تفصیلی خطاب پیش نظر ہے--------

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اگر یہ جلسہ دو تین گھنٹہ اور جاری رہتا، تب بھی میرے اشتیاق اور دلچسپی میں کوئي کمی نہ آتی۔ واقعا انسان آپ لوگوں سے مل کر اور آپ لوگوں کی باتیں سن کر تھک نہيں سکتا۔ میں ان دوستوں کا بھی بہت شکرگذار ہوں جنھوں نے یہ موقع فراہم کیا کہ آپ کی نشست میں شرکت کروں۔
یادیں اور واقعات کبھی اور بیان کروں گا؛ ابھی وقت کم ہے اور پھر آپ کے واقعات کے مقابلہ میں میری یادیں کچھ بھی نہيں ہیں۔ آپ نے جو دیکھا اورمحسوس کیا ہے، وہ بہت اہم اور لائق احترام ہے اور اس کا درجہ اس سے بہت زیادہ بلند و بالا ہے جو میں نے ان میدانوں میں دیکھا ہے۔ میں اس چیز کی اہمیت پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں کہ میری نظرمیں فن وہنر اور فصاحت و بلاغت کے ساتھ واقعات کو محفوظ کرنے کی بنیاد حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے ڈالی ہے۔ اگر حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی تحریک اور اقدام نہ ہوتا اور آپ کے بعد خاندان عصمت و طہارت کے چشم و چراغ حضرت اما م سجاد (ع) اور دوسرے عظیم افراد نہ ہوتےتو واقعہ عاشورا تاریخ میں محفوظ نہ رہتا۔ جی ہاں سنت الہی یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات تاریخ کے دامن میں محفوظ رہیں لیکن ہر سنت الہی معینہ اصول و روش کے تحت انجام پاتی ہے۔ تاریخ کے ان حقائق کے باقی ومحفوظ رکھنے کی روش یہ رہی ہے کہ صاحبان غم و اسرار اور وہ لوگ جو ان لمحات سے باخبر تھے انہوں نے ان حقائق کو دوسروں تک پہنچایا۔ بنابرایں واقعہ نگاری اور اس کی تدوین وترتیب نیز واقعات کی نشر و اشاعت کو اس کی حقیقی اہمیت ملنی چاہۓ کیونکہ اس کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے اور وہ بہت اہم ہے۔
فن بیان بھی اصلی شرط ہے؛ شہر کوفہ اور شام میں حضرت زینب (س) کا خطبہ جاذبیت کے لحاظ سے فن بیان کی آیت ہے؛ اسے چاہ کر بھی کوئي نظرانداز نہيں کر سکتا۔ کوئی مخالف کسی دشمن کی زبان سے بھی اگر یہ بیان و خطاب سنتا ہے تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا یہ اپنا اثر دکھا ہی دیتا ہے۔ فن کی تاثیر کا انحصار اور دار و مدار مخاطب کی مرضی پر نہیں ہوتا۔ وہ چاہے یا نہ چاہے، فن اپنا اثر دکھاۓ گا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور امام سجاد علیہ السلام نے شام میں اپنے خطبوں میں اور مسجد شام میں اپنی فصیح و بلیغ اور حیرت اانگیزتقریر کے ذریعہ یہ کام کیا ہے اورآپ بھی یہ کام کر رہے ہیں۔
استقامت سے متعلق ادبی اور فنی سرگرمیاں جو ہمارے ملک وقوم کے مقدس دفاع (1980 تا 1988 ) کے ایک مخصوص دور کے گرد گھومتی ہیں درحقیقت بڑا اہم اور نمایاں کام ہے۔ البتہ دوستوں نے بہت کام کیاہے۔ 1980 کی دہائی سے فن وہنر کے میدان میں یہ سرگرمیاں شروع ہوئیں اور واقعات منظر عام پر آنے لگے۔ میں ان کتابوں کو بڑے شوق سے خریدتا تھا تاکہ واقعات کو پڑھوں، میں ان تحریروں اور باتوں کی کشش اور صداقت بہت متاثر ہوں۔ یہ بات میں پوری سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں۔ ان کاموں کو انجام دینے والوں کی یاد ذہن میں ہمیشہ باقی رہے گی۔ جن لوگوں نے یہ کتابیں لکھی ہيں اور جن کی کتابیں میں نے دیکھی ہیں اکثر کے نام میرے ذہن میں محفوظ ہیں اور میں ان لوگوں کی قدردانی کرتا ہوں اور اگرمیرے بس میں ہوتا توان کے کاموں کی مدح میں اشعار کہتا۔ البتہ تاریخ میں دیکھا یہ گیا ہے کہ شعراء زيادہ تر صاحبان حکومت و ثروت اور ان جیسے افراد کی تعریف کرتے تھے لہذا میری نظرمیں آپ حضرات کا کام بے لوث اور قابل تعریف ہے۔ اگر میں شاعر ہوتا تو یقینا آپ لوگوں کی مدح میں، جناب سرہنگی کی مدح میں جناب بہبودی کی تعریف میں جناب قدمی کی مدح میں واقعات اور یادوں کو زندہ رکھنے والوں اور واقعات کی یاد دلانے والوں کیلۓ قصیدہ کہتا؛ یہ حقیقت ہے؛ کیونکہ یہ بہت عظیم اوراہم کام ہے۔
میری نظر ميں مقدس دفاع اور اس دوران جوواقعات رونماہوۓ،وہ کوئی معمولی واقعات نہیں تھے۔ تمام اقوام میں ان واقعات کی اہمیت ہوتی ہے لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر ہماری قوم کیلیۓ اس کی اہمیت دوسروں سے زیادہ ہے لہذا اسے قوموں کی زندگی کے معمولی واقعات قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہماری قوم کیلۓ مقدس دفاع کا زمانہ مختلف میدانوں میں اپنے اندر موجود جوہر کو نمایاں کرنے یک موقع تھا قوم نے ایسا ہی کیا بھی۔ میں نے عرض کیا کہ تمام قومیں ایسا ہی کرتی ہیں؛فرق صرف کام کی کیفیت، اھداف ومقاصد اور نیتوں ميں ہے۔
کسی ملک کے لئے مشکل گھڑی میں، چاہے وہ جنگ کا موقع ہو، معاشی واقتصادی مسائل ہوں یا دوسرے گوناگوں دباؤ، اپنی صلاحتوں کو بروی کار لانا ہوتا ہے اور یہ دکھانا ہوتا ہے کہ اس قوم میں اپنی بقا کے تحفظ کی کتنی توانائي موجود ہے، کتنی استعداد ہے اور کتنی صلاحیت پائي جاتی ہے لہذا انسان چاہے جتنے بھی اچھے فن پاروں کوکیوں نہ دیکھ چکا ہو اس کو محو حیرت کر دینے والے بہترین فن پارے وہی ہوتے ہيں جو اس ملک کے دفاعی دور سے متعلق ہوتے ہیں۔ آپ جتنے بھی واقعات اور داستانوں کو دیکھیں اس کا سب سے زيادہ دلچسپ اور شیریں حصہ کسی قوم کے اس دور سے متعلق ہوتا ہے جس میں اس نے اس قسم کا کوئی عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ جیسے ٹالسٹای کی جنگ وصلح نیپولین کے حملہ کےمقابلہ میں روسی عوام کی حیرت انگیز استقامت اور ماسکو کے عوام کی جانب سے نیپولین کو شکست دینے کیلۓ شروع ہونے والی عظیم تحریک۔ ٹالسٹای کی دوسری کتابیں بھی ہیں لیکن میری نظرمیں یہ کتاب اس لۓ زیادہ اہم ہے کہ اس کا موضوع روسی عوام کا دفاعی جذبہ ہے۔ اسی طرح بہت سی دوسری کتابیں جو سابق سویت یونین کے انقلاب کے بارے میں لکھی گئي ہیں، یا فرانس کے انقلاب کبیر کے بارے میں تحریر کی گئي ہیں، یا فرانس و جرمنی کی جنگوں اور فرانسیسی عوام کے دفاع کے بارے میں لکھی گئی ہیں؛ جیسے امیل زولا کی بعض کتابیں نمایاں حیثیت کی حامل ہیں۔ ناول کی سب سے اچھی کتاب کسی قوم کے اس حساس دور سے متعلق ہوتی ہے جس دور میں وہ قوم اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں پایہ ثبوت کو پہنچاتی ہے۔ پینٹنگ بھی شاید اسی طرح ہو۔ البتہ پینٹنگ کے فن ميں مجھے ایک دیکھنے والے کی حیثیت سے بھی اچھی معلومات نہیں ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ، جہاں تک میں نے سنا ہے، دنیا کی عظیم پینٹنگ کے سب سے زيادہ خوبصورت مناظر میدان جنگ سے متعلق ہیں؛ مثلا واٹرلو کی جنگ کے مناظر اور دوسرے گوناں گوں مناظر۔ ہمارے قومی فن پاروں کیلۓ ایک سب سے اہم جلوہ گاہ، ہم پرمسلط کردہ جنگ یا دفاع مقدس کا دور رہا ہےاس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہۓ۔
دوتین سال قبل یہاں ( حسینیۂ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) میں بہت سے آرٹسٹ آئےتھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگوں میں کون ایسا آرٹسٹ ہے جو ہماری غیور قوم کی عزت وغیرت کو پامال کرنے کاارادہ رکھنے والے دشمن کے مقابلہ میں اپنے جوانوں اور قوم کے پر جوش رزمیہ جذبات کونظرانداز کرسکتا ہے اور اس کی حیرت انگیز خصوصیات پر ایک نگاہ ڈالے بغیر گزر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو کہ ہمارے فنکاراور آرٹسٹ اسے نہ دیکھیں اور اس کو اہمیت نہ دیں تو یہ دیکھنا پڑۓ گا کہ نقص کہاں ہے ، نگاہ فن میں یا اسے پیش کرنے میں یا ملک کے ثقافتی ماحول پر اثرانداز ہونے والے دشمنوں کا مقابلہ کرنے میں یا پالیسیوں میں؛ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک قوم ایسے واقعات کو بھول جاۓ یا نہ دیکھے اور نہ سمجھے۔ لہذا واقعات اوریادوں کو بیان انہیں محفوظ کرنے اور زندہ رکھنے میں آپ لوگوں کا بہت اہم کردار ہے۔
گزشتہ دنوں میں جناب بہبودی اور جناب سرہنگی کا انٹرویو پڑھ رہا تھا جو بالکل حقیقت پر مبنی ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ مقدس دفاع کے دورکے واقعات کو دستاویزی شکل دینا چاہۓ، بیان کرناچاہۓ مدلل انداز میں پیش کرنا چاہئے تاکہ اس کی بنیاد پر فن کی تخلیق کی جاسکے اور یہ بالکل درست ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ ہم مقدس دفاع کیلۓ چاہے جتنا بھی کام اور سرمایہ کاری کریں کم ہے۔ کیونکہ اس دور کواجاگر کرنے کیلۓ ملک کی ادبی اور فنی صلاحیتیں بہت وسیع اور عمیق ہیں اور ابھی تک ان صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا گياہے۔ البتہ اس سلسلے میں کئی اچھی کتابیں لکھی جا چکی ہیں، لیکن یہ سلسلہ جاری رہنا چاہۓ۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جوجان بوجھ کراس چمکتے ہوۓ سورج اور نور و روشنی کے اس سرچشمہ کوقوم کے ذہنوں سے مٹانا چاہتے ہیں؛ کیونکہ جو شخص بھی اس دور کو پہچاننا چاہتا ہے اور کم ازکم اس کی خصوصیات کو کسی حد تک درک کرنا چاہتا ہے، وہ ان واقعات کو سن کر احساس فخر کرتا ہے۔ ایسی قوم جو زبردست عالمی یلغار کے مدمقابل نہتھی ہونے کے باوجود ڈٹ سکتی ہے اور اللہ تعالی کی مدد اور پروردگار سے توسل نیزاپنی ذات پر بھروسہ کرتے ہوۓ دنیا کی سامراجی طاقتوں کے جال سے خود کو کامیابی کےساتھ باہر نکال سکتی ہے، لائق صد ستائش ہے۔ یہ قوم اگر اپنے اندر یہ توانائی و استعداد دیکھتی ہے اور اپنے اندر یہ صلاحیت محسوس کرتی ہے تو اسے اپنے عظیم مقصد پر قائم و دائم رہنے اور اس راہ پر چلتے رہنے سے کوئی چیز روک نہیں سکتی۔ اس بات کودشمن جانتا ہے؛ اسی لیۓ نہيں چاہتا کہ ہمارے عوام میں اپنی شناخت اور خود آگاہی پیدا ہو۔ ہمیں اس کے برعکس یہ کوشش کرنی چاہۓکہ یہ خود آگاہی نقطہ کمال کو پہنچے۔
ہمیں افسوس ہے کہ اس سلسلےمیں ہماری نئي نسل کی معلومات کم ہیں۔ ہمیں ایسا کام کرنا چاہۓ کہ ہماری نئی نسل اور آئندہ نسلیں، اس استعداد ، اس عظیم سرمایہ اوراس بے پناہ خزانہ سے روحانی ومعنوی فائدہ اٹھائیں، ان میں امید پیدا ہو، وہ خود کو پہچانیں اوریہ جانیں کہ ہماری عورتیں ایسی ہیں، ہمارے مرد ایسے ہیں، ہمارے نوجوان ایسے ہیں جنھوں نے میدان جنگ میں شجاعت و بہادری کی بے مثال داستانیں رقم کی ہیں۔
آغازجنگ ميں ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ آپ سبھی يا آپ میں سے اکثر افراد جنگ میں موجود تھے؛ میں بھی نزدیک سے دیکھ رہا تھا؛ ہمارے ہاتھ واقعی خالی تھے؛ ہماری فوج کے پاس ساز وسامان اور وسائل تھے نہ پاسداران انقلاب فورس کے پاس کچھ تھا۔ وہ تو اس وقت تک پوری طرح سے منظم بھی نہیں ہوئي تھی۔ حتی افراد کے پاس بندوقیں بھی نہیں تھیں، ایک بھرپور جنگ کیلۓ ہمارے پاس ابتدائي ضرورت کی چيزیں بھی نہیں تھیں۔ اھواز کا علاقہ جہاں میں تھا وہاں ہماری بریگیڈ کی بعض بٹالینوں کے پاس توتقریبا دس ٹینک ہوتے تھے یعنی ان کی ضرورت کا دسواں حصہ ، ان کے ٹینک تباہ ہوچکے تھے، خراب ہوچکے تھے، اس کے باوجود ہمارے جوان ڈٹے ہوۓ تھےاور جدو جہد کر رہے تھے۔
آغاز جنگ سے اب تک- چوبیس پچیس برسوں میں- ہم زمین سے آسمان پر پہنچ چکے ہيں۔ ہمیں دھمکیاں دی جارہی ہیں، ہم پر اقتصادی پابندیاں لگائی جارہی ہیں اورہمارا اقتصادی بائیکاٹ کیاجارہا ہے لیکن ہم نے اقتصادی پابندیوں کے باوجود تمام ضروری ساز وسامان اور وسائل حاصل کۓ ہیں۔ سخت اقتصادی پابندیوں کے زمانے میں ہی ہمارے نوجوانوں نے ایسے ہتھیار تیارکۓ ہیں جو امریکہ اور اس کی ایک دو چہیتی حکومتوں کےعلاوہ دنیا میں کسی کے پاس نہیں تھے۔ یہی ٹینک شکن تاو میزائل ہمارے جوانوں نے کن حالات میں بناۓ ہیں؟ ایسے حالات میں جب ان کیلۓ تمام دروازے بند تھے لیکن انھوں نے بناۓ۔ آپ آج جو علمی وسائنسی ترقی دیکھ رہے ہیں اس کے سلسلے میں ہم برسوں سے کہہ رہے تھے کہ ہمارے جوان عظیم کام انجام دے رہے ہیں، جو اب مختلف میدانوں میں یکے بعد دیگرے سامنے آرہے ہیں۔ البتہ ایٹمی توانائي کا معاملہ اس کے تئیں دنیا کی حساسیت کی وجہ سے نمایاں اور عیاں ہوگيا ہے؛ ورنہ دوسرے میدانوں میں ہونے والے گوناگوں کاموں کی اہمیت بھی درحقیقت اس سے کم نہيں ہے۔ یہ سارے کام اقتصادی پابندیوں اور سیاسی دباؤ کے باوجود انجام پاۓ ہیں۔ یہ تمام کام اس دورمیں اور ان حالات میں انجام پاۓ ہیں جب وہ حکومتیں جو ہم سے اقتصادی تعلقات رکھتی تھیں وہ بھی بہت و لیت و لعل سے کام لیتی تھیں، ہر کام کو مشکل بنا کر پیش کرتی تھیں اور ٹھیک سے لین دین نہیں کرتی تھیں؛ لیکن ہم نے اپنا کام کیا ۔ یہ چیز قوم کی توانائی و استعداد کوظاہر کرتی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو ان صلاحیتوں کو پہچاننا چاہۓ۔ آپ جانتے ہیں کہ پہلوی دور میں ایک سب سے بڑا پروپیگنڈہ یہ تھا ہمارے بس کی بات نہیں ہے ہم سب بچپن سے ہی یہ سنتے ہوۓ بڑے ہوۓ تھے کہ ایرانی مصنوعات اچھی نہیں ہوتیں، ایرانی اشیاء خراب ہوتی ہیں، معمولی درجے کی ہوتی ہیں، ایرانی اچھی چیزیں نہیں تیار کرسکتے۔ درحقیقت ہمارے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی تھی، جب کہ اس میں کوئی حقیقت نہيں ہے، ہماری قوم ایسی قوم ہے جو ہرلحاظ سے صلاحیتوں کی حامل ہے، پیداوار کی توانائي رکھتی ہے، ترقی کرسکتی ہے، جدت عمل کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی حدوں کو عبور کرسکتی ہے اور آگے بڑہ سکتی ہے۔ البتہ ہم ابھی دنیا سے بہت پیچھے ہیں؛ چونکہ مدتوں سے ہمیں پیچھے رکھا گیا تھا، ہم بھی یہ اچھی طرح جانتے ہیں لیکن ہم تیزی سے یہ فاصلہ کم کر رہے ہیں تاکہ دوسروں کے برابر پہنچ سکیں۔ اس کا حقیقی مظہر جنگ میں نظرآتا ہے؛ انسانی جذبات کے لحاظ سے بھی اور معنوی و روحانی صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی ، ہر جگہ اور ہر مرحلے پر کوئی کمی محسوس نہیں ہونے پائی۔
آپ دیکھیں کہ ایران کی فوج کن حالات میں تشکیل دی گئی ؛ اس کو کس طرح تربیت دی گئی اور کن حالات میں اس کو آگے بڑھایا گیا۔ وہ حالات پوری طرح مذہب مخالف تھے لیکن یہی فوج چاہے وہ فضائيہ ہو یا بحریہ یا بری فوج، انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ڈیڑھ یا دو سال بعد ہی جب جنگ شروع ہوئی تواس انداز سے آگے آئی اور اس نے ایسے کارنامے انجام دئيے جو واقعی حیرت انگیز ہیں۔ جن جوانوں نے آغاز جنگ میں اپنے جنگی طیاروں سے فضائی حملے کۓ اور بمباری کی ، وہ سابق فوج کے تربیت یافتہ تھے؛ لیکن ان کے اندرمعنویت وخلوص کا عنصر ضوفشاں تھا۔
میں اھوازمیں غالبا نصف شب کے وقت جنگی سیکٹر کامعائنہ کرنے کیلۓ جاتا تھا۔ وہاں میں نے اپنی آنکھوں سے یہ مناظر دیکھے کہ بنکر کے پیچھے ٹینک کے کنارے ایک فوجی جنرل نماز شب پڑھ رہا ہے۔
شہید چمران کے افراد چھاپہ مار جنگ کے شعبے میں جمع ہوتے تھے اور ہرشب فوجی کاروائی کیلۓ جاتے تھےاور کبھی کبھی مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ ایک رات میں نے دیکھا کہ ایک فوجی افسر مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے جنرل یا بریگیڈیر تھا۔ چونکہ ہم لشکر نمبر بانوے انفینٹری ڈویژن میں تعینات تھے لہذا ہم ان سے نزدیک تھے، وہ افسر میرے پاس آیااوراس کہا کہ مجھے آپ سے خصوصی کام ہے۔ میں نے سوچا کہ شاید چھٹی کی درخواست دینا چاہتا ہے میں نے ٹالنا چاہا کہ یہ بھی کوئی چھٹی لینے کا وقت ہے لیکن میں نے دیکھا کہ وہ روتے ہوۓ آرہا ہے، وہ آیا اور آکر کہنے لگا کہ آپ سفارش کر دیں کہ رات میں جب یہ لوگ کاروائی کیلۓ جاتے ہیں تو ہو سکے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے جایا کریں۔ نوجوان راتوں میں شہید چمران کے ساتھ ٹینکوں کا شکار کرنے کیلۓ جاتے تھے اور یہ بریگیڈیر مجھ سے التجا کررہا تھا کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلۓ، اس قسم کے مناظر دیکھنے کو ملے ہیں، اس سے معنوی وروحانی کیفیت کا پتہ چلتا ہے۔ رضاکار فورس اور پاسداران انقلاب فورس نیز شہید چمران جیسے افراد کی تو بات ہی اور ہے۔ یہ ہماری عظیم قوم کی صلاحیت و قابلیت کا ایک پہلو ہے۔ سائنسی، تکنیکی، تحقیقاتی، ادبی اور فنی و ہنری پہلو بھی حیرت انگیز ہیں جو پوری جنگ میں نمایاں رہےاور ہماری قوم نے اپنا لوہا منوالیا۔
جنگ واقعی ملت ایران کی صلاحیتوں کا مکمل آئینہ دار تھی۔ آپ جو کا م کررہے ہیں اسے زندہ وپائندہ بناسکتے ہيں؛ آپ اسے عوام کے ذہنوں میں منعکس کر سکتے ہيں؛ بہت بڑا اور اہم کام ہے۔
میں آپ لوگوں کی زحمتوں کی قدر کرتا ہوں اور میرا اصرار ہے کہ آپ لوگ اس سلسلےکو جاری رکھیں اور ادارہ بیاض ادب و فن استقامت اپنا کام پوری سنجیدگی اور جوش وجذبہ سے انشاء اللہ جاری رکھے گا اور جن فن کار دوستوں نے ان برسوں میں کوئی پروگرام تیارکیا ہے، حق وانصاف تو یہ ہے کہ وہ قابل قدراور قیمتی آثارہیں - آپ اپنا کام جاری رکھیں ۔
بعض دوستوں نے واقعا ترقی بھی کی ہے۔ آج بعض فنکاراحباب جب کوئي واقعہ یا داستان لکھتے ہیں تومیں اس کا موازنہ سترہ اٹھارہ سال پہلے لکھی جانے والی داستانوں سے کرتا ہو اور دیکھتا ہوں کہ کافی فرق ہے ،یعنی واقعا ترقی ہوئي ہے۔ اس وقت جو فن پارے یہ پیش کررہے ہيں وہ بہت ہی قابل قدر ہیں ۔
اشعارکا بھی یہی حال ہے، جو اشعار ڈاکٹر رفیعی نے انتہائی جوش وخروش سے پڑھے، حقیقت یہ ہے کہ نہایت برمحل ، بامعنی اور رواں تھے۔ بیس سال پہلے ہمارے پاس ایسی شاعری نہیں تھی؛ اس میں بتدریج ترقی ہورہی ہے ۔
میراخیال یہ ہے کہ اگر صاحبان فن اس سلسلے کو جاری رکھیں تو ہمارے پاس انشاء اللہ ایسے فن پارے ہوں گے جو ایرانی فن کی بلندیوں پر فائز ہوں گے۔ اگر ہماری تاریخ میں سعدی کی شاعری موجود ہے؛ حافظ شعری انداز موجودہے، تو میں سمجھتاہوں کہ اگر ہم اس سلسلے کو جاری رکھیں تو شاعری کے میدان میں بھی نئ منزلیں طے کريں گے۔ داستان نویسی، قصہ گوئی، ناول نگاری اور مختصر و طویل کہانیوں ، کے میدان میں بھی ہم یقینا بلندیوں کی چوٹیاں سرکریں گے- البتہ اس میدان میں بھی ہم پیچھے ہیں - اور اگر ہم اسی طرح فن وہنر کے دوسرے میدانوں میں بھی اپنی کوششیں جاری رکھیں گے تو ترقی کریں گے اور قوم کیلۓ اس کا نتیجہ بھی دائمی وپائدارہوگا۔
انشاء اللہ، خداوندعالم آپ سب کو توفیق عطاکرے، میں آپ سب لوگوں کیلۓ دعاگو ہوں اور رہوں گا۔ آپ سب پراللہ تعالی اپنی رحمتیںنازل کرے اور آپ کے سروں پر اپنی نصرت و ہدایت کا سایہ قائم رکھے اور حضرت بقیۃ اللہ الاعظم عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی دعائيں آپ کے شامل حال رہیں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ