بشریت جس طرح اسلام کی مرہون منت ہے، قرآن کی مرہون منت ہے، انبیااور پیغمبران خدا اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرہون منت ہے اسی طرح حضرت فاطمہ زہرا کی مرہون منت ہے۔ آج بھی اسی طرح ہے اورحضرت فاطمہ زہرا کی معنویت و نورانیت روز بروز آشکارا تر ہوگی اور بشریت اس کو زیادہ سے زیادہ محسوس کرے گی۔ 26 دسمبر 1991
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں جتنا بھی کہیں کم ہے اور حقیقت میں ہم نہیں جانتے کہ کیا کہیں یا کیا سنیں۔ اس انسیہ حورا، اس روح مجرد اور اس نبوت و ولایت مجسم کا وجود مبارک اتنے وسیع اور لامتناہی پہلو رکھتا ہے کہ جہاں تک طائر فہم کی رسائی ممکن نہیں، عقل متحیر رہ جاتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ معاصر اور ہم عصر ہونا وہ عوامل ہیں جو شخصیات کی صحیح شناخت میں مانع ہوتے ہیں۔ عالم بشریت کے درخشاں ستارے، اپنے زمانہ حیات میں، ہم عصر لوگوں کے ذریعے پہچانے نہیں گئے، ان میں سے معدودے چند ممتاز ہستیاں ہی اس سے مستثنی نظر آتی ہیں، وہ کچھ انبیاء و اولیاء تھے۔ وہ بھی گنتی کے چند لوگوں کے ذریعے۔ مگر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایسی عظیم ہستی ہیں کہ خود آپ کے زمانے میں، نہ صرف آپ کے والد، شوہر، اولادوں اور خاص شیعوں نے بلکہ ان لوگوں نے بھی جو آپ سے خلوص نہیں رکھتے تھے، انہوں نے بھی آپ کی مدح سرائی کی ہے۔ اہلسنت محدثین نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں جو کتابیں لکھی ہیں، اگر انہیں دیکھیں تو ایسی بہت سی روایات ملیں گی جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی مدح میں صادر ہوئی ہیں یا آپ کے سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت کے بیان پر مشتمل ہیں۔ ان میں بہت سی روایات ان لوگوں سے نقل کی گئی ہیں جو اس طرح کے تھے جیسے بعض روایات ازواج رسول اور دوسرے لوگوں سے منقول ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی عظمت آپ کی سیرت میں نمایاں ہے۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی کیا معرفت ہے؟ ایک بات یہ ہے۔ تاریخ میں محبان اہلبیت علیہم السلام نے جہاں تک ہو سکا، دختر رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
اسلامی دنیا کی سب سے پرانی یونیورسٹی - جو تیسری اور چوتھی صدی ہجری سے تعلق رکھتی ہے- حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام پر ہے۔ مصر کی مشہور "الازہر" یونیورسٹی کا نام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام سے لیا گیا ہے۔ ماضی میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام پر یونیورسٹی قائم کرتے تھے۔ حتی خلفائے فاطمی، جو مصر پر حکومت کر رہے تھے، وہ شیعہ تھے۔ صدیوں سے شیعہ اس عظیم ہستی کی معرفت اس طرح حاصل کرتے جو حق ہے۔ یہ ایک مسئلہ ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں تمام ستاروں سے راستہ سیکھنا چاہئے۔ "وبالنجم یھتدون" عاقل انسان اس طرح کے ہوتے ہیں۔ ستاروں سے استفادہ کرنا چاہئے۔ ستارے آسمان میں چمکتے ہیں۔ وہاں عظیم دنیا ہے۔ کیا یہ ستارے وہی ہیں جو ہم آپ دیکھتے ہیں؟ بعض ستارے جو آسمان میں ایک نقطے کی طرح جھلملاتے ہیں، در حقیقت کہکشائیں ہیں۔ کوئی ستارہ اس کہکشاں سے بھی جس میں اربوں ستارے ہیں، بڑا ہوتا ہے -- خدا کی قدرت کا کوئی اندازہ نہیں ہے-- مگر ہمیں اور آپ کو وہ ایک چھوٹا روشن ستارہ نظر آتا ہے۔ ان باتوں کا مطلب کیا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ عاقل انسان کو جس کو خدا نے آنکھیں دی ہیں، ان ستاروں سے اپنی زندگی میں استفادہ کرنا چاہئے۔ قرآن فرماتا ہے "و بالنجم ھم یھتدون" ان کے ذریعے راستہ تلاش کرتے ہیں۔
کیا جان لینا ہی کافی ہے کہ آپ حضرت زہرا ہیں؟ میں نے روایت میں پڑھا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا کی نورانیت ایسی ہے کہ اس سے ملاء اعلی کے رہنے والوں کی آنکھیں بھی خیرہ ہو جاتی ہیں۔ "زھراء نورھا للملائکۃ السماء" وہ اس نور سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ اس نورانیت سے ہمیں کیا استفادہ کرنا چاہئے؟ ہمیں اس درخشاں ستارے سے خدا کا راستہ، راہ بندگی، جو سیدھا راستہ ہے اور جس پر چل کر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اعلی مدارج طے کئے، وہ راستہ تلاش کرنا چاہئے۔ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ خداوند عالم نے آپ کے خمیر کو اعلی قرار دیا ہے تو اس لئے ہے کہ وہ جانتا تھا کہ یہ ہستی عالم مادہ میں، بشری دنیا میں، امتحان میں کامیاب رہے گی۔ "امتحنک اللہ الذی خلقک قبل ان یخلقک فوجدک لما امتحنک صابرۃ" قضیہ یہ ہے۔ خداوند عالم اگر اس ہستی کے خمیر کی تیاری میں خاص لطف سے کام لیتا ہے تو اس کا تعلق اس سے ہے کہ جانتا ہے کہ وہ کس طرح امتحان میں کامیاب ہوگی۔ ورنہ بہت سے لوگ ہیں جن کا خمیر اچھا تھا، کیا ان میں سے ہر ایک امتحان میں کامیاب رہا؟ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کا یہ حصہ وہی ہے جس کی ہمیں اپنی نجات کے لئے ضرورت ہے۔ ایک حدیث ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا " یافاطمۃ اننی لم اغن عنک من اللہ شیئا " یعنی اے میری عزیز' اے میری فاطمہ' خدا کے نزدیک میں تمہیں کسی چیز سے بے نیاز نہیں کر سکتا۔ یعنی تمہیں اپنی فکر خود کرنی ہے۔ اور آپ بچپن سے لے کر اپنی مختصر عمر کے آخر تک اپنی فکر میں رہیں۔ آپ دیکھیں کہ اس ہستی نے کس طرح زندگی گزاری؟ شادی سے قبل، ایک بیٹی کی حیثیت سے اپنے عظیم باپ کی اس طرح خدمت کی کہ ام ابیہا یعنی اپنے باپ کی ماں کا لقب آپ کو دیا گیا۔ اس زمانے میں پیغمبر رحمت و نور، نئی دنیا لانے والا، اس عظیم عالمی انقلاب کا رہبر و سردار، جس کو تا ابد باقی رہنا ہے، پرچم اسلام بلند کر رہا تھا۔ آپ کو بلا وجہ ام ابیہا نہیں کہتے۔ آپ کو یہ لقب، آپ کی سعی و کوشش، خدمت اور مجاہدت پر دیا گیا ہے۔ آپ مکے کی زندگی میں بھی، شعب ابوطالب کی زندگی میں بھی، ان تمام سختیوں اور مشکلات کے ساتھ اور اس وقت بھی جب آپ کی مادر گرامی حضرت خدیجہ اس دنیا سے رحلت فرما گئیں اور پیغمبر تنہا رہ گئے، اپنے والد کے ساتھ آنحضرت کی ہمدم و غمخوار رہیں۔ مختصر سے عرصے میں دو بڑے سانحوں، حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا کی رحلت اور حضرت ابوطالب علیہ السلام کی وفات سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دل ٹوٹ گیا تھا۔ مختصر مدت میں یہ دونوں ہستیاں پیغمبر سے رخصت ہو گئیں۔ پیغمبر کو تنہائی کا احساس ہوا۔ اس وقت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اٹھیں اور اپنے ننہے ہاتھوں سے پیغمبر کے چہرے سے غبار غم صاف کیا۔ ام ابیہا، آپ پیغمبر کے لئے باعث تسلی و تسکین بن گئيں، یہ لقب انہی ایام میں ملا۔
آپ سمندر کی طرح بیکراں اس شخصیت و مجاہدت کو دیکھیں کتنی عظیم ہے؟! اس کے بعد دور اسلام آیا۔ پھر علی بن ابیطالب علیہ السلام سے آپ کی شادی کا مرحلہ آیا۔ وہی علی بن ابیطالب جو انقلاب اسلام کے ایک فداکار سپاہی تھے۔
خداوند عالم نے فاطمہ زہرا کے لئے علی کا انتخاب کیا تھا اور حضرت فاطمہ زہرا بھی اس الہی انتخاب پر راضی اور خوش تھیں۔ پھر امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کے ساتھ اس طرح زندگی گزاری کہ آپ اپنے پورے وجود سے آپ سے راضی تھے۔ آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں امیر المومنین علیہ الصلاۃ والسلام سے جو جملے کہے ہیں وہ اس کا ثـبوت ہیں۔ آپ نے صبر کیا، بچوں کی اس طرح تربیت فرمائی، حق ولایت کا دلیری کے ساتھ دفاع کیا، اس راہ میں اذیتیں اور ایذائیں برداشت کیں اور پھر آغوش شہادت میں چلی گئیں۔ یہ ہیں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا۔ 24 نومبر 1994