بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس دوستانہ اور پر محبت اجتماع میں تشریف فرما تمام بھائیوں اور بہنوں بالخصوص شہدا کے محترم بازماندگان کو خوش آمدید کہتا ہوں جو مختلف علاقوں اور شہروں سے یہاں آئے ہیں۔ یہاں تشریف فرما عراقی برادران کو بھی خوش آمدید کہتا ہوں جن کا تعلق عراق کی یونیورسٹیوں سے ہے۔
ماہ صفر کے آخری ایام اہل تشیع اور اسلام کے لئے بڑے یادگار ایام ہیں۔ رحلت پیغمبر اسلام کی تاریخ نزدیک ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی اللہ کے لئے، اسی کی راہ میں اور الہی تعلیمات کی ترویج میں گزر گئی. آپ کی بے مثال اور یکتائے روزگار شخصیت اسلام کے ہر دور کے لئے نمونہ عمل اور آئیڈیل ہے لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ آپ کی جد و جہد کے نتیجے میں اسلامی تعلیمات پوری تاریخ پر محیط ہو گئیں۔ یہ تعلیمات صرف مسلمانوں سے مختص نہیں ہیں بلکہ ان کے عام ہونے سے پوری بشریت کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اگر ہم مسلمانوں کو ان تعلیمات کی قدر و منزلت کا کما حقہ اندازہ ہو جائے تو ہم دنیا کو وہ شکل ادا کر سکتے ہیں جو انسان کی فطری اور حقیقی ضروریات سے پوری طرح ہم آہنگ ہو۔ امت مسلمہ، اسلام سے تمسک کے ذریعے شہوانیت، جاہلیت، خود غرضی اور خود پرستی میں غرق دنیا سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ تمام اسلامی تعلیمات کا محوری نکتہ اور روح یہ ہے کہ انسان کی رفتار و گفتار، غیظ و غضب اور شہوانیت سے مغلوب نہ ہو۔ انسانی معاشرے کی رہنمائی خود غرضی اور مفاد پرستی کی بنیاد پر نہ کی جائے بلکہ عقل و تقوی کی بنیاد پر کی جائے۔ آپ انسانی مصائب و آلام پر نظر ڈالئے، غربت، محرومیت، تفریق و امتیاز، بد عنوانیوں، جہالت اور تعصب کا موجب کیا ہے۔ قتل عام کے واقعات، جنگیں، مظلومیتیں، ظلم و ستم، بے رحمی، یہ سب کچھ معاشرے میں کہاں سے آ گیا ہے؟ ان سب کی جڑ یہ ہے کہ جو انسان اپنے نفس پر قابو نہیں رکھ سکے اور شہوانیت، خود غرضی، جاہ طلبی اور غیظ و غضب کے اسیر ہو گئے، دنیا کے کسی بھی گوشے میں اگر حکومت ان کے ہاتھ لگ گئي تو انہوں نے معاشرے کو غربت، جہالت، جنگ و جدل، تفریق و امتیاز اور فتنہ و فساد کی راہ پر لگایا ہے۔ اسلام اس کا علاج کرنا چاہتا ہے۔ اسلام کا کہنا ہے کہ انسانوں کا ارادہ و اختیار اور فیصلے کا حق، جو بڑی اہم نعمت کی حیثیت سے اسے اللہ تعالی کی جانب سے ملا ہے، جہالت و بد بختی اور خود غرضی و دنیا پرستی کی نذر نہیں ہونا چاہئے بلکہ عقل و تقوی کی حدود کے اندر رہنا چاہئے۔ ہم نے اس سال کو جوابدہی کا سال قرار دیا ہے۔ جوابدہی مغربی ممالک کا نظریہ نہیں بلکہ یہ اسلامی نظریہ ہے۔ بعض افراد اپنے ہر پسندیدہ خیال اور نظرئے کو مغربی افکار و تہذیب سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جوابدہی خالص اسلامی چیز ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انسان جس مقام اور عہدے پر بھی ہو خود سے جواب طلب کرے، دیکھے کہ اس کی رفتار و گفتار اور فیصلے کس چیز سے متاثر رہے ہیں۔ تقوا و عقل پر مبنی رہے ہیں یا خود غرضی اور شہوانیت سے متاثر رہے ہیں۔ اگر انسان اپنے ضمیر کو مطمئن کر لے گیا اور اس نے ضمیر کی آواز پر توجہ دی تو دوسروں کے سامنے جواب دینے میں اسے کوئی دقت پیش نہيں آئے گی۔ ان السمع والبصر و الفؤاد کل اولائک کان عنہ مسؤلا یہی آپ کی آنکھیں، جو دیکھ اور پہچان سکتی ہے۔ یہی کان جو حق بات سن کر آپ کے دماغ تک منتقل اور تمام اعضاء بدن کو اس سے متاثر کر سکتے ہیں، یہی دل جس میں احساسات و جذبات ہیں، جو فیصلے کر سکتا ہے، راستے کا انتخاب کر سکتا ہے، بسا اوقات انسان کی شخصیت کو قلب سے تعبیر کیا جاتا ہے، وسیلہ ہے جس کی مدد سے اللہ تعالی آپ کو تمام اعضا کے سامنے جوابدہ قرار دیتا ہے۔ ہم سب کو جواب دینا ہے کہ ہم نے آپنی آنکھوں سے کیا دیکھا؟ کیا ہم نے دیکھا بھی؟ کیا ہم نے غور کیا ؟ کیا ہم نے دیکھنا چاہا؟ کیا ہم نے سننا چاہا؟ کیا ہم نے فیصلہ اور عمل کرنا چاہا؟ یہ سب جواب دہی کی مختلف قسمیں ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے کہ کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ آپ سب جوابدہ ہیں۔ اگر کسی شخص کے قلم، زبان اور فیصلوں سے بہت سے افراد کی زندگي پر اثرات مرتب ہوتے ہیں تو اس کی جوابدہی بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ لہذا میں نے عرض کیا کہ ملک کے اعلی حکام ، مجریہ ، مقننہ، عدلیہ، خود رہبر انقلاب تمام عہدہ دار اور اہلکار جواب دیں۔ اپنے کام، اپنے فیصلے اور زبان پر آنے والی باتوں کے سلسلے میں جواب دیں۔ اس کو کہتے ہیں جوابدہی۔ یہ ایک اسلامی اصول ہے جس کی پابندی سب کے لئے ضروری ہے۔ جب انسان کچھ کہنا چاہتا ہے تو اگر اسے علم ہے کہ اس بات کے سلسلے میں وہ دوسروں کو جوابدہ ہے تو کسی اور انداز سے بات کرے گا لیکن اگر وہ خود کو مطلق العنان تصور کر رہا ہے اور خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں مانتا تو پھر بات کرنے کا اس کا انداز کچھ اور ہوگا۔ فیصلہ اور عمل کرتے وقت اگر انسان کو احساس ہو کہ اسے اس فیصلے اور عمل کے بارے میں جواب بھی دینا ہے تو اس کا فعل الگ انداز کا ہوگا لیکن اگر اسے احساس ہو کہ اس کی کوئي جوابدہی نہیں ہے، کوئی اس سے سوال کرنے والا نہیں ہے تو اس کا انداز کچھ الگ ہی ہوگا۔ عہدہ داروں کو فیصلہ کرتے وقت بہت زیادہ ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ذمہ داری اسی لئے محترم ہے اور لوگ ذمہ دار شخص کا احترام اسی لئے کرتے ہیں کیونکہ اس کے کام اور فیصلوں کے پس پشت جوابدہی کا ایک طویل سلسلہ ہے جسے اس نے قبول کیا ہے۔ اگر انسان نے خود کو واقعی ذمہ دار سمجھا تو لائق احترام ہے لیکن اگر وہ خود کو جوابدہ نہیں مانتا تو پھر بڑی مشکلات پیدا ہوں گی۔
آپ دنیا پر ایک نظر ڈالئے، آج عراق کی جو بدحالی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ایک مطلق العنان حکومت جو عالمی رای عامہ کو خاطر میں نہیں لاتی وہ دنیا کے ایک علاقے پر حکمفرما ہے اور اسے اپنی ذمہ داری اور جوابدہی کا کوئی احساس نہیں ہے وہ امریکہ کی حکومت ہے۔ آج عراق میں جو کچھ ہو رہا ہے بڑا بھیانک جرم اور وحشتناک اور حیرت انگیز تبدیلیاں ہیں۔ ایک باہری طاقت نے اپنے ناجائز سیاسی و اقتصادی مفادات کے لئے، صیہونی اور دیگر کمپنیوں کے مالکان کی جیب بھرنے کےلئے سازش کی ہے اور اس کے لئے ایک نام کا انتخاب بھی کر لیا ہے، دہشت گردی سے مقابلہ۔ آئے عراق میں گھس گئے اور قدیم تہذیب، درخشاں ماضی اور غیور قوم والے ملک عراق پر قبضہ کر لیا۔ قوم کو اپنے پنجے میں جکڑ لیا اور اس کی بار بار توہین اور تحقیر کر رہے ہیں۔ انہیں یہ توقع بھی ہے کہ یہ قوم ان کے خلاف قیام نہ کرے، اور جو حالات آج ہیں وہ رونما نہ ہوں۔ ہم نے تو ان حالات کے بارے میں پہلے ہی اندازہ کر لیا تھا اور چند ماہ قبل عالمی رای عامہ سے ہم کہہ بھی چکے ہیں کہ امریکی اپنے ایک ایک اقدام سے عراقیوں کو مسلحانہ ٹکراؤ پر مجبور کر رہے ہیں۔ اگر آج آپ غور کریں تو عراقی نوجوان، خواہ شیعہ ہو یا سنی، نجف سے تعلق رکھتا ہو یا فلوجہ و بغداد یا کسی اور علاقے سے۔ امریکیوں کو قہر آلود نظروں سے دیکھتا ہے۔ اگر اسے موقع ملے تو یقینی طور پر وار کرے گا۔ یہ صورت حال خود امریکیوں نے پیدا کی ہے۔ کسی اور کی غلطی نہیں ہے۔ بالکل دیوانوں کی طرح کبھی کسی پر تو کبھی کسی پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ بلا وجہ اور بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہیں کہ صاحب فلاں نے اکسایا، فلاں نے مداخلت کی۔ بالکل نہیں کسی نے نہیں اکسایا ہے۔ یہ ملت عراق کی ماہیت ہے جو سامنے آ رہی ہے۔ آپ نے آکر ایک قوم کا وطن ہڑپ لیا۔ اس کی گلیوں اور سڑکوں پر آپ کے فوجی دندناتے پھرنے لگے، عورتوں کی بے حرمتی کی گئی۔ نوجوانوں کو پکڑ کر زمین پر اوندھے منہ لٹا دیتے ہیں اور ان کے سروں پر آپ کے فوجیوں کے بوٹ ہوتے ہیں، میں تو یہاں (ایران) میں بیٹھ کر دیکھتا ہوں تو برداشت نہیں ہوتا تو ایک باایمان اور غیور عراقی کیسے اسے برداشت کر سکتا ہے؟ کسی کے اکساوے کی ضرورت ہی نہیں ہے، آپ تو خود ہی ملت عراق کو مشتعل کرنے والے پلید ترین عناصر ہیں۔ آپ کیوں اس قوم کے گھرمیں گھسے؟ کیوں جھوٹ بولا؟ آپ نے کہا کہ عام تباہی کے ہتھیار تلاش کر رہے ہیں، تو کہاں گئے وہ ہتھیار؟ کیوں تلاش نہیں کئے جا سکے؟ یہ باتیں یہاں تو ہو ہی رہی ہیں خود امریکہ اور یورپ میں بھی بڑی سیاسی اور غیر سیاسی شخصتیوں تو بھی کہا کہ آپ جھوٹ بولے۔ انہی بش صاحب اور ان کے حواریوں سے کہا گیا کہ آپ نے دروغگوئی سے کام لیا۔ آپ جھوٹ بول کر عراق میں گھسے۔ عام تباہی کے ہتھیار نابود کرنے کا آپ کا قطعی ارادہ نہیں تھا، آپ کا ارادہ عراق اور اس کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے اور قلب عالم اسلام کے قریب پہنچنے کا تھا۔ آپ کا ارادہ تھا کہ قلب عالم اسلام پر آپ کا قبضہ ہو جائے۔ یہی لوگ ہیں جو پورے عراق میں جرائم کرتے پھر رہے ہیں۔ ان کے لئے شیعہ اور سنی میں کوئي فرق نہیں ہے۔ وہ ہر اس عراقی کے دشمن ہے جو ان کے سامنے سربسجود نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ ہمارے سامنے سر جھکاؤ، خاموش رہو اور اپنی آنکھیں بند کر لو تاکہ ہم جیسا چاہیں تمہارے ساتھ سلوک کریں۔ اگر ایسا نہیں کیا تو تم دہشت گرد قرار پاؤگے۔ عراق میں قابضوں اور امریکہ کی یہ روش ہے۔ وہ بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ وہ اس خام خیالی میں ہیں کہ دنیا کے لوگ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ اس خام خیالی میں ہیں کہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ جمہوریت کی بات کرتے ہیں: تو آپ عراق میں جمہوریت قائم کرنے آئے ہیں! جس جمہوریت میں عوام مد نظر نہ ہوں وہ جمہوریت نہیں جمہوریت کا قتل عام ہے۔ چلے تھے جمہوریت اور انسانی حقوق بحال کرنے! اسے انسانی حقوق کہتے ہیں؟! مغربی تہذیب و تمدن کا چہرہ انہوں نے اور بھی سیاہ کر دیا ہے۔ یہ بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں اور ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے۔
آج امریکی حکومت عراقی عوام کے ساتھ وہی سب کچھ کرنا چاہتی ہے جو شیرون نے فلسطینیوں کےساتھ کیا۔ یعنی ہر مزاحتمی لفظ کا جواب گولیوں سے دیا جائے۔ اس طرح ان کو بھی اتنی ہی کامیابی ملے گی جنتی صیہونیوں کو ملی ہے۔ وہ ساٹھ سال سے فلسطین پر قبضہ کئے ہوئے ہیں کچھ برس ایسے گزرے جن میں فلسطینیوں کی جانب سے کوئی تحریک اور اقدام سامنے نہیں آیا لیکن آج صیہونیوں پر عرصہ حیات تنگ ہو چکا ہے۔ ان میں ایک مفلوج اور سن رسیدہ پیشوا کا وجود برداشت کرنے کی بھی سکت نہیں رہی جو وہیل چیئر پر چلتا تھا۔ شیخ احمد یسین جیسے شخص کا وجود بھی وہ برداشت نہیں کر پائے۔ عراق میں امریکی بھی اسی پالیسی پر چل رہے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ اس پالیسی سے کوئي نتیجہ حاصل ہو جائے گا۔ اخبارات پر پابندیاں عائد کر دیتے ہیں۔ میڈیا پر پابندی سے عوام کے قتل عام تک ہر اقدام کرتے ہیں۔
تمام انسانی اصولوں اور ضوابط کی رو سے امریکیوں کی حرکتیں مذموم اور نفرت انگیز ہیں اور دنیا کے تجربات کی رو سے ان کے اقدامات کا شکست کے علاوہ کوئی اور انجام نہیں ہو سکتا۔ امریکیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ جلد یا کچھ دیر میں انہیں عراق سے شرمندگی کے ساتھ نکلنا پڑےگا۔ ہمارے عراقی بھائی اس مدت کو کوتاہ کر سکتے ہیں۔ اس بڑے خطرے سے جلد نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ کیسے؟ اپنے اتحاد، اسلام سے تمسک، جذبہ اسلامی و ایمانی کی تقویت کے ذریعے اور عقل و حکمت سے کام لے کر۔ وہ اپنے علما کی قدر کریں، مذہبی قیادت کے مقام و منزلت کا ادراک کریں۔ عوام کو ایک پلیٹ فارم پر لانے والے ان محوروں کی قدر کریں، اپنے ایمان کی قدر پہچانیں اور دشمن کی تفرقہ انگیز سازشوں میں نہ پڑیں۔ آج عراق میں امریکہ اور برطانیہ اور ان کے حامیوں کی سازش تفرقہ ڈالنا ہے۔ آپ اس جال میں نہ پھنسئے۔ انشاء اللہ ہم وہ دن بھی دیکھیں گے کہ آزاد و خود مختار عراق عراقی عوام کے ارادے کے مطابق پرچم اسلام کے سائے میں دنیا کے سامنے ابھرے گا۔
پروردگارا! مسلمانوں کو دنیا کے ہر گوشے میں سرفراز و سربلند کر۔ پروردگارا! حضرت امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کی پاکیزہ دعائیں ہمارے اور تمام مسلم اقوام کے شامل حال کر دے۔ دنیا کے ہر گوشے میں مسلمانوں کے قلوب کو ایک دوسرے کے نزدیک اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام کر۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ