قائد انقلاب اسلامی نے نو جنوری سن انیس سو اٹھتر کے شہر قم کے یادگار قیام کی سالگرہ کے موقع پر منعقد اس اجتماع میں بصیرت اور ثبات و استقامت کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام بصیرت و استقامت کا مظہر تھے اور گذشتہ اٹھائیس برسوں میں ایرانی قوم نے بھی بصیرت و استقامت کی مثال قائم کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا آٹھویں پارلیمانی انتخابات میں بھی عوام کو سوجھ بوجھ سے کام لیتےہوئے انتخابات میں شریک ہوکر اپنے حق کا صحیح استعمال کرنا چاہئے۔ اس دفعہ بھی اللہ تعالی کے لطف و کرم سے اسلامی نظام اور عوام کی کامیابی یقینی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کے اخلاقی ضوابط کی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے پاسداری کی ضرورت پر زور دیا اور امریکی صدر کے اس بیان کی جانب اشارہ کیا جس میں جارج بش نے کسی مخصوص جماعت کو ووٹ نہ دینے کا مشورہ دیا تھا، قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ کسی کے لئے بھی امریکا کی حمایت ایران میں بد نما داغ کی حیثیت رکھتی ہے۔
آپ نے فرمایا کہ عوام، دشمن کی جانب سے ہوشیار رہیں تاکہ صحیح فیصلہ کر سکیں۔ انشاء اللہ اس بار بھی اللہ تعالی کے لطف و کرم سے انتخابات کے مرحلے سے ہماری قوم اور اسلامی نظام سرخرو ہوکر نکلیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے قم کے اس تاریخی قیام کو شاہ کی طاغوتی حکومت کے خلاف اسلامی انقلاب کی تحریک کے سلسلے میں کلیدی کردار کا حامل قرار دیا اور فرمایا کہ نو جنوری کا دن، انقلاب کی تاریخ کا بڑا اہم موڑ ہے، یہ ان واقعات میں سے ایک ہے جنہیں کبھی بھی فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس دن قم کے عوام نے اپنی بیداری اور بانی انقلاب اسلامی امام خمینی (رہ) کے تئيں اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی طرح سات جنوری کے دن مغرب نواز شاہ رضا خان کی جانب سے ملک میں حجاب پر پابندی کے شرمناک واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران اور اسلام کے دشمن، ایک منظم سازش کے تحت پہلوی دربار سے تعلق رکھنے والے نام نہاد روشن خیال عناصر کی مدد سے ایرانی خواتین کو حجاب اور عفت و پاکدامنی کے حصار سے باہر لانا اور عفت و پاکدامنی کے نتیجے میں مسلم معاشروں میں پائي جانے والی ایمان کی طاقت کو نابود کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ حجاب پر پابندی، معاشرے سے عفت و حیا کے خاتمے اور خاندانوں کی تباہی کا مقدمہ و پیش خیمہ ہے۔ ایرانی قوم بالخصوص خواتین نے اس سازش کا ڈٹ کا مقابلہ کیا اور اسے نقش بر آب کر دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے انیس ذی الحجہ کے دن ہونے منعقد ہونے والے اس اجتماع میں ماہ محرم کی آمد کی جانب اشارہ کیا اور قیام امام حسین علیہ السلام پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عاشورا کا واقعہ انسانی تاریخ کا نہایت اہم واقعہ ہے، وسیع پیمانے پر مخالفتوں کے باوجود یہ واقعہ زندہ جاوید بن گيا، عاشورہ ایک بیش بہا خزانہ ہے جس سے پوری انسانیت کسب فیض کر سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مجالس اور منبر حسینی کو دینی اور حسینی حقائق بیان کرنے کا مقام بتایا اور کہا کہ مجلس حسین، زمانے کے یزیدوں، شمروں، ابن زیادوں اور ظلم و استبداد کے خلاف منعقدہ ہونے والا اجتماع ہونا چاہئے۔
آپ نے امام خمینی (رہ) سمیت اسلامی نظام کے اعلی حکام اور عہدہ داروں اسی طرح عوام کی جانب سے عزاداری سید الشہدا پر کی جانے والی تاکید کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ عزاداری میں ایسا طرز عمل اختیار کیا جانا چاہئے جس سے عوام کا ایمان اور دینی جذبہ مستحکم ہو ان کے علم میں اضافہ ہو ، ان میں دینی حمیت و شجاعت بڑھے اور عوام کی بے توجہی ختم ہو، یہی حقیقی معنی میں قیام حسینی کی قدردانی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات کو ایرانی قوم او اسلامی نظام کی عظمت و جلالت کے مظاہرے کا مقام قرار دیا اور فرمایا کہ جمہوریت کے مظہر کی حیثیت رکھنے والے انتخابات، گذشتہ اٹھائيس برسوں میں تقریبا ہر سال ایران میں منعقد ہوئے ہیں جو کہ ایرانی قوم کی کامیابی و کامرانی کا ثبوت ہے، کیوں کہ اس سے عوامی شراکت، عوامی فیصلوں پر عمل درآمد اور عوام پر اسلامی نظام کے اعتماد کی حقیقت آشکارہ ہوتی ہے۔