بسم اللہ الرحمن الرحیم

 پوری اسلامی امہ، ایران کی مؤمن اورسر بلند قوم اور اس محفل میں شریک اسلامی جمہوریہ ایران کے مختلف حکومتی شعبوں کے اعلی' حکام، اسلامی ممالک کے محترم سفیروں، اور آپ تمام حاضرین کو عید سعید فطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ایک نظر میں عیدالفطر کو اسلامی امہ کےاتحاد اور مسلم اقوام کی یکجہتی کا جشن قرار دیا جا سکتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ماہ رمضان المبارک میں دل نورانی اورلطیف ہو جاتے ہیں جبکہ انسان کے وجود میں اختلافات کے شیطانی جذبات کمزور پڑ جاتے ہیں۔ عیدالفطر درحقیقت فطرت انسانی کی طرف رجوع ہے۔ ؛خداوندعالم، توحید اور ایک اعلی مرکز کی طرف رجحان، انسانی فطرت کاتقاضہ ہے۔ تمام محرکات اور انسانی جذبات و احساسات یکجا ہو سکتے ہیں اور ان میں ہم آہنگي پیدا ہو سکتی ہے۔
 عیدالفطر کی نماز بھی جہان اسلام کے ہر مقام پر اسی اتحاد کا مظہر ہے۔ لہذا اس دعا میں جو ہم قنوت میں پڑھتے ہیں( الذی جعلتہ للمسلمین عیدا ولمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ ذخرا و شرفا و کرامتا و مزیدا ) یہ عید نبی اکرم کی مقدس ذات کا ایک ذخیرہ ہے، شرف کا ایک وسیلہ ہے، اس مقدس ذات کی کرامت اور اعلی و بلند مقام میں اضافے کا وسیلہ ہے۔کب یہ خصوصیات پیدا ہوتی ہیں؟ اس وقت کہ جب یہ عید مسلمانوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دے۔ قومی سطح پر بھی یہ بات صادق آتی ہے اور اسلامی امہ کی سطح پر بھی یہ بات صادق آتی ہے۔قومی سطح پر جیسا کہ ہماری غیور قوم نے انقلاب کے بعد کے برسوں میں آج تک اس کا مظاہرہ کیا ہے، اتحاد اور وحدت کلمہ اس کی عزت وسربلندی کا باعث ہے، اس کی طاقت و توانائي کاسرچشمہ ہے۔
ہمارا ملک ایک ایسا ملک ہے جہاں ہماری غیور اور متحد قوم مختلف فرقوں اور مذاہب مشتمل ہے۔ ہمارے دشمنوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ نسلی تعصب، مذہبی اختلافات، فرقہ واریت کو ایرانی قوم کے سیاسی عمل اور وحدت کلمہ کے عام جذبے او نظرئے پر مسلط کردیں لیکن آج تک وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے؛ ایران میں بسنے والی مختلف اقوام ایک دوسرے کی ہمدرد ہیں، مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔انہوں ( دشمن )نے بڑی سازشیں کی ہیں۔
انقلاب کی تحریک کے دوران جب فتح و کامرانی کا پرچم بابصیرت انسانوں کو دور سے نظر آنے لگا تھا تو شاہ کی طاغوتی حکومت کے آلہ کار اور ایجنٹ کہتے تھے کہ ایران تقسیم ہو جائے گا۔ وہ اس پر پورا یقین رکھتے تھے۔
 ہمارے انقلاب کے اوائل میں ایرانی اقوام کو ایک دوسرے سے دور کرنے اور مذاہب کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کرنے کے لئے بہت زیادہ پیسہ خرج کیا گیا ۔انقلاب ان ساری سازشوں پر غالب آیا۔ لہذا آپ نے دیکھا کہ ہماری غیور قوم کے عظیم الشان مظاہروں میں اس عظیم سرزمین کے سبھی علاقوں سے ہر طبقے اور ہر قوم اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ شریک ہوئے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سب ایک ہی ہدف و مقصد کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
دو بھائی اکٹھا زندگی گذار رہے ہیں، ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملا کر چل رہے ہیں، جبکہ ممکن ہے کہ بعض مسائل کے سلسلے مین ان کے نظریات مختلف ہوں۔ یہ اختلاف نظر لڑائي جھگڑے کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ انقلاب نے ہمیں یہ بات سکھائی ہے۔ یہ بات ہم نے انقلاب کی برکت سے سیکھی ہے اور اس پر عمل کیا ہے؛ لہذا آج ہماری قوم متحد ہے۔
 حالیہ برسوں کے دوران دشمنوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ جب ہماری قوم میں نسلی و قومی اختلافات نہیں ڈالے جا سکے، مذہبی اختلافات نہیں ڈالے جا سکے، لسانی اختلافات نہیں ڈالے جا سکےتو سیاسی اختلافات پیدا کئے جائيں۔ البتہ ایک چھوٹا سا گروہ دھوکہ بھی کھا گيا اور غلطی کر بیٹھا تاہم قوم کے باشعور اور پڑھے لکھے افراد اس سازش کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ہمارے ملک میں اتحاد کا محور و مرکز، اسلامی جمہوری نظام، اسلام اور قرآن کریم ہے کہ جس پر سب کا یقین اور اعتقاد ہے۔ نماز کے خطبے میں آج صبح میں نے عرض کیا کہ ماہ رمضان کے ایام، ماہ رمضان کی راتیں وطن عزیز کے نوجوانوں کا اعتقاد و ایمان اور ان کی معنوی لطافت، تقرب الہی اور خضوع و خشوع کا مظہر تھا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔
 آج ہماری قوم کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، بہت کم قوموں میں اتنے نوجوان ہیں جو خلوص دل سے ذکر پروردگار کرتے ہیں، آنسو بہاتے ہیں، خدا سے رازونیاز کرتے ہیں، پاکیزہ دل کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں، یہ سب اسلام کی برکتیں ہیں۔ اس کی قدر کرنی چاہیے۔ عیدالفطر وہ دن ہے کہ جب ہمیں اپنا تجزیہ کرنا چاہیے اور اگر ہمارے دلوں میں کینہ و دشمنی، نفاق اور عناد ہے تو حتی المقدور ہمیں خود کو اس سے نجات دلانا چاہئے۔اپنے دلوں سے ان برے احساسات کو محوکردینا چاہیے۔ ہمارے سامنے ایک طویل راستہ ہے۔ یہ درست ہے کہ انقلاب نے ہمیں اور ہماری تحریک کو سرعت بخشی، ہم نے بہت زیادہ ترقی کی۔ ہم دنیا کی تیسرے درجے کی قوم سے ایک پر وقار قوم میں تبدیل ہو گئے اور ایک ایسی قوم بن گئے جو مسلم اقوام کی مطمح نظر ہے۔ خود اندرونی طور پر بھی ہم نے بہت زیادہ ترقی و پیشرفت کی ہے۔ یہ سب ٹھیک ہے،لیکن یہ بھی آغاز ہے۔ ابتدائي مرحلہ ہے۔
 اسلام میں ترقی کے لئے بہت زیادہ گنجائش ہے۔ اسلام نے ہمارے سامنے جو چوٹیاں رکھی ہیں وہ بہت بلند ہیں۔ ہمیں ان چوٹیوں کے راستے کو طے کر کے ان کو سر کرنا چاہیے۔ اسلام نے ایک ایسی عرب قوم کو کہ جس نے تہذیب و تمدن کی بو بھی نہیں سونگھی تھی اور انسانی علم و دانش سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا، عالمی سطح پر علم و دانش کی ایسی چوٹی پر پہنچا دیا کہ پوری دنیا کے انسانوں نے اس کے علم و دانش، اس کی معرفت، اس قوم کی تحریروں اور ان کے افکارونظریات سے فائدہ اٹھایا۔ یہ اسلام کا ہنر ہے۔ ہم مسلمانوں نے خود کو اس چوٹی سے نیچے گرا لیا؛ غلطی ہماری اپنی ہے، ہم نے پستی اور ذلتوں کو قبول کر لیا۔ اس لیے آج عالم اسلام پسماندہ ہے۔ ہم دوبارہ اسی راستے پر چل کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ذلک بان اللہ لم یک مغیرا نعمۃ انعمھا علی' قوم حتی' یغیروا ما بانفسھم ہم نے اپنے آپ میں جتنی تبدیلی کی اتنا ہی ہم آگے بڑھے؛ اللہ تعالی ہمیں آگے لے گيا۔ یہ عمل جاری رہنا چاہیے۔ یہ ہمارے ملک کے اندرونی مسائل سے مربوط ہے۔ امتحان بھی زیادہ ہیں۔
 اس سال کے آخر میں (2008 اوایل میں ) انتخابات آ رہے ہیں۔ انتخابات ہمارے اتحاد ، ہماری بصیرت و تدبر اور ہمارے قومی شعور کے اظہار اور مظاہرے کا موقع فراہم کرسکتے ہیں ۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انتخابات، انتخابی سرگرمیاں اور انتخابی ماحول اختلاف کا باعث ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ یہ اتحاد کا باعث ہو سکتا ہے، مثبت اور شفاف مقابلہ آرائي سے پیشرفت کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔ ہر پارٹی قوم کی خدمت کے لیے وہ حصہ حاصل کرے جس کے لائق وہ خود کو سمجھتی ہے؛ اس میں کوئی برائي نہیں ہے۔ یہ مثبت رقابت اور مقابلہ معاشرے کو نشاط و شادمانی بخشتا ہے، ہمیں زندہ دل بناتا ہے، ہمارے معاشرے میں جوش و جذبہ بھر دیتا ہے۔ ان انتخابات میں اگر ہم برا طرزعمل اختیار کریں، ایک دوسرے کو برا بھلا کہیں، ایک دوسرے سے کینہ رکھیں، ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیاں کریں، اصول و آداب کے برخلاف عمل کریں تو یہ تنزلی، کمزوری اور انحطاط کا سبب بن سکتا ہے، یہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے، یہ ایک الہی آزمایش ہے ۔
 آج عیدالفطر کا دن ہے، جو الہی نعمتوں اور معنوی برکتوں سے سرشار اور بابرکت تیس دن کے ماہ رمضان کے بعد جلوہ افروز ہوا ہے۔ مبارک ہو آپ کو۔ آپ نے بڑی خوش اسلوبی سے ماہ رمضان گزارا ہے، آج عید آئي ہے۔ اسے اعلی' انسانی منزل کی سمت روانگی و سفر کا نقطہ آغاز قرار دیجیے۔ یہ ملک کے داخلی امور سے مربوط ہے۔
اسلامی امہ کی سطح پر بھی ایسا ہی ہے۔ آپ دیکھیے کہ بین الاقوامی توسیع پسند طاقتیں عالم اسلام کے تمام مسائل میں مداخلت کرنا چاہتی ہیں۔ امریکی سینیٹ بل پاس کرتی ہے کہ عراق تقسیم ہوجانا چاہیے۔ آخر آپ ہوتے کون ہیں جو یہ فیصلہ سنا رہے ہیں؟ تو عراقی قوم کس لیے ہے؟ یہ غلط ہے کہ ایک ملک کی قانون ساز اسمبلی دوسرے ملک کی قسمت کا فیصلہ کرے ۔ ایک اہم اسلامی ملک (عراق ) کو تقسیم کرنا، اس تین حصوں میں بانٹ دینا تاکہ اس پر آسانی سے تسلط قائم کیا جا سکے، اسے اپنا بازیچہ قرار دینا یہ عالم اسلام اورعراقی قوم کے ساتھ سب سے بڑی خیانت اور غداری ہے۔ عراقی حکام نے اس کی مخالفت کی ہے اور وہ حق بجانب ہیں ۔اسے دیکھیے یہ استعمار کی سامراجی اور خودسرانہ مداخلت کی ایک مثال ہے۔ ایسا کب تک ہوتا رہے گا ؟
 مسئلہ فلسطین اس کی دوسری مثال ہے۔ اب چونکہ صیہونیوں کو مسلمان عرب نوجوانوں سے منہ توڑ جواب ملا ہے، اس لیے اب وہ صیہونیوں کو دوبارہ زندہ کرنا اور کسی طرح اس شکست کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ امن کانفرنس تشکیل دیتے ہیں۔ یہ امن کانفرنس ہے؟ امن کا مطلب یہ ہے کہ ایک قوم کو اس کے تمام حقوق سے محروم کردیا جائے، اور دوسروں کے کام میں بے جا مداخلت کرنے والے ایک بے سروپا اور غاصب گروہ کو ملت فلسطین پر مسلط کرکے اس قوم کو اس کے گھربار، حق زندگی، زمین اور وطن سے محروم کردیا جائے، اس کے بعد اسی قوم کے خلاف قانون پاس کیا جائے اقدامات کئے جائيں ! آپ کو اس کا کوئی حق نہیں ہے! امن کانفرنس اس لیے ہے؟ فلسطینی عوام کو گذشتہ کانفرنسوں سے کیا ملا ہے؟ بتائیے، آج غزہ میں عوامی حکومت منتخب ہوئی ہے۔ یہ ایک عوامی حکومت ہے۔ اس میں کوئی شک ہے؟ عوام نے اس حکومت کو منتخب کیا ہے یا نہیں؟ چنانچہ اگر یہ ایسی حکومت ہے جسے فلسطینی قوم نے منتخب کیا ہے تو پھر امریکہ اور اس کے پٹھو کسی ملک کو کیا حق ہے کہ وہ اس قوم کے مسائل میں مداخلت کریں اور اپنی مرضی چلائیں ۔ یہ اس قوم کا حق ہے! فلسطینیوں نے کہا ہے کہ ہم مخالف ہیں۔ واضح سی بات ہے کہ یہ فلسطینیوں کے خلاف سازش ہے۔ علاقے کی بعض حکومتیں ماضی میں کہتی تھیں کہ ہم فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی نہیں ہیں- اس وقت کہ جب ان سازشی کانفرنسوں کو بعض ملکوں نے فلسطینی عوام کے نام پر قبول کر لیا تھا۔ (اس وقت کہا گیا ) کہ فلسطینیوں نے قبول کیا ہے۔ آپ فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی نہ بنیں اب کیا ہوا؟ اب توخود فلسطینی کہتے ہیں کہ ہمیں یہ امن کانفرنس قبول نہیں ہے، اب کیوں اسے مکروفریب قرار دیتے ہیں۔ کیوں بعض ممالک اس سلسلے میں امریکہ کا ساتھ دیتے ہیں حالانکہ یہ فلسطینی قوم کی خواہش کے برخلاف ہے، عالم اسلام کی خواہش کے برخلاف ہے، خود علاقے کی حکومتوں کی خواہش کے برخلاف ہے، کیوں یہ مداخلتیں کی جاتی ہیں؟ کیونکہ ہم آپس میں متحد نہیں ہیں، کیونکہ ہماری طاقت ایک دوسرے کی تقویت کا باعث نہیں ہے۔ اس لئے کہ ہمارے ہاتھ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں نہیں ہیں۔اگر عالم اسلام کے کسی بھی علاقے میں مسلمان ممالک کسی بھی زبان اور آبادی کے ساتھ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دیں اور ایک ہی بات کریں تو پھر امریکہ یا کسی اور طاقت کو اسلامی امہ کے خلاف بات کرنے اور اقدام کرنے کی جرئت نہیں ہو گی۔
 اسلامی جمہوریہ ایران نہیں کہتا کہ دوسری حکومتیں وہی کہیں جو ہم کہتے ہیں۔ آئیں مل بیٹھ کر مسئلہ فلسطین کے بارے میں کسی بھی توسیع پسند اور مداخلت پسند بڑی طاقت کی خواہش کو پیش نظر رکھے بغیر فیصلہ کریں، اسی فیصلے کا اعلان کریں، فیصلے کو قبول کرنا یا نہ کرنا خود فلسطینی قوم کا حق ہے ۔ کیوں دنیا کے دوسرے کونے سے اٹھ کر کوئی آئے اور ان کی پوری کوشش یہ ہو کہ ، اس علاقے میں سامراج اور استعمار کی اس ناجائز اولاد اسرائیل کے لیے امن و سلامتی فراہم کریں۔ چاہے قومیں تباہ و برباد ہو جائيں؛ جو ہوتا ہے ہو جائے۔ یہ ہماری کمزوری کا نتیجہ ہے۔

آبادی بتخانہ ز ویرانی ما ست           جمعیت کفر از پریشانی ما ست

 ہم مسلم قوموں کو اکٹھا ہونا چاہیے، ہم مسلمان حکومتوں کو اکٹھا ہونا چاہیے تاکہ ہماری طاقت کا لوہا مانا جائے۔ آپ خود کو پیش کر سکیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ کا کہنا ہے۔ ہم یہ بات کہتے ہیں اور اس پر قائم ہیں۔ سامراج بھی ہم سے دشمنی رکھتا ہے۔ اس کی واضح مثال آپ ایٹمی توانائی کے مسئلے اور دوسرے امور میں دیکھ رہے ہیں۔ الحمد للہ سامراج کی دشمنیوں کا بھی ہماری قوم پر نہ تو اثر ہوا ہے اور نہ ہی ہو گا۔
 خدا ہمیں ہدایت دے۔ خدا ہمیں اس امر کی ہدایت دے جو اسلامی امہ کے حق میں ہے اور یہ حساس تاریخی لمحہ، جس کا متقاضی ہے اور خدا ہمیں اس کی توفیق دے اور ہماری مدد کرے۔

 پروردگارا ! شہداء عزيز راہ اسلام ،خصوصا اسلامی جمہوریہ کے مظلوم شہداء اور فلسطین،عراق اور دیگر مسلمان قوموں کے شہیدوں کی ارواح طیبہ پر اپنی رحمت نازل فرما اور امام خمینی بزرگوار (رہ) کی پاک روح کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما اور امام زمانہ( ارواحنا فداہ ) کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ