قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سنیچر کو تہران میں انتفاضہ فلسطین کی حمایت کی پانچویں بین الاقوامی کانفرنس کی افتتاحیہ تقریب سے خطاب میں مسئلہ فلسطین کو اسلامی ملکوں کا سب سے بنیادی مسئلہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں بعض فلسطینی گروہوں کے معرض وجود میں آنے اور پھر عوامی امنگوں کے مطابق جد و جہد کے راستے سے ان کے بھٹک جانے کے علل و اسباب بیان کئےـ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت فلسطین اپنے پائمال شدہ حقوق کی بازیابی کے لئے آج جو اٹھ کھڑی ہوئی اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مزاحمتی تنظیموں کی تشکیل کی راہ میں بہت سے نشیب و فراز آتے رہے اور ساتھ ہی بعض گروہوں نے سازباز کے عمل میں شامل ہوکر فلسطینی عوام کی امنگوں کو بری طرح نقصان پہنچایا اور صیہونی حکومت کے سامنے کچھ عرب حکومتوں نے گھٹنے ٹیک دیئے جس کی واضح مثال کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے جنوبی لبنان میں صیہونی حکومت کی ذلت آمیز شکست اور غزہ کی بائیس روزہ جنگ میں اسرائیل کی ناکامی جیسے بعض اہم واقعات کو حقوق کی بازیابی کے لئے جاری ملت فلسطین کی تحریک کی تاریخ میں سنہری باب قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے محمود عباس کی زیر قیادت فلسطینی انتظامیہ کی طرف سے پیش کئے جا رہے موجودہ منصوبے کو بھی صیہونیوں کے عزائم کے مقابلے میں جھک جانے اور فلسطینی عوام کے حقوق کو نظر انداز کر دینے کے مترادف بتایا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت فلسطین کے حقوق کی بازیابی فلسطین کے محض چند علاقوں کی آزادی نہیں بلکہ پوری فلسطینی سرزمین کی آزادی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہر وہ تجویز جس میں فلسطین کی تقسیم کی بات کی گئی ہو ناکام ہوگی ۔ آپ نے فرمایا کہ دو ریاستوں کی تشکیل کا خیال پناہ گزیں فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی کے ساتھ ساتھ علاقے میں سرطانی ناسور کے باقی اور کئی عشروں سے جاری مظلوم فلسطینیوں کے رنج و آلام کے جاری رہنے سے عبارت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کے حل کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی تجویز کو بالکل واضح اور شفاف تجویز قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران کا موقف بین الاقوامی روایات کے مطابق مسلمہ موقف ہے جس میں نہ تو کسی اسلامی فوج کی روایتی جنگ کی بات کی گئی ہے اور نہ ہی دوسرے علاقوں سے لاکر بسائے گئے یہودیوں کا خون بہانے اور نہ ہی اقوام متحدہ یا کسی دیگر عالمی ادارے کی طرف سے قضاوت کی بات کی گئی ہے، ایران کا موقف یہ ہے کہ فلسطینی عوام کے درمیان استصواب رائے کرایا جائے کیونکہ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنا فلسطینی عوام کا حق ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دوسرے علاقوں سے لاکر بسائے گئے یہودی نہیں بلکہ تمام فلسطینی خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی اس ریفرنڈم میں شرکت کریں اور اسی عمل کے تحت ان لوگوں کے مستقبل کا بھی فیصلہ کیا جائے جو دیگر علاقوں سے لاکر فلسطین میں بسا دئے گئے ہیں۔ اسرائیل کو امریکہ کی ریڈ لائن قرار دینے والے امریکی صدر باراک اوباما کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے یہ سوال کیا کہ یہ ریڈ لائن کس نے کھینچی ہے، کیا یہ امریکی عوام کے مفادات کی عکاسی کرنے والی ریڈ لائن ہے یا امریکی صدر کے لئے صیہونی لابی کی حمایت کے حصول اور دوسرے دور کے صدارتی انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے لئے یہ ریڈ لائن بنائی گئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکہ اور یورپ میں متعدد سماجی، اقتصادی اور اخلاقی مسائل کی جڑ ان ممالک کی حکومتوں پر صیہونزم کا تسلط ہے جس کی وجہ سے یہ حکومتیں سمجھتی ہیں کہ ان کے مفادات کی حفاظت کا واحد راستہ اسرائیل کے مفادات کی حفاظت ہے۔
قابل ذکر ہے کہ فلسطین کی تحریک انتفاضہ کی حمایت میں پانچویں بین الاقوامی کانفرنس سنیچر کی صبح تہران میں شروع ہوئی جو کل اتوار تک جاری رہے گی۔ کانفرنس میں پچاس سے زائد ممالک کے پارلیمانی وفود اور اسلامی و غیر اسلامی ممالک کے مفکرین و دانشور موجود ہیں۔