بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد و علی آلہ الطیبین الاطہرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین

بہت اچھی اور دلچسپ نشست ہے ۔ ایسے فضلاء، علماء، طلاب، جوانوں اور نوجوانوں کا بڑا مجمع کہ جنہوں علم دین اور خدا کے بندوں کی مدد و نصرت کی راہ میں قدم رکھا ہے، آج یہاں موجود ہے۔ یہ صوبہ بھی علمی شخصیتوں اور علمائے دین کا مرکز رہا ہے۔ ہم اگر ماضی پر نظر ڈالیں تو ہر دور میں عظیم شخصیات کو میدان عمل میں پہنچانے میں اس صوبے کا کردار نظر آتا ہے، قدیم ایام سے، تیسری ہجری صدی سے آج تک ، یعنی ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے کہ فارس صوبہ، سیبویہ، ابو علی فارسی، فیروز آبادی اور بیضاوی جیسی عظیم شخصیتوں سے لیکر، غیاث الدین دشتکی، صدر الدین دشتکی اور جلال الدین دوانی تک ہر ایک کا اپنا ایک خاص مقام ہے اور ان میں سے ہر ایک پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ یہ تصور کرنا غلط ہے کہ اگرکوئي عالم مثال کے طور پر فلسفے میں مشہور ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے معقولات میں ہی محنت کی ہے یا اگر اس نے تفسیر یا لغت پر کوئی کتاب لکھی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ بس اسی موضوع تک محدود ہے ۔ نہيں، یہ اس کی شخصیت کی تاریخ کا وہ پہلو ہے جو سامنے آیا ہے۔ خدا کی قسم ! جب آدمی ان شخصیات کے بارے میں مطالعہ کرتا ہے، تحقیق کرتا ہے تو اسے نظر آتا ہے کہ زمانے کے تمام علوم جیسے تفسیر، علوم عقلیہ اور ادبیات وغیرہ سب پر انہیں بیک وقت عبور حاصل تھا۔ اس کی ایک مثال ملا صدرا کی شخصیت ہے جنہيں فلسفے میں شہرت حاصل ہے لیکن، علم حدیث، علم رجال اور بلا شبہ علوم نقلیہ میں ان کا تبحر اپنے اوج پر ہے یا غیاث الدین دشتکی کی مثال لے لیں یہ بھی فقیہ و فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف علوم میں مہارت رکھتے تھے ۔
ہم اپنے سے قریب زمانے پر نظر ڈالتے ہیں۔میرزا شیرازی ، میرزا محمد تقی شیرازی ، مرحوم شیخ کاظم شیرازی ایسی عظیم شخصیتیں ہیں جن میں سے ہر ایک نے لا فانی علمی میراث چھوڑی ہے ۔
یہ بڑی زرخیز سرزمین ہے والبلد الطیب یخرج نباتہ باذن ربہ
ہمارے زمانے میں بھی اس سرزمین پر جید علماء رہے ہيں، مرحوم شیخ بہاء الدین سے میں نے ملاقات کی ہے، آیت اللہ شہید دستغیب مرحوم جو یقینا عالی مرتبت عالم دین و مذہبی شخصیت کا ایک نایاب نمونہ تھے، سید نور الدین مرحوم بھی ایک مختلف پہلو سے ایک ممتاز شخصیت کے حامل تھے ۔ سید عبد الحسین لاری مرحوم کہ جو در اصل فارس کے نہيں تھے بلکہ دزفول کے رہنے والے تھے لیکن ان کی شخصیت میں نکھار اسی صوبے میں آیا جس سے اس صوبے کے علمی مقام کا اندازہ ہوتا ہے ۔
خیر تاریخ پر ہی زیادہ بھروسہ نہ کریں، آئیے آج اور آنے والے کل پر نظر ڈالیں ۔ خدا کے شکر سے یہ نشست، بہت اچھی نشست ہے ۔ جس کی شروعات اس خوش لحن نوجوان قاری قرآن کی خوبصورت تلاوت سے ہوئی جس کے بعد جناب حائری کے ہمیشہ کی طرح پر معنی اور اہم خطاب نے اس نشست کی فضا کو معطر کر دیا ۔
جناب حائری نے جن نکات کو بیان کیا ہے میں اسی میں سے ایک پر اپنی گفتگو آگے بڑھاؤں گا۔ سلامتی، انہوں نے سلامتی کے جن دو ارکان کا ذکر کیا ہے وہ بالکل صحیح ہیں۔ اقتدار، معنویت کے ساتھ، دین کے ساتھ۔ دین و معنویت کا ابتدائی قدم خود پر قابو ہے لیکن سماج کے تحفظ میں دین کے اثرات، سلامتی کے دوسرے رکن یعنی اقتدار سے کم نہیں ہیں۔ یہ دونوں عناصر جب اکٹھا ہو جاتے ہیں یعنی معنویت اور معنوی ہدایت کرنے والے ہاتھ جس کے ساتھ ہادی کے پاس اقتدار وطاقت بھی ہو جس کے بل بوتے پر وہ حکم دے سکے، روک سکے اور اس کے احکامات پر سماج میں عمل ہو۔ یہ وہی چیز ہے جو ان کے بیان کے مطابق ، جو بالکل صحیح بھی ہے ، اس سلامتی کو فراہم کر سکتی ہے جو انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے ۔ بھوک برداشت کی جا سکتی ہے بہت سی دلی آرزوؤں کی عدم تکمیل سماجوں کے لئے قابل برداشت ہے لیکن بد امنی کو برداشت نہيں کیا جا سکتا ۔ اگر کوئی سماج خوشحال ہو ، آباد ہو لیکن اس میں بد امنی ہو تو ایسے سماج میں زندگی گزارنا تلخ ترین زہر پینے کی طرح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلامتی کی اتنی اہمیت ہے اور سلامتی کے لئے معنویت و معنوی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے کہ جس کے ساتھ اقتدار و مادی طاقت لازمی ہے۔ آج کے زمانے میں ہم اس مادی طاقت کے معنی سیاسی اقتدار کی شکل میں بیان کر سکتے ہيں۔ تو یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی ہمیں فکر ہونا چاہئے، مجھ حقیر کو بھی اور آپ لوگوں کو بھی۔ ہمیں فکرمند ہونا چاہئے، کیوں ؟ کیونکہ اسلامی جمہوریہ وہی نمونہ عمل ہے جو ان دونوں عناصر کا ایک ساتھ مالک ہو سکتا ہے ، اسلامی جمہوریہ یعنی اہل اسلام اور اہل دین کی سیاسی طاقت، یہ اسلامی جمہوریہ ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب اسی ملک میں ہمارے پاس معنویت تھی ، رہنمائی تھی ، عظیم مفکر تھے ، عظیم فقیہ تھے ، ماہر فلسفی تھے لیکن ان کا فائدہ ، ایک تقریر اور کچھ لوگوں کو اپنی باتوں سے متاثر کر لینے کے علاوہ کچھ نہيں تھا ، اس سے زیادہ کچھ نہيں تھا ۔
آج اسلامی جمہوری نظام قائم ہے ۔ یعنی خداوند عالم نے اس آزمائش کے میدان کو ہمارے یعنی معنوی ہدایت کے علمبرداروں کے سامنے کھول دیا ہے یہ بہت بڑے امتحان کی گھڑی ہے ۔ میں نے جس قسم کی تشویش کی بات کی ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس بوجھ کی سنگینی کو محسوس کریں ۔ کسی زمانے میں عالم دین ہونے ، دینی طالب علم بننے ، دینی تعلیم حاصل کرنے سے ایک عالم دین کے دائرہ اختیار کی حد تک ذمہ داریاں ہوتی تھی اور یہ دائرہ بھی نہایت محدود تھا ۔ آج تعلیم حاصل کرنے ، دینی طالب علم بننے ، مبلغ بننے ، ہدایت کے پرچم کو اٹھانے اور دین کو رائج کرنے کے لئے آگے بڑھنے کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ کے جو بھی اہم ذمہ داریاں ہیں وہ تقسیم ہوئی ہیں کسی خاص شخص یا عہدے دار سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہم سب پر عائد ہوتی ہیں۔ میری ذمہ داریاں زیادہ ہیں آپ لوگوں کی ہو سکتا ہے کم ہو لیکن ذمہ دار ہم سب ہیں ۔
اسی فکرمندی کی وجہ سے ہماری توجہ اس جانب مبذول ہوتی ہے کہ آج ہمارے دینی مدارس اور ہمارے علماء کو کس چیز کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے اس سلسلے میں ، میں عرض کروں گا کہ اگر ہم عمامہ پہننے والوں اور سرکاری عہدوں پر فائز علماء کی کہ جن میں ایک بہت بڑی تعداد خواتین کی بھی ہے، ذمہ داریوں کی ایک فہرست تیار کریں تو اس میں سر فہرست خود سازی کی ذمہ داری ہوگی ۔ پہلے مرحلے میں ہمیں خود اپنے اوپر توجہ دینی چاہئے ہمیں اپنی دینی و معنوی بنیادوں کو مضبوط کرنا چاہئے ۔ جس کی معنوی بنیاد مضبوط ہوتی ہے وہ بھاری فرائض کا بوجھ اٹھا سکتا ہے لیکن جسے خود اپنے اندر مسائل کا سامنا ہو وہ کوئي بھاری بوجھ نہیں اٹھا سکتا ۔ تقوی و پرہیزگاری و خود سازي ہمارے جیسے تعلیم دینے والوں کا اولین فریضہ ہے ۔ آپ نوجوان علماء و طلبہ کو اس موقع کو غنیمت سمجھنا اور اس کی قدر کرنا چاہئے ۔ آپ لوگوں کے پاک و پاکيزہ اور تمام آلودگیوں سے دور دل آپ کی شخصیتوں کی اس طرح تعمیر کر سکتے ہیں کہ آپ کے دل کے اندر اس معنویت کا چراغ ہمیشہ روشن رہے اور کوئی بھی شئ اس کی روشنی و چمک کو ماند کرنے میں کامیاب نہ ہو ہمارا پہلا سبق یہ ہے ۔ ہمارا پہلا سبق خدا کی یاد ہے، اس کی یاد اور اس کی بارگاہ میں حاضر رہنے کا احساس ہے۔ یہ ایک نوجوان کے لئے آسان کام ہے ۔ جسے نوجوانی کا دور کہا جاتا ہے اس کی آپ کو قدر کرنا چاہئے ، نوجوانی کے موقع کی قدر کا ایک اہم نمونہ یہ ہے کہ نوجوان ، گناہ سے بچے ، مشکوک مواقع سے دور رہے ، مسلسل خدا کو یاد کرے ۔ خدا وند عالم نے اپنی یاد کے وسائل ہمارے لئے فراہم کر دیئے ہیں جن میں سب سے اہم یہی نماز ہے ۔ یہ جو خدا نے پانچ وقت کی نمازیں ہم پر واجب کی ہیں یہ ہمارے حق میں خداوند عالم کی ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ اگر نماز نہ ہوتی تو ہم غفلت میں ڈوب جاتے یہ نماز جو ایک فریضہ کی شکل میں ہم پر واجب ہے ، ہمیں غفلت کی وادیوں سے باہر نکالتی ہے ۔ اچھے ڈھنگ سے نماز پڑھنا ، توجہ کے ساتھ پڑھنا انسان کی خود سازی کا ایک اہم طریقہ ہے ۔ یہی نماز ، تلاوت قرآن اور قرآن سے لگاؤ، کہ خوش قسمتی سے میں دیکھ رہا ہوں کہ ہر جگہ دینی طلاب میں یہ لگاؤ روز بروز بڑھتا جا رہا ے ، یہ جو ہم تلاوت قرآن مجید پر زور دیتے ہيں اس کی وجہ یہ ہے کہ اچھی تلاوت ، قرآن کی کشش میں اضافہ کرتی ہے اور دلوں کو قرآن سے قریب کرتی ہے نیز انسان کو قرآن کی یاد دلاتی ہے ۔ مرحوم قاضی( رضوان اللہ علیہ ) نے اپنی ان نصیحتوں اور تاکیدوں میں جو مکتوب شکل میں ان کے کچھ شاگردوں کے پاس ہیں ، جن چیزوں کا ذکر کیا ہے وہ یہی ہیں۔ وہ تاکید کرتے ہیں کہ صبح کو جب اٹھو تو اچھی آواز میں قرآن پڑھو ، یہ مرحوم حاج میرزا علی قاضی جیسے عظیم عارف و عالم کی تاکید ہے ۔ صحیفہ سجادیہ ، صحیفہ سجادیہ سے لگاؤ ، اور ان دعاؤں سے انسیت جو معرفت کا سمندر ہیں ۔ یقینا سر فہرست چیزوں میں علم دین بھی ہے ۔ ہمیں دین کو سمجھنا چاہئے۔ آج لوگوں کو دینی معلومات اور دین سے آگاہی کی ضرورت ہے ۔ آج کل شہید مطہری کی شہادت کی برسی منائی جا رہی ہے اس لئے ان کا ذکر بہت ہوتا ہے ۔ مطہری ایسی شخصیتوں کی ایک مثال تھے جنہيں دینی علوم کی حقیقی معرفت تھی ۔ دین کی معرفت ، آپ اگران چیزوں پر جسے شہید مطہری نے اس کم مدت میں چھوڑا ہے غور کریں تو دیکھیں گے کہ خدا وند عالم کا فضل و کرم کس طرح سے اس شخصیت کے شامل حال رہا اور اس نے کیسا عظیم رزق انہيں عطا کیا اپنے فضل و کرم سے ۔ میں تمام نوجوانوں سے تاکید کرتا ہوں کہ ایک بار ضرور شہید مطہری کی تمام کتابوں کا مطالعہ کریں ، ان کی باتیں نئ ہیں ۔ دینی حقائق اور علوم ، مختلف موضوعات پر سیر حاصل بحث جن کی اہمیت آج بھی انہی کے زمانے کے اتنی ہے ، ہماری ضرورت ہے ، دینی طالب علم کو فقہ کی معلومات ہونی چاہئے ، علوم عقلیہ سے آگاہی بھی ضروری ہے ۔ عقلی علوم ، عوام کے ذہنوں تک رسائی کا راستہ ہیں ۔ آج کی دنیا میں فلسفی شکلوں کے ذریعے ، جن میں کوئی خاص گہرائی بھی نہيں ہے لیکن شکل فلسفیانہ ہے ، لوگوں کے ذہنوں کو خاص سمت میں لے جایا جا رہا ہے ، ان میں کچھ لوگ تو سیاسی اغراض و مقاصد کے لئے بھی اس کا استعمال کرتے ہيں ۔ کچھ لوگ آج بھی ماضی کی مانند مغربی دنیا میں فلسفی ہونے کے نام پر یقینی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی خدمت کرتے ہیں اور کرتے تھے انہوں نے معیشت کا نام نہيں لیا ، سیاست کا نام نہیں لیا لیکن جو کچھ بھی فلسفے کے نام پر پیش کیا وہ سب سرمایہ دارانہ نظام کے مفاد میں ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ دنیا کو اپنی سیاست و حکومت کا لقمہ سمجھتے ہيں وہ تمام راستوں کو استعمال کرتے ہيں اور یہ اقوام اور لوگوں کے ذہنوں کو مائل کرنے کا ایک راستہ ہے یہ لوگ ذہنوں کو اس طریقے سے گمراہ کرتے ہيں ۔ اس کا مقابلہ ، ہنگاموں یا کفر کے فتوؤں اور برا بھلا کہنے یا غصہ کرنے سے ممکن نہيں ہے۔گرہ کو کھولنا ہوگا ، گرہ پر لات گھونسے برسانے سے تو وہ نہيں کھلے گی اس کے لئے طاقتور افکار کی ضرورت ہے ۔ آج ہمارے دینی مدارس کو عقلی علوم کی ضرورت ہے ۔ کلام ضرور پڑھیں ، فلسفے کا علم حاصل کریں البتہ دینی مدارس کی ریڑھ کی ہڈی فقہ ہے اس میں کوئی شک نہيں لیکن اس کے ساتھ یہ علوم بھی ضروری ہیں ۔ علم دین، نوجوان طالب علمو! جتنا ہو سکے درس پڑھو ، غور و فکر کرو ، علم کا ذخیرہ جمع کرو ، ایک عالم دین کی ذمہ داری نبھانے کے لئے ، مفکر ہونا ، نظریہ پرداز بننا ضروری ہے ۔ دینی علوم کی پہچان حاصل کرنی چاہئے اور اسے عصری تقاضوں کے مطابق سمجھنا اور سمجھانا چاہئے ۔ عصری زبان اور تقاضے ۔ جب ہم کہتے ہیں کہ عصری زبان میں بات کریں تو کچھ لوگوں کا ذہن فورا انٹر نیت کی طرف چلا جاتا ہے کہ ہمیں انٹر نیٹ سے بات کرنی چاہئے فلاں غیر ملکی زبان سیکھنی چاہئے۔ یہ بھی اپنی جگہ ضروری ہے لیکن یہ وسائل ہیں ، عصری تقاضوں کے مطابق اور عصری زبان میں بات کرنے کا مطلب یہ نہيں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ غور کریں کہ لوگوں کے ذہنوں پر بیرونی ماحول اور مختلف النوع لہریں کیا اثرات مرتب کرتی ہیں ۔ انہيں پہچانیں ، بیماری کو پہچانیں ، حادثے کے بارے میں معلومات حاصل کریں ، صورت حال کی شناخت حاصل کریں اس کے بعد اس کے علاج کی کوشش شروع کریں ۔ اس لئے ہمارے دینی مدارس کو درس ، علم اور غور و فکر کی ضرورت ہے ۔ جتنا ہو سکے پڑھیں اور غور و فکر کریں یہ ضروری ہے ۔
اس سلسلے میں ایک اور اہم چیز ، عالمی سیاست اور عالمی سیاسی تبدیلیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ آج کے عالم دین کو یہ جاننا چاہئے کہ وہ کہاں ہے اور اس کی پوزیشن کیا ہے تاکہ وہ صحیح طور پر دفاع کر سکے ۔ آپ کو یہ جاننا چاہئے کہ آپ کا محاذ کہاں ہیں ، آپ کو یہ جاننا چاہئے کہ آپ کے مد مقابل جو محاذ ہے اس کے پیچھے کون ہے اور وہ کیا ہے ؟ عالمی سیاست ، عالمی تبدیلیوں سے آگاہی کے بغیر ، جس کا ایک نمونہ خود ہمارے ملک اور آپ کے اطراف کی تبدیلیاں ہیں ، ان کے بارے میں معلومات کے بغیر کام چلنے والا نہيں ہے ۔
آج ، ایک ذمہ دار عالم دین ، ایک باخبر عالم دین ، ایک پڑھا لکھا عالم دین جب عالمی سیاسی تبدیلیوں کو دیکھتا ہے تو اس کی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ گمراہی کا مرکزی نقطہ کہاں ہے اور اس کے مقابلے میں ہدایت کا مرکز کہاں ہے ۔ وہ مرکز جو پوری دنیا کی گمراہی کا باعث ہے اور جو لوگوں کو گناہ ، عریانیت ، ظلم ، جنگ و جدال اور برادر کشی پر مائل کرتا ہے وہ دنیا میں رائج پالیسیاں ہيں۔ ایسا نہيں ہیں کہ یہ پالیسیاں آج بنی ہوں یہ تو ہمیشہ ہی دنیا میں رہی ہيں لیکن آج ، جدید وسائل کے ساتھ پوری دنیا پر اپنے تسلط کا خواب دیکھنے والی طاقتیں جو پوری دنیا کو نگل جانا چاہتی ہیں جو انسانی زندگي کے تمام پہلوؤں پر اپنا قبضہ چاہتی ہیں یہ طاقتیں ماضی کی طاقتوں سے زیادہ شاطر ہیں ، یہی سارے فساد کی جڑ ہیں ۔ یہ جو آپ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے اور اسلامی جمہوریہ کے نعروں میں دیکھتے ہیں کہ عالمی سامراج کو نشانہ بنایا گیا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے ۔ اسی لئے جب کوئي ملک اس نظام سے مقابلے کا پرچم لہراتا ہے ، دین کے نام پر ، اسلام کے نام پر معنویت کے نام پر ، تو اس پر ہر طرف سے حملے شروع ہو جاتے ہيں ۔ اسلامی جمہوری نظام سے عالمی سامراج کی دشمنی کی وجہ یہ کبھی نہيں سمجھنی چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ کو دنیا کے ساتھ تعلقات بنانے کے طریقے کا علم نہيں تھا ، جی نہيں ، یہ بات نہيں ہے ۔ بلکہ اسلامی جمہوریہ نے تو اس تیس برس کے عرصے میں ، پوری مہارت اور خدا کی ہدایت سے ، بہترین راستہ اختیار کیا ہے اس کی گواہی ہمارے دشمن بھی دیتے ہیں ۔
آج عالمی سیاسی حلقوں میں ایران کی سرگرم سفارتکاری ، ہوشیاری اور موثر روشوں کی جتنی باتیں ہو رہی ہيں ان کے دسویں حصے سے بھی ملک کے اندر لوگوں کو آگاہی نہيں ہے ۔ وہ لوگ (ایرانی)اس طرح سے بات کرتے ہيں ، اس طرح سے سوچتے ہیں اور اس کی بات سچ ہے، اس طرح کی باتیں ہو رہی ہيں پوری دنیا میں ۔ ان تیس برسوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی کارکردگی بہت اچھی رہی ہے بات یہ نہيں ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو عالمی طاقتوں کے سلسلے میں اختیار کی جانے والی روش کا علم نہیں تھا بات یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کی بنیاد ، توسیع پسندی اور لوگوں پر جنگ مسلط کرنے پر استوار ہے ، اقتصادی طریقے سے ، ثقافتی طریقے سے جو در اصل سیاسی تسلط کا پیش خیمہ ہے ۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اس راز کو درک کر لیا اسے سمجھ لیا اور ان کے سامنے ڈٹ گیا ، اصل بات یہ ہے ۔
آج ملک کے حکام اگر کوئی ایک ایسی بات کہہ دیں جو عالمی طاقتوں کی ناراضگی کا باعث ہو تو عالمی تشہراتی مہم کا رخ ان کی طرف مڑ جاتا ہے۔ ملک کے اندر بھی کچھ لوگ بھولے پن میں ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہيں کہ جناب بہتر تھا یہ بات نہ کہی جاتی ۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے زمانے میں بھی ہمیں یاد ہے کچھ مواقع پر کچھ لوگ ، جنہيں امام خمینی رضوان اللہ علیہ سے عقیدت بھی تھی ، کہتے تھے کہ بہتر ہوتا اگر امام یہ بات نہ کہتے ، بہتر تھا امام یہ موقف نہ اختیار کرتے ، جب امام نے انقلاب کے ابتدائی ایام میں _ انقلاب کی کامیابی کے شروعاتی ایام میں _ حجاب کے سلسلے میں وہ ٹھوس حکم صادر کیا تو آپ سے عقیدت رکھنے والے کچھ لوگوں نے کہا کہ جناب امام نے یہ بات کیوں کہی ۔ جب ولایت فقیہ کا مسئلہ پیش آیا تو ماہرین کی کونسل مجلس خبرگان میں بھی کچھ لوگوں نے کہا جناب ابھی ولایت فقیہ کی بات کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ وہ لوگ غلطی کر رہے تھے ، امام نے صحیح سمجھا اور صحیح کام کیا ۔
بنیادی معیار یہ ہے کہ ہم اسلام کو کھلے ذہن اور آگاہی کے ساتھ سمجھیں اور ہمت کے ساتھ اسے بیان کریں اور دوراندیشی کے ساتھ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھیں ۔ غور و فکر ضروری ہے لیکن مقصد کے تعین میں غلطی نہيں ہونی چاہئے ۔تدبیر اور مصلحت پسندی سے مقصد کو گم کردینا ، اصولوں کو خراب کرنا ، کچھ لوگوں کا خیال ہے کچھ لوگ تدبیر کا مطلب یہ نکالتے ہيں کہ انسان اصولوں اور اصلی دائروں و معیاروں سے دور ہو جائے یہ تو پوری طرح سے بے تدبیری ہے۔ اس کا مطلب کبھی نہ سیر ہونے والے لالچی دشمن کے سامنے پگھل جانا ہے ۔ مقصد واضح ہونا چاہئے اور مضبوط ارادے اور ٹھوس قدم کے ساتھ اس کی سمت بڑھنا چاہئے ۔ اس راستے پر انسان کو دوراندیشی کے ساتھ قدم بڑھانا چاہئے ۔ المومن کیس ، اسے اپنے اطراف کا خیال رکھنا چاہئے یہ بھی تقوے کا ایک مصداق ہے ۔ تقوے کا ایک مصداق ، یہ ہے کہ انسان اس بات کا خیال رکھے کہ کہيں دشمن کے جال میں نہ پھنس جائے ،دھوکا نہ کھا جائے ، دشمنوں کے شبخون کا شکار نہ ہو جائے یہ آگاہی ہے ۔ یہ تیسرا عنصر ہے ، تیسرا رکن ہے ان ارکان میں سے جو آج ہم دینی طلاب و علماء کی ذمہ داریوں میں ہے ۔ ہمیں اپنے اندر تقوے کو مضبوط کرنا چاہئے ۔ ہمارے دل و دماغ کی پرورش علم سے ہونی چاہئے ۔ تعلیم کے سلسلے میں صرف پڑھنے پر ہی اکتفا نہ کریں ، تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کریں ، اجتہاد کریں ۔ طالب علم کو شروع سے یہ سیکھنا چاہئے کہ جب وہ کچھ سنے بھلے ہی درس میں کیوں نہ ہو ، اسے استدلال کے ساتھ ذہن نشین کرے اس کا تجزیہ کرے ۔ یہ وہی چیز ہے جو ہمارے دینی مدارس میں شروع سے ہی سیکھائی جاتی ہے پوچھا جاتا تھا کہ کیوں کہا گیا ، جان لو ، ایدک اللہ یہ کیوں نہيں کہا کہ پڑھو ایدک اللہ ؟ کیونکہ پڑھنا معیار نہيں ہے ، جاننا معیار ہے ۔ یہ شروع میں ہی دینی طالب علموں کو سکھایا جاتا ہے ۔ توجہ رہے معمولی جذبات آپ کو اس عظیم مقصد سے ہٹا نہ دیں ۔ خیال رہے تصورات اور وہم آپ کو ایک دوسرے سے الگ نہ کریں ۔ علماء کا گروہ ایک متحد گروہ ہوتا ہے اسے معمولی اختلافات ، ٹکڑے ٹکڑے نہ کرنے پائيں ، ہماری توانائیاں ، آپسی جھگڑوں میں برباد نہ ہوں ۔
شہر شیراز اور صوبہ فارس، جیسا کہ آغاز میں ، میں نے کہا تھا بحمد اللہ اچھی توانائیوں سے مالامال ہے ۔ آپ کا ماضی بھی بڑی شخصیتوں کا حامل ہے اور ماضی قریب میں بھی اہم شخصیتیں گزری ہیں اور آج بھی خدا کے شکر سے مرجع تقلید کی سطح پر آپ کے یہاں شخصیتيں موجود ہیں ۔ آپ کے یہاں بڑی بڑی علمی شخصیتیں ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ صوبہ با صلاحیت انسانوں سے مالامال ہے ۔ یہ جو حائری صاحب نے مالی طور پر توجہ کی بات کی ہے وہ بھی صحیح بات ہے ہمیں بھی اس جانب توجہ دینے کی ضرورت کا اعتراف ہے اور امید ہے کہ خداوند عالم توفیق عنایت کرے اور ممکنہ حد تک ضروری اقدامات کئے جائيں اور صحیح بات ہے اچھے طلبہ پر جتنی بھی رقم لگائی جائے جیسا کہ انہوں نے فرمایا وہ خرچ نہيں ہے بلکہ سرمایہ کاری ہے اور اس کا نتیجہ اور ثمرہ ، خرچ کی جانے والی چیز سے کئ گنا زیادہ ہے ۔ البتہ انہوں نے شیخ طوسی کی مثال پیش کی ۔ شیخ طوسی ، سید مرتضی کے زمانے میں خود صف اول کے عالم دین تھے یہ صحیح ہے کہ وہ سید مرتضی کے دروس میں بھی جاتے تھے لیکن شیخ طوسی نے تہذیب نامی کتاب اپنے استاد شیخ مفید کی حیات میں یعنی اس وقت جب سید مرتضی کو علماء کی قیادت کا درجہ حاصل نہيں ہوا تھا ، لکھنی شروع کر دی تھی البتہ اسے شیخ مفید کے انتقال کے بعد مکمل کیا لیکن اس وقت جب سید مرتضی اور شیخ طوسی کے استاد شیخ مفید زندہ تھے انہوں نے اس عظیم کتاب یعنی تہذیب کو لکھنا شروع کر دیا تھا جو در اصل مقنعہ شیخ مفید کی روایتوں کی روشنی میں کی جانے والی شرح ہے یعنی جیسا کہ انہوں نے ابھی کہا جب شیخ طوسی کو بارہ دینار دئے جاتے تھے تو وہ صف اول کے علما میں شامل ہو چکے تھے۔
مجھے امید ہے کہ خدا وند عالم توفیق عنایت کرے اور عہدے دار ان فضلاء اور صف اول کے علماء کی ویسی خدمت کر سکیں جیسی ہونی چاہئے اور خدا ہمیں اور آپ کو توفیق عنایت کرے کہ ہم اسلامی جمہوریہ کی قدر کریں اور اس طاقت و معنویت کے اس عنصر کو ، جسے خداوند عالم نے عوام کی بلند ہمتی اور امام خمینی رضوان اللہ کی برکت سے ہمیں عطا کیا ہے ، مضبوط کریں خود سازی کریں تاکہ ہم اپنے فریضے پر عمل کر سکیں انشاء اللہ
آپ کو خدا کے حوالے کرتا ہوں اور خدا سے آپ لوگوں کی توفیقات میں روز افزوں اضافے کے لئے دعا گو ہوں ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ