں گے، یہ قدم کیا ہیں؟ ایٹمی معاہدے سے امریکا کے نکلنے سے ہمیں کیا نقصانات ہوئے ہیں اور ان نقصانوں کا کس طرح ازالہ کیا جا سکتا ہے؟
جواب: عملی اقدامات یہ ہیں کہ دنیا کے ساتھ ایران کے معاشی تعلقات معمول پر آ جائيں، یعنی ان تمام اقدامات کا حل ہونا جو امریکا نے انجام دیے ہیں اور اس بات کا سبب بنا ہے کہ ایران سے معاشی رابطے محدود ہو جائيں۔ ہمیں امریکا سے کوئي مطلب نہیں ہے۔
لیکن اگر ہم تفصیلات میں جانا چاہیں تو انھیں ان رکاوٹوں کو دور کرنا ہے جو انھوں نے ایران کے تیل کی فروخت کی راہ میں کھڑی کی ہیں۔ ایران کے تیل کے خریدار موجود ہیں لیکن امریکیوں نے دباؤ اور طاقت کے طریقے استعمال کر کے خریداروں کی جانب سے ایران کے تیل کی خریداری کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی، یہ بھی ختم ہونا چاہیے۔ ہمارے بینکنگ تعلقات بھی پہلی حالت پر واپس لوٹنے چاہیے۔ مختلف کمپنیوں کے ساتھ ہمارے جو سمجھوتے تھے، ان پر عمل ہونا چاہیے۔ بینکنگ کے سلسلے میں جو فریق ہمارے کام انجام دیتے تھے، انھیں پہلے والی صورتحال پر واپس آنا چاہیے۔ ہمارے نقل و حمل اور انشورنس کے لیے جو مسائل کھڑے کیے گئے تھے، انھیں دور کیا جانا چاہیے۔
دوسرے الفاظ میں ایٹمی معاہدے کے دوسرے ضمیمے میں جو بات ہے وہ، اقدامات کے نتائج پر تاکید ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بائيڈن صاحب صرف کسی متن پر دستخط کر دیں، دستخط ضروری ہے لیکن صرف یہی لازمی شرط نہیں ہے، اصل شرط یہ ہے کہ ہمیں امریکی اقدامات کے اثرات دکھائي دینے چاہیے۔ ایٹمی معاہدے میں بھی، یورپی یونین کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں بھی اور امریکا کی ذمہ داریوں کے معاملے میں بھی۔ ہم نے چار سال پہلے یورپ والوں سے جو بات کہی تھی وہ تھی کہ یہ بات صحیح ہے کہ آپ نے کچھ دستخط کیے ہیں اور کچھ پابندیوں کو اٹھا لیا ہے لیکن ایران کے عوام کو اس کا کوئي اثر دکھائي نہیں دے رہا ہے۔ اب ایرانی عوام دیکھ رہے ہیں کہ یورپی کمپنیاں، ایران سے نکل چکی ہیں۔ بنابریں ہمیں پابندیاں ہٹنے کے اثرات دکھائي دینے چاہیے۔
جہاں تک نقصان کی بات ہے تو رہبر انقلاب اسلامی نے ہم سے اپنی ہدایات میں بھی اور اپنی عمومی تقریروں میں بھی فرمایا ہے کہ نقصان کا معاملہ ان موضوعات میں سے ہے جن پر اگلے مرحلوں میں بحث کی جانی چاہیے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ چیز طے ہونی چاہیے کہ ایٹمی معاہدہ ایک گھومنے والے دروازے کی طرح نہیں ہے کہ آپ ایک طرف سے داخل ہوں اور دوسری طرف سے نکل جائيں۔ بہرحال عالمی تعلقات کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ امریکا کے اقدامات کی وجہ سے ایرانی عوام کو نقصان ہوا ہے اور یقینی طور پر اگلے مرحلوں میں جو موضوعات ہمارے پیش نظر ہیں ان میں امریکیوں کی جانب سے معاہدے سے ممکنہ طور پر غلط فائدہ اٹھانا بھی ہے اور اسی طرح ان اقدامات کو دوہرائے جانے سے روکنا بھی ہے جو امریکا نے انجام دیے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پچھلے چار سال میں مسٹر ٹرمپ نے پچاس چینی کمپنیوں پر پابندی لگائي ہے اور ہمارے پارٹنرز کو نقصان پہنچا ہے۔ ان نقصانات کا بھی ازالہ ہونا چاہیے۔
سوال: قائد انقلاب اسلامی اور دیگر حکام کے بیانوں میں ایک اور مسئلہ جس کی طرف اشارہ کیا گيا ہے، وہ باہمی ذمہ داریوں کا موضوع ہے۔ پارلیمنٹ کے قانون اور حکومت کے حالیہ اقدام کے سلسلے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے؟ ایٹمی معاہدے کے کمٹمنٹس کی طرف واپسی کے بارے میں وزارت خارجہ اور حکومت کا کیا پروگرام ہے؟
جواب: ایٹمی معاہدے سے امریکا کے نکل جانے کے بعد ہم نے ایک کام شروع کیا اور دو مرحلوں میں اسے آخری شکل دے دی۔ دسمبر سنہ 2018 میں ہم نے یورپ والوں کو خط لکھا اور کہا کہ ہم نے آپ کو دو بار موقع دیا، (مئي سنہ 2018 سے دسمبر سنہ 2018 تک، چھے مہینے سے زیادہ) اب اگر آپ کوئي راستہ تلاش نہیں کرتے تو ہم معاہدے کی چھتیسویں شق کے مطابق اپنے حقوق کو نافذ کرنا شروع کر دیں گے۔ انھیں مئي سن دوہزار انیس تک مزید چھے مہینے کا موقع ملا جس کے بعد ہم نے اپنے اقدامات کرنے شروع کیے اور پانچ مرحلوں میں انھیں انجام دیا۔ یہ پانچ مرحلے ایٹمی معاہدے کی نگرانی کرنے والے اعلی بورڈ سے ہماہنگی کے ساتھ مل کر تیار کیے گئے اور ان پر عمل کیا گيا۔ یہ بورڈ ایٹمی معاہدے کو تسلیم کیے جانے کے بعد رہبر انقلاب اسلامی کے حکم پر تشکیل پایا تھا۔ پانچویں مرحلے میں ہم نے اعلان کر دیا کہ ہم آئي اے ای اے کی نگرانی کے علاوہ ایٹمی معاہدے کی کسی بھی قسم کی پابندی کو تسلیم نہیں کرتے۔
انھوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا بلکہ خلاف ورزی بھی کی۔ البتہ ہم نے ہمیشہ ہی یہ کہا کہ اگر فریق مقابل اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرے تو چونکہ ایران ایک قانون پسند ملک ہے اور ہم اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہیں، اس لیے ہم بھی اپنی ذمہ داریوں کی طرف لوٹ آئيں گے۔ لہذا یہ اقدام مئی دو ہزار انیس میں شروع ہوا اور پانچ مرحلوں تک آگے بڑھا۔ اس کا آخری مرحلہ سنہ دو ہزار انیس کے آخر میں وقوع پذیر ہوا اور ہم نے ایٹمی معاہدے کے رکن ممالک سے باضابطہ طور پر کہہ دیا کہ اب ایٹمی محدودیتوں کے سلسلے میں ہماری کوئي ذمہ داری نہیں ہے، یعنی ہم اس وقت بھی یورینیم کی بیس فیصد افزودگي شروع کر سکتے تھے اور اس کے وسائل بھی فراہم تھے، چنانچہ پارلیمنٹ میں اس سلسلے میں قانون منظور ہوتے ہی یہ کام شروع ہو گیا۔
سوال: رہبر انقلاب اسلامی کے بیان میں ایک نکتہ، 'کمٹمنٹ کے مقابلے میں کمٹمنٹ' کا ہے۔ فریقین کی ذمہ داریوں کے بارے میں بات ہوئي لیکن ممکنہ ذمہ داری کے سلسلے میں ہمارا روڈ میپ کیا ہوگا؟
جواب: جیسا کہ میں نے عرض کیا، رہبر انقلاب کی عمومی اور انفرادی ہدایات، ایک سی ہوتی ہیں اس لیے انھوں نے ہمیں پہلے بھی ہدایت دے رکھی تھی اور ہم نے ان کی ہدایات کی بنیاد پر، بیان کے مقابلے میں بیان، دستخط کے مقابلے میں دستخط اور عمل درآمد کے مقابلے میں عمل درآمد انجام دیا۔ اگر وہ لوگ ایٹمی معاہدے میں لوٹنا اور اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں تو ہم بھی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں گے۔ اگر مسٹر بائيڈن، عمل درآمد کے حکم پر دستخط کریں گے تو ہم بھی دستخط کریں گے۔ جب بھی وہ لوگ عمل درآمد شروع کریں گے، تب ہم بھی عمل درآمد کریں گے۔ یہ وہ مرحلے ہیں جو پوری وضاحت کے ساتھ طے پائے ہیں اور محض تحریر نہیں ہیں۔ یہ امریکا ہے جو معاہدے سے نکلا ہے، اب اسے اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہوگا۔ جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے، ایٹمی معاہدے میں لوٹنا اہم نہیں ہے، وعدوں پر عمل کرنا اہم ہے۔
یہیں یہ بات بھی عرض کر دوں کہ پچھلے چار سال میں ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوئي کہ ایران پر دباؤ کا کوئي فائدہ نہیں ہے۔ امریکی واقعی یہ سوچتے تھے کہ اس سے پہلے ایران پر جو دباؤ ڈالے گئے تھے وہ کافی نہیں تھے اور انھوں نے اس کا نام زیادہ سے زیادہ دباؤ رکھ دیا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اگر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالیں گے تو وہ نتیجہ بخش ہوگا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مئی سنہ دو ہزار اٹھارہ سے، جب امریکا ایٹمی معاہدے سے نکل گيا، مسٹر ٹرمپ کے اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر مسٹر بولٹن کی پیشگوئی یہ تھی کہ ایران، اسلامی انقلاب کی کامیابی کا چالیسواں جشن نہیں منا پائے گا لیکن انھوں نے دیکھا کہ ہمارے عوام نے پوری مضبوطی کے ساتھ اسلامی انقلاب کی کامیابی کا نہ صرف چالیسواں بلکہ اکتالیسواں اور بیالیسواں جشن بھی منایا اور ان شاء اللہ آگے بھی مناتے رہیں گے۔ اب تک امریکا کے سات سربراہان مملکت نے ایران پر دباؤ ڈالنے کی کوشش لیکن سبھی کو شکست ہوئي۔ آج پوری دنیا کہہ رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کو نہ صرف شکست ہوئي بلکہ ذلت آمیز شکست ہوئي۔
سوال: اگر ایٹمی معاہدے کے فریق، پابندیوں کے خاتمے کے لیے نئی شرطیں پیش کرنا چاہیں تو ہمارا موقف کیا ہوگا؟
جواب: انھیں کسی بھی صورت میں اس کا حق نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ایٹمی معاہدے کا موضوع، ایران کا ایٹمی مسئلہ تھا اور میزائیل پروگرام کا اس سے کوئي تعلق نہیں تھا اور اگر سلامتی کونسل کی قرارداد میں میزائیل پروگرام کی طرف ایک اشارہ کیا بھی گیا ہے تو وہ ایٹمی وار ہیڈ والے میزائیل کی طرف اشارہ تھا۔ اس لیے اس کا سرے سے کوئي تعلق ہی نہیں ہے اور پھر یہ ہماری ریڈ لائن بھی ہے۔ دوسرے یہ کہ ایٹمی معاہدے کے فریق، جو اس خطے میں ہر سال ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ کے ہتھیار فروخت کرتے ہیں، اس پوزیشن میں ہی نہیں تھے کہ ایران سے کہیں کہ وہ اپنے دفاعی آلات کو چھوڑ دے۔ جب وہ لوگ اس بحث کو چھیڑتے تھے تو ہم یہ کہنے کہ علاوہ کہ میزائیل کا ایٹمی معاہدے سے کوئي تعلق نہیں ہے، یہ بھی کہتے تھے کیا آپ خطے کو اپنے ہتھیاروں کی فروخت بند کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا خطے کے ممالک اس بات کے لیے تیار ہیں کہ اپنا فوجی بجٹ، ایران کے فوجی بجٹ کے برابر لے آئيں؟
امریکیوں کی ایک اصطلاح ہے کہ جو کچھ میرا ہے، وہ تو میرا ہے لیکن جو کچھ تمھارا ہے، وہ قابل گفتگو ہے۔ اگر وہ دوسروں کے سلسلے میں یہ اصول اختیار کرتے ہیں تو انھیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ کبھی بھی دنیا کی سب سے پرانی قوم کی حیثیت سے ایران کے سلسلے میں یہ اصول اختیار نہیں کر پائيں گے۔