بسم اللہ الرحمن الرحیم

آج کی مانند جب بھی ماہ مبارک رمضان میں حکام سے ملاقات کا اتفاق ہوا میں نے کوشش یہ کی کہ نہج البلاغہ کے وعظ ونصائح سے گفتگو کا آغاز کروں؛ کیونکہ ہم سب کو ان نصیحتوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ خاص طور پر ہمارے اور آپ جیسے افراد کو دوسروں سے زیادہ نصیحت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہم اپنےذاتی مسائل اور امورمیں نصیجتوں کے محتاج تو ہیں ہی، ہمارے قلب کیلۓ، اللہ تعالی سے ہمارے قلبی رابطہ کیلۓ، خشوع خضوع اور تواضع وانکساری کیلۓ کہ جو فرائض کی انجام دہی کی راہ میں صحیح راستے کے انتخاب میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے، نصیحتیں ضروری ہیں اور ساتھ ہی اس لحاظ سے بھی ہمیں وعظ ونصیحت کی ضرورت ہے کہ یہاں پر اس وقت جو حضرات موجود ہیں ان میں سب پر ملک کے انتظام اور نظم ونسق کے سلسلے میں کوئي نہ کوئي ذمہ داری عائد کی گئ ہے اور ملک کا نظام چلانے کے سلسلے میں علوی فہم وفراست ضروری ہو جو انھی وعظ و نصائح سے حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ ان اس وعظ و نصیحت میں بہت سے منطقی، فلسفیانہ، استدلالی نکات اور موضوعات بھی نہاں ہیں اور بعض مقامات پر ان کے اس پہلو پر باقاعدہ بحث کی گئي ہے، لیکن انسان امیرالمومنین کے ان نصائح سے جتنا بھی سمجھ لیتا ہے، وہ بعض اوقات انسان کی روح کی گہرائيوں میں اتر جاتا ہے اور ان چیزوں سے کہیں زيادہ موثر واقع ہوتا ہے جو استدلالی اور تجزياتی انداز سے بیان کی جاتی ہیں۔ لہذا ہم درپیش مسائل کے بارے میں برسوں سے حکام کے درمیان نہج البلاغہ کے نصائح اورمواعظ کے کچھ نکات پر روشنی ڈالتے رہے ہیں؛ اور اب بھی ہمارا یہی دستور ہے۔
میں قبل اس کے کہ ان جملوں کو پڑھوں جو میں نے مالک اشتر کے نام امیرالمومنین علیہ السلام کے فرمان سے انتخاب کیا ہے، یاددہانی کے طور پراختصار سے دوتین نکات کی جانب اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے ہمیں ہرگز یہ گمان بھی نہيں کرنا چاہۓ کہ ہم گمراہ نہیں ہوسکتے یا بھٹک نہیں سکتے؛ یعنی کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے لئے فکر کی کوئی بات نہیں ہے، ہم تو دین کے راستے پر چل رہے ہیں اور خدا کی راہ میں قدم اٹھا رہے ہیں، منحرف ہونے کا کوئي سوال ننہیں ہے؛ نہیں ایسا نہیں ہے۔ راہ راست سے بھٹکنے اور منحرف ہونے کا اندیشہ سب کے لۓ ہے اور سب کے پاس انحراف و گمراہی سے بچنے کا وسیلہ بھی موجود ہے؛ یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ ہرشخص جو اس راہ پر چل رہا ہے وہ ضرور بھٹکے گا، نہیں، ایسا نہیں ہے۔ انسان بغیر لغزش وانحراف کے بھی اپنے راستے پر قائم و دائم رہ سکتا ہے۔ لیکن گمراہ نہ ہونے کی بھی ضمانت نہیں ہے کہ انسان کہے کہ ہم تو اب گمراہ نہیں ہوسکتے اور اس اطمینان میں ہر طرف سے بے فکر ہو جائے۔ ان دونوں صورتوں پر توجہ دینی چاہۓ اور ان سے غافل نہیں ہونا چاہۓ ۔ منحرف نہ ہونے اور گمراہی سے بچنےکا طریقہ کیا ہے؟ اپنے نفس سے ہوشیار رہنا، اپنی طرف سے غافل نہ ہونا، اگر ہم اپنی ذات سے غفلت برتیں گے تو یا ہماری عقیدتی اور نظریاتی بنیادوں میں کمزوری پیدا ہوجاۓ گي یا ہم نفسانی خواہشات میں مبتلا ہوکر انحراف کاشکار ہوجائیں گے۔ حتی وہ لوگ جن کی فکری و نظریاتی بنیادیں مستحکم ہیں ان پر بھی کبھی کبھی ھوا وھوس کا غلبہ ہو جاتا ہے اور انسان بھٹک جاتا ہے؛ اس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن مجید میں کئي آیتیں موجود ہيں۔ چنانچہ احد کے واقعہ کے سلسلے میں جو آیت ہے وہ انسان کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ ارشاد ہوا ہے ان الذين تولوا منکم یوم التقی الجمعان انما استزلھم الشیطان ببعض ماکسبوا یعنی وہ لوگ جنھوں نے جنگ احد کے واقعہ ميں نقصان دہ لغزش کی اور میدان جنگ سے منھ موڑ لیا نتیجے میں اسلام کی نوتشکیل شدہ فوج اورحکومت کو اتنا بڑا نقصان پہنچا، اس کی وجہ ببعض ماکسبوا تھی، وہ کام تھے جو انھوں نے پہلےخودسرانہ طورپر انجام دیۓ تھے۔ ھواء و ھوس اور نفسانی خواہشات اپنا اثر اس طرح کی جگہوں پر دکھاتی ہیں۔ قرآن کریم کی ایک اور آيت میں ارشاد ہوتاہے کہ ان لوگوں سے کہا گيا کہ انفاق کرو، لیکن انھوں نے اپنا عہد پورا نہیں کیا لہذا ان کے دلوں پر نفاق مسلط ہوگيا فاعقبھم نفاقا فی قلوبھم الی یوم یلقونہ بما اختلفوا اللہ ما وعدوہ یعنی جب انسان اللہ سے کۓ ہوۓ عہد و پیمان کے تئيں لا پرواہی اور بے توجہی ظاہر کرتا ہے اور وعدہ خلافی کرتا ہے۔ بنا برایں اگر ہم بے توجہی کریں گےاور ھوا وھوس اور شہوتوں میں مبتلا ہوجائيں گے تو ایمان جاتا رہے گا اور عقل مغلوب ہوجاۓ گی اور ھوا وھوس کا غلبہ ہوجاۓ گا۔ ممکن ہے ہم اسی انحراف وگمراہی میں مبتلا ہوں جا‏ئيں جس کا خوف تھا۔ بنابرايں انسان کو ہرحال میں یہ سوچتے رہنا چاہۓ کہ کہیں لغزش نہ ہوجاۓ۔ کسی کوبھی خود کو اس خطرے سے محفوظ نہیں سمجھنا چاہۓ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہم جو اس عہدے پر فائزہیں، اگر اپنی غلطیوں کے امکان کو کم کرنا چاہتے ہیں تو ہم خیر خواہوں کی تلخ اورسخت تنقیدوں سے رنجیدہ نہ ہوں؛ غلطیوں سے محفوظ رہنے کا ایک راستہ یہی ہے۔ البتہ بدخواہ بھی ہیں جو تند و تلخ اورمیٹھی ہرطرح کی باتیں کرتے ہيں۔ افواہیں، نفسیاتی جنگ، جھوٹ اور بہتان سب کچھ ان سے سرزد ہوتا ہے۔ اب اس سے ممکن ہے انسان رنجیدہ اور کبیدہ خاطر ہو لیکن جن کے بارے میں آپ جانتےہیں کہ ان میں کینہ اور دشمنی نہيں ہے اور ان کی نیت پاک ہے اگر وہ تند و تلخ بات کرتے ہيں تو ان سے رنجیدہ نہیں ہونا چاہۓ۔ چاپلوسوں کی میٹھی میٹھی باتوں کے دھوکہ میں نہیں آنا چاہۓ۔ اگر ہم اس کا خیال رکھیں تو میری نظرمیں یہ ہمارے بہت فائدہ میں ہے ۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ نکات جناب مالک اشترجیسی عظیم شخصیت کومخاطب کرتے ہوۓ بیان کۓ گۓ ہیں آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان میں تند وتلخ باتیں بھی ہيں۔ حضرت علی علیہ السلام بہت تلخ نصیحت فرما رہے ہیں۔ اگر کوئي ہمیں اس طرح نصیحت کرے تو ہمیں برا لگ جاۓ گا۔ مالک اشتر وہ شخصیت ہیں جس کے بارے میں حضرت ایک دوسرے پیغام میں فرماتے ہيں فانہ ممن لایخاف وہنہ وہ ایسا شخص ہے جس کے بارے میں سستی ولاپرواہی کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا ولا سقطتہ ان کےبارے میں کاموں کے تئیں کوتاہی کرنے کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ولا بطئہ عما الاسراع الی ماالبطء عنہ مثل جن کاموں میں دیرکی جاسکتی ہے ان میں بھی ان کی جلدی کسی کو شک میں نہيں ڈالتی، یعنی ایسے انسان ہیں کہ اپنی طرف سے بھی ہوشیار ہیں اورحکیم و دانابھی ہیں؛ یعنی جہاں جلدی نہیں کرنی چاہے وہاں جلدبازی نہیں کرتے اورجہاں سرعت سے کام لینا چاہۓ وہاں سستی نہیں دکھاتے۔ حضرت صفین میں اپنے لشکر کے دوکمانڈروں میں سے ایک جناب مالک اشتر کا یوں تعارف کراتےہیں۔
حضرت کے خط سے میں نے چند جملے منتخب کئے ہیں؛ ایک جملہ یہ ہے کہ حضرت فرماتے ہیں ولاتقولن انی مؤمر آمرفاطاع ایسا نہ ہو کہ تم کہوکہ چونکہ اس کام میں مجھےذمہ داری سونپی گئی ہے ، لہذا میں حکم دوں گا اور دوسروں کو اس کی پیروی کرنے چاہۓ۔ لاتقولن یعنی تاکید کے ساتھ فرماتے ہيں کہ ایسا ہرگز نہ سوچنا اور ایسی بات ہرگز نہ کرنا۔ یہ جذبہ کہ چونکہ میں یہاں سربراہ ہوں تو جب بات کروں تو دوسرے بے چوں چرا میری بات سنیں تمھارے دل کو فاسد کردے گا ۔ ومنھکۃ للدین منھکہ یعنی دین، دینداری، اور ایمان کی روح کو کمزور کردینے والا۔ و تقرب من الغیر یہ حالت؛ ناخواستہ تبدیلیاں پیداکرتی ہے، غرور و تکبر میں مبتلا کرتی ہے۔ یہ تصور کرنا کہ جس عہدے اور منصب پر میں ہوں کسی اور کو میری بات کے خلاف بات کرنے کا حق نہیں ہے، وہ چيزیں ہیں جو تبدیلیوں کو قریب کردیتی ہیں؛ ایسی تبدیلیوں کو جنم دیتی ہیں جو انسان کیلۓ ناپسندیدہ ہیں؛ زمانہ کی وہ تبدیلیاں جو انسان کی منشا کے خلاف ہیں، یعنی انسان سے ملک، اقتدار، طاقت و توانائي اور خدمت کے مواقع چھین لیتی ہیں۔
ایک دوسرے جملہ میں فرماتےہیں کہ انصف اللہ وانصف الناس من نفسک ومن خاصۃ اھلک ومن لک فیہ ھومن رعیتک عربی میں انصف الناس من نفسک کے معنی یہ ہیں کہ اپنی ذات سے لوگوں کیلۓ انصاف طلب کرو، لوگوں کے مدمقابل اپنے خلاف فیصلہ سناؤ ؛ دوسرے کے حق میں اپنے اپنے نفس سے بازپرس کرو۔ حضرت اس مقام پر فرماتے ہيں کہ انصف اللہ من نفسک اپنی ذات سے خدا کا حق حاصل کرو۔ اس جملہ کا معنی یہ ہےکہ اللہ کے تئيں اپنی ذات میں احساس ذمہ داری پیدا کرو اور الہی فرائض کے سلسلےمیں اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرو، ایسا نہ ہوکہ یہ سمجھنے لگو کہ تم نے اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو بخوبی انجام دے دیا ہے۔ نہیں، ہمیشہ خود کو احسانمند اور اپنے عمل کو ناچیز سمجھو، یہ خدا کے سلسلے میں ہے۔ اور پھر انصف الناس من نفسک اپنی ذات سے عوام کو انصاف دو؛ یعنی اپنے فیصلوں میں ہمیشہ عوام کو حاکم اور برحق سمجھواور خود کو ان کا مقروض تصورکرو۔ البتہ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ جن مواقع پر تم پر ظلم ہورہا ہو اور تمھارا حق مارا جا رہا ہو، وہا ں بھی تم کہو کہ میں حق پر نہیں ہوں؛نہیں ہرگز نہيں۔ عوام کے بھی اپنے مطالبات ہيں، انھیں بھی اپنی بات کہنے کا حق ہے، انہیں بھی آواز اٹھانے کا حق ہے، وہ بعض اوقات چیخ پکا رکرتےہیں؛ فرض کیجۓ کہ کچھ لوگ کسی ادارے میں یا دفتر میں جاتے ہیں اور کوئی بات کہتے ہيں تو پہلے ہی یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ انھیں کسی نے مجھ بے گناہ کے خلاف ہنگامہ کرنے اور شور وغل مچانےکیلۓ ورغلایا ہے اورمشتعل کیا ہے۔ نہیں۔ پہلے یہ سمجھنا چاہۓ کہ یہ اگر حق کا مطالبہ کررہے ہيں تو ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان کی بات سنیں اور دیکھیں کہ کیا کہہ رہے ہيں ۔
بنا برايں اپنی ذات سے عوام کے ساتھ بھی انصاف کرو، اور من خاصۃ اھلک یعنی اپنے اہل وعیال سے بھی انصاف کرو۔ اپنے بچوں اپنے بھائيوں اور قوم و قبیلے والوں کے ساتھ بھی انصاف کرو۔ ومن لک فیہ ھومن رعیتک اگرعوام میں ایسا طبقہ اور گروہ بھی موجودہے جس کی تم سرپرستی کررہے ہو تو ان کابھی حق عوام سے دلاؤ اور ان کے ساتھ بھی کوئي نا انصافی نہ کرنے پاۓ۔ آپ جب ایک حکمراں ایک سرپرست اور ایک وزیر کی حیثیت سے کسی طبقہ کی حمایت کررہے ہیں تو اس طبقہ کے حقوق دلایۓ اور خیال رکھئے کہ کوئی اس کا حق مارنے نہ پائے ۔
اس فرمان میں ایک جملہ اور بھی بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ ولیکن احب الامورالیک اوسطہا فی الحق واعمھا فی العدل واجمعھا لرضی الرعیۃ ان کاموں کی فہرست بہت طویل ہے جنھیں انسان کو انجام دینا چاہۓ، جبکہ یہاں سب کا ذکر بھی نہیں کیا گیا ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ سب سے پسندیدہ کام جسے تمھیں انتخاب کرنا چاہۓ وہ یہ ہے کہ پہلے اوسطھا فی الحق یعنی متوسط ہو۔ وسط، یعنی افراط و تفریط کے درمیان میں؛ نہ اس میں افراط پایا جاتا ہو اور نہ ہی اس میں تفریط پائی جاتی ہو ۔ حق بھی بالکل یہی ہے؛ حق افراط و تفریط کے درمیان کی چیز ہے۔ اوسطھا فی الحق یعنی اس میں حق کا پوری طرح خیال رکھا جاۓ، یعنی پوری طرح افراط وتفریط کے وسط میں ہو۔ ثانیا واعمھا فی العدل ہو؛ وہ عدل وانصاف جوانجام پا رہا ہے عام ہو، عوام کا وسیع طبقہ اس سے فائدہ اٹھا رہا ہو۔ کبھی ممکن ہے کام عادلانہ اور منصفانہ ہولیکن وہ لوگ جوانصاف سے فائدہ اٹھا رہے ہيں ان کی تعداد محدود ہو ۔ ممکن ہے ظلم نہ ہو رہا ہو بلکہ انصاف و ایمانداری سے کام لیا جارہا ہو لیکن اس کا دائرہ کار محدود ہو ۔ کبھی کبھی انسان بڑے پیمانے پرکوئي کام کرتا ہے اور اس سے ایک بڑی تعداد فائدہ اٹھاتی ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ یہی کا م تمھارے لیۓ زیادہ پسندیدہ ہونا چاہۓ۔ زیادہ محبوب ہونے کامطلب یہ ہے کہ اگر تمھیں اس اور کسی دوسرے کام میں ایک کا انتخاب کرنا ہو تو تم اسے منتخب کرو۔ یعنی اس ترجیح کو ملحوظ رکھو۔ تو یہ ترجیحات کا ایک معیار ہے۔
واجمعھا لرضی الرعیۃ یعنی جس کام کا انتخاب کررہے ہو اس سے عوام راضی بھی ہوں۔ رعیت کا اطلاق عوام پر ہوتا ہو؛ رعایا یعنی وہ افراد جن کا پاس ولحاظ لازم وضروری ہے۔ رعایا کوئی بری چیز نہیں ہے۔ بعض لوگ سمجھتےہیں کہ رعایا گالی ہے؛ رعایا یعنی جس کا پاس و لحاظ اور خیال رکھنا ضروری ہے؛ یعنی عام افراد اور عوام کا طبقہ۔ ناس اور رعیت اکثرعوام کے بڑے طبقہ کوکہا جاتا ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام پیغمبر اسلام (ص) اور قرآن نے اسی عوامی طبقہ کومدنظر قراردیا ہے؛ یہی جنھیں ہم اور آپ عام افراد کہتےہیں ، یعنی رعایا عوامی طبقہ اور عوامی اکثریت۔
اس کے بعد حضرت نہایت عجیب وغریب اوردلچسپ بات کہتے ہیں کہ کام کا معیار، میزان اورکسوٹی عام افراد کی رضا وخوشنودی ہے۔ کیوں؟ اس لۓ کہ اگر عوام ناخوش ہوں گے توخاص گروہ یا جماعت کی خوشی بے معنی ہوگی۔ ہوسکتا ہے کہ روشن فکر افراد اور سیاسی ماہرین کا طبقہ کسی حکومت یا حکمراں کا حامی ہو لیکن عوام ناخوش ہوں تو اس مخصوص گروہ کی خوشی اور رضامندی معیار نہیں بن سکتی۔ اس کے برعکس بھی صادق آتا ہے۔ وان سخط الخاصۃ یغتفرمع رضی العامہ لیکن اگر عوام راضي اور مطمئن ہوں تو خاص گروہ کی ناراضگی قابل معافی ہے؛ یعنی اس کی بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے اور بہت زیادہ موثر نہيں ہے؛ بنابرايں عوام کوخوش اور مطمئن رکھۓ۔ حضرت کی نظر حکیمانہ نظر ہے۔ ہم نے بھی دشمن کی حکومت کے دور میں اس کا تجربہ کیا ہے اسے محسوس کیا ہےولیس احد من الرعیۃ اثقل علی الوالی مؤنۃ فی الرخاء،واقل معونۃ لہ فی البلاء واکراہ للانصاف واسال بالالحاف، واقل شکوا عند الاعطاء وابطا عذرا عندالمنع، واضعف صبرا عند ملمات الدھر من اھل الخاصہخاص طبقہ ہرجگہ باعث زحمت ہوتا ہے؛ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آرام وآسائش اور نعمتوں کی فراوانی کے وقت اس طبقے کےافراد حاکم کے سب سے بڑے حامی ہوتے ہيں اور ان کی توقعات زيادہ رہتی ہیں۔ فلاں چیز ہمیں دیجۓ؛ فلاں مراعات ہمیں دیجۓ۔ ملک میں جب امن و امان ہوتا ہے آرام وسکون ہوتا ہے جب کوئي جنگ نہیں ہوتی جب کوئی مشکل نہیں ہوتی تو حکومت پر سب سے زيادہ اخراجات اور مالی بوجھ عموما اسی خاص گروہ کا ہوتا ہے۔ ہم اپنی کمزوری کی بنا پر کہہ رہے ہيں لیکن حضرت اس بنا پر نہیں فرما رہے ہيں بلکہ ایک کلیہ بیان فرما رہے ہیں؛واقل معونہ فی ابلاءمشکلات میں یہ لوگ بہت کم کام آتے ہيں اور بہت کم مدد کرتے ہيں۔ مثلا اگر جنگ ہوجاۓ یا بدامنی پیدا ہوجاۓ، کوئي دشمن حملہ کردے تو خاص لوگوں کا گروہ کہیں نظر نہیں آۓ گا؛ یہ افراد ميدان میں کم ہی رہتے ہيں۔ اس طبقے کے لئے انصاف اور مساوات بہت نا پسندیدہ شئ ہے، عدل وانصاف مساوات و برابری سب سے زیادہ اسے بری لگتی ہےواسئل بالاحاف یہ لوگ اپنے مطالبات پر زيادہ اصرار کرتے ہيں، البتہ عام افراد بھی خطوط لکھتے ہیں اورکچھ درخواست کرتےہيں اگرامکان ہوتا ہے تو ان کی درخواست مان لی جاتی ہے اوراگر امکان نہیں ہوتا تونہیں مانی جاتی۔ ان کی طرف سے دوسری بار اورتیسری بار مطالبہ نہیں ہوتا۔ لیکن خاص لوگوں کا گروہ تو سیاسی واقتصادی طورپر خاص کھانے والوں کا گروہ ہے- اگر یہ کسی چیز کا مطالبہ کرتے ہيں تو چپک جاتےہيں۔ الحاف یعنی اصرار، چھوڑتے نہیں ہیں یہاں تک کہ کوئي چیز اکھاڑ کر لے جاتےہيں حاصل کرکے رہتےہيں۔ اقل شکراعند الاعطاءجب مطالبہ پورا ہو جاتا ہے تو شکریہ ادا کرنے میں وہ پیچھے رہتے ہیں گویا ان کا حق تھا اور انھیں ملنا ہی چاہۓ تھا؛ کوئي شکرادانہیں کرتے ۔ لیکن عام افراد اورعوام ایسے نہیں ہیں۔ اگر ملک کے کسی کونے میں آپ ایک چھوٹا سا اسکول بنا دیتے ہیں تو وہ دعا دیتے ہيں اظہار محبت کرتے ہيں شکریہ ادا کرتے ہیں۔ لیکن خاص لوگوں کو اگر بہترین اسباب ووسائل بھی آپ فراہم کردیں تب بھی وہ شکریہ ادا کرنے میں پیچھے رہیں گے وہ کبھی احسانمند نہیں ہوں گے۔
وابطاعذراعندالمنع اور اگر انہیں منع کر دیا گیا تو کوئی عذر ماننے کے لئے جلدی تیار نہیں ہوتے، واضعف صبرا عند ملمات الدھر جب زمانہ کی مشکلات پیش آتی ہیں تو ان کا صبر سب سے کم ہوتا ہے۔ اگر کوئي سماجی یا قدرتی مشکل اور مصیبت پیش آتی ہے توسب سے کم صبر اورسب سے زیادہ واویلا انہی کی جانب سے ہوتا ہے؛ یہ لوگ بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں ناراضگی ظاہر کرتے ہيں۔ وانما عماد الدین وجماع المسلمین والعدۃ للاعداء العامہ من الامہ دین کی اساس و بنیاد عوام ہیں یہ جملہ امیرالمومنین علیہ السلام کا ہے۔ والعدہ للاعداء دشمن کے مدمقابل یہی عام لوگ اور عوام ہی طاقت و توانائي شمار ہوتےہیں۔ فلیکن صغوک لھم ومیلک معھم پس تمھاری خاص توجہ اور رجحان عوام کی جانب ہونا چاہۓ۔ البتہ یہ جو فرمایا ہے اوسطہا فی الحق یہاں میں اس نکتہ کی بھی یاد دہانی کراتا چلوں کہ، آج کے دور کے سماجی اور اقتصادی مسائل کی پیچیدگيوں کے پیش نظر بیچ کا راستہ تلاش کرنا بہت مشکل اور نازک کام ہے۔ وزیر یا کسی ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے آپ کا کمال یہ ہے کہ آپ کام اس باریک بینی سے انجام دیں کہ اعم للعدل بھی ہو اشمل للرضا بھی ہو اور اوسط الی الحق بھی ہو اور انسان پرمسلط پیچیدہ اقتصادی اور سماجی تعلقات کے پیش نظرعصر حاضر کے حساب کتاب کے منافی بھی نہ ہو۔ اس باریکی کا ضرور خیال رکھۓ۔ البتہ حضرت کا خط بہت مفصل ہے؛ آپ لوگوں نے ضرور دیکھا ہوگا؛ برسوں سےہماری اور آپ کی زبانوں پر ہے اور ہم دہراتے رہتے ہيں۔
اس نامہ مبارک کا ایک اور جملہ یہ ہے کہثم انظرفی امورعمالک اپنے اہلکاروں اور ملازمین کے امور پر توجہ دواور نظر رکھو۔ سب سے پہلا مرحلہ کارکنوں کا انتخاب ہے؛فاستعملھم اختباراانھیں پرکھو اور ان کا امتحان لو پھر انتخاب کرو؛ یعنی دیکھو کہ کون زيادہ مناسب اور با صلاحیت ہے۔ یعنی اہلیت کی بنیاد پر افراد کا انتخاب ہو۔ آج کل ہماری زبانوں پرہمیشہ یہ جملہ رہتا ہے لیکن اس پر حقیقی طورپرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام بھی اس پرتاکید کرتے ہيں۔ولا تولھم محاباہ واثرہ کسی کو دوستی وتعلقات کی بنا پر منتخب نہ کرو، معیارات کاخیال رکھے بغیر، صرف اس بنیاد پر کسی کا انتخاب نہ کروکہ وہ ہمارا دوست ہے- نہيں ایسا نہیں ہونا چاہۓ کہ کسی معیار کا لحاظ رکھے بغیر اور صاحبان فکر ونظرسے صلاح ومشورہ کۓ بغیر انسان اپنی پسند اوراختیارات کی بنیاد پر کہے کہ اس شخص کو عہدہ ملنا چاہئے۔
اس کےبعد اس فرد کی خصوصیات بیان فرماتے ہيں: کہ تجربہ کار ہو، شرم وحیا کاحامل ہو وغیرہ وغیرہ۔۔۔اس کےبعد فرماتے ہيں کہ ثم اسبغ علیھم الارزاق جب تم اپنے اہلکارکا انتخاب کرلو تو پھر اس کی زندگی کے اخراجات پورا کرنے میں کوئي کمی نہ کرو۔ میں اعلی عہدہ داروں سے ہمیشہ کہتا رہتا ہوں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اس وقت بھی ڈاکٹر احمدی نژاد صاحب اورآپ سے کہہ رہا ہوں کہ اپنے اہلکاروں اور اپنے منصوب کردہ افراد کا ہمیشہ خیال رکھۓ؛ ہمیشہ انھیں دیکھتے رہۓ اور کبھی بھی ان کی جانب سے غفلت نہ برتئے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ نگہبان ومحافظ رات کوبار بار لائٹیں ادھر ادھر گھمایا کرتے ہيں اورکونے کونے پر نظر رکھتے ہیں؛ آپ کو بھی چاہۓ کہ ہمیشہ امور پر نظررکھۓ اور دیکھتے رہۓ۔ بنا بریں اپنے اہلکاروں سے غفلت نہ برتۓ۔ ثم تفقد اعمالھم یعنی ان کے کاموں کا جائزہ لیتے رہۓ، دیکھۓ کہ کام کر رہے ہیں یا نہيں، کام کو صحیح طریقے سے انجام دے رہے ہیں یا نہیں؛ وہ اپنے کاموں ميں کوئي خلاف ورزی تو نہیں کررہے ہیں۔ ابعث العیون من اھل الصدق والوفاءعلیھم جولوگ تمھاری آنکھ اور کان کا درجہ رکھتے ہیں ان کوان کے کاموں کی نگرانی پر لگا دو۔ اس کی وجہ سے وہ اپنی امانتداری کا خیال رکھیں گے۔
پھرارشاد فرماتےہیں کہ فان احد منھم بسط یدہ الی خیانۃ اجتمعت بھا علیہ عندک اخبارعیونک اگر ثابت ہوگيا کہ کسی نے خيانت کی ہے تو ایسا نہیں ہونا چاہۓ کہ رپورٹ ملتے ہی اس کے خلاف کاروائي کردیجۓ، نہیں ؛ سب متفق ہوں؛ یعنی معلوم ہو؛ اور بار بار رپورٹ ملے اور اس کا خائن ہونا ثابت ہوجائے تب اکتفیت بذلک شاھدا فبسطت علیہ العقوبۃ فی بدنہ واخذتھ بما اصاب من عملہ اسے سزا دینی چاہۓ۔ البتہ سزائیں بھی کئي طرح کی ہوتی ہیں، اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، اس کے مختلف تقاضے ہوسکتے ہیں؛ جیسا مناسب ہو ویسا ہی اقدام ہونا چاہۓ۔ خط چونکہ مفصل ہے اس لۓ، ہم صرف اس کا اقتباس پیش کرسکتے ہیں میری نظرمیں جو ضروری ہے میں نے اسی حصے کا انتخاب کیا ہے۔ فرماتے ہيں وایا ک والاعجاب بنفسک والثقۃ بما یعجبک منھا خوش فہمی میں مبتلا ہونے سے بچو۔ اعجاب نفس یعنی انسان اپنے تعلق سے خوش فہمی میں مبتلا ہوجائے۔ حضرت ارشاد فرماتے ہيں ہوشیار رہو اس جال میں نہ پھنسنا۔ انسان کبھی کبھی اپنے کودوسروں سے نمایاں سمجھنے لگتا ہےاوروہ یہ تصور کرنے لگتا ہے کہ وہ دوسروں سے زیادہ عقلمند ہے اس کی جسمانی طاقت زیادہ ہے، اس کی ذہنی طاقت و صلاحیت اچھی ہے، اس کی معلومات زیادہ ہے، اس کا اندازبیان منفرد ہے، اس کی آوازاچھی ہے، وہ حسین و خوبصورت ہے۔ جیسے ہی کسی کے اندر یہ خیالات پیدا ہونے لگیں اسے جان لینا چاہئے کہ یہ خطرہ آ پہنچا ہے؛ یہ وہی چیز ہے جس کیلۓ ارشاد ہوا ہے کہ اپنے کو بچائیے۔ ممکن ہے آپ کہیں کہ ہمارے اندریہ خوبیاں موجود ہیں اب میں کیا کروں ؟ آخر اتنے افراد کے درمیان میں نے فلاں سبجیکٹ میں نمایاں پوزیشن حاصل کی ہے یا کسی اہم کام میں میں نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے؛ اب کیا کروں؟ ان امتیازات اور خوبیوں کو نظر انداز کر دوں؟ جی نہیں نظر انداز نہ کیجئے لیکن اس کے ساتھ ہی اپنے اندر موجود بہت سے منفی پہلؤں، عیوب اور نقائص کوبھی تو دیکھۓ۔ جو چیز انسان کو اپنا شیفتہ بناتی ہے وہ اس کی مجموعی حیثيت ہے۔ ہم اپنے اچھے صفات کو تو دیکھتے ہيں لیکن برے، خراب اور قابل نفرت پہلو ہمیں نظر نہیں آتے؛ لہذا ہم اپنی ذات کے شیفتہ ہو جاتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ برائیوں اورنقائص کوبھی پیش نظر رکھیں۔ وایاک والاعجاب بنفسک والثقۃ بما یعجبک منھا وہ چیز جو تمھارے اندرہے اور تمھيں اپنا شیفتہ بناتی ہے اس پر بھروسہ نہ کرو؛یعنی ہرگز یقین نہ کروکہ تمھارے اندر یہ خوبیاں موجود ہیں۔ کبھی انسان سمجھتا ہے کہ اس کے اندرنمایاں خوبیاں موجود ہیں؛ جبکہ یہ وہم وخیال ہوتا ہے؛ چونکہ اس نے اپنا موازنہ ایک نچلی سطح کے آدمی سے کیا ہے اور خود کواچھےنمبر دیۓ ہيں؛ جبکہ اگردوسرے افراد سے موازنہ کرتا توہرگزاچھے نمبر حاصل نہ کرتا۔ بنابرايں اس پر بہت اطمینان اور بھروسہ نہ کروجو اپنے اندر بظاہر دیکھ رہے ہو۔
وحب الاطراء اس خواہش سے بچو کہ لوگ تمہاری تعریف کریں۔ فان ذالک من اوثق فرص الشیطان فی نفسہ لیمحق مایکون من احسان المحسنین انسان کے اندر اس بات کی خواہش کہ لوگ اس سے محبت کریں اس کی تعریف کریں، شیطان کیلۓ انسان کے نیک اعمال کو مٹی میں ملا دینے کا بڑا اچھا موقع فراہم کر دیتی ہے۔ یعنی آپ کے اندر سےمعنوی وروحانی خوبیوں اور نیکیوں کو سلب کرلیتی ہے۔ اس کے بعد پھر ایک نہایت اہم فقرہ ہے، ارشاد ہوتا ہے وایاک والمن علی رعیتک باحسانک عوام پر احسان نہ جتاؤ اور یہ نہ کہو کہ میں نے آپ کے لئے یہ کیا، وہ کیا۔ آّ پ نے جو کیا ہے وہ آپ کی ذمہ داری تھی۔ اگرآپ نےانجام دیا ہے تو آپ نے اپنا فرض ادا کیا ہے، احسان جتانے کا کیا سوال ہے۔ والتزید فیما کان من فعلیکجوکام انجام دیۓ ہیں ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے بچو۔ کبھی انسان ایک کام انجام دیتا ہے اور پھر اس کی تعریف میں حقیقت سے کئی گنا زیادہ مبالغہ سے کام لیتا ہے۔وان تعدھم فتتبع موعدک بخلفک عوام سے وعدہ خلافی بھی نہ کیجۓ۔ عوام سے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا کیجۓ۔ وعدہ خلافی نہ کیجئے۔ یہ نہ کہئے کہ نہیں ہوسکا کیا کریں؟ نہیں؛ کوشش کیجۓ۔ البتہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ ہنگامی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے، وہ الگ بات ہے۔ لیکن جہاں تک ہوسکے آپ کوشش کیجئے کہ عوام سے کۓہوۓ وعدے کو پورے ہوں۔ عمل کیجۓ اورعوام پر احسان بھی نہ جتایۓ۔ فان المن یبطل الاحسان والتزید یذھب بنورالحق احسان جتانا نیکی کو ضائع کردیتاہے اور مبالغہ آرائی نورحق کوختم کردیتی ہے۔ والخلف یوجب المقت عنداللہ والناس وعدہ خلافی اس بات کاموجب ہوتی ہے کہ انسان عوام کی نگاہ سےبھی گرجاتا ہے اور اللہ تعالی کے نزدیک مبغوض قرار پاتا ہے۔ وایاک والعجلۃ بالامور فبل اوانھا اپنے کاموں میں عجلت پسندی سے بچو، یعنی جلد بازي سےکام نہ لیجۓ۔ امیرالمومنین ایک دوسرےخطبے میں، جلد بازی اور وقت سے پہلے کام انجام دینے کو پھل پکنے سے پہلے اسے توڑلینے سے تشبیہ دیتے ہيں، ارشاد فرماتے ہيں کہ جو پھل کو پکنے سے پہلے توڑ لیتا ہے وہ ایسے شخص کی مانند ہے جس نے کسی دوسرے کیلۓ کاشت کی ہو؛ یعنی اسے خود کوئي فائدہ نہيں پہنچتا۔ آپ اگرکسی دوسرے کی زمین میں بیج ڈالیں گے تو اس کا فائدہ اسی کو ہوگا؛ آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر آپ اپنی زمین میں بیج ڈالیں اور اپنی زمین میں پودا لگائیں اور زحمت ومشقت کےبعد اس میں پھل بھی لگ جائيں لیکن آپ اسے پکنے سے پہلے توڑلیں تو درحقیقت آپ نے اپنی تمام زحمتیں برباد کر دیں۔ جلد بازی اور قبل ازوقت کام انجام دینے کو حضرت اس پیراۓ میں بیان فرماتے ہيں۔ اوالتسقط فیھا عند امکانھا تسقط بھی نہ کرو۔ تسقط یعنی کاہلی وکوتاہی کرنا اور کام کو ٹالنا اورملتوی کرنا۔ پس جلدبازی اور ٹال مٹول دونوں ممنوع ہیں۔ اواللجاجہ فیھا اذا تنکرت جب یہ معلوم ہوجاۓ کہ کام غلط ہے تواس پر اصرار مت کرو؛ مثلا ہم نے کوئی نظریہ پیش کیا، اس کے صحیح ہونے پر دلیل بھی پیش کی اورزحمت کرکے اسےانجام بھی دیا لیکن کچہ لوگوں نے اس کی مخالفت کی۔ ہم نے مخالفت کے باوجود اسے انجام دیا؛ لیکن اب ایسے مرحلے میں پہنچ گئے کہ ہم پر بھی واضح ہوگيا کہ یہ کام غلط ہے، یہاں آپ اپنی بات واپس لے لیں ؛ کوئی مسئلہ نہيں ہے۔ ھٹ دھرمی اور ضدسے کام نہ لیں؛ اذا تنکرت جب اس کا منکر ہونا غلط ہونا واضح ہوگیا۔ اولوھن عنھا اذا استوضحت جب یہ معلوم ہوجاۓ کہ اس کام کا انجام پانا لازم وضروری ہے ،توانسان کوکوتاہی نہیں کرنی چاہۓ۔
میں آپ بہن بھائيوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ، یہ جو کہا جاتا ہے کہ ماہ رمضان، مہمانی و ضیافت الہی کا مہینہ ہے اس ماہ میں اللہ تعالی کا دسترخوان بچھا ہواہے، تواس دسترخوان پر کیا چيزیں ہیں؟ اس دسترخوان پر موجود جن چیزوں سے ہمیں اور آپ کو استفادہ کرنا ہے؟ اس میں ایک روزہ ہے ، ایک قرآن ہے، اس مہینہ میں قرآن کی تلاوت کی فضیلت دوسرے دنوں سے زیادہ ہے۔ ہم سے کہا گیا ہے کہ تلاوت قرآن کرو- ایک چیز یہی دعائيں ہیں جنہیں ہم پڑھتے ہيں؛ یاعلی یا عظيم دعاء افتتاح، دعاء ابوحمزہ ثمالی، یہ وہ نعمتیں ہیں جو اس دسترخوان پر سجا‏ئی گئی ہیں۔ بعض لوگ اس قدر غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور دوسری طرف متوجہ ہیں کہ اس دسترخوان کو دیکھتے ہی نہيں۔ ایسے لوگ موجود ہيں جو ماہ رمضان کے دسترخوان کودیکھتےہی نہيں؛ انہیں یاد ہی نہیں کہ ماہ رمضان کب آیا اور کب رخصت ہوگیا۔ بعض افراد دسترخوان الہی کو دیکھتے تو ہیں لیکن اپنے کاموں میں اتنے مصروف ہیں کہ اس دسترخوان سے استفادہ کرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں؛ ان کے مشغلے کچھ اور ہیں؛ انھیں دوسرے کام ہیں- اپنی دکان دیکھنا ہے، کام ہے، دنیا کے چکر میں پڑ‌ے ہيں، شہوانیت میں مبتلا ہيں- ان کے پاس اس دسترخوان پر بیٹھنے اور اس سے استفادہ کرنے کا وقت ہی نہيں ہے۔ بعض افراد ایسے ہیں جو دسترخوان پر بیٹھتے ہیں اس کی قدر ومنزلت بھی جانتے ہیں؛ لیکن بہت قناعت پسند ہیں؛ کم پرقناعت کرلیتے ہيں؛ ایک لقمہ اٹھاتے ہیں اور روانہ ہوجاتے ہيں؛ دسترخوان پراس طرح نہیں بیٹھتے کہ شکم سیر ہوکر اٹھیں، خود کو دسترخوان کی نمعتوں سے بہرہ مند نہيں کرتے۔ ایک چھوٹا سا لقمہ اٹھاتے ہيں اور چلے جاتے ہيں۔ بعض لوگ عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتےہیں؛ انھیں اشتہا نہيں ہوتی، کیونکہ انھوں دوسری غذاؤں کی ایسی عادت ہو گئی ہے کہ انھیں انواع واقسام کی مقوی غذائیں اچھی ہی نہیں لگتیں۔ بعض افراد ایسے ہیں کہ ان کی اشتہا کا یہ عالم ہے کہ سیر ہی نہيں ہوتے کیونکہ دسترخوان معنوی اور روحانی ہے اس دسترخوان پر بیٹھے رہنا فضیلت ہے؛ اس سے روح کو غذا حاصل ہوتی ہے، انسان اس دسترخوان سے جتنا زیادہ فائدہ اٹھاۓ گا اس کی روح کواتنا ہی عروج حاصل ہوگا اور وہ مقصد خلقت سے اتنی ہی زيادہ نزدیک ہوگی۔ یہ مادی دسترخوان سے مختلف ہے مادی دسترخوان جسمانی ضرورتوں کو پوراکرتا ہے، اس دسترخوان پر زیادہ کھانا نقصان دہ ہے۔ جبکہ معنویت اور روح کا دسترخوان ایسا نہیں ہے؛ چونکہ ہماری تخلیق ہی معنوی ترقی اور عروج روح کیلۓ ہوئی ہے۔ بنابرایں جتنا ہو سکے ہمیں استفادہ کرنا چاہۓ، ضرور استفادہ کرناچاہۓ۔ اللہ کے جن مومن اورمخلص بندوں کے ہم نے نام سنے ہیں جب ان کے واقعات اور ان کے کاموں کوبیان کیا جاتا ہے تو وہ ہمیں اچھی طرح سمجھ میں نہیں آتے؛ یہ واقعا حیرت انگیز ہوتے ہیں۔ اذان صبح سے دوتین گھنٹے پہلے بیدار ہو جانا اور ماہ رمضان کی راتوں میں آنسو بہانا۔ آقا میرزا جواد ملکی مرحوم جب بیدار ہوتے تھے اور وضو کیلۓ حوض کے کنارے بیٹھتے تو پانی کودیکھتے تھے دعاء پڑھتے تھے اور رونے لگتے تھے؛ پانی اٹھاتے اپنے چہرے پر ڈالتے اور رونا شروع کردیتے تھے، آسمان کی جانب دیکھتے، دعا پڑھتے اورسیل اشک جاری ہوجاتا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ باتیں ہمارے لۓ پوری طرح واضح اور قابل درک نہيں ہیں لیکن ان سے ہمیں واضح وروشن راستہ ضرورمل جاتا ہے۔ ہمیں چاہۓ کہ ہم ان سےزيادہ سے زیادہ استفادہ کریں۔
دوستوں کوہمیشہ بالخصوص ماہ رمضان میں تلاوت قرآن فراموش نہيں کرنی چاہۓ۔ قرآن آپ کی زندگی میں موجود رہنا چاہۓ۔ تلاوت قرآن ضرورکرتے رہۓ، جتنا ممکن ہو تلاوت قرآن کیجۓ۔ تلاوت قرآن غوروفکر اور تدبر و تفکرمیں موثر واقع ہوتی ہے۔ جلد بازی میں تلاوت قرآن اور مفہوم و معنی کو سمجھے بغیر قرآن کی تلاوت پسندیدہ تلاوت نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، یہ بھی غنیمت ہے کہ انسان متوجہ رہے کہ یہ کلام خدا ہے، خود اس سے بھی اللہ تعالی سے ایک رشتہ اور رابطہ قائم ہوتا ہے۔ کسی کواس طرح قرآن پڑھنے سے روکنا نہیں چاہۓ لیکن یہ تلاوت کا مطلوبہ، پسندیدہ اور اچھا انداز نہیں ہے۔ ایسی تلاوت مطلوب وپسندیدہ ہے جو انسان غور سے اور تدبر وتفکر کے ساتھ کرے اور کلمات الہی کوسمجھے کیونکہ میری نظرمیں ان کلمات کو سمجھا جاسکتاہے۔ کچھ افراد عربی سمجتھے ہیں لیکن جونہیں سمجھتے وہ ترجمہ دیکھیں اور اسی پرغورکرے، ایک بار دوبار تین بار پانچ پڑھنے سے آیت کے تئیں ان کا ذہن کھل جاۓ گا اور آیت کا مفہوم انکی سمجھ میں آنے لگے گا یہ چیز دوسرے کسی بیان سے حاصل نہیں ہوتی؛ اکثر غور و فکر سے حاصل ہوتی ہے؛ اس کا آپ تجربہ کرسکتے ہيں۔ لہذا پہلی مرتبہ جب ایک دوسرے سے مربوط مثلا دس آیتیں پڑھیں گےتو کچھ باتیں سمجھ میں آئیں گی اور انسان کچھ چیزیں محسوس کرےگا۔ اسی طرح جب دوسری بار پانچویں بار دسويں بار اسی آیت کو توجہ سے پڑھے گا تومزید باتیں واضح ہوں گی، انسان کا ذہن کھلے گا۔ انسان جتنا زيادہ غورکرے گا اور مانوس ہوگا اتنا ہی زيادہ سمجھے گا۔ ہمیں اس چیز کی اشد ضرورت ہے۔ میرے عزیزو! ہم نے دیکھا ہے کہ جن لوگوں کے پاۓ ثبات میں لغزش ہوئي ہے اکثر اس کی وجہ اسلامی تعلیمات میں سے عدم واقفیت رہی ہے۔ وہ نعرے لگاتے تھے، جذباتی تھے، دین ان کی زبانوں پر تھا لیکن ان کے دل کی گہرائیوں میں نہيں اترا تھا لہذا ہم نے ایسے لوگوں کوبھی دیکھا ہے جوپہلے تو بہت جوشیلے اور جذباتی تھے لیکن بعد میں وہ پوری طرح بدل گۓ۔ میں خصوصیات سے انسانوں کو پہجانتا ہوں، انقلاب کے ابتدائي برسوں میں ایسے لوگ موجود تھے جو شہید بہشتی جیسی شخصیت کے انقلابی ہونے کے منکر تھے۔ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد ان کی حالت یہ ہوگئی کہ انھوں نے انقلاب و نظام کی بنیادوں کا ہی انکار کردیا۔ ان میں سے بعض افراد واضح طورپر اور بعض اشارے کنایہ میں انکارکرنے لگے۔ ان میں سب سے زيادہ ناانصاف وہ لوگ ہیں جو ایک وفاداری کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن ان کا باطن کچھ اور ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر گہرائي و گیرائی نہيں ہے۔ البتہ اس کا ایک سبب ہے، اس کا سبب شہوت، دنیا پرستی اوراس جیسی چیزیں ہيں۔ یہ ان لوگوں کو بھی منحرف کردیتی ہیں جو گہرائي وگیرا‏ئی کے حامل ہیں۔ اکثر افراد ایسے تھے جن کے اندر عمق فکری نہیں تھا یعنی ان میں گہرائی نہیں تھی۔ انسان کے عقائد، اس کی فکری بنیادوں اور روح و ایمان میں گہرائی وگیرائی پیدا کرنے کا ایک راستہ قرآن سے انس ہے۔ بنا برایں زندگی میں قرآن پر غور وفکر اور تدبر کرنا چاہۓ اور اسے زندگی سے الگ نہيں ہونے دیناچاہۓ۔
دوسرے ماثور دعائیں ہيں۔ معتبر دعاؤں میں معرفتوں کے خزانے موجود ہيں جو انسان کوان دعاؤں کے سوا کہیں اور نہیں ملیں گے، ان دعاؤں میں صحیفہ سجادیہ کی دعائيں ہیں۔ اسلام کے معرفتی کے ذخائرمیں ایسی چيزیں موجود ہيں جو صحیفہ سجادیہ یا ا‏ئمہ علیھم السلام سے منقول دعاؤں کے سوا کہیں اور ہرگزنہیں مليں گی۔ یہ عرفانی تعلیمات، دعا کی زبان میں بیان کی گئ ہيں۔ دعاؤں کے پیراۓ میں ان معارف کوبیان کرنے کا مقصد انھیں چھپانا نہیں ہے۔ بلکہ ان معارف کا مزاج یہی تھا کہ انھیں دعا کی زبان میں بیان کیاجاۓ انھیں دوسری زبان یا پیراۓ میں بیا ن ہی نہیں کیا جاسکتا۔ بعض مفاہیم پرورگار عالم سےدعا وتضرع ومناجات کے علاوہ کسی اور پیراۓ میں بیان کۓ جانے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں روایات حتی نہج البلاغہ تک میں اس قسم کے معارف کم نظر آتے ہيں۔ لیکن صحیفہ سجادیہ ، دعاء کمیل، مناجات شعبانیہ، دعاء عرفہ امام حسین علیہ السلام، دعاء عرفہ حضرت امام سجاد علیہ السلام ،اور دعاء ابو حمزہ ابو ثمالی اس قسم کے معارف سے لبریز ہیں۔ ہمیں دعاؤں سے غفلت نہيں برتنی چاہۓ؛ دعا‏ئيں پڑھتے رہا کیجۓ اور دعابھی کیجۓ۔ آپ کے کاندھوں پر سنگين ذمہ داریاں ہیں؛ آپ کے دشمن بھی بہت زيادہ ہیں؛ آپ کے مخالفین بھی بہت ہیں؛ اسلامی حکومتوں کے ساتھ ہمیشہ ایسی ہی دشمنی تھی ۔ اول انقلاب سے ہی ہماری حکومتوں کے ساتھ یہی ہواہے بالخصوص اس وقت جب وہ نوتشکیل یافتہ ہوتی ہیں - اور یہ حکومت چونکہ انقلابی بنیادوں پر استوار ہے اور انقلاب کے ساتھ اس کی وابستگي اور رابطے کے نعرے چونکہ واضح اور روشن ہیں اس لۓ اس کے مخالف اور زیادہ ہيں؛ اس کے بیرونی مخالف بھی ہیں اور داخلی مخالف بھی ہيں۔ حکومت کے خلاف ماحول تیار کیاجاتا ہے، پروپیگنڈہ کیاجاتا ہے، منفی تشہیر کی جاتی ہے، جھوٹی افواہ پھیلائی جاتی ہے، کبھی کبھی عملی طورپر امور میں خلل ڈالا جاتا ہے۔ ان مخالفتوں کا مقابلہ کرنے کیلۓ عزم و ارادے، ٹھوس اقدامات اور انتھک جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اللہ سے طلب نصرت اور دعا و مناجات کی ضرورت ہے۔ اگراللہ تعالی سے مدد طلب کریں، تو وہ ہمارے اندر جذبہ اور ہمت پیدا کرے گا۔ اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت یہ ہے کہ انسان ہمت نہ ہارے اور ڈٹا رہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے پاس طویل مسافت طے کرنے کی طاقت وقوت ہے اس کے قدم تو نہيں تھکے لیکن اس کی روح آگے بڑھنے سے بیزار ہوجاتی ہے اور تھک جاتی ہے۔ روح کی یہ تھکن انسان کواس کے اھداف تک نہيں پہنچنے دیتی۔ روح کی اس تھکن کو روکنےکیلۓ اللہ تعالی سے مدد طلب کرنی چاہۓ، اللہ پر توکل اور اس کی مدد کی امید ضروری و لازم ہے۔ اس توفیق سے خود کو محروم نہ ہونے دیں۔ ہم اور آپ اللہ تعالی کے نزدیک ان لوگوں سے زیادہ عزیز نہيں ہیں جو ہم سے پہلے تھے اور ہمارے بعد آ‏ئيں گے ؛ مگر یہ کہ ہمارا عمل اچھا ہو اور ہمارا تقوی ان سے زیادہ ہو؛ اس کی طرف متوجہ رہیں۔ اگر ہمارےاندر تقوی زيادہ ہوگا اگر ہم زیادہ ہوشیار رہیں، بہتر کام انجام دیں اور اپنے فرائض بخوبی ادا کریں، قانون پر اچھی طرح عمل کریں، اور ان مقاصد کے حصول کیلۓ زيادہ کوشش کریں تو اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عزیز و محترم ہوں گے اس کے بغیر ہرگزنہيں ۔ ہمیں اس سلسلے میں بھرپور کوشش کرنی چاہۓ، ہمیں ہوشیار رہنا چاہۓ کہ جس جال میں دوسرے پھنسے ہیں ہم اس میں نہ پھنسیں۔ جو بھی ان جالوں میں پھنسے گا اس کا بھی وہی انجام ہوگا لہذا ہمارے اور ان کے درمیان کوئي فرق نہيں ہے۔ پروردگارا جو ہم نے کہا اور سنا اسے قبول فرما، اسے سب سے پہلے ہمارے دلوں میں کہ ہم اس کے بیان کرنے والے ہیں اور اس کےبعد یہاں موجود سامعین کے دلوں میں اثر کرنے والا اور مفید قرار دے، ان ایام کو اور ان لمحوں کوقیامت میں ہمارے لۓباعث خیر وبرکت قرار دے، اسے قیامت میں ہمارے لۓ مايہ افسوس قرار نہ دے، اے اللہ حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کو ہم سے راضی و خوشنود فرما، حضرت امام خمینی کی روح مطہر کو ہم سے راضی رکھ ؛ اسلامی انقلاب کے گرانقدر شہدا کی ارواح مقدسہ کوہم سے اور ہمارے عمل سے راضی وخوشنود فرما۔
والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ