رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اتوار کی صبح پاسداران انقلاب فورس کے کمانڈروں کی کل ایران کانفرنس کے شرکاء سے ملاقات میں پاسداران انقلاب فورس کو انقلاب کا محکم قلعہ، اندرونی و خارجہ سیکورٹی اور ملک کی پیشرفت کے لئے ضروری ممتاز اور نمایاں تشخص کا بنیادی حفاظتی عنصر قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کے روحانی و فکری ستونوں کو کمزور کرنے کے لئے پیدا کئے جانے والے انحرافوں اور ان میں تحریف کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ کی فکری قوت کا ایک ستون تسلط پسند طاقتوں اور ان میں سر فہرست امریکا پر عدم اعتماد ہے اور اس بے اعتمادی میں روز بروز اضافہ ہونا چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں پاسداران انقلاب فورس کے تینوں شعبوں، بحریہ، فضائیہ اور زمینی فورس کی تشکیل سے متعلق امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کو اس عظیم مرد الہی کی دور اندیشی اور قلب نورانی کا ثمرہ قرار دیا اور پاسداران انقلاب فورس کی اہمیت و مقام و منزلت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ معروف جملہ کہ اگر پاسداران انقلاب فورس نہ ہوتی تو ملک بھی نہ ہوتا، اس وجہ سے تھا کہ پاسداران انقلاب فورس وہ شجرۂ طیبہ ہے جس سے ایمان اور انقلابی و جہادی تحریک چھلکتی ہے اور ملک و انقلاب کی حفاظت انھیں اہم عناصر کی بقا پر منحصر ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انقلاب کے اساسی ہدف یعنی جدید اسلامی تمدن کی تشکیل تک رسائی اور سازشوں کے مقابلے میں اسلامی نظام کے دفاع کو انقلابی و جہادی تحریک کا نام دیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی فتح کے سینتیس سال بعد اور خاص طور پر مقدس دفاع کا زمانہ گزرنے کے بعد اب پاسداران انقلاب فورس کے بارے میں اس تجربہ کار، عمیق اور اللہ پر توکل رکھنے والی ہستی کے اس نظرئے کی حقیقت اور بھی نمایاں ہوئی ہے اور یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاسداران انقلاب فورس انقلاب کا محکم قلعہ ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ داخلی سلامتی اور سرحدوں کے باہر ملکی سلامتی کی حفاظت پاسداران انقلاب فورس کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پاسداران انقلاب فورس دفاعی و سیکورٹی کے امور دیکھنے کے ساتھ ہی دیگر میدانوں جیسے تعمیرات، محرومین کی مدد، ثقافتی امور، فن و ہنر کے مسائل اور انقلابی فکر کی پرورش میں بھی فیصلہ کن کردار کی حامل اور بہت موثر ثابت ہوئی ہے، یہ اقدامات اسی طرح جاری رہنا چاہئے اور ان سے عوام اور رائے عامہ کو بھی مطلع کرنا چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے پاسداران انقلاب فورس کے دفاعی، تعمیراتی اور ثقافتی اقدامات کو بہت نمایاں اور ممتاز قرار دیا اور زور دیکر کہا کہ پاسداران انقلاب فورس کی خدمات کے بارے میں یہ رائے بالکل حقیقت پسندانہ اور غیر جانبدارانہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نظام اور انقلاب کے دشمن بھی پاسداران انقلاب فورس کے بارے میں یہی رائے رکھتے ہیں۔ مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر نے زور دیکر کہا کہ پاسداران انقلاب فورس کے تشخص کی حفاظت بہت اہم مشن ہے اور اس کے لئے دانشمندی اور ممکنہ خامیوں پر ںظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تشخص کی حفاظت کا مطلب کسی ایک زمانے میں ٹھہر جانا نہیں ہے، بلکہ دشمن کے وسائل کی تبدیلی اور پیشرفت کے ساتھ پاسداران انقلاب فورس کو بھی علم و دانش اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں آگے بڑھتے رہنا چاہئے اور پیشرفت کی کسی بھی منزل پر مطمئن ہوکر رک نہیں جانا چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے سیکورٹی کو بہت اہم اور سماج کی علمی و مادی پیشرفت کا مقدمہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ پاسداران انقلاب فورس کے فرائض میں داخلی و خارجہ سیکورٹی کو یقینی بنانا ہے اور اگر خارجہ سیکورٹی نہ ہوگی اور سرحدوں کے باہر ہی دشمنوں کا راستہ نہیں روکا جائے گا تو داخلی سیکورٹی بھی ختم ہو جائے گی۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ فوجی خطرات سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلح فورسز کی قوت میں روز افزوں اضافہ ہو۔ آپ نے فرمایا کہ گزشتہ برسوں میں بعض اوقات بعض حکام سے یہ سننے میں آتا تھا کہ جنگ کا خطرہ ہمارے فلاں اقدام سے دور ہوا، جبکہ یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ جنگ کا خطرہ ملک کی دفاعی و عسکری توانائی اور دشمن پر رعب و خوف طاری ہو جانے کے نتیجے میں دور ہوا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ان بیانوں پر نکتہ چینی کی جن میں بعض ملکوں کی پیشرفت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ان کی پیشرفت کی وجہ وہاں کے فوجی اداروں کا ختم کر دیا جانا تھا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ یہ باتیں جس طرح کے افراد سے منسوب کی جا رہی ہیں، یقین کرنا بہت دشوار ہے کہ انھوں نے کہی ہوں گی، لیکن اگر واقعی انھوں نے ایسی بات کہی ہے تو بالکل غلط بات کی ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ جن ملکوں کے بارے میں کہا گیا کہ انھوں نے اپنے فوجی ادارے بند کر دئے، انھوں نے اپنی مرضی سے یہ کام نہیں کیا، بلکہ وہ عالمی جنگ میں نابود ہوکر رہ گئے تھے اور انھیں اجازت ہی نہیں دی گئی کہ وہ اپنی فوج رکھ سکیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ کوئی بھی عقلمند انسان اپنی دفاعی قوت کو ختم نہیں کرتا، بنابریں ملک کی دفاعی طاقت میں روز افزوں استحکام آنا چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ایمان کو ملک کی دفاعی توانائی کا سب سے اہم عنصر قرار دیا اور فرمایا کہ غیر مساوی جنگ اسی کو کہتے ہیں کیونکہ فریق مقابل پیشرفتہ وسائل سے تو آراستہ ہے لیکن ایمان کی طاقت سے محروم ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ غیر مساوی جنگ کا واضح نمونہ عراق میں اس وقت نظر آیا جب عراق کی عوامی فورسز نے جو پیشرفتہ فوجی وسائل سے لیس نہیں ہیں، مگر ایمان کی عظیم قوت سے آراستہ ہیں، ان علاقوں کو بھی آزاد کرا لیا جن پر امریکی افواج اور ان کے اتحادی عراق میں اپنی موجودگی کے آغاز سے لیکر آخر تک قبضہ نہیں کر سکے تھے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کی فکری و نظریاتی توانائی کے اجزا میں تحریف کی کوششوں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ملک کی دفاعی توانائی کے بارے میں کچھ غلط باتیں کہی جا رہی ہیں، ان کے ساتھ ہی انقلاب کے مفاہیم کے تعلق سے بھی تحریف اور ان کی غلط تفسیر کی کوشش کی جا رہی ہے جو غلط باتیں کرنے سے زیادہ خطرناک ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایاکہ خود مختاری کے مفہوم کی نفی اور اسے تنہائی و گوشہ نشینی کے مساوی مان لینا بھی ایک تحریف ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ خود مختاری کی نفی کا اصلی ہدف استکباری طاقتوں کے وضع کردہ سسٹم کی پیروی کرنا ہے اور افسوس کا مقام ہے کہ کچھ لوگ دانستہ یا نادانستہ طور پر یہی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے خودمختاری، ثقافت اور عقائد کو کسی بھی قوم کے تشخص کی بنیاد قرار دیا اور یہ سوال کیا کہ آخر کس وجہ سے ایک قوم اپنی شناخت سے دست بردار ہوکر مغرب کے غلط اور رسوا طور طریقوں کی پیروی کرنے لگے؟ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ہم جنس بازی جیسے شرمناک مسئلے کا حوالہ دیتے ہوئے اسے خلقت بشر اور مصلحت بشر کے منافی قرار دیا اور فرمایا کہ عالمی سطح کی تشہیراتی مہم میں اس طرح ماحول سازی اور ہنگامہ آرائی کرتے ہیں کہ اگر کوئی اس بے راہروی کی مخالفت کرے تو خود کو الگ تھلگ محسوس کرنے پر مجبور ہو جائے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بعض مغربی حکام ووٹ حاصل کرنے کے لئے اس طرح کے غلط رجحان کی بھی اعلانیہ حمایت کرتے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جس عدم خود مختاری پر مغرب زور دیتا ہے اس کا نتیجہ اسی طرح کی صورت حال ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسلام کی روحانی و نورانی فکر چھوڑ کر اس طرح کے پست نظرئے کی پیروی کرنا شروع کر دیں؟ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی نظام کی فکری قوت کے بنیادی اجزا میں تحریف کی ایک اور مثال پیش کرتے ہوئے اعلی اہداف اور اصولوں پر کاربندی کو بے عقلی کے مساوی قرار دینے کی کوشش کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اعلی اہداف کے لئے کوشش کرنا عین عقل ہے، کیونکہ اگر کوئی قوم اعلی اہداف کی حامل نہ ہو تو آج کے مغربی سماجوں کی طرح اندر سے کھوکھلی ہوکر رہ جائے گی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ قوموں میں پیشرفت اور آگے بڑھنے کا جزبہ انھیں اعلی اہداف کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور یہ اہداف جتنے بلند اور درخشاں ہوں گے پیش قدمی کا عمل بھی اتنا ہی اچھا ہوگا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فکری توانائی کے عناصر میں سے ایک اہم عنصر عالمی استکباری طاقتوں پر جن کا مظہر آج امریکا ہے، اعتماد نہ کرنا ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکا کے سلسلے میں بے اعتمادی کو عام کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ افسوس کی بات ہے کہ بعض افراد اس بے اعتمادی کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں، وہ ویسے تو زبان سے کہتے ہیں کہ امریکا دشمن ہے، لیکن حقیقت میں ان کے اندر امریکا کے سلسلے میں بے اعتمادی نہیں پائی جاتی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جب انسان کے اندر فریق مقابل کے تعلق سے بے اعتمادی اور دشمنی کا جذبہ ہوگا تو مذاکرات اور ملاقاوتں میں، وہ انسان اس جذبے کے تقاضوں کا خیال رکھے گا اور فریق مقابل کی باتوں پر ہرگز اعتماد نہیں کرے گا۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ امریکا کے سلسلے میں بے اعتمادی فکر و تدبر، عقلی استدلال اور عملی تجربات کا نتیجہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ انقلاب کے بعد کے برسوں میں اور پھر ایٹمی مذاکرات اور کچھ دیگر مسائل کے دوران امریکا کی دشمنی کو ہم نے دیکھا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں ایک تاریخی مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ آئینی انقلاب کے معاملے میں جب برطانیہ پر اعتماد کر لیا گيا اور تحریک کا رخ برطانوی سفارت خانے کی جانب ہو گیا تو اس تحریک پر کاری ضرب پڑی اور اس کے نتیجے میں ملک 75 سال پیچھے چلا گیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے علاقے کے بعض ملکوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ نے ہوشیاری نہ برتی اور امریکا کے توسیع پسندانہ نظام کی چالوں کو نہ سمجھا اور ان کی مسکراہٹوں کے فریب میں پڑے رہ گئے تو عین ممکن ہے کہ آپ 50 سال حتی 100 سال پیچھے رہ جائیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ اگر آج ہم امریکیوں سے مذاکرات اور مختلف میدانوں میں ان کے وسوسوں کے لئے راستہ کھول دیں تو نہ صرف یہ کہ ان کے خفیہ و ظاہری تسلط کا راستہ کھل جائے گا بلکہ ملک کو وہ ترقی ہرگز حاصل نہیں ہو سکے گی جس کی اس ملک کو ضرورت ہے اور پسماندگی مقدر بن جائے گی۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دشمن کے تسلط اور غلبے کی کوششوں کی طرف سے حکام کی ہوشیاری کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ امریکیوں کا اصرار ہے کہ مغربی ایشیا کے مسائل بالخصوص شام، عراق، لبنان اور یمن کے بارے میں ہم ان سے گفتگو کریں، مذاکرات کی اس درخواست کے پیچھے ان کا اصلی مقصد کیا ہے؟ ان کا واحد ہدف علاقے میں اسلامی جمہوریہ کی موجودگی کو ختم کرنا ہے جو امریکیوں کی ناکامی کی بنیادی وجہ ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے امریکیوں کے مذاکراتی حربوں اور ان کی کھلی دشمنی کا حوالہ دیا جو ایٹمی مذاکرات کے دوران کھل کر سامنے آئی اور فرمایا کہ عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ جو لوگ اعلانیہ دشمنی برت رہے ہیں ان پر ہرگز اعتماد نہ کیا جائے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے علاقائی مسائل کے بارے میں امریکا سے مذاکرات کے تعلق سے کبھی کبھی اٹھنے والی آوازوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ امریکا سے مذاکرات میں فائدہ تو در کنار سراسر نقصان ہے اور اس چیز کو دلائل کے ساتھ ملک کے اعلی حکام کے سامنے بیان کیا جا چکا ہے اور ان کے پاس اس کا کوئی جواب بھی نہیں تھا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ مذاکرات سے امریکا کی دشمنی کم نہیں ہوگی بلکہ ان کے غلبے کا راستہ کھلے گا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ملک میں سلامتی کی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن نے ملک کی سیکورٹی کو نقصان پہنچانے کے لئے ہر ممکن کارروائی کی ہے، بنابریں تمام مسلح فورسز اور متعلقہ اداروں کو چاہئے کہ آج کی غیر محفوظ دنیا میں اس سیکورٹی کو بہت بڑی کامیابی مانتے ہوئے اس کی حفاظت کریں۔