قائد انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، عراقی حکومت اور عوام کی مدد کو اپنا دینی فریضہ سمجھتا ہے۔
آپ نے امید ظاہر کی کہ عراقی وزیر اعظم کے دورہ تہران اور اس سفر کے دوران ہونے والے معاہدوں سے عراق اور ایران کے اٹوٹ تعلقات کو مزید استحکام حاصل ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے عراق میں تمام مذاہب اور ادیان کے پیروؤں کی اتحاد کی جانب پیش قدمی سے متعلق عراقی وزیر اعظم نوری مالکی کے حالیہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ عراق میں ہم آہنگ اقدام اور آواز کا معرض وجود میں آنا بہت بڑی کامیابی ہے تاہم اس اتحاد و یکجہتی کے دشمن بھی ہیں جو در حقیقت عراقی عوام اور حکومت کے دشمن ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عراق میں قابض افواج بالخصوص امریکیوں کی موجودگی اور ہر معاہدے اور اتفاق رای کو درہم برہم کر دینے کی ان کی صلاحیتوں اور ارادوں کو اتحاد و یکجہتی کے راستے کا سب سے بڑا رخنہ قرار دیا اور فرمایا کہ جو قابض عناصر اپنی فوجی اور سکیورٹی کی طاقت کے ذریعے عراق کے داخلی امور میں مداخلتیں کر رہے ہیں اور حکومت، عوام اور دانشوروں سمیت تمام عراقیوں پر حق بھی جتاتے ہیں وہی عراق کی بڑی مشکل شمار ہوتے ہیں۔
آپ نے اس وقت عراق میں امریکہ کے رول کو عراق کی خود مختاری کے بعد تفرقہ اندازی پر مبنی برطانوی حکومت کے کردار سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ امریکی تو اور بھی شرمناک اور مذموم حرکتیں کرکے عراقی عوام کے اتحاد میں خلل اندازی کر رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ عراق کے تمام با اثر افراد اور شخصیات کو ملک کو اس بحران سے نجات دلانے کی فکر کرنی چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ عراقی حکومت، پارلیمنٹ اور حکام جو عوامی انتخاب کے نتیجے میں اپنے عہدوں پر پہنچے ہیں، ملک کے تمام امور پر ان کا غلبہ اور مختلف مسائل میں ان کا فیصلہ ناگزیر ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ عراقی قوم کی پیش رفت و خوشبختی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے کہ بیرونی عناصر رفتہ رفتہ عراق کے تمام امور میں مداخلت کرنا شروع کر دیں اور اس ملک کے مختلف شعبوں میں ان کی بالادستی قائم ہو جائے۔
اس ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب صدر جناب پرویز داؤدی بھی موجود تھے۔
اس موقع پر عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے قائد انقلاب اسلامی سے اپنی دوبارہ ملاقات پر اظہار مسرت کیا اور مختلف حالات میں ایران کی جانب سے عراقی عوام کی حمایت اور مدد کی قدردانی کی۔ انہوں نے کہا کہ عراق ایران کے ساتھ بہترین تعلقات کو خواہاں ہے۔
عراقی وزیر اعظم نے ملک کےتازہ حالات اور مسائل بالخصوص بد امنی پر قابو پانے کے لئے عراقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی تفصیلات بتائیں اور کہا کہ عراق میں روزمرہ کے قتل عام جیسے واقعات اور دیگر مسائل کسی حد تک کم ہو گئےہیں تاہم دوسرے بہت سے مسائل اب بھی لا ینحل موجود ہیں لیکن عراقی حکومت اور پارلیمنٹ ملک کے اقتدار اعلی او آزادی و خود مختاری کی بحالی کے لئے پوری طرح سنجیدہ اور جی جان سے کوشاں ہیں۔
عراقی وزیر اعظم نے کہا کہ اعلی حکام، ملک کے تمام مذاہب کے پیروکاروں اور قوموں کے ساتھ ملک کی پیش رفت و ترقی اور قومی وقار و آزادی کی بحالی کے سلسلے میں اتفاق رای قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور اس سلسلے میں سب عام اتفاق رای پایا ہے۔