رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اگر ملت ایران پختہ ارادے کے ساتھ مستحکم انداز میں انتخابات میں شریک ہوتی ہے اور بیلٹ باکسوں کو اپنے عزم اور ووٹوں سے پر کر دیتی ہے تو اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنے اوپر فخر ہوگا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس کے بعد انتخابات میں صحتمند رقابت کے تقاضوں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ صحتمند رقابت کی اہم ترین شرط حق رائے دہی رکھنے والے تمام افراد حتی ان لوگوں کی بھرپور شرکت ہے جنھیں اسلامی نظام سے کچھ شکایتیں بھی ہوں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: ممکن ہے کچھ افراد کو اسلامی نظام سے کچھ شکایت ہو لیکن فطری طور پر ان افراد کو ملک کی ترقی، وقار اور سیکورٹی سے کوئی بیر نہیں ہوگا، اسی لئے اگر وہ قومی سلامتی کا تسلسل، ملی وقار میں اضافہ اور وطن عزیز کی پیشرفت کی ضمانت چاہتے ہیں تو انھیں چاہئے کہ انتخابات میں ضرور شرکت کریں۔ آپ نے مزید فرمایا کہ جو لوگ احساس ذمہ داری اور الہی نیت کے ساتھ انتخابات میں شرکت کرتے ہیں، یقینا وہ رضائے پروردگار کے حقدار قرار پائیں گے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ صحتمند اور صاف ستھرے انتخابات کی اولیں شرط عوام کی بھرپور اور پرجوش شرکت ہے اور توفیق خداوندی سے ایران کے صاحب بصیرت اور آگاہ عوام دونوں انتخابات میں اسی انداز سے شرکت کریں گے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ کچھ لوگ گھات میں بیٹھے ہیں کہ انتخابات میں عوام کی عدم شرکت اور انتخابات کے بائیکاٹ کے بہانے اسلامی جمہوریہ پر اعتراضات کریں، لیکن گھات میں بیٹھے ان نابکار عناصر کے مقابلے میں ملت ایران نے ہمیشہ اپنی کارگر روش کا مظاہرہ کیا ہے اور اس بار بھی اسی روش کا مظاہرہ کرے گی۔
صحتمند انتخابات کی دوسری شرط کی تشریح کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے عوام کی آگاہانہ اور مدبرانہ شرکت اور لیاقت رکھنے والے افراد کے انتخاب پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایسے افراد چنے جائیں کہ جو منصب پانے کے بعد خود کو مشکلات و آفات کے مقابلے میں وطن عزیز کی ڈھال بنا دیں اور عوامی مفادات اور خدمت کے لئے خود کو وقف کر دیں، وطن عزیز کو دشمن کے ہاتھوں فروخت نہ کریں اور تکلف میں پڑ کر ملی مفادات کو نظر انداز کر دینے والے نہ ہوں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اس جملے کو دہرایا کہ وہ افراد بھی جنھیں اسلامی نظام سے کچھ مشکل ہے، انتخابات میں ضرور شرکت کریں، تاہم آپ نے اس نکتے کو بھی واضح کیا کہ؛ اس بات کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جو لوگ اسلامی نظام کو قبول نہیں کرتے انھیں پارلیمنٹ کا ممبر چن لیا جائے۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ کسی بھی ملک میں ایسے افراد کو جو وہاں کے نظام حکومت کو تسلیم نہیں کرتے، اہم فیصلے کرنے والے اداروں میں جگہ نہیں ملتی، یہاں تک کہ امریکا جیسے ملک میں بھی، جو خود کو آزادی کا مثالیہ کہتا ہے اور کچھ سادہ لوح افراد اس بات کو سچ مان کر اس کا پرچار بھی کرتے ہیں، مشرقی و مغربی بلاکوں کی رقابت کے دور میں ایسے لوگوں کو ہٹا دیا جاتا تھا جن کے بارے میں سوشیلسٹ رجحان کا ذرا سا بھی شک ہو جاتا تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس بات کا خیال رکھنا کہ پارلیمنٹ میں وہی لوگ جائیں جو ملکی اقدار، مفادات اور اسلامی نظام کو قبول کرتے ہوں، حق الناس ہے جس کا صحیح و سالم انتخابات پر اثر پڑتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے صحیح و سالم انتخابات کے مزید لوازمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات سے متعلق تمام اداروں کا قانون کی بالادستی کو دل سے قبول کرنا، قانون کی صحیح معنی میں پابندی، قانونی اداروں کی توہین سے اجتناب، عوام الناس کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پھیلانے سے اجتناب، انتخابی امیدواروں کا ایک دوسرے کی توہین سے بچنا بلکہ غیبت سے بھی پرہیز، غیر قانونی اور ایسے وعدے نہ کرنا جنھیں پورا نہ کیا جا سکتا ہو، عوام کے سلسلے میں صداقت سے کام لینا صحتمند انتخابی رقابت کے آداب و ضوابط ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عوام کے ذہنوں میں تشویش پیدا کرنے والی بعض باتوں اور اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ کچھ لوگ مستقل طور پر 'انتہا پسند' کی رٹ لگائے ہوئے ہیں اور اس لفظ سے ان کی مراد ہیں مومن اور 'حزب اللہی' حلقے، جبکہ انقلابی اور حزب اللہی نوجوانوں پر انتہا پسندی کا الزام لگانا غلط ہے، کیونکہ یہ نوجوان خلوص دل اور پورے وجود سے میدان میں حاضر ہیں اور جب بھی سرحدوں کے دفاع اور قومی تشخص کی حفاظت کا مرحلہ در پیش ہو وہ آمادہ نظر آتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ سعودی عرب کے سفارت خانے کو آگ لگانے جیسے انتہائی غلط اور برے واقعے کی وجہ سے حزب اللہی، انقلابی اور مومن نوجوانوں کو کٹہرے میں نہ کھڑا کیا جائے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ان انقلابی و حزب اللہی نوجوانوں کا فہم و شعور بہت سے معاملات کے تجزئے میں بعض بڑوں سے بہتر ہوتا ہے، چنانجہ انقلاب اور اسلام کے شیدائی ان نوجوانوں کو، سعودی عرب کے سفارت خانے پر حملے کی وجہ سے یا اس سے پہلے برطانیہ کے سفارت خانے پر ہونے والے حملے کے باعث کہ جس سے ملک اور اسلام کو نقصان پہنچا اور مجھے بھی بہت برا لگا، کمزور نہ کیا جائے اور حملے کی آماجگاہ نہ بنایا جائے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ انتخابات ایک نعمت اور بڑا اہم موقع ہے اور اس نعمت کا شکرانہ صحیح و سالم انتخابات کا انعقاد ہے، بنابریں بغیر سوچے سمجھے کہی جانے والی بعض باتوں اور انجام دئے جانے والے اقدامات سے اس عظیم افتخار اور عمل کو مخدوش اور مسخ نہیں ہونے دینا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ایٹمی مسئلے سے متعلق مشترکہ جامع ایکشن پلان کے سلسلے میں بھی انتہائی کلیدی نکات بیان کئے۔ آپ نے صدر مملکت، وزیر خارجہ اور ایٹمی مذاکراتی ٹیم کے دیگر ارکان کی زحمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام مطالبات پورے نہیں ہوئے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ عہدیداران نے اس مسئلے میں بڑی محنت کی جس کا اجر انھیں ان شاء اللہ خداوند عالم سے ملے گا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ان لوگوں پر نکتہ چینی کی جو جامع ایکشن پلان سے ملنے والے ان محدود نتائج کو امریکا کا لطف و کرم قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں، آپ نے فرمایا کہ کچھ لوگ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر استکبار کے کریہ چہرے کا میک-اپ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بہت بری اور خطرناک کوشش ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کوشش کے غیر منطقی ہونے کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر محلے کا غنڈہ جبرا آپ کے گھر اور املاک پر قبضہ کر لے اور آپ آخر کار بڑی محنتوں اور زحمتوں کے بعد اسے اپنے اس گھر کا ایک حصہ چھوڑنے پر مجبور کر لے جائیں تو کیا یہ نتیجہ اس غنڈے کی مہربانی ہے یا آپ کی قوت اور محنت کا ثمرہ؟!
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ ایٹمی میدان میں ملنے والی کامیابیاں، جوہری سائنسدانوں منجملہ چار جوہری شہیدوں کی کاوشوں اور مہارتوں نیز قوم کی پشت پناہی و استقامت کا ثمرہ ہے اور ان حقائق کے ساتھ ہی حکام کی محنتوں کے نتیجے میں دشمن کو بعض جگہوں پر پسپا ہونا پڑا، بنابریں یہ حد درجہ ناانصافی ہوگی کہ کچھ لوگ اسے امریکیوں کی کرم فرمائی قرار دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکی حکام کے حال ہی میں دئے گئے اعلانیہ بیانوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ پابندیاں عائد کرنے کے پیچھے دشمن کا مقصد عوام کو برافروختہ کرکے انھیں سڑکوں پر لانا تھا، لیکن ہماری قوم نے صبر و استقامت کا ثبوت دیا اور اسلامی نظام اور حکام کے ساتھ مل کر وقار اور قدرت کا مظاہرہ کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بھی بہتر کام کیا جا سکتا تھا، لیکن بہرحال توانائیوں، مواقع اور وسائل کے نتیجے میں یہ جو نتیجہ ملا ہے وہ بھی قابل قدر ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کو بڑا بت اور مغرب کی دیگر سامراجی طاقتوں کو حاشئے کے بت سے تعبیر کیا اور ایٹمی مسئلے میں ایران دشمن طاقتوں کے اصلی اہداف کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کی تو قسم کھائی جا سکتی ہے کہ ہمارے مد مقابل فریقوں کو بخوبی معلوم تھا کہ ایران ایٹم بم بنانے کی کوشش نہیں کر رہا ہے، لہذا ان کے پیش نظر کچھ اور ہی اہداف تھے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ملت ایران کی پیشرفت کو روکنا، علاقے اور دنیا میں اسلامی جمہوریہ کے روز افزوں اثر و رسوخ کو ختم کرنا ایٹمی مسئلے میں ملت ایران کے خلاف سختی کرنے کے استکباری محاذ کے اصلی اہداف تھے۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن چاہتے تھے کہ یہ اہداف حاصل کرکے قوموں کو یہ باور کرائیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران بھی دین پر استوار نظام کو چلانے اور جاری رکھنے پر قادر نہیں رہا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سارے لوگ بشمول حکام کے، امریکیوں کے اصلی اہداف پر نظر رکھیں، وہ چاہتے ہیں کہ پروپیگنڈے کے ذریعے اپنے مقاصد کی تکمیل کریں، لہذا ان کی طرف سے ہوشیار رہنے اور استقامت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حکومتی عہدیداران اور جامع مشترکہ ایکش پلان کے نفاذ کی نگراں کمیٹی کے ارکان کو امریکا کے فریب کی طرف سے ہوشیار رہنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ فریق مقابل دھوکے باز ہے اس کی مسکراہٹوں اور ظاہری روپ پر اعتماد نہ کیجئے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ امریکا کی موجودہ پالیسیاں اور اہداف بھی وہی ایران مخالف امریکی پالیسیاں اور اہداف ہیں جو ریگن اور بش کے زمانے میں تھیں۔ آپ نے فرمایا کہ حکام پوری نظر رکھیں کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے نفاذ کے سلسلے میں امریکی اپنے وعدوں پر کاربند ہیں، ورنہ دوسری صورت میں ضرور جوابی کارروائی کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کی آبی سرحدوں میں امریکی میرینز کے داخل ہو جانے کے مسئلے میں پاسداران انقلاب فورس کی کارکردگی کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے دشمن کی اس خلاف ورزی کے جواب میں ایران کی شناخت اور قوت کا مظاہرہ کیا، حکام کو بھی چاہئے کہ تمام میدانوں میں اسی انداز سے عمل کریں اور جہاں بھی دشمن ایران کے قومی مفادات کی لائن کو عبور کرنے کی کوشش کرے پوری طاقت سے اسے روک دیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکا کی ماہیت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ علاقے کے موجودہ واقعات و تغیرات نے واضح کر دیا کہ چند سال قبل نئے مشرق وسطی کی تشکیل کے امریکیوں کے بیان کا کیا مقصد تھا، ان کے مد نظر جدید مشرق وسطی جنگ، دہشت گردی، تعصب، رجعت پسندی، خانہ جنگی اور مسلکی تصادم میں گرفتار مشرق وسطی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سبھی کو یہ سفارش کی کہ امریکا کی اصلی تصویر اس کی اسی کارکردگی کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں مزید فرمایا کہ پابندیوں کے اٹھ جانے کا مطلب ملکی اقتصاد اور عوامی معیشت کی مشکلات کا حل ہو جانا نہیں ہے۔ آپ نے کہا کہ عوام کے دسترخوان پر آنے والی بہتری اور اقتصادی ترقی کے لئے منصوبہ بندی اور پروگرام کی ضرورت ہے جسے میں سبھی حکومتوں کے گوش گزار کرتا رہا ہوں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے استقامتی معیشت کو اقتصادی مشکلات کے ازالے کی بنیادی حکمت عملی قرار دیا اور طے شدہ پروگراموں کے نفاذ پر دائمی نگرانی رکھے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ دشمن سے آس لگانے سے کوئی مشکل حل ہونے والی نہیں ہے، ہمیں ایران کی معیشت کو اس طرح مستحکم اور مضبوط بنانا چاہئے کہ وہ بیرونی تلاطم کا ڈٹ کر سامنا کر سکے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایک اور اہم نکتے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت غیر ملکی وفود کی آمد و رفت اور معاہدوں پر دستحط سے ملکی صنعت، پیداوار اور زراعت کو ہرگز نقصان نہیں پہنچنا چاہئے، حکام اس کا ضرور خیال رکھیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں فرمایا کہ دینداری، بصیرت، انقلابی جذبہ اور ملت ایران کی قوت تاحال دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کے سد راہ بنی ہے اور فضل پروردگار سے عمومی و پرخلوص کوششوں اور ہمدلی و مہربانی کے نتیجے میں آپ سامراجی طاقتوں کی تمام پالیسیوں کی ناکامی اور انقلاب کے تمام اہداف کی تکمیل کا مشاہدہ کریں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے نگراں کونسل 'شورائے نگہبان' کے سکریٹری آیت اللہ جنتی نے تقریر کرتے ہوئے انتخابات کو نعمت پروردگار، امن و سلامتی کا ضامن اور ملت و اسلامی نظام کا وقار قرار دیا اور انتخابات کے انعقاد کے مختلف مراحل میں وزارت داخلہ کی طرف سے کئے جانے والے تعاون کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ ہماری پوری کوشش صحتمند، شفاف، آزادانہ، قانونی، مقابلہ جاتی اور پرامن انتخابات کے انعقاد کی ہے اور اس ہدف کی تکمیل کے لئے نگراں کونسل کسی بھی مرحلے میں شور شرابے اور دباؤ سے متاثر نہیں ہوگی۔