یہ راستہ انسان کے لئے بنایا گيا ہے، عورت یا مرد کے لئے نہیں۔ اللہ تعالی عورت کی تاریخ میں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جیسی ہستی کو خلق کرتا ہے کہ جن کے بارے میں امام حسن عسکری یا امام علی نقی علیہ السلام سے یہ روایت منقول ہے کہ «نحن حجج اللّه على خلقه و فاطمة حجّة اللّه علينا». حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا حجت خدا ہیں، ائمہ کی امام ہیں، کیا اس سے بھی بلند کوئی ہستی ہو سکتی ہے؟ شاہزادی کونین مقام عصمت پر فائز ہیں اور اتنی عظمتوں کی حامل یہ ہستی ایک عورت ہے۔ کائنات کی عظیم خواتین میں حضرت مریم، حضرت سارا، حضرت آسیہ اور دوسری کچھ خواتین ہیں، یہ ایسی عظیم ہستیاں تھیں جو پوری کائنات میں نمایاں ہیں۔ تو تکامل اور ارتقاء کے اس جادے پر سفر کرنے والا مرد یا عورت نہیں بلکہ انسان ہوتا ہے۔ 1 مئی 2013
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا روحانی مرتبہ و مقام بشریت کی چنندہ ہستیوں میں بھی بڑا نمایاں اور بلند مقام ہے۔ آپ معصوم ہیں۔ عصمت بنی نوع بشر کے برگزیدہ بندوں میں بھی گنے چنے افراد کو ہی عطا کی گئی ہے اور شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ان میں سے ایک ہیں۔ اس حقیقی مسلم اور مجاہد فی سبیل اللہ خاتون نے اپنی تقریبا بیس سالہ عمر میں، روایتوں میں اختلاف ہے اور آپ کا سن مبارک اٹھارہ سے پچیس سال تک ذکر ہوا ہے، بہرحال اس مختصر سی عمر میں ایک نوجوان خاتون اتنے عظیم روحانی مدارج طے کرکے اولیاء و انبیاء اور ان جیسی ہستیوں کی صف میں کھڑی ہو جائے اور اولیائے الہی سے سیدہ نساء العالمین کا لقب حاصل کرے!!! اس عظیم روحانی مرتبے کے ساتھ ساتھ نمایاں اور ممتاز خصوصیات و صفات کا ظہور اور آپ کی شخصی زندگی کے عظیم کارنامے یہ سب سبق اور درس ہے۔
20 اپریل 2014
اہل بیت علیہم السلام کی معرفت اور ان ذوات مقدسہ سے عقیدت بہت بڑی نعمت ہے۔ خداوند عالم نے اس حقیقت کے ادراک سے ہماری آنکھوں کو محروم و قاصر نہیں رکھا، ہمیں ان درخشاں اور ضوفشاں انوار کو اپنی استعداد بھر دیکھنے اور سمجھنے پر قادر بنایا، ان سے عشق و ارادت رکھنے کا موقعہ عنایت فرمایا اور ان سے ہمیں غافل نہیں رکھا۔ اس نعمت عظمی کا شکر ادا کرنے پر اگر ہم اپنی پوری زندگی صرف کر دیں تو بھی کم ہے۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ان والدین پر، ان پیشروؤں اور ان رہنماؤں پر جنہوں نے معنویت کے ان آفتابوں کی جانب کھلنے والا دریچہ ہمارے وجود میں رکھ دیا، ہمارے بچپن میں، ہماری زندگی کی شروعات میں، گہوارہ نشینی کے دور میں ہمارے کانوں میں محبت اہل بیت کی لوریاں سنائیں اور ہماری روح کو ان عظیم ہستیوں کی محبت سے سیراب کیا۔ پالنے والے! اس محبت و عقیدت و معرفت کو ہمارے دل و جان میں روز بروز زیادہ عمیق اور پختہ بنا۔ ہمیں اس نعمت سے ایک لمحے کے لئے بھی محروم نہ کر۔
میں حقیقتا یہ عرض کر رہا ہوں کہ اس عظیم ہستی اور ملکوتی وجود کی تعریف و تمجید سے میری زبان قاصر ہے، میرا ذہن عاجز ہے۔ انسانی شکل میں یہ عظیم وجود، یہ نوجوان خاتون، فضیلتوں کا یہ سمندر، نور کی یہ درخشندگی، یہ عظمت و جلالت کہ جب آپ پیغمبر اسلام کی خدمت میں پہنچتی تھیں تو "قام الیھا" حضور آپ کے احترام میں صرف کھڑے نہیں ہو جاتے تھے بلکہ چند قدم چل کر آپ کے قریب آ جایا کرتے تھے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کمرے میں آیا اور آپ اس کے احترام میں اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے، لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کمرے میں وارد ہوتا ہے تو آپ فرط اشتیاق سے چند قدم اس کی جانب بڑھ جاتے ہیں! یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ باپ اور بیٹی کا قضیہ نہیں ہے۔ پیغمبر اکرم اس انداز سے حضرت فاطمہ زہرا کی تکریم فرماتے ہیں، آپ کی رضا کو اپنی رضا اور اپنی رضا کو رضائے پروردگار قرار دیتے ہیں۔ ان کے غضب کو اپنا غضب اور اپنے غضب کو غضب الہی سے تعبیر فرماتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا کے عظیم مقام و مرتبے کا یہ عالم ہے۔ امیر المومنین کی معیت میں وہ آپ کی زندگی، بچوں کی وہ تربیت! کیونکر ممکن ہے کہ ہم جیسے لوگ اس عظیم ہستی کے بارے میں لب کشائی کریں؟! 12 مئی 2012