بسم اللَّه الرّحمن الرّحيم
اين حسين كيست كه عالم همه ديوانهى اوست
اين چه شمعي است كه جانها همه پروانهى اوست
اے شمع فروزاں، اے نور تاباں، اے دلوں میں حرارت پیدا کرنے والے! تو کون ہے جو اس شکوہ و جلالت، اس حلاوت و دلنشینی، اس ہیبت و عظمت، دل و جان سے نثار اس عظیم لشکر اور ان فرشتوں کی گہما گہمی کا محور بنا ہوا ہے جو تیری بارگاہ میں انسانوں سے محو رقابت ہیں؟ اے نور خدا اے صدائے حقیقت، اے فرقان (حق و باطل)، اے کشتی نجات، تو کون ہے؟ تونے اپنے خالق کی راہ میں ایسا کیا کیا کہ جس کا صلہ یہ ہے کہ تجھ سے منسوب ہونے والی ہر چیز خدائی شئے ہو جاتی ہے؟ تجھ پر میری جان نثار، میری روح قربان، میرا خون دل قربان ہو۔ آپ پر اللہ کا سلام ہو اس دن جب آپ کی ولادت ہوئی، جس دن آپ عالم مظلومیت میں شہید ہوئے اور اس دن جب دوبارہ فخر و افتخار کے ساتھ مبعوث کئے جائیں گے۔ (29/2/93 ہجری شمسی مطابق 19 مئی 2014)
کتاب بڑے اچھے ذوق اور سلیقے سے لکھی گئی ہے فنکارانہ، نکتہ سنج اور متلاشی نگاہ کے ساتھ۔ 28/2/93 (ہجری شمسی مطابق 18 مئی 2014) تک میں نے اس کا مطالعہ کیا۔
----------
1) كتاب پنجرههاى تشنه (تشنہ کھڑکیاں) امام حسین علیہ السلام کی ضریح کے قم سے کربلا تک کے سفر کی روداد ہے، جسے جناب مہدی قزلی نے تحریر کیا ہے۔