بسم اللہ الرحمن الرحیم

خدا کی حمد و ستائش اور محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام
ربنا علیک توکلنا و الیک انبنا و الیک المصیر
اس سال کی عید دوہری مبارکبادیوں کی حامل ہے۔ عید نوروز کی بھی مبارکباددینی ہے اور ماہ ربیع المولود کی بھی مبارکباددینی ہے کونکہ اس میں نیّر اعظم، نبی اکرم حضرت محمد ابن عبداللہ (ص)کی ولادت ہوئی ہے۔ خود عید نوروز بھی ہم ایرانیوں کی مبارک عیدوں میں سے ہے۔
لوگ اپنا سال ذکر خدا سے شروع کرتے ہیں اور خدا وند متعال سے اپنے حالات بہترین حالات میں بدلنے کی دعا کرتے ہیں۔اس سال ان سب کے علاوہ ماہ محرم وصفر کی معنوی یادوں اور توسلوں کا ذخیرہ بھی اس عید کی برکتوں میں شامل ہے۔ اس صحن مبارک میں موجود آپ سب حضرات جو بارگاہ حضرت علی ابن موسٰی الرضا(ع)کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے ہیں،اور زیادہ برکتوں سے مالا مال ہیں۔میرے لئے بھی یہ ایک موقع ہے کہ چند مسائل جو آغاز سال میں ہمارے لئے انشاء اللہ مفید واقع ہوں گے ،بیان کروں۔
آغاز سال، قومی عزم کی تقویت اور سال رواں میں اپنی عمر کو با برکت بنانے کا بہترین موقع ہے۔ اگر ہم ایرانی عوام کا ایک ایک فرد آغاز سال سے ہی اپنا عزم اس بات پر مرکوز کردے کہ اپنی کوشش اور اپنے عمل سے اس سال کو ایک پر ثمر سال بنانا ہے تو خداوند متعال بھی یقیناً ہماری مدد کرے گا۔ البتہ اس بڑے قومی عزم میں بنیادی روح نیت کی پاکیزگی اور رضائے الٰہی کے حصول کا فیصلہ(یعنی) صراط مستقیم پر چلنے کا فیصلہ کر لینا ہے ، اور اس وقت دنیا کے موجودہ حالات میں اپنی حیثیت،اپنی کیفیت ، اپنے مقام اور ان چیلنجوں کا جاننا کہ جن کا قوم کو سامنا ہے ۔ ان چیلنجوں سے مقابلے کے بنیادی طریقوں کا جاننا ضروری ہے۔ یہ ایک زندہ قوم کی کامیابی کی اولین شرط ہے کہ اپنی پوزیشن ، اپنے مقام کو اور اپنے حالات کو صحیح طور پر جانے اور پہچانے اور ان حالات سے نمٹنے کے لئے پروگرام بنائے اور اس راہ میں ایک انسان کے لئے قدرتی طور پر پیش آنے والے تمام حالات سے مقابلے کا پختہ ارادہ کر لے۔ میں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں، جتنی دیر اس وقت میں آپ کی خدمت میں ہوں اسی سلسلے میں آپ کے سامنے کچھ باتیں عرض کروں گا۔
ہم ایرانیوں کے لئے جو بنیادی بات ہے۔ اور جسے ہمیں ہمیشہ مدّ نظر رکھنا چاہئے یہ ہے کہ ہماری قوم اور ہم تمام ایرانی لوگوں نے اپنے لئے ایک بڑے ہدف کا نقشہ کھینچا اور انقلاب کے بعد کی دہائیوں کے دوران ہم نے اسی ہدف کو حاصل کرنا چاہا ہے۔ ہم جتنا بھی غور کرتے ہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان دونوں اہداف تک پہونچنے کے لئے ہمارے اندر ضروری توانائی موجود ہے۔ یہ عظیم ہدف اسلامی ایران کی سربلندی اور مسلمان قوموں کے درمیان مادّی لحاظ سے بھی اور معنوی لحاظ سے بھی مثالی قرار پانے سے عبارت ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ہماری قوم مادی لحاظ سے بھی اور معنوی پہلوؤں سے بھی ترقی کر ے، قومی خودمختاری کی مالک ہو، قومی وقار کی حامل ہو، قومی استعداد و صلاحیت سے آراستہ ہو، اور اپنی تمام صلاحیتوں کا بھر پور طریقے سے استعمال کرے، فلاح عامہ کی مالک ہو اور اس کی زندگی پر سماجی اور عوامی انصاف حکمفرماں ہو۔ اس وقت یہ قوم تمام مسلمان معاشروں حتی غیر مسلموں کے لئے بھی نمونہ عمل بن جائے گی۔ ایرانی قوم چاہتی ہے کہ وہ ایک آزاد ، خوشحال اور با ایمان قوم کہلائے اور وہ ایک آباد اور ترقی یافتہ ملک کی مالک ہو۔یہ ایرانی قوم کا ہدف ہے۔
اس ہدف میں کوئی اختلاف بھی نہیں پایا جاتا۔ یہاں تمام گروہی جھگڑے اور سیاسی اختلافات ختم ہو جاتے ہیں،یہ ہدف ملت ایران کی ایک ایک فرد کےلئے قابل قبول ہے۔ ہمارا ملک ایک آباد ملک ہو، ہماری قوم ایک آزاد اور سربلند قوم ہو، ہم اپنی تمام تر قومی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں، ہم دوسروں سے آگے ہوں، سماجی انصاف کا جھنڈا ہمارے ہاتھوں میں ہو، اسلامی ایمان کا پرچم ہمارے ہاتھوں میں ہو اور تمام مسلمان اقوام میں ہم آگے آگے چلیں، یہ وہ چیز ہے کہ پوری ایرانی قوم جس کی عاشق و طلبگار ہے۔ اور ہم اس ہدف کو حاصل کر سکتے ہیں؛ قومی صلاحیتوں کی شناخت بھی ہمارے اندر یہ امید جگاتی ہے اور تجربات بھی اس چیز کی تائید کرتے ہیں۔
ایرانی قوم ایک با استعداد قوم ہے، ثبات واستقامت کی مالک ہے، دینی غیرت اور قومی حمیت کی مالک ہے، اسلام پر دل کی گہرائیوں سے ایمان رکھتی ہے، اپنے ملک سے محبت کرتی ہے؛ یہی وہ چیزیں ہیں جو ہمیں یہ امید اور اعتماد بخشتی ہیں کہ ہماری قوم اس مقصد کے حصول پر قادر ہے اور اس ہدف کو پا سکتی ہے اور وہاں تک پہونچ سکتی ہے؛ یہ اس کی دسترس سے دور نہیں ہے تجربات بھی ہم کو یہی بتارہے ہیں۔
دیکھئے؛ ہم (غیروں سے ) وابستہ بد عنوان حکومتوں کے تسلط کے زیر اثر سالہا سال سے مسلسل عالمی رقابتوں کے میدان سے باہر رہے ہیں۔ ملت ایران جو ایک زمانے میں علم و دانش اور تہذیب و ثقافت کے میدان میں پیش پیش تھی، جابرو جائر بادشاہوں کے تسلط اور عوام سے دور اور ان کے لئے اجنبی طاقتوں کے سبب وہ اس مقام پر پہنچ گئی کہ تقریباً ۲۰۰ سال سے دنیا میں جو سیاسی اور علمی مقابلے شروع ہوئے ہیں، (یہ قوم ) مقابلوں کے میدان سے باہر رہی ہے۔ جب ایک قوم، بین الاقوامی مقابلوں میں شامل نہ ہو تو قدرتی طور پر اسکی توانائیاں بھی ضائع ہو جاتی ہیں اور اس کی کامیابیوں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ آپ کھیل کی ایک ٹیم کو ہی لے لیجئے، کہ جو قوت و نشاط سے سرشار ہو، کارکردگی دکھانا چاہتی ہو اور اس کو مقابلے کے میدانوں میں اترنے کا موقع نہ دیا جائے؛ تو قدرتی طور پر اس کی توانائیاں کم اور ضائع ہو جائیں گی۔ ہماری قوم کے ساتھ یہی کام کیا گیا۔
باوجود اس کے کہ سالہا سال (غیروں سے) مسلسل وابستہ رہنے والی حکومتوں، بد عنوان طاقتوں ، ناکارہ قوتوں اور ظالم بادشاہوں نے ہماری قوم کے لئےاس طرح کی حالت پیدا کر رکھی تھی۔ جیسے ہی اسلامی انقلاب کے ذریعہ اس شاہراہ کا دروازہ ہماری قوم کے لئے کھلا اور ہماری قوم عالمی مقابلوں کے میدان میں اتری، اسے بڑی ترقیاں حاصل ہوئیں۔ ہماری قوم علمی میدانوں میں بھی اور سیاسی میدانوں میں بھی آج عالمی سطح پر ایک جانی پہچانی رہنما قوم سمجھی جاتی ہے۔ اقوام عالم کے درمیان ایران کا ایک جانا پہچانا چہرہ ہے۔ علمی میدانوں میں ہم دور حاضر کی نسبت ترقی یافتہ ہیں۔ یقینا دو سو سال کی پسماندگی کی تلافی بیس، تیس سالوں میں نہیں کی جاسکتی لیکن اسی مدت میں، اس مختصر عرصے کے لحاظ سے ہم بہت ہی زیادہ تیزی سے آگے بڑھے ہیں۔آج آپ دیکھئے؛ہمارے جوانوں نے جوہری توانائی کے میدان میں، بنیادی خلیوں (stem-cells)کے میدان میں، اور اسی طرح کے دوسرے دسیوں سائنسی میدانوں میں زبردست ترقی کی ہے۔ اگر ہماری قوم پوری طرح ان چیزوں سے مطلع ہوجائے تو اس کی خود اعتمادی میں زبردست اضافہ ہوگا۔
ہمارے ملک کی ممتاز علمی شخصیتوں کے نام اس وقت دنیا میں چمک رہے ہیں اور دنیا والے انہیں تحسین آمیز نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔
سیاسی رسہ کشی کے میدان میں بھی یہی صورت ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت سیاسی میدانوں میں، چاہے علاقائی سطح پر ہو یا بین الاقوامی سطح پر، ان حکومتوں میں ہے جن کے موقف کو وسیع عوامی حمایت ملتی ہے۔ اس کی بات سننے والی ہوتی ہے، ہمارے ملک کے ذمہ دار حکام، عالمی تنظیموں میں بھی، دوسرے ممالک کے دوروں میں بھی جو موقف اختیار کرتے ہیں، وہ بالکل نمایاں اور ممتاز ہوتے ہیں۔ یہ حالات ان میدانوں میں قوم کی زبردست کارکردگي اور ترقی میں اس ملت کی استعداد وصلاحیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
ہماری قوم نے بین الاقوامی سیاسی نظام میں نئے افکار داخل کئے ہیں۔ دنیا دینی جمہوریت سے ناآشنا تھی؛ آج تمام اسلامی اقوام میں دینی جمہوریت ایک مقبول عنوان اور نعرہ بن ہے۔ دنیا تسلط پسندانہ نظام کی تعریف سے نا بلد تھی؛ ہماری قوم نے اس کی تعریف کی اور وہ بین الاقوامی سیاسی تہذیب میں شامل ہوگئی۔ ملک کی سیاست، قانون اور نظام میں دین کو محور قرار دینے کا مسئلہ؛ وہ جدید فکر ہےجو ہماری قوم نے اس نطام میں شامل کی ہے۔ لہذا ہم عالمی مقابلوں میں ۔ علمی، سیاسی، صنعتی، اقتصادی اور اسی طرح ثقافتی شعبوں میں رقابت اور مقابلے کی توانائی رکھتے ہیں اور تھوڑے ہی عرصے میں ہم کامیابی کی امید کر سکتے ہیں طولانی فہرست میں پہلےدرجے پر اپنا نام درج کرانے کی امید رکھ سکتے ہیں۔ یہ ہماری قوم کا مقام ہے۔
لیکن یہ راہ جس پر ایرانی قوم چلنا چاہتی ہے، آسان اور ہموار راستہ نہیں ہے۔ اس راستے میں ہمیں چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔ہمارے دو بڑے دشمن ہیں۔ میں آج ان دو دشمنوں کا مختصر تعارف آپ کے سامنے کراؤں گا تاکہ میں بھی اور آپ بھی دیکھیں کہ ان دو دشمنوں کے مقابلے میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ قوم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دشمن کو پہچانے اور اس کے منصوبوں سے باخبر ہو اور خود کو اس سے مقابلے کے لئے آمادہ کرے۔
ہمارے دو دشمن ہیں: ایک اندرونی دشمن ہے اور دوسرا بیرونی دشمن ہے۔ اندرونی دشمن زیادہ خطرناک ہے۔ یہ دشمن کیا ہے؟ اندرونی دشمن وہ تمام بری خصلتیں ہیں جو ممکن ہے ہم میں پائی جائیں۔ سستی، کام کے لئے جوش و جذبہ کا فقدان، مایوسی، حد سے زیادہ خود غرضی یا مفاد پرستی، دوسروں کے سلسلہ میں بدگمانی، مستقبل کے سلسلے میں بدگمانی، خود اعتمادی کی کمی۔ نہ اپنے آپ پراعتماد ہو، نہ اپنی قوم پر تو یہ سب بیماریاں ہیں۔اگر یہ دشمن ہمارے اندر موجود ہو تو ہمارا کام مشکل ہو جاتا ہے۔ ملت ایران کے بیرونی دشمنوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ہمارے ایرانی سماج میں ان جراثیم کی تقویت کریں: ''تم نہیں کر سکتے‘‘ ، ''تم میں اتنی توانائی نہیں ہے‘‘ ، ''تمہارا مستقبل تاریک ہے‘‘ ''تمہارا افق روشن نہیں ہے، ''تم بے بس ہو، تم بدترین صورت حال سے دوچار ہو۔ کوشش یہ رہی ہے کہ ہماری قوم کو مایوس، کاہل، اپنی طرف سے ناامیدی اور بے اعتمادی کا شکار بنا دیں ۔ اس قوم کو غیروں پر منحصر کر دیں۔ یہ سب اندرونی دشمن ہیں۔ ہمارے ملک میں اسلامی تحریک شروع ہونے سے قبل سالہا سال تک ہماری قوم کی اصل بلا یہی چیزیں تھیں۔اگر ایک قوم میں یہ بیماریاں موجود ہوں تو وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔اگر کسی قوم کے لوگ کاہل ہوں، مایوسی کا شکار ہوں، اپنے آپ پر اعتماد نہ رکھتے ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر نہ رہتے ہوں،ایک دوسرے سے بدگمان ہوں،مستقبل سے مایوس ہوں تو ایسی قوم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ یہ چیزیں ان دیمکوں کی طرح ہیں جو کسی عمارت کے ستون کو اندر سے کھوکھلا اور عمارت کو ویران کردیتی ہیں؛ اس کیڑے کی طرح ہیں جو کسی پھل میں گھس کر پھل کو اندر ہی اندر سے خراب کر دیتا ہے۔ ان بری عادتوں سے جنگ کرنا چاہیئے۔ہماری قوم کو پر امید ، پر اعتماد، مستقبل کے سلسلے میں خوش بین،ترقی کی دلدادہ اور معنویات پر ا‏عتقاد اور ايمان رکھنا چاہئے کیونکہ یہ باتیں اس راہ میں اس کی معاون ثابت ہو ں گی۔ الحمد اللہ آج ہماری قوم اس طرح کا اپنے آپ پر اعتماد پایا جاتا ہے اور اس طرح کی امید موجود ہے؛ اس کی تکمیل ہونی چاہیئے۔اگر ہم ان دشمنوں کو اپنے وجود سے، اپنی زندگی سے اور اپنے سماج کے عام کلچر سے دور اور ناکارہ کر دیں تو بیرونی دشمن بھی ہمیں کوئی ضروری نقصان نہیں پہونچا سکتا ہے۔
اور اب بیرونی دشمن۔ تو ہمارے اس ہدف کا بیرونی دشمن ''بین الاقوامی سامراجی نظام‘‘ ہے۔ یعنی وہی چیز جسے ہم عالمی استکبار کہتے ہیں۔ عالمی استکبار اور سامراجی نظام،دنیا کو تسلط گروں اور تسلط پذیروں میں تقسیم کردیتا ہے۔ اگر ایک قوم تسلط گروں کے خلاف اپنے مفادات کا دفاع کرنا چاہتی ہے تو تسلط گر اس کے دشمن ہو جاتے ہیں، اس پر دباؤ ڈالتے ہیں اور اس کی مزاحمت کو توڑ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی قوم کا دشمن ہے جو خود کو خود مختار،عزت دار،آبرومند اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتی ہے اور تسلط گروں کا تسلط پسند نہیں کرتی۔ یہ بیرونی دشمن ہے۔ آج اس دشمنی کا مظہر عالمی صیہونیت کا پھیلا ہوا جال اور ریاستھائے متحدہ امریکہ کی موجودہ حکومت ہے۔ البتہ یہ آج کی دشمنی نہیں ہے؛صرف طریقے بدل جاتے ہے،لیکن ایرانی قوم سے دشمنی کی سیاست اوائل انقلاب سے آج تک ہمیشہ ایک رہی ہے۔ جتنا ان سے ممکن ہوا ہے، ہم پر دباؤ ڈالا ہے، لیکن بے کار؛ ان کا یہ دباؤ ایرانی قوم کو آج تک کمزور نہیں کر سکا اور نہ ہی پسپائی پر مجبور کر سکا ہے؛ نہ تو ان کا اقتصادی بائیکاٹ اور نہ ہی ان کی فوجی یلغار کی دھمکیاں،نہ ان کا سیاسی دباؤ اور نہ ہی ان کی نفسیاتی جنگ۔آج ہم پندرہ سال پہلے سے ، بیس سال پہلے سے ،ستائیس سال پہلے سے بہت زیادہ قوی ہیں؛ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دشمن، ایرانی قوم اور اسلامی جمہوری نظام کے ساتھ اپنی دشمنی میں ناکام رہا ہے؛لیکن یہ دشمنی ہے۔
آج کی دنیا میں تناقض اور تضاد پایا جاتا ہے۔ ایرانی قوم،دیگر مسلمان اقوام اور علاقائی اقوام کی نظر سے ۔ایشیائی اقوام، افریقی اقوام، جنوبی امریکہ کی اقوام ،مشرق وسطٰی کی اقوام۔ کی نظر سے ایک بہادر،حق وانصاف کا دفاع کرنے والی اور زور زبردستیوں کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ثابت قدم قوم ہے؛ایرانی قوم کو اس طور پر پہچانتے ہیں۔ یہ لوگ ملت ایران کی تحسین و تعریف کرتے ہیں۔ لیکن اسی ایرانی قوم اور اسی اسلامی جمہوری نظام پر جس کی قومیں اس قدر تعریف کرتی ہیں، سامراجی طاقتوں کی طرف سے حقوق انسانی کی پامالی کا الزام ہے۔ عالمی امن چھین لینے کا الزام ہے، دہشت گردی کی حمایت کا الزام ہے! یہی تناقض اور تضاد ہے۔ یہی تناقض جو قوموں کی نگاہوں اور بڑی طاقتوں کی خواہشوں کے درمیان ہے۔ یہی تضاد، عالمی سامراجی نظام کے لئے خطرہ اور چیلنج بن گیا ہے۔
روز بروز یہ لوگ اقوام عالم سے دور ہوتے جا رہے ہیں؛اس چیز نے مغرب کی لبرل ڈیمو کریسی کی عمارت کو اندر سے ہلا کر دراڑ پیدا کر دی ہے اور دن بہ دن یہ دراڑ بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ سامراجی ذرا‏ئع ابلاغ بلآخر ایک مدت تک ہی حقائق کو چھپا سکتے ہیں، ہمیشہ تو حقائق کو چھپا سکتے ، قوموں میں روز بروز بیداری بڑھتی جا رہی ہے۔ آپ دیکھئے ملت ایران کا صدر جمہوریہ ایشیائی ممالک، افریقی ممالک، جنوبی امریکہ کے ممالک کا دورہ کرتے ہیں، تو قومیں اس کے حق میں نعرے لگاتی ہیں، اس کے حق میں مظاہرے کرتی ہیں، اپنی حمایت کا اظہار کرتی ہیں؛ امریکی صدر جمہوریہ بھی جنوبی امریکہ کے ممالک کا ، جہاں امریکی اپنے فرصت کے اوقات گزارنے (عیاشی کے لئے) جاتے ہیں ، سفر کرتے ہیں تو قومیں امریکی جھنڈے کو ان کے آنے کے سبب نذر آتش کر تی ہیں؛ اس کا مطلب ہے کہ لبرل ڈیمو کریسی کے ستون لڑکھڑا رہے ہیں جس کی پرچمداری کا دعوی اس وقت مغرب کو ہے والے اور ان میں سب سے آگے امریکہ ہے۔ ان ملکوں کے مفادات اور قوموں کے رجحانات اور مشاہدات میں تضاد دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ حکومتیں جمہوریت کا دم بھرتی ہیں، حقوق انسانی کا نعرہ لگاتی ہیں، عالمی امن کے دعوے کرتی ہیں، دہشت گردی سے مقابلے کا علم اٹھائے ہوئے ہیں،لیکن ان کا شرپسند باطن ان کی جنگ افروزی کی حکایت کرتا ہے۔قوموں کے حقوق کی پامالی کی حکایت کرتا ہے، ایندھن کے عالمی ذخیروں پر تسلط کے بے پناہ میلان اور کبھی نہ سیر ہونے والی اشتہا کی حکایت کرتا ہے؛ قومیں یہ سب کچھ دیکھ رہی ہیں۔ دن بہ دن لبرل ڈیمو کریسی کی آبرو اور امریکہ کی آبرو ، جو لبرل ڈیمو کریسی کا سر غنہ ہے۔ دنیا میں اور اقوام کی نظر میں کم سے کمتر ہوتی جا رہی ہے۔اسکے برعکس اسلامی ایران کی عزت وآبرو بڑھتی ہی جا رہی ہے۔اقوام سمجھتی جا رہی ہیں کہ امریکی(حکام ) انسانی حقوق کے دفاع کے دعوے میں جھوٹ بول رہے ہیں؛ اس کا ایک نمونہ، ان لوگوں کا خود ہمارے ملک کے ساتھ رویہ ہے۔ ایران طاغوت کے زمانہ میں ، پہلوی حکومت کے زمانے میں ، پوری طرح امریکیوں کی مٹھی میں تھا، پورے ایران پر امریکیوں کا تسلط تھا ، ایران میں انہوں نے فوجی چھاؤنی بنا رکھی تھی کہ علاقے کے عرب ملکوں کے تحرک پر قابو رکھ سکیں ، چاہتے تھے کہ ان سب پر ایران کی چھاؤنی سے نگاہ رکھیں ۔ ایران،اسرائیل کامعاہدی تھا۔ بدترین ڈکٹیٹر شپ اس ملک پر حکمراں تھی؛ مجاہدین کو جیلوں میں شکنجے دئے جا رہے تھے، پورے ایران میں ۔اسی شہر مشہد میں، تہران میں اور ملک کے تمام شہروں میں، طاغوتی حکومت کے جلاد عمالوں کی سختی اور گھٹن لوگوں پر چھائی ہوئی تھی، ہمارا تیل تاراج کیا جا رہا تھا؛ عوامی اثاثے اور قومی سرمائے (شاہی) حکام اور بیگانہ حکومتوں کے مفاد میں تاراج کئے جا رہے تھے؛ ایرانی قوم پر عالمی سطح کے علمی اور صنعتی مقابلوں میں حصہ لینے کی پابندیاں تھیں تھی۔ قوم کو ذلیل کررکھا تھا۔ اس وقت کا ایران ، اس خطے میں امریکہ کا پہلے درجہ کا اتحادی تھا، اس کے حکام بھی امریکہ کے محبوب تھے، انسانی حقوق کی پامالی اور جمہوریت کی خلاف ورزی کے سلسلے میں اس طاغوتی حکومت پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا۔ آج ایران ایک آزاد ملک ہے اور اتنی کھلی جمہوریت کے باوجود جب کہ ہماری جمہوریت کی دنیا میں کم بی مثال ملے گی۔ عوام اور ملک کے حکام کے درمیان ایسے مضبوط رشتے کے باوجود ، یہ ایران،امریکیوں کی نظر میں، امریکی حکومت اور امریکی سیاستدانوں کی نظر میں ایک ناپسند ملک شمار ہوتا ہے، یہ چیز دنیا کے موجودہ حقائق کے سلسلے میں عالمی استکبار کی نگاہ اور پالسیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ یقینا امریکیوں کو اس دشمنی کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔
ملت ایران دن بہ دن زیادہ قوی اور مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور انقلابی اقدار روز بروز زیادہ نمایاں اور تازہ ہوتے جا رہے ہیں۔
ان دونوں دشمنوں کے مقابلے میں ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ پہلے دشمن کو پہچانیں پھر اس کے بعد اس کے منصوبوں کو سمجھیں ۔آج ہمارے بیرونی دشمنوں نے بھی ملت ایران کے خلاف منصوبے بنا رکھے ہیں۔ ہم نے اپنے پنج سالہ منصوبے بیان کئے ہیں۔ بیس سالہ منصوبوں کے خطوط معین و مشخص کئے ہیں؛ اس لئے کہ اپنی راہ کا تعین کر سکیں۔ہمارا دشمن بھی اسی طرح ہے،اس نے بھی ہمارے لئے منصوبے بنائے ہیں؛ اس کی بھی پالسیاں ہیں ، ہمیں اس کی پالیسی سے آگاہ ہونا چاہیئے۔
ملت ایران کے خلاف عالمی استکبار کے منصوبے کو میں صرف تین جملوں میں خلاصہ کرتا ہوں: ایک : نفسیاتی جنگ؛ دو؛ اقتصادی جنگ اور تین: علمی ترقی اور اقتدار سے مقابلہ ، ہماری قوم کے ساتھ عالمی استکبار کی دشمنیاں انہی تین اہم عنوانوں میں خلاصہ ہوتی ہیں۔ البتہ ان کے بارے میں ہمارے ذرائع ابلاغ ، تشہیراتی مشینریوں، اور سیاسی شخصیتوں کافریضہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اس کی مزید وضاحت کریں۔ میں صرف اجمالی طور پر فہرست وار ان مطالب کا ایک خلاصہ آپ کے سامنے عرض کر رہا ہوں۔
نفسیاتی جنگ کا کیا مطلب ہے؟نفسیاتی جنگ کا مقصد،خوف و دہشت ایجاد کرنا ہے۔ کسے خوف زدہ اور مرعوب کرنا چاہتے ہیں؟ قوم تو مرعوب ہونے سےرہی؛ لوگوں کی عظیم آبادی دہشت زدہ نہیں ہوا کرتی۔ تو پھر کس کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں؟ حکام کو؟ سیاسی شخصیتوں کو؟ یا بقول معروف ہم غیر معمولی دماغوں کو؟ ایسے لوگ کہ جنہیں لالچ میں پھنسایا جا سکتا ہے، انہیں لالچ دینا چاہتے ہیں؛ عوامی عزم و ارادے کو کمزور کرنا چاہتے ہیں؟ خود اپنے سماج کی حقیقتوں سے متعلق لوگوں کے فہم و خیال بدل دینا چاہتے ہیں؛ نفسیاتی جنگ کا مقصد یہی ہے۔ایک آدمی جو بیمار نہیں ہے،سوبار اس سے کہیں گے: جناب! آپ بہت سست دکھائی دے رہے ہیں، لگتا ہے مریض ہیں اور یہ شخص واقعا خود کو بیمار محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر کوئی حقیقتاً بیمار ہو اور سو بار اس سے کہا جائے کہ آپ تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں، تو مریض حود کو صحت مند محسوس کرتا ہے۔ اپنے القاآت کے ذریعہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کے حقائق ہماری قوم کی نظر میں بدل ڈالیں۔ ہماری قوم ایک صاحب صلاحیت ،صاحب لیاقت، اور صاحب استعداد قوم ہے جو عظیم قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے؛ ایک ایسی قوم ترقی یافتہ قوم ہو سکتی ہے۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ ناامید ہو؛ لیکن وہ لوگ حقیقتوں کو الٹ دینا اور حقائق بدل کر قوم کو ناامید کردینا چاہتے ہیں؛ اپنے حکام پر سے ملت کا اعتماد کمزور کردینا چاہتے ہیں۔ یہ کہ عوام کا اپنی حکومت اور اس کے حکام پر اعتماد ہو ایک ملک کے لئے بہت بڑی نعمت ہے۔یہ لوگ اس نعمت کو ہم سے چھین لینا اور لوگوں کا اعتماد ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ خود اپنے آپ پر سے بھی اور اپنے ذمہ دار حکام پر سے بھی عوام کو افواہوں کے ذریعہ، بائیکاٹ اور سخت رویوں کے ذریعے دھمکاتے اور ڈراتے ہیں؛ اپنے پروپیکنڈوں میں مدعی اور ملزم کی جگہ بدل دیتے ہیں۔آج امریکہ ملزم ہے اور قومیں امریکہ کے خلاف مدعی ہیں۔ ہم آج امریکہ کے خلاف دعویدار ہیں، امریکہ ملزم ہے استکباری دست درازیوں کا، مستعمرہ پروری کا، جنگ افروزی کا، فوجی یلغار اور فتنے کھڑا کرنے کا۔ ہم طلبگار ہیں، ہم مدعی ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو مدعی کی جگہ اور ملت ایران کو ملزم کی جگہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ خود امریکہ میں انسانی حقوق کی حالت افسوسناک ہے اور بد امنی پھیلی ہوئی ہے۔ صرف ایک سال ۲۰۰۳ ء کے دوران خود ان ہی کی رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ تیس لاکھ (13000000) امریکی شہریوں کی گرفتاری عمل میں آئی ہے! تشدد اور آزار و اذیت کو قانونی کر دیا ہے، لوگوں کے ٹیلیفون سننے کی قانونی اجازت ہے۔ چند سال پہلے ۱۱ستمبر (۲۰۰۱ ء) کے حادثے کے بعد انہوں نے بیسیوں لاکھ افراد سے باز پرس اور تفتیش کی۔ اس طرح کا بد امن ماحول خود امریکہ کے اندر ہے؛ امریکہ کے باہر بھی، ابو غریب کے جیل خانے اور اذیت رسانیاں، گوانٹانامو جیل اور یورپ نیز دنیا کے دیگر خطوں میں ان کے خفیہ جیل خانے موجود ہیں۔ ان کو جواب دینا چاہئے، وہ لوگ ملزم ہیں، وہ لوگ انسانی حقوق پامال کررہے ہیں؛ اس کے بعد انسانی حقوق کے حامی و مدعی بھی ہیں اور ملت ایران پر جہاں کہیں بھی وہ چاہیں الزام لگا کر باز پرس کرتے ہیں کہ تم نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے! دہشت گردی کی وہی لوگ ترویج کررہے ہیں۔ یہ سب نفسیاتی جنگ ہے جو وہ لوگ انجام دے رہے ہیں۔
دشمن کی نفسیاتی جنگ کا ایک حصہ، اختلافات بھڑکانا ہے۔ یہ لوگ ہمارے ملک میں، قومی اختلافات، شیعہ و سنی۔ مذہبی اختلافات، جماعتی اختلافات، گروہی اور صنفی اختلافات اور صنفی رقابتوں کی ترویج اور پروپیگنڈے کیا کرتے ہیں۔ملک کے اندر ان لوگوں کے ایجنٹ اور زرخرید افراد بھی موجود ہیں جو یہاں مختلف شکلوں میں ان کے مقاصد کے لئے کام کرتے ہیں۔یہ لوگ افواہیں پھیلاتے ہیں۔عراق کے مسئلے میں،ایران کو ملزم ٹھہراتے ہیں۔یہ لوگ جنہوں نے باہر سے آکر عراق پر اپنا قبضہ جما رکھا ہے، ملت عراق کو ذلیل کیا ہے، عراق کے مردوں، عورتوں اور جوانوں کی مختلف طریقوں سے توہین کی ہے اور اس وقت بھی امریکی اور برطانوی فوجی عراق میں نہایت ہی بدسلوکی سے کام لے رہے ہیں، یہی لوگ ایران پر الزام لگا رہے ہیں کہ عراق کے امور میں مداخلت کر رہا ہے۔ جس وقت امریکی حکومت اور بہت سی مغربی حکومتیں نابود ہو جانے والے بعثی صدام کی حمایت کیا کرتی تھیں، ملت ایران نے عراقی حریت نوازوں کے لئے اپنی آغوش باز کر رکھی تھی ، عراقی حریت نواز یہاں آئے اور ہم نے صدام کے شر سے ان کی حفاظت کی ؛ آج ان ہی لوگوں نے عراق میں حکومت و اقتدار سنبھالا ہے۔ عراق میں دہشت گردی امریکہ ، برطانیہ اور اسرائیل کی جاسوسی ایجنسیوں کی تحریک کا نتیجہ ہے ، عراق میں یہ برادر کشی شیعہ ۔ سنی جنگ کا نتیجہ ہرگز نہیں ہے؛ شیعہ اور سنی عراق میں صدیوں سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں اور آپس میں کوئی جنگ بھی نہیں ہوئی ہے۔ عراق میں بہت سارے ایسے گھرانے ہیں کہ جنکے بعض افراد شیعہ ہیں اور بعض سنی؛ ایک دوسرے کے ساتھ شادیاں رچائی ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ رہے ہیں، یہ قتل وغارت گری عراق پر قابض ان لوگوں نے شروع کی ہے، یہی لوگ وہاں کی بد امنی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
شیعوں کے اثر و رسوخ اور ایران اور ہلال شیعی کی طرف سے تشیع کی ترویج اور اسی طرح کی باتیں افواہیں جنم دیتی ہیں۔ ان کی نفسیاتی جنگ کا ایک شعبہ یہی ہے:پہلا کام یہ کہ ملت ایران کے درمیان اختلافات ڈالیں، اور دوسرا کام یہ کہ ملت ایران اور دوسری مسلمان اقوام کے درمیان اختلافات کو ہوا دیں۔ امریکہ کی سیاست یہی رہی ہے کہ خلیج فارس میں ہمارے پڑوسی ممالک کو اسلامی جمہوریہ ایران سے ڈرائے۔البتہ ان میں سے بعض نے اپنی ہوشیاری اور آگاہی سے اس سازش کو سمجھ لیا ہے لیکن ممکن ہے بعض اس سلسلے میں غلطی کر یں اور امریکہ کی سازش میں پھنس جائیں۔ ہم نے خلیج فارس کے پڑوسیوں کی طرف۔ کہ جہاں دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ ہمشہ دوستی کا ہاتھ پھیلایا ہے؛ اس وقت بھی ہم ان کے دوست ہیں اور دوستی کا ہاتھ انکی طرف پھلائے ہوئے ہیں اور ہمارا خیال یہ ہے کہ خلیج فارس کے خطے کے ممالک کے درمیان ایک مشترکہ دفاعی معاہدہ ہونا چاہئے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ اس اہم خطے کے دفاع کے لئے امریکہ، برطانیہ، اجنبی طاقتوں اور دیگر لالچیوں کو یہاں آنا چاہئے؛ خود ہمیں اس خطے کے امن کی حفاظت کرنی چاہیئے، محفوظ بنائے رکھنا چاہئے؛ اور یہ خلیج فارس کے ممالک کے باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے۔
اسی مناسبت سے میں اپنے ملک کے اندرونی سیاسی عناصرکو بھی دوستانہ نصیحت کرتا ہوں کہ خبردار رہیں، اس طرح کی بات نہ کریں یا اس طرح کا موقف اختیار نہ کریں جو اس نفسیاتی جنگ میں دشمن کے مقاصد کی مدد کرے، دشمن کی مدد نہ کریں۔ آج جس کسی نے بھی ہمارے عوام کو ناامید کیا اور انہیں اپنے آپ سے، اپنے حکام سے اور اپنے مستقبل کی طرف سے بے اعتماد کیا اس نے دشمن کی مدد کی ہے۔ آج جو بھی اختلافات کو ہوا دے گا ۔ چاہے یہ اختلاف کسی بھی طرح کا اختلاف ہو ۔ اس نے ملت ایران کے دشمن کی مدد کی ہے۔ جو لوگ صاحب قلم ہیں، صاحب زبان ہیں، کوئی پلیٹ فارم اور کوئی مقام رکھتے ہیں، انہیں خبر دار رہنا چاہیئے؛ دشمن کو اپنے آپ سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہ دیں۔ دشمن کی نفسیاتی جنگ،ملت ایران کے ساتھ دشمن کی جنگ کا اہم ترین حصہ ہے۔
اقتصادی جنگ بھی ایک دوسری جنگ ہے۔ یہ لوگ ملت ایران کو اقتصادی مسائل کے لحاظ سے بے بس و لاچار کر دینا چاہتے ہیں۔ میں یہ بتا دوں کہ ملت ایران کے لئے اقتصادی سرگرمیوں کا میدان کھلا ہوا ہے۔ آئین کی چوالیسویں شق میں مندرج پالسیوں کے تحت سرکاری طور پرابلاغ کی جا چکی ہیں اور حکومت بھی پورے شد و مد کے ساتھ کوشاں ہے کہ اس کو عمل میں لائے اور اسے کوشش کرنا بھی چاہئے، اقتصادی امور کے لئے میدان کھلا ہوا ہے، نہ صرف ثروت مند افراد کے لئے بلکہ عوام کی حتی ایک ایک فرد کے لئے۔
۸-۲۰۰۷ء اور اس کے ایک دوسال بعد تک حکومت اور ملک کے دوسرے مستعد ارکان کی اولین توجہ اقتصادی امور پر ہوگی۔ ہم اپنے اقتصاد کو شگوہ آور کر سکتے ہیں۔ ہمیں دھمکی دیتے ہیں کہ ہم بائیکاٹ کرینگے، بائیکاٹ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتا۔ کیا اب تک انہوں نے بائیکاٹ نہیں کیا ہے؟ ہم نے بائیکاٹ کی حالت میں جوہری توانائی پر دسترس کی ہے؛ ہم نے بائیکاٹ کی حالت میں علمی ترقیوں کی منزلیں سر کی ہیں۔ ہم نے بائیکاٹ کی حالت میں ہی ملک میں اس وسیع سطح پر تعمیری کام کئے ہیں ، بائیکاٹ بعض حالات میں ممکن ہے ہمارے حق میں تمام ہو؛ اس اعتبار سے کہ یہ تلاش و کوشش کی راہ میں ہماری ہمت اور زیادہ بڑھا دے گا۔ نئے سال کے دوران کہ جس کا آج پہلا دن ہے حتی بعد کے ایک دو سال کے دوران بھی ملک کی توجہ کامرکز اقتصادی کارکردگی ہونی چاہئے۔ آئین کی چوالیسویں شق کی پالسیوں سے سب کو فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ جو لوگ سرمایہ کاری کی توانائی رکھتے ہیں حتی جو لوگ شراکت اور کمپنی کی صورت میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں، ان کے لئے بھی راہ اس میں موجود ہے۔ ہر فرد ، کسی بھی مشغلے اور صنف کا ہو ، سرمایہ کاری میں حصہ لے سکتا ہے؛اس راہ میں سب ایک دوسرے کے شریک و سہیم ہو سکتے ہیں۔ انصاف کی بر قراری کے حصص کے علاوہ جو تقریباً ایک کروڑ افراد کے شامل حال ہے اور معاشرہ کے نچلے اور غریب طبقوں کے لئے ہے، بقیہ لوگ بھی ان پالسیوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؛ اس میں اس کی راہ رکھی گئی ہے۔ حکومت کے ذمہ دار لوگوں کو چاہیے کہ وہ اقتصادی سرگرمیوں میں لوگوں کی مشارکت کے طریقے انہیں بتائیں۔ ان پالسیوں کا مطلب سماج میں عمومی سرمایہ کی پیداوار ہے۔ سرمایہ کی پیداوار میں اسلامی نقطہ نظر سے کوئی حرج نہیں ہے۔ سرمایہ کی پیداوار دوسروں کا سرمایہ غارت کرنے سے فرق کرتی ہے۔ کبھی آدمی بیت المال میں دست درازی کرتا ہے، کبھی کوئی لاقانونیت اور قانون کا کوئی لحاظ رکھے بغیر مادی ثمرات حاصل کرتا ہے؛ یہ ممنوع ہے؛ لیکن قانونی طریقوں سے سرمائے کی پیداوار شارع مقدس کی نظر میں اور اسلام کی نظر میں قابل قبول اور مستحسن عمل ہے۔ ثروت و دولت کمائیں، لیکن اس کے ساتھ اسراف نہ ہو۔ اسلام نے ہم سے کہا ہے کہ سرمایہ بنائیں، لیکن اسراف نہ کریں۔ خرچ میں افراط کا رجحان اسلام قبول نہیں کرتا۔ سرمایہ کی پیداوار کے ذریعہ جو کچھ آپ حاصل کرتے ہیں، دوبارہ اس کو ثروت کی پیداوار کے لئے وسیلہ قرار دیں۔ مال کو راکد اور منجمد نہ رکھیں جسے اسلام میں احتکار اور ذخیرہ اندوزی کہتے ہیں، اور نہ ہی مال خرچ کرنے میں فضول خرچی اور بربادی سے کام لیں یعنی اسے ایسی غیر ضروری چیزوں میں خرچ کر ڈالیں جس کی زندگی میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ان سب چیزوں کی طرف توجہ رکھتے ہوئے ثروت و دولت خود اپنے لئے کمائیں اور بنائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لوگوں کا سرمایہ پورے ملک کا سرمایہ ہے؛سب لوگ اس سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ چوالیسویں شق کی اصل روح اور بنیادی پالسی یہی ہے۔ ایسا ہونا چاہئے کہ عوام مخصوصاً کمزور طبقوں کی آمدنی کے ذرائع مختلف ہوں اور لوگوں میں گشادگی پیدا ہوسکے؛ یہ عوامی فلاح و بہبود کی راہ میں ایک بلند قدم ہے۔
علمی اور سائنسی ترقی کے دائرے میں بھی مقابلہ آرائی کا ایک اہم نمونہ یہی جوہری توانائی کا مسئلہ ہے۔ بیانات میں اور سیاسی مذاکرات میں بھی کہتے ہیں کہ مغربی حکومتیں، ایران میں جوہری توانائی کی صلاحیت کے حق میں نہیں ہیں؛ تو ٹھک ہے نہ ہوں۔ کیا ہم نے جوہری توانائی پر دسترسی کے لئے کسی سے اجازت چاہی ہے؟ کیا ملت ایران دوسروں کی اجازت سے اس میدان میں اتری ہے؟ کہ کہتے ہیں ہم اس کے حق میں نہیں ہیں؟ ٹھک ہے آپ موافق نہ ہوں۔ ملت ایران موافق ہے اور چاہتی ہے اس کے پاس یہ انرجی (energy) اور توانائی ہو۔ پچھلے سال بھی میں نے 21 مارچ کے اسی اجتماع میں اسی جگہ کہا تھا کہ جوہری توانائی ہمارے ملک کے لئے ایک ضرورت ہے،ایک طویل المدت احتیاج ہے۔ آج اگر ملک کے حکام جوہری توانائی پر دسترسی میں کوتاہی برتیں گے تو آئندہ نسلیں ان سے جواب طلب کریں گی۔ ملت ایران اور مملکت ایران کو اپنی زندگی کے لئے ۔نہ کہ ہتھیارکے لئے۔ جوہری توانائی اور ایٹمی انرجی کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگ بیٹھ کر دشمن ہی کی باتیں دہراتے ہیں کہ:جناب!ہمیں ایسی کون سی ضرورت آگئی ہے؟ کیا ضرورت ہے؟ کیا ملک کے مستقبل کو خطرے میں ڈالنے اور ملک کی کل کی ضرورت کو سرے سے نظر انداز کر دینے میں کوئی حرج ہی نہیں ہے؟ کیا ملک کے حکام کو آئندہ نسلوں کےساتھ خیانت کرنے کا حق حاصل ہے؟ آج ہم تیل نکال کے خرچ کریں؛ تو ایک دن یہ پورا تیل ختم ہو جائے گا،اس دن ملت ایران کو اپنی بجلی کے لئے، اپنے کارخانوں کے لئے،اپنی گرمیوں کے لئے، اپنی روشنی کے لئے،اپنی زندگی چلانے کے لئے دوسرے ممالک کی طرف دست سوال پھیلانا ہوگا کہ وہ لوگ اسے انرجی فراہم کریں؟ کیا یہ ملک کے موجودہ حکام کے لئے جائز ہوگا؟ کچھ لوگ دشمن ہی کی باتوں کو دہراتے ہیں۔وہی لوگ جو ڈاکٹر مصداق اور آیت اللہ کاشانی مرحوم کے ذریعہ''تیل کے قومیانے کی آج تعریف و تمجید کرتے ہیں۔ جب کہ اس کام کے مقابلے میں وہ کام ایک چھوٹا سا کام تھا، اور یہ اقدام اس سے کہیں عظیم ۔ وہی لوگ آج جوہری توانائی کے سلسلے میں وہی باتیں کررہے ہیں جو ڈاکٹر مصدق اور مرحوم کاشانی کے مخالفین اس وقت کیا کرتے تھے۔ یہ قابل قبول نہیں ہے۔ ہم اس راہ میں آگے بڑھے ہیں اور خود اپنی خلاقیت سے آگے بڑھے ہیں۔ ہمارے ملک کے حکام نے کوئی غیر قانونی کام بھی نہیں کیا ہے۔ ہماری تمام تر سرگرمیاں بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی(iaea) کی آنکھوں کے سامنے ہے ، کوئی حرج بھی نہیں ہے؛ ہميں اس پر کوئی ا‏عتراض نہیں ہے کہ ہماری سرگرمیاں انکے زیر نظرہوں۔
اس مسئلے ميں جنجال کھڑا کرنا ، ملت ایران پر دباؤ ڈالنا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اپنے ناجائز مقاصد کے لئے استعمال کرنا ملت ایران کی مخالف طاقتوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ میں یہ کہے دیتا ہوں کہ اگر ان لوگوں نے سلامتی کونسل کا وسیلہ کے طور پر استعمال کیا اور ہمارے اس مسلمہ حق کو اس طریقے سے نظر انداز کرنا چاہا تو(یاد رکھیں) آج تک جو کچھ بھی ہم نے کیا ہے وہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کیا ہے، اگر یہ لوگ غیر قانونی طریقہ اختیار کرنا چاہیں گے تو ہم بھی غیر قانونی طریقہ کار اختیار کر سکتے ہیں اور کریں گے۔ اگر یہ لوگ دھمکی، زور زبردستی اور تشدد کا رویہ اپنانا چاہیں گے تو یہ جان لیں کسی بھی شک و شبہ کے بغیر ایران کے عوام اور ایران کے حکام ان دشمنوں کے مقابلے میں جو ان کے خلاف جارحیت کرنا چاہیں گے، ان پر ضرب لگانے کے لئے اپنی پوری قوت و صلاحیت سے استفادہ کریں گے۔
میں اپنے عرائض تمام کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ملت ایران کے ایک خادم کی ایرانی قوم کے نام کچھ نصیحتیں ہیں۔ میری ایک اہم نصیحت یہ ہےکہ: یہ قومی اتحاد اور اسلامی یکجہتی کا نعرہ جو ہم نے اس سال دیا ہے ، سب اس کی رعایت کریں۔ قومی اتحاد یعنی ملت ایران کی اکائی اسلامی یکجہتی یعنی اسلامی اقوام کی ایک دوسرے کے ساتھ ہمراہی ملت ایران اپنے روابط اسلامی اقوام کے ساتھ اور مضبوط کرے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ''قومی اتحاد اور اسلامی یکجہتی عملی شکل اختیار کرے تو ہمیں ان اصولوں پر تکیہ کرنا ہوگا جو ہمارے درمیان مشترک ہیں۔ ہمیں اپنے آپ کو فروعی مسائل میں جو اختلافی ہیں، نہیں الجھانا ا چاہیے۔
دوسری نصیحت یہ ہے کہ ہماری پر وقار قوم خصوصاً ہمارے جوان اپنی خود اعتمادی کو ہاتھ سے نہ جانیں دیں۔
میرے عزیزجوانو! ملت ایران کے عزیز جوانو! تم کرسکتے ہو ؛ تم بڑے بڑے کام انجام دے سکتے ہو، تم اپنے ملک کو عزت و اقتدار کی بلندیوں تک پہونچا سکتے ہو۔ اپنے آپ پر اعتماد، ملک کے حکام افراد پر اعتماد، حکومت پر اعتماد، وہی چیز ہے جو دشمن چاہتے ہیں کہ پیدا نہ ہو۔ دشمن چاہتے ہیں کہ عوام کا حکومت پر سے ۔ جو ملک کے امور چلانے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہے۔اعتماد اٹھ جائے؛ دشمن کے اس منصوبے کو ناکام بنادینے کی کوشش کیجئے۔ میں حکومت کی حمایت کرتا ہوں۔ میں نے عوام کے ذریعہ منتخب تمام حکومتوں کی حمایت کی ہے، اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا؛ موجودہ حکومت کی بھی خاص طور پر حمایت کررہا ہوں۔ یہ حمایت بلا وجہ اور کسی حساب و کتاب کے بغیر نہیں کر رہا ہوں ۔پہلی بات تو یہ کہ اسلامی جمہوری نظام میں اور ہمارے ملک کے سیاسی نظام میں ، حکومت ایک بہت ہی اہم مقام و منزلت رکھتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ملک کی زیادہ تر ذمہ داریاں حکومت ہی کے کندھوں پر ہیں؛ اس کے علاوہ اس کے فیصلوں میں یہ دینی ترجیحات اور اسلامی و انقلابی اقدار و معیارات کی طرف جھکاؤ بھی کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ سخت جدوجہد، انتھک کوششیں عام لوگوں کے ساتھ رشتہ، ملک کے مختلف صوبوں کے سفر، انصاف کی برقراری کی فکر اور عوامی رنگ و بو، یہ سب بیش بہا چیزیں ہیں اور میں ان چیزوں کی قدر سمجھتا ہوں۔ میں ان ہی چیزوں کی وجہ سے حکومت کی حمایت کرتا ہوں۔ یقینا یہ حمایت، بغیر سوچے سمجھے آنکھ بند کرکے کی جانے والی حمایت نہیں ہے۔ مجھے اس کے بدلے میں حکومت سے کچھ توقعات اور انتظارات بھی ہیں۔ سب سے پہلی توقع کے طور پر میں حکومت کے ذمہ داروں سے کہتا ہوں کہ وہ تھکن اور خستگی کا احساس نہ کریں؛ خدا پر اعتماد اور توکل اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیں؛ خدا پر بھروسہ رکھیں اور ان عوام پر اعتماد کریں؛ اپنے عوامی رنگ، بو کو محفوظ رکھیں؛ ظاہری آرائش اور تجملات میں کہ اکثر لوگ جن کا شکار ہوجاتے ہیں، نہ پڑیں۔ ہر وقت خبر دار اور ہوشیار رہیں؛ جماعتی اختلافات میں شامل نہ ہوں؛ اپنے اوقات سیاسی جھگڑوں میں ضائع نہ کریں۔ اپنے تمام تر وجود اور تمام تر توانائیوں کے ساتھ عوام کے لئے کام کریں؛ جو کچھ لوگوں سے وعدے کریں اسے انجام دیں اور اسکی تکمیل کی جستجو میں لگے رہیں۔
ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا چاہیئں۔ ہمیں خدا سے متوسل رہنا چاہیئے، ایک دوسرے کو یاد دہانی کراتے رہنا چاہئے ۔ملت ایران ایک عظیم ملت ہے، قدرت و توانائی رکھنے والی قوم ہے، عظیم مقاصد کی حامل ہے اور ان ہی اہداف کی طرف گامزن بھی ہے جسے وہ طے کر سکتی ہے۔ مجھے میں دعا کرتا ہوں کہ خداوند متعال اپنا الطاف و کرم آپ تمام ملت ایران پر جاری وساری رکھے؛
آپ کے سروں پر اپنا باران لطف وکرم برساتا رہے اور انشاء اللہ آج کا دن جو ہمارے ایرانی سال (1386 ھجری شمسی)کا پہلا دن (۲۱مارچ۲۰۰۷) ہے، لوگوں کے لئے ایک با برکت سال کا نقطۂ آغاز ثابت ہو۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ