قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے فرمايا ہے کہ جو قوم سياسي ثبات و استحکام کي مالک ہوتي ہے اسي کو مقابلے کے مختلف ميدانوں ميں قدم رکھنے اور آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے۔

قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علی خامنہ اي نے پير کے روز صوبہ شمالي خراسان کے علاقے شيروان ميں ايک عظيم الشان عوامی اجتماع سے خطاب ميں، ملکوں ميں عدم استحکام اور بے ثباتي پيدا کرنے کو سامراج کا اہم حربہ قرار دیا اور فرمايا کہ تسلط پسند، جارح اور منہ زور سامراجي طاقتوں کا ایک منصوبہ یہ بھی ہے کہ ملکوں ميں بے ثباتي پيدا کريں چنانچہ اس کی مثالیں ہمارے خطے اور دنيا کے ديگر علاقوں ميں بآسانی دیکھی جا سکتی ہيں۔ قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ سامراجي طاقتوں نے جس ملک پر بھي بھوکی نظر ڈالی، اس کے خلاف جارحیت کرنے اور اس پر اپنا تسلط جمانے کا ارادہ کيا، وہاں انہوں نے سب سے پہلے عدم استحکام اور بے ثباتي پيدا کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے فرمايا کہ تسلط پسند طاقتيں اپنا تسلط جمانے کے لئے ملک کے اندر اور پڑوسي ملکوں ميں اختلاف و تفرقہ ڈالتي ہيں تا کہ نظام مملکت ميں بے ثباتي پيدا ہو اور نتيجے ميں مغرب کی اسلحہ ساز اور اسلحہ فروش کمپنیاں اور مالیاتی ادارے فائدہ اٹھائيں۔

آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے ايران کے امن و استحکام کي طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمايا کہ ان حالات ميں اسلامي جمہوري نظام اپنے عوام کے ايمان اور بصيرت کے سائے ميں، ملک کے اندر محکم ثبات و استحکام قائم کرنے ميں کامياب رہا ہے۔

آپ نے فرمايا کہ جو قوم سياسي ثبات و استحکام کي مالک ہو اور حکمراں نظام کو امن و سکون حاصل ہو، اسي کو اس بات کا موقع ملتا ہے کہ انساني مقابلہ آرائي کے مختلف ميدانوں ميں اتر ے اور آگے بڑھے۔

آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے فرمايا کہ امن و چین ہر ملک ميں قوم کي سب سے بنیادی ضرورت ہوتي ہے، اگر قوم تلاطم کا شکار ہو اور اس کو سکون حاصل نہ ہو تو اس کو علم، اقتصاد اور صنعت کے ميدانوں ميں آگے بڑھنے، قومي عظمت حاصل کرنے اور اپني استعداد اور صلاحتيوں کو اجاگر کرنے کا موقع نہيں ملتا۔

قائد انقلاب اسلامي نے ايران ميں امن و سکون اور ثبات و استحکام درہم برہم کرنے کے لئے اسلامي انقلاب کے دشمنوں کي تين عشرے سے جاري کوششوں کي طرف اشارہ کيا اور مسلط کردہ جنگ کو دشمنوں کی بہت بڑی سازش قرار دیتے ہوئے فرمايا کہ مسلط کردہ جنگ نہ صرف يہ کہ ملک کے ثبات و استحکام کو درہم برہم نہ کر سکي بلکہ اس سے قوم کا اتحاد مزيد مستحکم ہوا اور تمام قبيلوں اور مذاہب کے لوگ زيادہ متحدہ ہو گئے۔

آپ نے ايراني قوم کي مثالي بصيرت کي قدرداني کرتے ہوئے فرمايا کہ گزشتہ تين دہائیوں کے دوران عوام نے اپني تمام ذمہ دارياں بنحو احسن انجام ديں اور دشمن عوام کے درميان اختلاف و تفرقہ نہیں پیدا کر سکے۔

قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے فرمايا کہ دشمنوں کي عائد کردہ پابنديوں اور دھمکيوں کے باوجود ايراني قوم نے ثبات و استحکام کے سائے ميں، مختلف ميدانوں ميں نماياں پيشرفت حاصل کي، دنيا سے اپني توانائي و صلاحيت کا لوہا منوايا اور تمام تر پابنديوں کے باوجود پورے جوش و جذبے کے ساتھ پيشرفت کی شاہراہ پر آگے بڑھ رہی ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے آئندہ سال جون کے مہینے میں مجوزہ صدارتی انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انتخابات سے قبل کی مدت میں اور انتخابات کے دوران تمام حکام کی توجہ ملک کے امن و ثبات کو تقویت اور ہر طرح کی ہنگامہ آرائی اسے اجتناب اور اس کے سد باب پر مرکوز ہونا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے تفرقہ انگیز اقدامات کے سلسلے میں عوام الناس کی ہوشیاری کی قدردانی کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام حکام، سیاسی رہنماؤں اور بااثر شخصیات کو چاہئے کہ بہت محتاط رہیں کہ کہیں ان کی کسی بات سے سیاسی فضا میں تلاطم کی کیفیت نہ پیدا ہو۔

آپ نے فرمایا کہ امریکی اور غیر امریکی رہنما بڑے تسلسل کے ساتھ اسلام اور اسلامی نظام سے ایرانی عوام کی جدائی کی باتیں کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ ایرانی قوم کو ایرانی نہیں سمجھ رہے ہیں بلکہ کسی موہوم سی چیز کو ایرانی قوم سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ایرانی عوام یہی ہیں جنہوں نے ان چند دنوں میں ایک بار پھر تاریخ رقم کی اور ثابت کر دیا کہ دشمن کے سارے اندازے اور قیاس آرائیاں غلط ہیں۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا حکام کو ہدایت کی کہ عوام محنت و جفاکشی کے لئے تیار ہیں، ان کے لئے راستہ کھولئے اور پھر دیکھئے کہ عوام کس ہمت و حوصلے کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں۔