امام خمینی (رہ) کی انیسویں برسی کے انعقاد کے مہتمم ادارے کے ذمہ داران سے آج تہران مین اپنی ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ حقیقت، اسلامی انقلاب کی پے پناہ اندرونی صلاحیتوں اور توانائي کی عکاسی کرتی ہے۔ آپ نے اسلامی انقلاب کی طاقت میں روز افزوں اضافے اور خطے اور عالمی رای عامہ پر اس کے اثرات مرتب ہونے سے متعلق اغیار کے اعتراف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اس وقت ہے کہ جب ہم نے انقلاب کی تمام توانائيوں سے استفادہ نہیں کیا ہے، اگر تمام توانائيوں کو بروی کار لایا جائے تو اس سمندر کی نئي گہرائياں سامنے آئيں گی۔
آپ نے وسیع پیمانے پر سازشوں کے باوجود بڑی طاقتوں کے سامنے اسلامی نظام کی کامیاب مزاحمت کو ملک کی تاریخ کا بے نظیر واقعہ اور معجزہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس کی حقیقی اور زیادہ کامل مثال صرف تاریخ اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور حکومت میں ملتی ہے کہ جس کا کسی اور دور سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
آپ نے اسی طرح اسلامی تشخص کے مرکز کی حیثیت رکھنے والے امام خمینی (رہ) کے بلند مقام اور اہم ترین کردار کی جانب اشارہ کیا اور اسلامی جمہوری نظام کی سیاسی و عقیدتی سرحدوں کی حفاظت پر آپ کی خصوصی تاکید کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی تحریک کے دوران اور انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی (رہ) نے اپنی تحریروں اور گفتگو سے ایران کے اسلامی جمہوری نظام کی سرحدوں کو معین فرمایا، ان سرحدوں اور اسلامی انقلاب کے تشخص کی حفاظت بہت اہم مسئلہ ہے۔
آپ نے امام خمینی (رہ) کی کامل و جامع شخصیت کو صحیح سمت میں پیش قدمی کے لئے درس آموز اور بہترین نمونہ قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے مختلف مراحل میں امام خمینی (رہ) نے ہمیشہ کوشش کی کہ اسلامی انقلاب کے تشخص کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے ہر قسم کے انحرافات و گمراہی اور اغیار کی دراندازی کا سد باب کریں، یہ روش ہمارے لئے بہت بڑا درس ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوری نظام کی عقیدتی اور سیاسی سرحدوں کو واضح و نمایاں رکھنے کے لئے مختلف امور پر امام خمینی (رہ) کی تاکید اور بعض متعلقہ نکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے تشخص کی حفاظت کے لئے امام خمینی (رہ) نے ڈیموکریٹک جمہوریہ جیسے الفاظ کے عاریتا استعمال کو روک کر انقلاب کے دینی و عقیدتی تناظر میں نئي اصطلاح وضع کئے جانے کی ضرورت پر تاکید فرمائي۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کی کہ امام خمینی (رہ) کی قیادت میں آنے والا اسلامی انقلاب ایک ابتکار عمل تھا اور یہ ابتکار عمل امام خمینی (رہ) کی روش اور اقدامات میں ہمیشہ نظر آتا تھا جیسا کہ ڈیموکریٹک جمہوریہ کے بجائے اسلامی جمہوریہ کی اصطلاع کا استعمال اور اسی طرح حکومت اور سلطنت کے بجائے لفظ ولایت کا استعمال، اسلامی جمہوری نظام کی سرحدیں مشخص اور واضح کرنے کے لئے تھا۔
آپ نے حکومت و سلطنت سے ولایت کا فرق بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ولایت در حقیقت، اخوت و رفاقت کے ہمراہ چلنے والا اقتدار ہے اور حکومت و سلطنت کی جگہ اس لفظ کا انتخاب اس معنی میں ہے کہ اسلامی نظام، دینی عقیدوں کی بنیاد پر استوار سیاسی نظام پر یقین رکھتا ہے۔ یہ دنیا کے دیگر نظاموں اور اسلامی جمہوری نظام کے دورمیان سرحدیں واضح کرنے پر امام (خمینی رہ) کی خصوصی تاکید کی علامت ہے۔
سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور کارکنان کے لئے غیروں سے اپنے فرق کو واضح و نمایاں رکھنے پر امام خمینی (رہ) کی تاکید کی یاددہانی کراتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سیاسی اور عقیدتی سرحدیں، جغرافیائي سرحدوں کی مانند ہیں، اگر یہ غیر اہم بن کر رہ جائیں اور ان کے سلسلے میں حساسیت ختم ہو جائے تو بہت سے اپنے، نادانستہ طور پر دوسروں کی حدود میں اور اغیار اسلامی انقلاب کی سرحدوں میں داخل ہو جائں گے۔
آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دس سال کی پر برکت زندگی میں امام خمینی کی جانب سے مقرر کی جانے والی بنیادی اور مدلل حدود آج بھی اسلامی نظام کی بنیادی سرحدیں ہیں اور اسلامی نظام مسلسل آگے بڑھنے اور اپنے اندر ہی مسلسل توانائياں پیدا کرنے والا نظام ہے جس طرح سورج کی ضرورت کی توانائي اس کے اندر سے ہی پیدا ہوتی رہتی ہے اور اس کا سب سے واضح ثبوت گزشتہ برسوں کے دوران اسلامی انقلاب کی شمع خاموش کرنے کی دشمنوں کی کوششوں اور سازشوں کی ناکامی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امام خمینی (رہ) کی برسی کے پروگراموں کے انعقاد کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے عوام کی جانب سے امام خمینی (رہ) کے لئے اظہار عقیدت و محبت اور پروگراموں میں ان کی شرکت کو پوری دنیا میں بے نظیر اور مثالی قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ برسی کے پروگراموں کی سب سے خاص بات ان میں نوجوانوں کی شرکت ہے جو امام خمینی کے زمانے میں نہیں تھے لیکن آپ سے دلی محبت کرتے ہیں۔ اس سے امام خمینی (رہ) کی شخصیت کی جاذبیت کا اندازہ ہوتا ہے جس کی جانب اب بھی لوگوں کے دل کھنچے چلے جاتے ہیں۔